جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزشہید محراب خان کا جرات مندانہ کردار: تحریر: مہراب مہر

شہید محراب خان کا جرات مندانہ کردار: تحریر: مہراب مہر

2 اگست 1984 کو وادی قلات آغا نادر جان کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا باپ نے بیٹے کے نام کے حوالے سے کافی غور کیا دوستوں سے مشہورہ کیا عزیز و اقارب آغا نادر جان کے پہلے بیٹے کی پیدائش میں گھر میں جمع تھے ہر ایک نے ایک نام تجویز کی لیکن باپ نے بیٹے کا نام محراب رکھا محراب وہ عظیم ہستی ہے جس نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کی اور میری قلات میں اپنے کچھ ہی سپاہیوں دوستوں و عزیزوں کے ساتھ میدان جنگ میں شہادت نوش کرلی محراب خان کے شجرہ نصب سے تعلق رکھنے والے محراب کی ماں نے اپنے بیٹے کو جو نام دیا وہ ایک تاریخی و بہادر ہستی کی پشت پر تھا خان قلات میر محراب خان نے وطن پر قبضہ گیری کے خلاف اپنے فوج سے کئی گناہ زیادہ فوج کے آمنے سامنے ہوئے بچے کی پیدائش کو  آغا نادر جان و اسکی اہلیہ اپنے بیٹے کو خان محراب کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے وہ اپنے بیٹے کا نام اپنے شجرہ نصب کے عظیم شخصیت خان محراب خان کا نام رکھ چکے تھے کہ وہ محراب خان جیسے کردار کا مالک ہو اپنے وطن حق و سچائی کے راستے پر قربان ہو . وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا محراب خان پھلتا پھولتا رہا پانچ سال کی عمر تک پہنچا خاموش طبع سنجیدہ چہرے کے ساتھ اسکول میں قدم رکھ چکا وہ بچپن سے اپنی دادی ماں اپنے پر ڈاڈا و ان جیسے سورماؤں کے قصے سنتا رہا وہ لڑکپن سے ہی قلات میری کی دیواروں کے اندر ان کرداروں کی بابت سنتا رہا کہ انھوں نے کیسے کارنامے سر انجام دیے انھی ماحول میں وہ تاریخ کے کربناک لمحات سے واقف ہوتا رہا خان محراب خان سے لیکر خان عبدالکریم و احمدیار خان و داود خان تک. وہ ان کے منفی و مثبت اعمال کے بارے اپنے عزیزوں و بزرگوں سے سنتا رہا اسکی تربیت انھی ماحول میں ہوتی رہی وہ بھی بچپن سے اپنے نام جیسے کردار کے مالک بنے کے خواب دیکھتا رہا وہ خان محراب بنا یا نہیں، لیکن اس نے وقت کے ساتھ جو سفر طے کیا اسے خلوص ایمانداری و سنجیدگی کے ساتھ طے کرتا رہا وہ اسکول میں قدم رکھ چکا تھا ایک طرف وہ اپنے وطن کی آزادی و بعد از غلامی کے قصے اسکول سے لیکر گھر کی تک دہلیز پر سنتا رہا بچپن سے ہی اسے اپنے وطن کی آزادی کا خواب اسکی آنکھوں میں چمکتا رہا کیونکہ بچپن سے ہی گھر میں  اپنے وطن کی قبضہ گیریت کے داستانیں سنتا رہا وہ لڑکپن میں آزادی و غلامی کے بارے سنتا رہا آزادی و غلامی کا فرق اسکی لاشعور میں جگہ بنانے رہے وہ پرائیویٹ سکول میں پڑھتا رہا وہ قلات ماڈل ہائی سکول سے میڑیکولیشن کرنے کے بعد کوئٹہ چلے گئے اور وہاں اپنی تعلیم جاری رکھی وہ 2005 کو بی آئی ٹی کالج کوئٹہ میں ایڈمیشن لے لیا اور وہاں اپنی تعلیم جاری رکھی دو سال تک وہ بی آئی ٹی کالج میں بی آئی ٹی کی ڈگری لے لی اسکے بعد وہ بیوٹمز یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا اور بیوٹمزم یونیورسٹی سے بی بی اے کر لیا اور ایم بی اے میں ایڈمیشن لے لیا آخری سمسڑ میں شہید زبیر سرپرہ و شہید خلیل کو کوئٹہ سے ریاستی فورسز نے اغواء کر لیا انکی گرفتاری کے بعد شہید محراب نے تعلیم چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیا شہید محراب 2007 کو بی ایل اے سے منسلک ہوگئے تھے وہ محراب سے علی بن گئے تھے وہ تنظیم میں علی کے کوڈ نام سے جانے جاتے تھے وہ کوئٹہ و قلات میں اپنے گروپ کے ساتھ اپنے قومی خدمات سر انجام دے رہے تھے شہید محراب عرف علی و شہید زبیر ایک ساتھ کوئٹہ میں کام کر رہے تھے وطن کا یہ جانباز اپنی زندگی وطن کے نام کر چکا تھا اپنے دوستوں کی گرفتاری کے بعد وہ قلات میں اپنے گروپ کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہوتا رہا اپنے دوستوں کی گرفتاری کے بعد وہ قلات نیٹ ورک میں اپنے تنظیمی فرائض سر انجام دیتا رہا 2011 کو وہ آغا شیردل کے ساتھ قلات کے پہاڑوں کی زینت بنا اور مخلصی ایمانداری دیدہ دلیری کے ساتھ وطن کی آزادی کے لیے اپنی جد وجہد کرتا رہا وطن کی آزادی کے لیے اسکی تربیت گھر سے ہی ہوچکی تھی وہ وطن کی تاریخ وہ وطن کے سورماؤں کے قصے گھر سے سنتے آرہے تھے وہ اپنے پر ڈاڈا کے کرداروں سے بخوبی واقف تھے وہ وطن کی حفاظت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے تھے وہ بلوچ لبریشن آرمی میں اپنے قومی فرائض کی مخلصی کے ساتھ انجام دے رہے تھے قبائلی معاشی معاشرتی حوالے سے مضبوط خاندان سے تعلق رکھنے کے بعد بھی وہ وطن کی آبرو کے لیے بندوق اٹھا چکے تھے اسکے خاندان کے کئی افراد  بھی ریاستی کاسہ لیس تھے اور اب بھی ہیں لیکن وہ علیحدہ فکر و سوچ کے مالک تھے وہ جانتے تھے کہ انکی قبائلی حیثیت سے زیادہ اسکی پہچان قومی حوالے سے ہے اس وجہ سے وہ قومی فکر و سوچ سے جڑ چکے تھے اور وطن کی قبضہ گیریت کے خلاف میدان میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے جب شہید محراب سے پہلی ملاقات قلات کے پہاڑوں میں ہوئی سنجیدہ طبعیت پرخلوص و جانثار ساتھی کے روپ میں اس سے سامنا ہوا باتیں ہوئی وہ ہر بات پر غور کر رہا تھا ہر بات کو باریکی سے ناپ تول رہا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ وطن کے لیے مرمٹنے والا سپاہی ہے اور وہ اسی ڈگر پر روان تھا وہ شہر میں گوریلا کاروائیوں کے بعد پہاڑوں کی پر کھٹن حالات کا سامنا خندہ پیشانی سے کرتے رہے وہ آغا شیردل کے ساتھ کیمپ میں زندگی کے پُرکھٹن حالات کا سامنا کر رہا تھا تعلیمی زندگی سمیت ہر وہ چیز جس سے اسے لگاؤ تھا وہ وطن پر قربان ہو چکا تھا جو بچا تھا وہ قیمتی جان تھی جس کے گرد بھی ہر وقت دشمن کے آسیب گردش کر رہے تھے وہ پہاڑ میں اپنی زندگی بھی بلوچستان کے سپاہی کی حیثیت سے بتا رہا تھا نہ نام و نمود کی خواہش نہ ہی قبائلی حیثیت پر فخر بلکہ وہ بلوچ و بلوچستان کا بیٹا ہونے پر فخر کر رہا تھا وہ اپنی زندگی دیگر سرمچاروں کی طرح سادگی سے گزار رہا تھا وہ اسکے گروپ کے دیگر دوست آزادی کے راستے میں شہید ہو گئے تھے وہ بھی اسی ڈگر پر رواں تھا شہید محراب تنظیمی کاموں کے ساتھ قلات ناگاہی و پارود کے پہاڑوں کی خاک چاہتا رہا دن رات کی پروا کیے بغیر سخت سردی پارود پہنچ جاتا وہ اپنے کام نپٹھا کر شہر میں دشمن پر حملے کرنے کی تیاری کرتا وہ قلات کوئٹہ میں تنظیمی کاموں میں سرگرم رہا وہ تنظیمی کام کے حوالے سے اپنے ایک دوست شہید شمس لہڑی کے ساتھ کوئٹہ گئے تھے جہاں وہ سریاب روڈ پر اپنے دادا آغا یوسف کے گھر میں تھے تاکہ وہاں سے اپنے کام کو سر انجام دے سکے کافی عرصے کے بعد وہ پہاڑ کے سادہ خوراک کے بدلے اپنے پسندیدہ کھانے و آرام دہ زندگی کے لطف لے رہا تھا اور تنظیمی کام کے بارے اپنے دوست سے مشورہ کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس نے یہ آرام دہ زندگی وطن کے لیے قربان کر چکا ہے اسے یہ زندگی نہیں بھاتا تھا لیکن کام کی مجبوری نے اسے کوئٹہ کھینچ کر لایا تھا وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ اسی شہر میں شہید زبیر شہید عصمت و اسکے گروپ کے دیگر دوست اغواء ہوئے اور پھر انکی مسخ شدہ لاشیں ملی وہ دشمن کو موثر جواب دینے کی سوچ کے ساتھ اگلے روشن صبح 31 مئی 2014 کے انتظار میں نرم گدیلے و تکیہ پر سر رکھ کر سو گئے وہ نیند وہ ماحول جس میں بچپن سے پلا بڑا تھا اب اسے کافی عرصے کے بعد میسر ہوا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ آزادی کا پرکھٹن راستہ جس میں اس نے سات سال گزار چکے تھے وہ جانتا تھا کہ آزادی کے لیے اسی کئی کھٹن حالات سے گزرنا ہے ابھی تو اس نے ابتدا کی ہے وہ پہلو بدلتا رہا وہ وطن کی خوشبو اپنے سینے میں لیے نیند کی گہرائی میں چلا گیا ریاستی فورسز علی الصبح گھر کو گھیرے میں لے کر حملہ کرنے لگے شہید محراب خان اپنے دوست شہید شمس لہڑی و دیگر کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا کہ فورسز نے انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی شہید محراب نے سمجھ لیا کہ اب موت ہی اسکی زندگی ہوگی وہ دیدہ دلیری کے ساتھ دشمن سے لڑے اس نے ریاستی فورسز کو روکے رکھا اسکے دونوں دوست نکلنے میں کامیاب ہوئے اور دشمن کی ایک گولی شہید محراب کے گلے میں لگی اور وہ وہی گلزمین کا حق ادا کرتے ہوئے امر ہوگیا شہید محراب خان نے اپنے پر دادا خان محراب کی یاد تازہ کردی جو نام اسے بچپن میں دیا گیا تھا وہ اسی نام جیسا کردار ادا کرتے ہوئے دشمن سے لڑے اس کے لیے موقع تھا کہ وہ گرفتاری دیتے لیکن انھوں نے غلامی کی زندگی سے آزاد موت کی زندگی کو ترجیح دی اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے وہ تاریخ میں شہید خان محراب خان کی طرح یاد رکھے جائیں گے ایسے کردار ہی قوموں کو زندگی جلا بخشتے جو وطن پر مر مٹتے ہیں شہید محراب عرف علی ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں اپنے دلیرانہ کردار کے ساتھ زندہ رہیں گے
یہ بھی پڑھیں

فیچرز