پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeآرٹیکلزشہید وحید جان محترم: تحریر : دلجان بلوچ

شہید وحید جان محترم: تحریر : دلجان بلوچ

زندگی چند لمحوں کی ہوتی ہے اور ان چند لمحوں کو بہتر ڈھنگ سے گزار نے کا فن کچھ لوگوں کو آتا ہے. دنیا میں عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں جو زندگی کو عظیم مقاصد کے تابع کرکے آخری مشکل حالت میں بھی مسکرا کے وطن پر جان نچھاور کرتے ہیں. بلوچستان کے ہر شہر اور ہر کسی گاؤں میں ایسے سپوتوں نے جنم لیے اور وطن پر قربان ہوئے. جنہوں نے اس چند لمحوں کو غنیمت جانا اور میدان کارزار میں اترے، دل بھر کے جیئے زندگی بھر کے لیے جاوداں ہوئے.

آج میں جس عظیم سنگت کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ بھی اسی سرزمین کا فرزند رہا اور مستونگ کے تنگ و تاریک گلیوں میں جنم لیا جہاں اس سے پہلے بھی انہی سر زمین کے کئی سپوتوں نے جنم لیا تھا جو وطن پر باری باری قربان ہوتے رہے. ہمارا سنگت وحید نے بھی ان قربانیوں میں اپنا حصہ ڈال کر مستونگ کے شہیدوں کے باب میں اضافہ کردیا. سنگت محترم سے دوھزار گیارہ میں بولان کیمپ میں پہلی ملاقات ہوئی جب وہ شھید رشید کے ساتھ آیا تھا ہم دونوں مختلف محازوں پر شھید خلیل کی شاگردی میں رہے تھے اس لیے جلد ہی گھل مل گئے چند مہینے ساتھ گزارنے کے بعد شھید وحید جان پھر سے نئی حکمت عملی کے ساتھ شہر میں تنظیم کے کاموں میں مصروف رہا اور دشمن پر وار کرتا رہا زندگی چلتی رہی، دوست دشمن کے ساتھ مختلف محازوں پر لڑتے رہے قربان ہوتے رہے. ہم اور وحید جان اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے. یہ اگست کا مہینہ ہے جب وحید جان سنگت گوھرام کے ساتھ شور کے کیمپ آئے اور کچھ دن رہنے کے بعد پھر بولان روانہ ہوئے. ہر ایک اپنے محاذ پر مصروف رہا. دن گزرتے گئے سالوں میں بدلتے گئے. کئی دوست شھید ہوئے اور کئی دوست دشمن کے چالوں میں آکر سرنڈر کرتے رہے. دو ہزار سترہ کو جب میں کسی کام کے سلسلے میں مستونگ پہنچا تو کچھ دن بعد شھید محترم اپنی چھٹیاں گزار کر ہمارے پاس پہنچے. تاکہ آگے اپنے کیمپ بولان جائے.

ان چند سالوں میں ہم اکثر دوستوں کی مزاج بدل چکا تھا شاید حالات کی وجہ سے رویوں میں سختی آئی تھی. ہنسی مذاق کی جگہ صرف ہلکی سی مسکراہٹ سے کام چلا لیتے تھے. لیکن سنگت محترم وہی دو ہزار گیارہ کا ہنس مکھ بندہ تھا، وہی باتیں وہی ہنسی مذاق. مجلس کی جان تھی. نئے آنے والے لوگوں کو ایسا لگتا کہ محترم پر کوئی غم ہی نہیں. غم تو محترم کے دل میں بہت سے تھے. خلیل کی شھادت رشید جان کی جدائی اور کئی قریبی دوستوں کی بیگواہی کے غم کے ساتھ ساتھ بہت سے قریبی ساتھیوں کی بے وفائی کے دکھ بھی دل میں سہتا رہا. لیکن وہ ہماری طرح کمزور نہ تھا کہ اس کے چہرے پر یہ سب درد و الم دوسروں کو اس کے اندرونی کیفیت کے تاثر دیتے. اسے غم چھپانے اور مسکرا کر زندگی گزارنے کا فن اچھی طرح آتا تھا. اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے سے پتہ چلتا کہ اتنے مشکل حالات کے بعد محترم میں کتنی پختگی آئی ہے. شہر سے لیکر شور بولان سے لیکر کوھستان کے پہاڑوں تک میرے محترم کے قدموں کے نشانات اب بھی موجود ہیں. وہ اب پہلے سے زیادہ بہت کچھ جانتا تھا اس کے پاس اب ایک وسیع تجربہ تھا. جو مختلف کیمپوں میں رہنے اور مختلف دوستوں ساتھ ملنے سے اسے حاصل ہوا تھا. شھید خلیل نے اسے انگلی پکڑ کے چلانا سکھایا تھا تو سنگت گوھرام کی محنت سے اب وہ ایک پختہ درخت بن گیا تھا. کئی سال بعد ملنے پر میں چاہتا کے وہ آگے نہ جائے بلکہ یہیں ہمارے پاس رہے. لیکن اس کی زمہ داریاں اب پہلے سے زیادہ تھیں. اس لیے اسے بولان کیمپ جانا تھا. آماچ کے خوبصورت پہاڑوں وادیوں سے ہوتے ہوئے جب ہم بولان کے بل کھاتے ہوئے دل لبھانے والے ندیوں میں پہنچے. یہ وہی خوش قسمت جگہ ہے جہاں وطن کے فرزندوں شھید مجید شھید سگار اور شھید حمید شاھین نے انہی چشموں سے اپنے پیاس بجھایا تھا اور جن کو ہم جیسوں کی آنکھیں دیکھنے کے لیے پیاسے تھےاور پیاسے ہی رہے. کچھ دن یہاں پر رہے اور چشموں کی چر چراتی پانی سے کھیلتے اور پیاس بجھاتے رہے. اس کے بعد وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا اور ہم واپس ہوئے. جاتے جاتے اپنی ریڈو مجھے تھما دی اور کہا یہ لو سنگت جب اگلی دفع واپس ملینگے تو پھر لے لونگا. میں نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر ملنے کا کہہ کر مڑا. لیکن کیا پتہ تھا کہ بہت سے شھید دوستوں کی آخری ملاقات کی طرح یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی. شھید سنگت امتیاز بھی جب بولان کی طرف محو سفر ہوا تو پھر ملنے کا کہا. مگر بولان کے سرمئی پہاڑوں میں دفن ہوا. شھید جاوید نے قلات سے خداحافظ کہتے ہوئے پھر ملنے کا کہا لیکن واپسی سے پہلے شور کے دامن میں آسودہ خاک ہوا، شھید حیو نے مسکرا کر پھر آنے کا کہا لیکن سوراب کی کوکھ میں ہمیشہ کے لیے سو گیا. شھید شیرا ساتھ لینے آیا تھا لیکن پھر ہمیشہ کے لیے اکیلا دور چلا گیا، شھید مختار جان سالوں کے بعد ملنے آ رہا تھا خاران کے ریگستان میں دشمن کے ساتھ مڈ بھیڑ میں ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا، شھید وحید جان نے بھی ماما مہندو، شھید نصیب جان اور دلوش جان کی طرح بولان کے دامن کو اپنے خون سے رنگ دیا اور دشمن سے آخری دم آخری گولی تک لڑتا رہا اور قربان ہوکر بولان کو ایک مرتبہ پھر دشمن کے سامنے سر خرو کردیا مستونگ کے نر مزاروں کے صفوں میں شامل ہوگیا.

ہم انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں. جو وطن کا سچا عاشق بن کر وطن کے بھاتیوں کے لیے آرام و سکون کا ساماں پیدا کرنے گھر سے چل پڑتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں نہ تھکتے ہیں نہ ہی گھبراتے ہیں. گھر انہیں بھی یاد آتا ہے، بچپن کے دوست اپنے علاقے کی یادیں انہیں بھی ستاتی ہیں لیکن پھر بھی وہ آزادی جیسی نعمت کو گلے لگانے اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھتے ہوئے ایک دن اپنے اپنے گھروں سے علاقے سے دور وطن کے کسی کونے میں آسودہ خاک ہو کر مادر وطن کیلئے اپنی محبت کا ثبوت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلیے امر ہو جاتے ہیں.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز