جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزضیاء۔۔۔۔۔الوداع؛: تحریر عالیان یوسف

ضیاء۔۔۔۔۔الوداع؛: تحریر عالیان یوسف

چند ایسی کتابیں نظر سے گزری ہیں جن کو پڑھ کر بندہ چند لمحوں کے لیے زماں و مکاں سے غافل ہوجاتا ہے واپس اپنی جگہ پر پہنچنے میں دیر لگتی ہے اور پہنچنے کے بعد ڈبڈباتی آنکھیں اور گلے سے اترتی نمکین پانی احساس دلاتی ہے کہ لکھاری نے کمال ہنر سے اپنی لکھی کہانی کے تمام کرداروں کو میرے احساسات کا رشتہ دار بنایا ہے. اپنی کہانی کے ہر کردار میں میرے درد کو جو میری کمزور جان میں بکھری ہوئی شکل میں موجود ہے سمیٹ کر ایک مسلسل درد کا گولہ بنا دیا ہے  اس بات سے لکھاری کو کوئی غرض نہیں کہ ہمارا ایک ایسے سماج سے تعلق ہے جہاں تنہائی میں بھی آنسوؤں کو پینا پڑتا ہے اور اگر آنکھیں بھر آئیں اور کتاب کے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں تو فورا آنکھیں صاف کر کے کناروں سے آنسو پونچھ کر کہانی کار کی درد بھری تخلیق کی لزت سے نہ چاہتے ہوئے بھی نکل آنا پڑتا ہے کہیں کوئی دیکھ نہ لے حالانکہ جی چاہتا ہے کہ اس کیفیت کے لطف میں تھوڑی دیر اور ڈوب کر رہا جائے. اور کہانی کار جو میرے دیس اور میرے وطن کے حالات سے غافل اپنے تخیلاتی وسعتوں، سوچ  اور قلم کی روانی پر نازاں ہے کو داد دیا جائے. حالیہ دور میں کتابوں کے بجائے سوچوں پر غلطاں کرنے اور آنسوؤں میں ڈبونے کی ذمہ داری سوشل میڈیا نے لے لی ہے. بلوچ، بلوچستان، اور بلوچ تحریک آزادی سے جُڑے تمام لوگوں کے لیے تو سوشل میڈیا کی وسعت ایک دو درد بھرے عنوانات سے آگے گزر ہی نہیں پاتی. یہ عنوانات یا تصاویر ایک گمشدہ نوجوان کی تصویر سے شروع ہو کر خون میں لت پت ایک جہدکار کی شہادت کی مسکراتی تصویر پر ختم ہوجاتی ہیں،. موضوعاتی وسعتیں، تخلیقی صلاحیتیں سوچ کی پرتیں اک دم رُک سی جاتی ہیں۔
آج ہی کی ایک تصویر ہے آنکھوں کے سامنے، جس میں کل زہری کے علاقے تراسانی میں ریاستی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں جام شہادت نوش کرنے والے جہدکار کمانڈر ضیاء الرحمن عرف دلجان کی والدہ شہید کی پیشانی کو فخریہ اور بلند حوصلے سے الوداعی بوسہ دے رہی ہیں. بلوچستان پر ندر ہونے والے اپنے فرزند کے ماتھے پر مہربان ہاتھ رکھ کر دوسروں کو حوصلہ دے رہی ہیں ، اپنے شہید بیٹے کی اس قول کا پاس بھی رکھ رہی ہیں کہ
“ماں جب بھی یہ سنو کہ میں شہید ہو گیا ہوں تو رونا نہیں آنسو نہیں بہانا”
دلجان نے یہ بات شاید اس لیے کہی ہوگی کہ اسے یقین نہیں تھا کہ وہ شہادت کا اعزاز پانے کے بعد وطن کے آغوش میں آسودہ خاک ہونے سے پہلے ماں کے مقدس اور مہربان بوسے کو اپنی چمکتی پیشانی پر لینے کا اعزاز بھی حاصل کریں گے.دلجان نے ایک طرف شہادت کا میڈل سینے پر سجا لیا تو دوسری طرف کوہء ملغوے کے دامن میں اپنے آبائی علاقہ تراسانی کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے وطن کے محافظین شہداء کے ان ارمانوں کی لاج بھی رکھ لی کہ بلوچ تحریک آزادی کی خمیر جس مٹی سے اُٹھی ہے وہ سرزمین بانجھ نہیں ہے اس مٹی سے ایسے دلیر سرمچار اور پختہ فکر جہدکار اس وقت تک جنم لیتے رہیں گے جب تک کہ غلامی کے یہ اندھیرے ضیاء کے سامنے شرمندہ نہ ہوں، ضیاء خود ایک روشنی ہے اس لیے ضیاء کے سینے سے بہنے والے ہر ایک خون کے قطرے سے ایک نئی روشنی نمودار ہوگی، اس روشنی سے شعور بھی پھوٹے گی،اور سوچ کی وسعتوں کی بھی فراوانی ہوگی اس روشنی سے صدیوں سے سوگوار کالے رنگ کے گدانوں کا رنگ بدلے گا. گدانوں کے باسی جو مہروان راہوں کے مسافر ہیں اور جو ہمیشہ اپنے مثبت روایات کا نگہبان رہے ہیں
جن کے سینے کی کشادگی درہ مولہ کی طرح فراخ ہے اور سربلندی پیمازی اور ملغوے کے چوٹیوں کی طرح بلند . وہ ضیاء کے آخری قہقہے کیطرح ظلمتوں کی کم عمری پر قہقہے لگائیں گے. اندھیروں کو مات دینے کا ہنر صدیوں سے ان کی سرشت میں شامل ہے. یہ روشنی عاجزانہ اور انکساریت کی روشنی ہوگی اس کے سامنے اندھیروں کے پالنہار تکبر زادے بونوں کیطرح نظر آہیں گے ان تکبرزادوں کی ساری نخوت خاک میں مل جائے گی. اور وہ مقدس خاک بھی انھیں قبول نہ کر پاہے گی کیونکہ یہی مقدس خاک اس روشنی کی ماں ہے اور وہ روشنی کے کشادہ پیشانی کو اس لیے فخر سے بوسہ دے رہی ہے کہ اس کا ایمان ہے کہ روشنی کبھی مرتے نہیں وہ صرف مدھم پڑ جاتے ہیں دوبارہ سے تاریکیوں کا سینہ چیر کر اپنے کرنوں سے اپنے وجود کا احساس دلاہیں گے اور وطن کے کونے کونے میں اپنے سوچ کی فکر اور آزادی کی اُجالا پھیلائیں گے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز