جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزعدم کا مارا :تحریر۔ نود بندگ بلوچ

عدم کا مارا :تحریر۔ نود بندگ بلوچ

افسانہ

(1)
یہ تقریباً صبح پانچ بجے کا وقت تھا، ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا تھا ، شیہک پتھر اور گارے سے بنے ایک چھوٹے سے گھروندے میں سویا ہوا تھا ، یہ گھروندہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں بمشکل دو لوگ ہی سوسکتے تھے اسکی اونچائی اتنی تھی کہ بیٹھا تو جاسکتا تھا لیکن کھڑا ہونا ممکن نہ تھا ، اس سے نکلنے کیلئے گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے دروازے تک پہنچنا پڑتا،ایک تو جگہ کی تنگی اس پر محال آس پاس رکھا ہوا سامان اور ساتھ میں بندوق رات کو پہلو بدلنا تک آفت تھی، کل رات کو ہی سونے سے پہلے شیہک اپنے بندوق کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اسکو سنبھال کر رکھنا کتنا مشکل کام ہے، سنتا تو ہمیشہ یہ آیا تھا کہ بندوق انسان کی حفاظت کرتا ہے لیکن اب بندوق ہاتھ میں لیکر ایسے لگ رہا ہے جیسے بندوق ہماری نہیں ہم اسکی حفاظت کرتے ہیں، پورا دن اس بندوق کو سینے سے لگا کر رکھنا پڑتا، ہر دوسرے دن اسے خود سے زیادہ صاف کرنا پڑتا ہے اور پھر رات کو اپنے اس تنگ سی جگہ میں خود سے بہتر جگہ پر اس بندوق کو لٹانا پڑتا، شاید ہم روز جو احسانات اس بندوق پر کرتے ہیں تبھی ایک دن یہ ہماری حفاظت کرے احسانوں کا بدلہ چکاتا ہے،کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بندوق بھی انسانوں کی طرح ہوتا ہے ، برے صحبت میں رہیگا تو اپنے منہ سے برائی اگلے گی ، اچھی صحبت یا بڑے سوچ کے ساتھ رہے گا تو پھراسکے منہ سے اگلتی آگ اچھائی لائے گی۔ شیہک بالکل نیند سے جاگنا نہیں چاہتا تھا ابھی تک تو سورج تک نہیں نکلا ہے لیکن باہر سے آتی شور شرابے نے اسکو نیند میں تھوڑی بے چینی پیدا کردی لیکن پھر خود بخود ہی اسکی آنکھ لگ گئی۔ خوابیدگی کے عالم میں اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے یا یہ حقیقت ہے کیونکہ ایک شخص چیخ چیخ کر سب کو اٹھنے کا کہہ رہا تھا ، وہ آواز اس سے قریب تر ہوتا جارہا تھا کوئی کہہ رہا تھا شیہک اٹھو ! شیہک اٹھو غنودگی کے عالم میں اسکا ذہن قبول نہیں کرپارہا تھا کہ کوئی اس سے مخاطب ہے کیونکہ یہ شیہک نام اس نے ایک ہفتے پہلے ہی اختیار کیا تھا اب تک اسے اس نام کی عادت بھی نہیں ہوئی تھی ، لیکن جب اسکے ساتھ سوئے ہوئے اسکے ایک ساتھی نے زور سے اسکو جھنجھوڑا تو وہ چونک کر اٹھ گیا اور اٹھ کر آنکھیں ملتے ہوئے بیٹھ گیا ، \” شیہک ہمت کرو اٹھو ہیلی آئیں ہیں \” اب وہ فوراً صورتحال سمجھ گیا انکے کیمپ پر آپریشن ہورہا ہے ، وہ گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی اپنا بندوق ڈھونڈنے لگا بندوق کو اٹھاتے ہی وہ گھٹنوں کے بل دروازے تک پہنچا اور اپنے جوتے پہننے لگا ، اسکا دوست اتنے میں اپنے بلوچی \”چَھوٹ\” پہن کر نکل چکا تھا ، وہ دل ہی دل میں اپنے جوتوں کو کوسنے لگا جنہیں پہلے تو ٹھونس کر اپنے پیروں میں ڈالنا پڑتا ہے پھر تسمے کھینچ کھینچ کر بند کرنا پڑتا ہے، کتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے، یہاں آنے سے پہلے کتنا سوچ سمجھ کر اس نے سروس کی دکان سے یہ جوتے خریدے تھے ، دکاندار کو خاص طور پر اس نے کہا تھا کہ مجھے ایسے مضبوط جوتے دو جو پکنک کے دوران پانی اور پتھروں میں چل سکیں ، پورے تین ہزار ان جوتوں کیلئے بھرے لیکن پہلے دن ہی اسے احساس ہوگیا تھا کہ یہ جوتے اس جگہ کیلئے نہیں ہیں۔ کاش کہ اس نے آٹھ سو روپے والے بلوچی چھوٹ ہی لے لیئے ہوتے ، ایک ہفتے میں ہی یہ جوتے ایک جگہ سے پھٹ چکے تھے اور پہاڑوں پر چھڑنے اور اترنے کے دوران اسکی انگلیاں اس بے دردی سے جوتوں سے رگڑتے کہ اب ان میں چھالے پڑ چکے تھے ، کل ہی وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آئیندہ میری توبہ کہ میں کبھی یہاں نئے جوتے پہن کر آؤں ایک تو وہ پہلے سے ہی تنگ ہوتے ہیں کھلنے میں وقت لیتے ہیں اچھے خاصے سپاٹ سڑک پر ہی پیروں کا ستیاناس کردیتے ہیں لیکن یہاں ان پتھریلی راستوں پر تو یہ عذاب بن جاتے ہیں، لیکن اچھا ہوا کہ رات کو سردی کی وجہ سے اس نے اپنے موزے نہیں اتارے تھے اس وجہ سے اسکے چند سیکنڈ بچ گئے تھے، اس جلدی بازی میں یہ چند سیکنڈ بھی اسے نعمت سے کم نہیں لگے۔
جوتے پہنتے ہی وہ باہر نکلا تو اسے دور سے ایک بھاری آواز سنائی دینے لگی وہ سمجھ گیا یہی ہیلی ہیں اور انکے طرف بڑھ رہے ہیں ، وہ نیا نیا آیا تھا اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اب کرنا کیا ہے ہیلی پر فائرنگ کرنی ہے اسے مارنا ہے یا خود کو بچانا ہے، وہ اسی تذبذب کے عالم میں تھا کہ اچانک اسے اپنا کمانڈر گہرام نظر آگیا ، شیہک تیزی سے اسکی جانب بڑھا کیونکہ اس کے قریب رہ کر وہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا تھا کہ اسے کرنا کیا ہے ، وہ ڈرا ہوا نہیں تھا لیکن پھر بھی اسکی دل کی دھڑکنیں اسکے سینے میں ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے اور پیر ٹھنڈے ہوئے جارہے تھے، اسے اپنے دل کی تیز دھڑکنوں پر بہت غصہ آرہا تھا ، وہ اس انجانے خوف میں گھِرا ہوا تھا کہ اس کی پھولتی سانسیں اور دھڑکنوں کی آواز کہیں باقیوں کو شیہک کی جانب متوجہ نہ کردیں جس کی وجہ سے اسے کہیں بزدل نا سمجھا جائے ، حالانکہ وہ بالکل بھی نہیں ڈر رہا تھا شاید کچھ نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ گھبرا گیا تھا لیکن پھر بھی اپنے زور سے دھڑکتے دل پر اسکا کوئی بس بھی نہیں چل رہا تھا ، کبھی کبھی تو ہمارا اپنا جسم ہی ہمارے قابو سے نکل کر ہمیں حیران کردیتا ہے۔ وہ جیسے ہی گہرام کے قریب پہنچا تو اسے باقی سب ساتھی بھی دِکھنے لگے ، اسے چند سیکنڈ پہلے تک ایسا لگ رہا تھا کہ چاروں طرف بھاگم بھاگ اور گھبراہٹ کی کیفیت ہوگی لیکن یہاں اسے سب کے چہرے پر اطمینان نظر آرہا تھا ، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ بھی غیر معمولی نہیں سب کو پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے ، سب پر سکون تھے لیکن پھرتی کے عالم میں اپنا ضروری اسلحہ اور سامان اٹھا رہے تھے ، کچھ دوست تو باقاعدہ گدھوں پر سامان لاد رہے تھے۔ اسے پانچ یا چھ دوستوں کا ایک جھتہ تھوڑے فاصلے پر کیمپ سے نکلتے ہوئے نظر آرہا تھا۔ ہمیشہ ہنسنے اور ہنسانے والا مزار تو بیچ بیچ میں کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کردیتا تو سب زور سے ہنسنے لگتے۔ اتنے میں اسے پیچھے کی طرف سے بھی دوستوں کا ایک جھنڈ کیمپ سے نکلتے ہوئے نظر آگیا۔ وہ خود پہلے تو گھبرایا ہوا تھا اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے لیکن اب باقی سب کے چہرے پر اطمینان اور اعتماد دیکھ کر پتہ نہیں کیوں خود بخود ہی اسکی دھڑکنیں رام ہوگئیں اور پیروں میں بھی جان آگئی، باقیوں کے خود اعتمادی اور اطمینان نے اسکے اندر بھی اعتماد اور اطمینان پیداکردیا، شیہک خاموشی سے کھڑا سب کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں گہرام کے آواز نے اسے چونکا دیا \”شیہک تم سامنے سے چاکر اور اسکے دوستوں کے پیچھے چلو وہ سامنے اس راستے سے نکل چکے ہیں، یہاں سے سیدھا چلو اور جیسے ہی پہاڑی ختم ہو تو پہلے بائیں چوٹ (موڑ) پر مڑ جانا وہ زیادہ دور نہیں گئے ہونگے تم تیز چلو تو پہنچ جاؤگے ، ہم یہ سامان اٹھا کر پیچھے آرہے ہیں ، ہاں یہ چادر لے لو اور جیسے ہی ہیلی کی آواز قریب سے سنائی دے تو کہیں چھپ جانا \” گہرام نے اپنے کندھے سے چادر اتار کر اسے تھماتے ہوئے کہا ، وہ گہرام کے ساتھ رکنا چاہ رہا تھا لیکن اس نے نہ ہاں کہاں اور نہ بس چادر تھام کر تیزی سے بتائے ہوئے رستے پر چل نکلا، لیکن وہ چلتے ہوئے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ جب جان پر بنی ہو تو پھر سامان کی کیا ضرورت پھر اسے یہ خیال آنے لگا کہ جب ہم پہاڑوں پر لڑنے کیلئے آتے ہیں تو پھر اب جان بچانے کیلئے بھاگ کیوں رہے ہیں؟
ایسا نہیں تھا کہ اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے ، وہ آج سے سات دن پہلے تربیت کے غرض سے بلوچستان کے وسط میں قائم اس کیمپ میں ایک دوست کے دوست کے توسط سے پہنچا تھا۔ صبح کے اوقات میں تربیت کرکے جب وہ کھانا کے بعد چائے کیلئے تین درختوں کے ساتھ باندھ کر بنائے گئے عارضی چبوترے کے نیچ بیٹھ جاتے تو خوش گپیاں شروع ہوجاتی ، کوئی تاش کی ڈبی نکال کر کھیلنے لگتا تو کوئی لڈو سے دل بہلاتا اور کوئی مزاحیہ قصے سنا کر سب کو ہنسا رہا ہوتا لیکن ہر بات گھوم پھر کر کسی نہ کسی آپریشن تک پہنچ ہی جاتا ، کوئی نہ کوئی کسی آپریشن کا قصہ شروع کردیتا اور اگر کوئی تجربہ کار دوست بھی بیٹھا ہوتا تو پھر بتانے لگ جاتے کہ ایسے صورت میں کرنا کیا چاہئے۔ ان تمام باتوں سے اسے اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ ہر تین چار ماہ میں ایک بار اچانک صبح سویرے دور سے بھاری آوازیں آتی ہیں پھر پانچ دس منٹ میں ہی بھاری آوازیں ہیلی کاپٹروں کی صورت میں کیمپ تک پہنچ جاتے ہیں ، یہاں آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ بے تحاشہ بمباری اور شیلنگ کرکے واپس نکل جاتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہاں آنے سے پہلے دور دور ہی یہ ہیلی کاپٹر اپنے کمانڈو اتاردیتے ہیں جو چاروں طرف سے علاقے کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ہیلی آکر بیچ میں بمباری کرتے ہیں ایسے صورت میں بھی وہ چند گھنٹے ہی رک کر شام ہونے سے پہلے واپس چلے جاتے ہیں ، سب ہنس کر کہتے تھے کہ بلوچستان کے ان پہاڑوں میں وہ چند گھنٹے سے زیادہ رک ہی نہیں سکتے اگر وہ زیادہ رک جائیں تو تھکن انہیں مار دیتا ہے یا پھر رات کی تاریکی میں سرمچار انہیں مار دیتے ہیں ، ان سارے باتوں سے شیہک کے ذہن میں آپریشن کا ایک معمولی سا خاکہ بن چکا تھا۔ چلتے چلتے شیہک اپنا کلائی گھما کر گھڑی دیکھنے لگا تو حیران رہ گیا اسکے نیند سے جاگنے اور یہاں تک پہنچنے میں صرف 6 منٹ ہی لگے تھے ، اسے تو ایسا لگ رہا تھا کہ چھ گھنٹے گذرے ہونگے ، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ انسان کبھی وقت کو سمجھ ہی نہیں پایا ہے ، ہم جسے وقت سمجھ کر گنتے رہتے ہیں وہ تو محض سورج کی روشنی اور اندھیرے کا پیمائش ہے،یہ گھڑیاں وقت کا پیمائش ہرگز نہیں ہوسکتے ورنہ یہ کیسے ممکن ہوتا کہ کبھی چند منٹ آپکو اتنے طویل لگیں اور کبھی گھنٹوں کے گذرنے کا پتہ تک نہ چلے۔
(2)
شیہک گھبراہٹ کے عالم میں مڑ کر تیزی سے واپس پیچھے کی طرف آرہا تھا، اسے احساس ہوگیا تھا کہ وہ رستہ بھٹک گیا ہے، اسے اچھی طرح یاد ہے گہرام نے کہاتھا کہ\”سیدھا چل کر بائیں جانب مڑجانا\” لیکن یہ تو شہر کا کوئی روڈ نہیں یہاں تو سب پہاڑ اور ندیاں ایک ہی جیسے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا ، اسے اتنا یاد ہے کہ وہ خشک برساتی ندی کے بیچوں بیچ چل رہا تھا اور بائیں جانب جب اسے ایک کشادہ رستہ ملا تو وہ اس جانب مڑ گیا تھا لیکن اسی رستے پر تھوڑا چلنے کے بعد اسکا سامنا ایک بند گھاٹی سے ہوگیا جس پر چھڑنا نہ ممکن سا تھا ، اسے فوراً احساس ہوگیا کہ شاید جہاں سے مڑنا تھا اندھیرے کی وجہ سے اس نے وہ رستہ نہیں دیکھا ہوگا اور وہ گذر چکا ہے، اسی لئے راستہ ڈھونڈنے وہ واپس مڑ گیا تھا اور مڑتے ہی اسے وہی بھاری آوازیں بہت قریب سے سنائی دینے لگے وہ جلدی سے ایک بڑے پتھر کے اوٹ میں سینے کے بل لیٹ گیا تھا اسے ہیلی تو دِکھائی نہیں دیئے لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اسکے اوپر ہی اڑ رہے ہوں اور تھوڑی ہی دیر میں فائرنگ اور دھماکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو چند منٹ کے وقفے کے بعد بند ہوگیا ، اور بھاری آواز بھی دور ہو تی گئی ، \”لگتا ہے کیمپ پر شیلنگ ہوئی پتہ نہیں گہرام اور باقی بچے ہوئے دوست وہاں سے نکلے بھی تھے کہ نہیں ابھی تک سورج پوری طرح نہیں نکلی ہے شاید اس نیم اندھیرے کی وجہ سے وہ بچ گئے ہوں یا پہلے سے ہی نکل چکے ہوں یا خدا نخواستہ \” ہزاروں خدشات اسکے ذہن میں دوڑنے لگے لیکن وہ جلدی سے اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑے بغیر دوبارہ رستہ ڈھونڈنے میں لگ گیا لیکن اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ، وہ یہاں نیا تھا اسے ابھی تک رستوں کا کچھ معلوم نہیں تھا ، ایک تو علاقے سے ناآشنائی اور اوپر سے شیلنگ اور بمباری کی آواز سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ نے تو اس کی حالت ایسی کردی کہ اسے ہر موڑ ، ہر پتھر اور ہر پہاڑ بالکل اجنبی لگنے لگے حتیٰ کے وہ جس رستے سے چل کر آیا تھا وہ بھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ انہیں پہلی بار دیکھ رہا ہے یہاں کے رستے بھی عجیب ہوتے ہیں آتے ہوئے انکے خدو خال کچھ اور ہوتے ہیں اور جاتے ہوئے بالکل کچھ اور ، وہ خشک ندی کے بالکل بیچوں بیچ تیزی سے چل رہا تھا اسے احساس ہوا کہ اگر ہیلی دوبارہ پلٹ کر پہنچے تو اسکے پاس چھپنے تک کا کوئی جگہ نہیں ہوگا ، اسلئے وہ اور تیزی سے چلنے لگا تقریباً دوڑنے لگا تھا ، اتنے میں ایک بار پھر اسے ہیلی کاپٹروں کی بھاری آواز تھوڑی دور سے سنائی دینے لگی ، شاید اب وہ تھوڑی دور کسی جگہ پر بمباری کررہے تھے ، وہ یہاں وہاں دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے پیچھے زور سے کسی کی آواز سنائی دی \”شیہک ! او شیہک! اس طرف آؤ \” اس نے موڑ کر پیچھے کی جانب دائیں طرف دیکھا تو ، گندمی رنگت، متوسط قد ، ہلکی سی نکلی توند اور چوڑے سینے کا مالک چاکر اپنا ہاتھ لہرا کر اسے بلا رہا تھا ، شیہک اسے دیکھ کر بہت خوش ہوگیا اور بھاگتے ہوئے اسکی طرف جانے لگا ، چاکر نے دوبارہ آواز لگائی \” جھک جھک کر آؤ \” یہ کہتے ہی چاکر قریب واقع ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ، ابھی تک سورج مکمل طور پر نہیں نکلا تھا اسلئے درخت کا کوئی سایہ تو نہیں بنا تھا لیکن اس سرمئی صبح میں چاکر جیسے ہی درخت کے نیچے بیٹھ گیا تو وہ بالکل غائب ہی ہوگیا، شیہک کے پہنچتے ہی چاکر نے اسے سرد مہری کے ساتھ اپنے پیچھے چلنے کی تاکید کی،شیہک تیزی سے اسکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ، وہ ایک خشک برساتی نالے کے تنگ سے رستے پر چڑھائی چڑھ رہے تھے، شیہک سوچ رہا تھا کہ یہ رستہ تو دائیں جانب ہے اور مجھے گہرام نے کہا تھا بائیں جانب مڑنا ، کیا یہ واقعی دائیں جانب ہے یا بائیں ، اف خدایا میں دائیں اور بائیں کا فرق ہی بھول گیا ہوں لیکن میرا کوئی قصور نہیں ، جب میں کیمپ سے نکلا تھا تو اس وقت مکمل اندھیرا تھا اور مجھے تو خاص طور پر کچھ دن پہلے تربیت کے دوران کہا گیا تھا کہ آپریشن کے صورت میں اندھیرے میں کبھی ٹارچ نہیں جلایا جائے اب اگر میں رستہ بھول گیا تو اس میں میرا کیا قصور ، یہ دائیں جانب ہے یا بائیں مسئلہ نہیں شکر ہے چاکر نے اسے دیکھ لیا ورنہ وہ پتہ نہیں کس طرف نکل جاتا ، لیکن اف یہ چھڑائی اسکی سانسیں پھول رہی تھیں اور اسکے سینے سے اب سی سی کی آوازیں نکلنے شروع ہوگئے تھے ، کتنی بار سوچا تھا کہ سگریٹ پینا چھوڑ دوں گا ، لیکن اللہ غارت کرے حمید کا جس نے کالج کے ہاسٹل میں اس سگریٹ کی عادت ڈال دی اب چھوٹتی ہی نہیں ، ایک تو اسے کبھی پہاڑوں میں چلنے کا تجربہ اور مشق حاصل نہیں اور اوپر سے اس سگریٹ کے دھوئیں نے رہتی کسر نکال دی ہے ، ایک تو یہ سروس کے نئے جوتے انگلیوں کو اتنی بری طرح سے رگڑ اور دبا رہے تھے کہ اب پنڈلیوں میں درد شروع ہوگیا تھا ، شیہک کو اپنے موزے گیلے گیلے لگنے لگے تھے پتہ نہیں یہ
پسینہ تھا یا اسکے پیروں کے چھالے پٹھنے سے خون رس رہا تھا بہرحال جو بھی تھا ، اب اسکا سینہ جواب دے چکا تھا اور جیسے جیسے چڑھائی کی ڈھلان بڑھتی جارہی تھی اسکے گھٹنے بھی جواب دے رہے تھے ، اسکا دل کررہا تھا کہ چاکر کو بول دے کہ ایک منٹ رک جائے اور اسے سانس لینے دے لیکن چاکر تو اس سے بالکل بے نیاز تیزی سے اگے بڑھ رہا تھا ، اسے تو احساس بھی نہیں ہورہا تھا کہ اب ان دونوں کے بیچ فاصلہ کتنا بڑھ گیا ہے ، شیہک کو چاکر پر غصہ بھی آرہا تھا لیکن کچھ بول بھی نہیں پارہا تھا ، وہ جب سے آیا تھا اس نے محسوس کیا کہ سب سے زیادہ سنجیدہ چاکر رہتا ہے وہ دوسروں کے باتوں پر ہنستا ضرور ہے لیکن وہ خود کبھی کوئی مزاق نہیں کرتا ، ہمیشہ ایک سختی اسکے چہرے پر سجی ہوتی ہے ، ماتھے میں ہمیشہ ایک بل ہوتا ہے ، اب تو چہرے پر شکن ڈال ڈال کے اس کے ماتھے پر ہلکی سی تین لکیر نما جھریاں بھی پڑچکے تھے ، عجیب جاہل انسان ہے چاکر خود پتہ نہیں بچپن سے ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہا تھا اسکی تو مشق ہوچکی ہے لیکن اسے ساتھی کا تھوڑا بھی احساس نہیں ، آخر کار شیہک نے ہمت کرکے چڑھتے سانسوں کے ساتھ زور سے چاکر کو پکارا \”چاکر! اب مجھ سے ایک قدم بھی چلا نہیں جارہا، ایک منٹ ذرا رکو میں بیٹھ کر سانس لے لوں \” چاکر ایک دم پلٹ کر تیز لہجے میں تیز سانسوں میں درشتگی کے ساتھ ٹوٹتے الفاظوں میں بولنے لگا \” ہم اونچائی پر ہیں ، یہاں ایک سیکنڈ رکنا بھی موت ہے اگر ہیلی آگئے تو ہم بالکل ظاہر ہوجائیں گے ، بس چار گام اور اٹھاو اس چوٹی سے اس پار جائیں تو اترائی ہے پھر تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور نیچے پہنچ کر تم سستا لینا ، شاباش ہمت کرو \” مرتا کیا نہ کرتا چاکر تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ، شیہک نے اپنے کندھے سے کلاشن اتار کر اسکے پٹھے کو اپنے سر کے اوپر سے گذارتے ہوئے گردن میں ڈال دیا جس سے وہ ایک کراس کی طرح اس کے گردن سے حائل ہوکر لٹکنے لگا، اب ایک ہاتھ سے اسے بندوق پکڑے رکھنے کی ضرورت نہیں تھی ، پھر اسنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑ کو جھک کر پکڑ لیا اور پِیروں اور ہاتھوں کے قوت کو ایک جگہ مجتمع کرکے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا ، ہر قدم ایک کوہ گراں تھا اس نے جب آنکھیں اوپر اٹھا کر چاکر کی طرف دیکھا تو وہ چوٹی پر چڑھ چکا تھا اور وہاں بیٹھ کر اپنے دور بین سے اردگرد دیکھ رہا تھا ، اتنے میں اچانک وہ زور سے بولا \” جلدی کرو ہیلی واپس گھوم کر آرہے ہیں \” یہ سن کر شیہک نے اپنی پوری قوت جمع کرکے چوٹی کی طرف ایک دوڑ لگادی اسکے چوٹی پر پہنچتے ہی چاکر چوٹی کی دوسری جانب تیزی سے اترنے کیلئے دوڑنے لگا اور شیہک کو کہنے لگا کہ \” میرے قدموں کے نشان کو پکڑ کر میرے پیچھے پیچھے آؤ سنبھال سے ورنہ گِرجاؤ گے \” شیہک جیسے ہی چوٹی سے اترنے لگا تو اسکی پوری تھکن اچانک رفع ہوگئی ، اسے ایک پل ایسا لگا کہ وہ دنیا کا سب سے چست اور تیز انسان ہے وہ تو اب چاکر سے بھی تیز دوڑ سکتا تھا لیکن چاکر اسے بار بار کہہ رہا تھا \”آہستہ ورنہ گر جاؤ گے\” ، اسے چاکر پر غصہ بھی آرہا تھا کچھ دیر پہلے جو اسے تیز تیز چلنے کیلئے کہہ رہا تھا اب بار بار آہستگی کی تاکید کررہا ہے، لیکن بہت جلد شیہک کو احساس ہوگیا کہ پہاڑ سے اترنا بھی اتنا آسان نہیں ، چڑھتے ہوئے اسکے پیروں کے پھٹے بری طرح کھنچ چکے تھے اب اترتے اترتے اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے اسکے پِیر بالکل باقی جسم سے آزاد ہیں وہ خود بخود تیزی کے ساتھ بے ترتیبی سے چل رہے تھے، اسے تو اب سنبھال کر چلنے اور اپنے رفتار کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی محنت کرنی پڑ رہی تھی ، بار بار گھٹنوں پر زور دے کر خود کو لڑھکنے سے بچانا پڑ رہا تھا جسکی وجہ سے اب اسکے گھٹنوں میں درد شروع ہوگیا تھا ، اسے پہلی بار سمجھ آگیا کہ پرانے بلوچی محاورے میں اونٹ چھڑائی کے ساتھ اترائی پر بھی کیوں لعنت بھیج رہا تھا اور کیچڑ میں تو آج تک شیہک کو چلنے کا تجربہ ہی نہیں ہوا ہے لیکن اسے اندازہ ہورہا تھا کہ کیچڑ میں چلنا ایک الگ ہی طرح کا مشکل اور تھکن ہوگا۔
(3)
جب سے شیہک کیمپ آیا تھا اسکا ہر خیال اور ہر تصور بری طرح ٹوٹتا جا رہا تھا، چی گویرا ، کاسترو اور ماؤ کے قصے پڑھ کر دنیا کے مختلف انقلابی جنگوں کے بارے میں جان کر اسکے ذہن میں جنگ کا تصور ایک ایڈونچر فلم کی سی تھی ، اسے لگتا تھا وہ جیسے ہی یہاں پہنچے گا تو اسکے پاس امریکی فوجیوں کی طرح ایم 16 رائفل ہوگی اور وہ پہاڑوں پر مورچہ بند ہوکر اندھا دھند گولیاں چلا رہا ہوگا ، کوئی غیر ملکی اسے جنگ کی تربیت دے گا اور ایک مہینے کے اندر اسکی اتنی تربیت ہوجائے گی کہ وہ ایک کمانڈو کہلائے گا ، سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے لگتا تھا کہ وہ جیسے ہی اس جنگ اور تنظیم کا حصہ بنے گا وہ دوسرے انسانوں پر افضلیت اور خاصیت حاصل کرلے گا، وہ ایک خاص اور غیر معمولی انسان بن جائے گا اور دوسروں سے برتر سمجھا جائے گا ، لیکن یہاں تو صورتحال بالکل مختلف تھی ، یہاں کوئی خاص نہیں بنتا بلکہ سب اپنے خاصیت کو رضاکارانہ چھوڑ کر عام بنتے ہیں ، یہاں تو اس سے زیادہ پڑھے لکھے ، اس سے زیادہ وجیہہ اور اس سے زیادہ پیسے والے بھی بالکل عام تھے۔ باہر دنیا میں اگر کہیں آپ خود کو سب سے الگ اور برتر پیش کریں تو عزت ملتی ہے اور اگر یہاں آپ باقیوں سے زیادہ خاص بننے کی کوشش کریں تو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے، شیہک سوچ رہا تھا کہ یہاں آنے سے پہلے تو اسے لگتا تھا کہ بلوچ ہونے کے ناطے جنگ اسکے خون میں رچا بسا ہوا ہے لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ اسے تو صحیح معنوں میں ابتک بندوق کا پکڑنا تک نہیں آتا اور بوڑھا ماما مری ایک ہفتے سے اسے بندوق کو پکڑنا اور اسکے تین پوزیشن ہی سِکھا رہا ہے ، جو بار بار بتائے جانے کے باوجود کہیں نہ کہیں اس سے غلط ہوجاتے اور اسکا ٹرینر ماما مری اپنے پرانے بلوچی میں شفقت کے ساتھ اسکا ہاتھ پکڑ کر کہتا کہ ایسے نہیں ایسے پکڑو اور ہر بار شیہک کا احساس برتری مزیڈ ٹوٹ جاتا ، یہاں تو کوئی اسکے ایف ایس سی میں فرسٹ ڈویژن نمبروں سے متاثر ہی نہیں لگتے اس سے زیادہ اہمیت تو پاس والے گاؤں کے چرواہے کے بیٹے کی ہے کیونکہ وہ چلنے میں سب سے زیادہ تیز ہے جب بھی گدھوں کو لانا ہو یا بکریوں کو شام کے وقت جمع کرنا وہ فوراً یہ کام کردیتا ہے۔ شیہک نے جو بھی تصور پالے ہوئے تھے سب تاش کے گھروندے کی طرح بکھر رہا تھا ، دوسری طرف تین دن سے بے ذائقہ دال کھا کھا کر وہ اکتا ہی گیا تھا، ابتک ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ہے لیکن اسے گھر کا کھانا یاد آنے لگا ہے ، وہ نرم بستر اور اس پر تیار ناشتہ ، بجلی کی روشنی ، پنکھے کی ہوا ، گاڑیوں کی آواز ، موبائل پر میسج کا بجنا ، ٹی وی پر فلمیں ، موبائل کا چارج ، ہوٹل پر شام کی چائے ،گرلز کالج کو جاتا رستہ حتیٰ کے باتھ روم میں نہانا تک جو کل تک معمول کی چیزیں تھی اب سب کے سب اسے نعمتیں لگنے لگی تھیں، انسان کتنا عجیب ہے اہم صرف وہ ہے جو نہیں ہے لیکن شیہک سوچتا رہتا کہ اتنا کچھ چھوڑنے کے باوجود وہ بدلے میں کیا پارہا ہے ؟ وہ جنگ کی سپنے لیکر یہاں آیا تھا اب ہیلی کاپٹروں کی آواز انکی شیلنگ ، بمباریوں کے گونج سے اسے احساس ہورہا تھا کہ جنگ کتنا بے رحم اور مشکل ہوتا ہے لڑائی تو ابھی تک آئی نہیں لیکن صرف جان بچانے کیلئے پیدل چلنے نے ہی اسکی جان لے لی ہے ، جیسے جیسے اسکے تصورات ٹوٹ رہے تھے ، اپنے بارے میں اسکا رائے بھی بدل رہا تھا ، اسکا غرور اور احساس برتری کب کا رخصت ہوگیاتھا، وہ آسمانوں کی اڑان سے نیچ گرکر زمین کو چھو رہا تھا ،وہ حقیقت سے جیسے جیسے روشناس ہورہا تھا ویسے ویسے وہ اپنے حقیقی خود کو سمجھ رہا تھا ، اپنی کمیاں بھی جان رہا تھا اور اپنے حقیقی صلاحیتیں بھی پہچان رہا تھا دوسری طرف باقی دنیا کو دیکھنے کا اسکا زاویہ نظر بھی بہت تیزی سے بدل رہا تھا ، اسکے صحیح و غلط ، عزت و احترام کے پیمانے بدل رہے تھے ، معلوم نہیں کیوں اسے زندگی میں پہلی بار اپنے ہمسائے سیٹھ حنیف سے زیادہ میلہ کچیلا چرواہے کا بیٹا قاسو زیادہ محترم اور اہم انسان لگ رہا تھا۔ حتمی کامیابی کی کبھی ضمانت نہیں دی جاسکتی وہ مل جائے تو خود ہی ایک حاصل ہے لیکن اس سے پہلے یہ داخلی تبدیلی کیا ایک حاصل ہے ؟ کیا وہ آسودگی کی قمیت پر حاصل ہونے والی خود آگہی کو ایک کامیابی کہہ سکتا ہے؟
کل ہی گھاٹ پر ڈیوٹی دیتے وقت شیہک سوچ رہا تھا کہ وہ تو خود کو زندگی میں پہلی بار سمجھ رہا ہے ، انسان کو سمجھ رہا ہے کیا تصوف اور فلسفے کا مقصد بھی یہی نہیں؟ ، کیا یہ اسی خودی کو جاننا نہیں جسے منصور حلاج سمجھ کر اناالحق کا نعرہ لگاتے ہوئے سولی پر چڑھتا ہے اور دیو جانس کلبی اسی خودی کو پاکر سکندر اعظم سے اتنا بے نیاز ہوجاتا ہے کہ جب سکندر اس سے ایک درخت کے چھاؤں میں ملنے آتا ہے اور اپنا تعارف کراتا ہے تو کلبی اسے گھور کر کہتا ہے تم جو بھی ہو مجھے پرواہ نہیں میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، میں دھوپ سینک رہا ہوں اور تم نے دھوپ روکا ہوا ہے ۔کیا یہ صرف میں محسوس کررہا ہوں یا سب محسوس کرتے ہیں ، کیا یہ احساس اس عمل میں شریک ہونے کی وجہ سے ہے جو بھی اس عمل میں شریک ہے وہ یہی محسوس کرتے ہیں یا پھر اس اجتماعی سوچ کی وجہ سے ہے نہیں عمل سوچ کے اور سوچ عمل کے بغیر بیکار ہیں پھر شاید اسکی وجہ ذات سے نکل کر ایک سوچ کے تحت عمل کا حصہ ہونا ہوتا ہے ، ورنہ صرف جسمانی طور پر اس عمل میں شریک بہت سوں دِکھتے ہیں اور بغیر عمل کے اس سوچ کے مالک بھی ہزاروں ہیں داخلی تبدیلی کیا کبھی ان میں خارجی تبدیلی کی بھی شبیہہ نظر نہیں آتی لیکن پھر بھی یہ کتنا عجیب تضاد ہے ہم خود کو تب پاتے ہیں جب خودی قربان کرتے ہیں ، اصل سکون کا احساس تکلیفوں سے گذرنے کے بعد ہی ہوتا ہے اور جب آپ خاصیت کے جستجو کو کھو کر عام بننے کیلئے سرنڈر کرتے ہو تب اپنے اندر کے خاصیتوں کو پاتے ہو ، نہیں میں دوبارہ تصورات کی دنیا میں جارہا ہوں ، دوبارہ خود کو گھما پھرا کر خاص سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں ، تصورات خوبصورت ہوتے ہیں لیکن حقیقت سے دور ہوتے ہیں اور جب یہ حقیقت سے ملتے ہیں تو پھر بہت تکلیف پہنچاتے ہیں\”۔
وہ پہاڑ سے اترے ہی تھے کہ اچانک دو ہیلی کاپٹر ایک ساتھ اسی چوٹی سے نمودار ہوکر بالکل انکے اوپر آگئے تھے ، اس طرح اچانک انکے نمودار ہونے سے شیہک بالکل ہکا بکا رہ گیا ، لیکن چاکر نے اسے لیٹنے اور گہرام کا دیا ہوا خاکی چادر اپنے اوپر ڈالنے کو کہا اور خود بھی اسکے قریب ہی جھاڑیوں کے اندر لیٹ گیا ، شیہک کی آنکھیں ہیلی کاپٹروں کی طرف تھیں ، وہ دو ہیلی ایک ساتھ تھے \” چاکر کیا انہوں نے ہمیں دیکھ لیا \” شیہک نے گھبرائے ہوئے آواز میں استفسار کی \” چاکر نے لیٹے لیٹے ہی اسے بالکل خشک سا جواب دیا \” نہیں \” ، \” لیکن کیسے نہیں وہ تو بالکل ہمارے اوپر آگئے تھے \” ہیلی اب گذر چکے تھے چاکر اپنے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوگیا اور شیہک کی طرف دیکھ کر بولنے لگا \”ہم بالکل پہاڑ کے اوٹ اور سائے میں تھے اور وہ بھی عین اوپر آگئے تھے ، ہیلی کاپٹر سے سامنے دیکھی جاسکتی ہے لیکن بالکل سیدھ میں نیچے دیکھنا مشکل ہے اور جب سائے میں انسان ساکن رہے تو دیکھنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے ، بالفرض وہ ہمیں دیکھ بھی لیتے تو وہ اتنا فوراً اور بالکل سیدھ میں نیچے شیلنگ نہیں کرسکتے ، ہاں اگر وہ ہمارے پیچھے کے بجائے آگے کی طرف سے آرہے ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی ، خیر اب اٹھو یہاں سے نکلتے ہیں وہ واپس گھوم کر آئیں گے \” شیہک بھی اپنے کپڑے اور چادر جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوگیا پتہ نہیں کیوں اسے موت کو اتنے قریب سے محسوس کرنے اور اس سے بچنے کے بعد عجیب سا جذبہ اور خوشی ملی تھی ، شاید یہ خود میں ہی ایک سبق تھا یا کامیابی۔ وہ ایک بار پھر چاکر کے پیچھے چلنے لگا تھوڑا ہی آگے چلنے کے بعد انہیں پہاڑوں کے بیچ ایک بڑا سا قدرتی تلار (شگاف) مل گیا وہ اتنا بڑا تھا کہ آرام سے وہاں پانچ آدمی بیٹھ سکتے تھے وہ دونوں جاکر اسی شگاف کے اندر بیٹھ گئے، شیہک کو ایسے لگ رہا تھا جیسے قدرت نے یہ پہاڑ ایسے تخلیق کی ہیں کہ انکا دفاع ہوسکے ، یہ شگاف کسی مسجد کے محراب کی طرح تھا اسکی چوڑائی تو کم تھی لیکن یہ تقریباً آٹھ فٹ لمبا تھا اسکی اونچائی بھی تقریباً 20 فٹ ہوگی ، اسکی اچھی بات یہ تھی کہ اوپر سے بند تھا یعنی ہیلی انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے ، شیہک بھی اتنا تھکا ہوا تھا کہ جیسے ہی وہ اندر پہنچے تو فوراً اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا ، اتنا سکون شاید اس نے کبھی اپنے زندگی میں محسوس نہیں کیا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ شدید پیاسا ہے لیکن چاکر کے کندھے پر لٹکتی ہوئی پانی کی بوتل اس نے دیکھ لی تھی اسے پریشانی بھی نہیں تھی۔
\” چاکر مجھے تھوڑا پانی مل سکتا ہے \” شیہک نے اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے پوچھا ، چاکر جو اب تک خاموش بیٹھا ہوا تھا اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا \”نہیں پہلے سانس لے لو تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے اور اب اگر تم تھکن کے بعد فوراً پانی پیو گے تو پیٹ میں درد شروع ہوجائے گا شاید الٹیاں بھی آجائے لیکن تمہارا اپنا پانی کا بوتل کہاں ہے ؟ \” شیہک کو شروع سے ہی چاکر کی سرد مہری بالکل پسند نہیں تھی اب پانی پر اسکا یہ عجیب فلسفہ سن کر شیہک کو دل ہی دل میں چاکر پر دوبارہ غصہ آرہا تھا اور بھلا شیہک کو وحی تو نازل نہیں ہوا تھا کہ اسے پتہ ہو آج آپریشن ہونے والا ہے تاکہ وہ پانی کی بوتل بھر کر اپنے ساتھ رکھتا ، اس نے آنکھیں نیچے زمین پر گھاڑ کر بغیر دیکھے ہی آہستگی سے چاکر سے مخاطب ہوا \” مجھے پتہ نہیں تھا کہ پانی کا بوتل ساتھ اٹھانا ہے اور کسی نے بتایا بھی نہیں تھا اور نہ ہی تربیت کے دوران ماما مری نے سِکھایا تھا \” ، وہ بالآخر نظریں اٹھا کر چاکر کے سرد مہر چہرے کی طرف دیکھنے لگا \” ہر چیز تربیت میں نہیں سِکھائی جاتی ، غور کیا کرو سب سے بڑا تربیت خود عمل ہے ، یہ لو پانی لیکن آہستہ آہستہ تھوڑا سا پینا \” چاکر نے بوتل اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ، شیہک نے اس کے ہاتھ سے بوتل لیکر اس سے دو گھونٹ بھرنے کے بعد چاکر سے پوچھا \” ہم کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے ، کیمپ واپس کب جانا ہے \” چاکر کی آنکھیں اور توجہ باہر کی طرف تھیں کیونکہ ایک بار پھر کہیں دور سے شیلنگ اور بمباری کی آواز آرہی تھی اس نے شیہک کی طرف دیکھے بغیر ہی جواب دیا \” یہاں ہم زیادہ رک نہیں سکتے ، یہ جگہ کیمپ کے نزدیک ہے اگر انہوں نے کمانڈو اتارے ہیں تو سمجھو ہم اس وقت گھیرے میں ہیں ، ہمیں دور نکلنا پڑے گا یا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈنا پڑے گا ، یہاں سے تھوڑا آگے کچھ گھاٹیاں ہیں وہ جگہ اونچی ہے اگر جنگ کی نوبت آئی بھی تو وہاں ہم اچھے پوزیشن میں ہونگے ، ویسے ہمیں رات تک اسی طرح چھپتے پھرنا ہے ، ہمیشہ یاد رکھو گوریلہ کا سب سے بڑا دوست تاریکی ہے \” شیہک چاکر کی ہر بات ایسے غور سے سننے کی کوشش کررہا تھا جیسے کلاس میں کوئی پروفیسر لیکچر دے رہا ہو ، چاکر کوئی بڑا عالم نہیں تھا لیکن اسکی یہ معمولی معمولی باتیں زندگی اور موت کے بیچ کا فرق بن سکتے تھے \”چاکر ایک بات پوچھوں تمہیں کیسے پتہ چلا میں آرہا ہوں اور رستہ بھٹک گیا ہوں تم تو مجھ سے پہلے ہی نکل چکے تھے اور گہرام نے تو کہا تھا کہ بائیں جانب مڑنا ہے اور ہم دائیں جانب کیوں جارہے ہیں؟ \” آخر کار شیہک نے وہ بات پوچھ لی جو کب سے اسکے ذہن میں گھوم رہا تھا ، چاکر مڑ کر اسکی جانب دیکھنے لگا اور پہلی بار ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا \” مجھے گہرام نے مخابرے پر بتا دیا تھا کہ تم پیچھے آرہے ہو اس لیئے میں تمہیں لینے واپس مڑ گیا تھا ، ہمیں جانا واقعی بائیں طرف تھا باقی دوست اسی طرف ہی گئے ہیں لیکن ہمیں دیر ہوگئی
اور ہیلی پہنچ گئے تھے بائیں جانب رستہ کھلا تھا ہم نظر آجاتے اسی لیئے ہم اس طرف آگئے لیکن پریشان نہیں ہوجاؤ ہم بعد میں آگے سے گھوم کر وہیں دوستوں کی طرف جائیں گے کیونکہ اس طرف زیادہ خطرہ ہے \” شیہک کو اب سمجھ آگیا لیکن اس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذہن کی دوسری الجھن حل کرنے کیلئے فوراً چاکر سے دوبارہ پوچھا \” ہم بھاگ کیوں رہے ہیں لڑتے کیوں نہیں ؟ \” چاکر دوبارہ اسکی طرف ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ ایک نابالغ بچہ ہے اور اپنے ہاتھوں کو ہلکی داڑھی پر پھیر کر دھول صاف کرتے ہوئے بولنے لگا \” گوریلہ لڑتا نہیں حملہ کرتا ہے ، جب تک نوبت نہیں آئے گوریلہ لڑائی سے بچتا ہے ، اسکا کام بے خبر حملے کرنا ہے یہی اسکی کامیابی ہوتی ہے اور دشمن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ گوریلہ کو دو بدو لڑائی پر مجبور کرکے اپنے عددی اور عسکری برتری کے بدولت اسے شکست دے ،یاد رکھو یہ پوری بلوچ کی جنگ ہو یا یہ معمولی لڑائی جب دشمن آگے بڑھے تو تم پیچھے ہٹو ، جب وہ حملہ کرے تو تم جان بچاؤ اور جب وہ تھک جائے یا رک جائے تو پھر تم حملہ کرو \” یہ بات کہتے ہوئے چاکر کھڑا ہوگیا اور اس محراب نما شگاف کے بالکل دروازے پر جاکر بیٹھ گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا ، جیسے اسے کسی کا انتظار ہو پھر اپنے جھاٹے کے ایک جیب سے اس نے رومال میں بندھی وائر لیس نکال کر اس کا انٹینا ڈالنے لگا ، وائرلیس کو \” آن \” کرنے کے بعد اسکا \” کلچ \” دباتے ہوئے وہ زور سے بولنے لگا \” ہیلو گہرام ہیلو ، ہیلو برزین ہیلو ، ہیلو 88 ہیلو ، ہیلو گہرام ہیلو \” لیکن سامنے سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا ، مخابرے کو چاکر نے وہیں ایک پتھر پر \”آن \” رکھدیا ، اور اپنے بندوق کو گود میں رکھتے ہوئے چار زانوں ہوکر بیٹھ گیا۔
(4)
سورج مکمل نکل چکا تھا ، اب بھی دور دور سے کبھی شیلنگ کی آواز آتی تو کبھی فائرنگ کی اور کبھی ہیلی کی ، شیہک آہستہ آہستہ چاکر کے پیچھے چل رہا تھا وہ تقریباً ایک گھنٹے سے بغیر رکے چل رہے تھے ، شیہک کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرف جارہے ہیں بس وہ چاکر کے پیچھے پیچھے خاموشی سے چل رہا تھا وہاں محراب نما شگاف میں تھوڑی دیر رکنے کے بعد چاکر نے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا حالانکہ شیہک کو وہ جگہ بہت محفوظ لگ رہا تھا لیکن وہ بغیر سوال کیئے چاکر کے پیچھے ہولیا ، یہ مارچ کا میہنہ تھا ،عجیب موسم تھا جب سورج نکلتی تو گرمی لگنے لگتی اور رات کو اتنی سردی پڑتی کے انہیں دو دو کمبلوں میں سونا پڑتا ، صبح سے نہ ناشتہ میسر تھا اور نہ ہی چائے اور اب اوپر سے سر پر چمکتا سورج مصائب میں اور اضافہ کررہا تھا۔ شیہک کو بھوک ، پیاس تھکن اور ہلکی سی سردرد چاروں کا ایک ساتھ سامنا تھا لیکن وہ اپنی کمزوری ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا ، ظایر کرتا بھی تو کیا ہوتا اسے اپنی جان بچانی تھی اور جان بچانے کیلئے اسے وہ سب کچھ کرنا پڑے گا جو چاکر کہے گا ، چلتے چلتے اسے سوچوں ہی سوچوں میں پہلی بار احساس ہوا کہ ایک لیڈر اور ایک رہنما کی کتنی اہمیت ہوتی ہے ، وہ انفرادی طور پر ہو یا پوری قوم سب تمام تکلیفیں اٹھانے کے باوجود صرف رہنما پر اعتماد کی وجہ سے آگے بڑھتے رہتے ہیں ، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ رہنما کو پتہ ہے کس طرف جانا ہے اور کس طرح جانا چاہئے لیکن اچانک شیہک کے ذہن میں ایک اور عجیب سا خیال آیا کہ اگر رہنما کو خود ہی پتہ نہ ہو کہ وہ کہاں جارہا ہے یا کہاں جانا چاہئے تو پھر کیا ہوگا ؟ اگر رہنما میں اتنی صلاحیت نہ ہو کہ وہ قوم کو پار کراسکے تو پھر وہیں یہی اندھا اعتماد ان کے سارے مصائب کے باوجود بھی انہیں ناکامی کی طرف دھکیل دے گا ، اگر رہنما بِکا ہوا ہو تو ؟ پھر اچانک چاکر پر جو وہ اندھا اعتماد کررہا تھا وہ شکوک کے بادل تلے غائب ہوگیا ، مجھے چاکر کے پیچھے چلنا چاہئے لیکن بہتر ہے میں اس سے پوچھتا رہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کم از کم مجھے یہ تو اندازہ ہو کہ ہم واقعی صحیح جارہے ہیں یا غلط۔ کافی دیر بعد پہلی بار شیہک نے خاموشی توڑتے ہوئے پوچھا \” چاکر ہم کس طرف جارہے ہیں ؟ \” چاکر بغیر رکے اور بغیر مڑے جواب دینے لگا \” ہم راستوں سے دور پہاڑی سلسلے کے مزید اندر جارہے ہیں ، بس اس چوٹ (موڑ) سے آگے ایک چھوٹا سا چشمہ ہے اور ساتھ میں \” گون \” کے درختوں کا جھنڈ ہے وہاں ہم تھوڑی دیر کیلئے رکتے ہیں تم پانی بھی پی لینا اور وہاں سے \” گون \” توڑ کر کھالینا تو جسم میں توانائی آجائے گی ، پھر وہیں سائے میں بیٹھیں گے \” یہ بات سن کر تھکن سے چور شیہک کی ڈھارس بندھی اور وہ مزید تیز تیز چلنے لگا ، دل ہی دل میں شیہک خود سے باتیں کررہا تھا \” اچھا ہوا میں نے پوچھ لیا اب کم از کم مجھے پتہ تو ہے کہ جا کہاں رہا ہوں پہلے تو بس صرف بغیر مقصد کے پیچھے چلا ہی جارہا تھا \” شیہک کو احساس ہوا کہ منزل کے واضح ہونے اور اس پر چلنے اور بغیر منزل کو جانے اس کیلئے چلنے میں کتنا بڑا فرق ہے۔
(5)
چشمے تک پہنچتے ہی انہوں نے اپنی اپنی بندوقیں ایک ایک کرکے تھوڑے سے فاصلے پر ایک پتھر پر ٹکا کر پانی پینا اور منہ ہاتھ دھونا شروع کردیا ، شیہک نے جب اپنے جوتے اتار کر پیروں پر ٹھنڈا پانی ڈالا تو اسے ایک ایسے سکون کا احساس ہوا جسے آج تک اس نے کبھی زندگی میں محسوس نہیں کیا تھا ، جیسے وہ ٹھنڈک اس کے روح تک کو پہنچ رہی تھی وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے پیروں کو ان جوتوں سے آزاد رکھنا چاہ رہا تھا لیکن چاکر نے سختی سے یہ کہہ کر مزہ کرکرا کردیا کہ وہ جوتے جلدی سے واپس پہن لے کیونکہ کسی بھی وقت دوبارہ انہیں یہاں سے بھاگنا پڑسکتا ہے۔ ابھی تک \” گون \” کچے تھے تھوڑا سا توڑنے کے بعد جب شیہک انہیں کھانے کی کوشش کی تو اسے انکی کڑواہٹ محسوس ہوئی اور وہ ہلک میں جیسے اٹک گئے ، اسے شدید بھوک لگ رہی تھی اور کوئی چارہ نہیں تھا لیکن کوشش کے باوجود وہ نہیں کھاسکا ، مجبوراً اسے \” گون \” ہلک سے اتارنے کیلئے دوبارہ پانی پینا پڑا ، لیکن وہی کچے اور بے ذائقہ گَون چاکر اس طرح آرام سے کھارہا تھا جیسے انگور کے دانے ہوں ، وہاں سے فارغ ہوکر چاکر \” گون \” کے درختوں کے سائے میں دو زانوں ہوکر بیٹھ گیا اور اپنا \” جاٹہ \” کندھوں سے اتارتے ہوئے اسکے پیچھے والے خانے کو ٹٹولنے لگا ، معلوم نہیں اسکے ہاتھوں کو کس چیز کی تلاش تھی لیکن کاغذ اور پلاسٹک کے \” چپر چپر \” کا شور شیہک کو صاف صاف سنائی دے رہی تھی، جب چاکر نے اپنا ہاتھ اس خانے سے نکالا تو اسکے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی پرانی تھیلی تھی جس میں قسم قسم کے گولیوں کی پتیاں تھیں، ساتھ میں اسکے ہاتھ ایک سبز رنگ کی چھوٹی سی کنگھی بھی لگی تھی جس کے کئی دانت ٹوٹ چکے تھے لیکن وہ مطمئن نہیں ہوا اور اپنا ہاتھ دوبارہ اس خانے میں ڈال دیا پھر اچانک جب اس نے دوبارہ اپنا ہاتھ نکالا تو اسکے ہاتھ میں کچھ تہہ لگے ہوئے کاغذ اور نمکو کے دو چھوٹے پانچ روپے والے پیکٹ تھے ، ان میں سے ایک چاکر نے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے شیہک کی طرف پھینک دیا جو سیدھا شیہک کے گود میں گرگیا اور دوسرا پیکٹ کھول کر خود وہاں خاموشی کے ساتھ کھانے لگا ، شیہک نے فوراً نمکو کی تھیلی کھولنا شروع کردیا ، جلدبازی میں کھولتے ہوئے تھوڑا سا نمکو زمین پر بھی گِر گیا ، لیکن جو لذت اسے آج اس نمکو کے پانچ روپے والے پیکٹ سے میسر آرہی تھی وہ تو اس نے کبھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے میں بھی محسوس نہیں کیا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ چاکر روز جنگ کیلئے تیار رہتا ہے ، اس وقت چاکر شیہک کی نظر میں کس مسیحا سے ہرگز کم نہیں لگ رہا تھا ، اسکے پاس تو پورا خزانہ تھا پانی نمکو اور رستوں کی پہچان، نمکو کھانے سے فارغ ہوکر چاکر اپنے دونوں ہاتھوں
جھاڑ کر اٹھ گیا اور اپنے بوتل کو دوبارہ پانی سے بھرنے لگا اور شیہک بھی دوبارہ پانی پینے کے بعد جاکر گون کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا لیکن جیسے ہی وہ درخت پر ٹیک لگانے ہی والا تھا کہ چاکر نے اسے زور سے مخاطب ہوکر کہا \” درخت پر ٹیک نہیں لگانا کپڑے خراب ہوجائیں گے اسکا رس کپڑوں پر چپک جاتا ہے اور کبھی کبھار لپڑ (الرجی) بھی کردیتا ہے\” شیہک جواب دیئے بغیر درخت کے تنے سے تھوڑا دور ہٹ گیا اور گہرام کا دیا ہوا چادر گول گول لپیٹ کر ایک پتھر کے اوپر رکھ کر اس پر ٹیک لگادیا اور چاکر بھی اس کے قریب ٹانگیں پھیلا کر اپنا بندوق ساتھ میں رکھتے ہوئے اپنے کہنی پر ٹیک لگاتے ہوئے سستانے لگا۔
وہ کافی دیر سے یونہی خاموش بیٹھے رہے، ایسا لگتا تھا جیسے ان کے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں جو دونوں کے دلچسپی کا باعث ہوتا سوائے جان بچانے کے ، اس دوران چاکر نے اپنے قمیض کے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے جیب سے سگریٹ کی ڈبی اور ماچس نکال دی اور ایک سگریٹ ڈبی سے نکالتے ہوئے ہونٹوں کے بیچ میں دبا دیا اور ماچس کی تیلی جلاکر اسے سلگانے لگا پھر ایک بڑا کش مار کر سکون سے سگریٹ کا دھواں اپنے حلق سے خارج کرنے لگا، چاکر اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور شش و پنج کے عالم میں کچھ سوچ رہا تھا پھر وہ بغیر سوچے سمجھے بول اٹھا \” چاکر اگر آپکو بُرا نہ لگے تو کیا میں تمہارے ساتھ ایک سگریٹ پی سکتا ہوں ؟\” شیہک تین سال سے سگریٹ پیتا تھا لیکن یہاں وہ گہرام ، چاکر اور ماما مری کے سامنے از رائے احترام سگریٹ نہیں پیتا تھا ، اسے جب بھی سگریٹ پینا ہوتا وہ ان کے محفل سے نکل کر باقی دوستوں کے ساتھ دور بیٹھ کر پیا کرتا تھا ، شیہک کو صبح سے ہی سگریٹ کی طلب ہورہی تھی اور وہ جانتا تھا کہ چاکر سگریٹ پیتا ہے لیکن وہ مانگنے سے کترارہا تھا کہ کہیں چاکر کو اسکا سگریٹ مانگنا اور اسکے سامنے پینا بے ادبی نہ لگے لیکن اب وہ چاکر کو اپنے سامنے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکا، چاکر نے ماچس اور سگریٹ کی ڈبی دونوں ایک ہاتھ میں پکڑ کر شیہک کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا \” آپ لوگ شہر سے نئے آئے ہو گولڈ لیف پیتے ہو پتہ نہیں میرا یہ مارون تمہیں اچھا لگے گا بھی کہ نہیں اور اس میں بُرا لگنے والی کونسی بات ہے میں نے تمہیں کئی بار سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا ہے اور سعید کو اس دن میں نے ہی کہا تھا کہ تمہیں دورانِ گھاٹ سگریٹ پینے سے منع کرے \” شیہک نے اسکے ہاتھوں سے سگریٹ کی ڈبی لیتے ہوئے جلدی سے ایک سگریٹ سلگادیا پھر ڈبیا زمین پر رکھتے ہوئے چاکر کی طرف دیکھتے ہوئے بولنے لگا \”مجھے لگا آپ سینئر ہو آپکا احترام کرتے ہوئے مجھے آپکے سامنے سگریٹ نہیں پینی چاہئے آپکو بُرا لگ سکتا ہے لیکن اب میرے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا \” چاکر اپنے سر کو دائیں بائیں تیزی سے انکار کے اشاروں میں گھمانے لگا اور ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ڈالتے ہوئے بولنے لگا \”میں آج تک سمجھ نہیں پایا ہوں سینئر اور احترام کیا ہے اور سب کو انکی تلاش کیوں ہے ، حقیقت دیکھو تو سینارٹی یا خواہش احترام کسی نہ کسی طرح ایک انسان کا دوسرے انسان پر اپنا برتری قائم کرنے کی خواہش ہے ، انسانی فطرت عجیب ہے وہ ہمیشہ اپنے اردگرد کے انسانوں سے افضلیت کی جتن کرتا ہے اور یہ لفظ سینارٹی اسکا سب سے آسان طریقہ ہے ، یعنی ایک شعبے میں اگر میں آپ سے کچھ دن زیادہ رہا ہوں تو میں اپنے ان گذارے ہوئے دنوں کے بنیاد پر تم پر افضیلت چاہوں گا چاہے میری صلاحیت تم سے کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ، کیا تجربہ سب کچھ ہے ؟ شاید تم صحیح ہو شاید سب صحیح ہیں لیکن میرے لئے تجربہ سے زیادہ اہم تخلیق ہے اور سب سے بڑا طنز تو یہ ہے کہ تجربہ تخلیق کی راہیں مسدود کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ تجربہ نام ہی ایک راستے سے بار بار گذرنے کا ہے جبکہ دوسری طرف اگر کسی شعبے میں
ایک ناتجربہ کارنیا شخص آتا ہے تو اس میں تخلیق کی گنجائش کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ، مثال کے طور پر میں تمہیں کہوں کے اس درخت پر چڑھو تمہیں پہلے کسی درخت پر چڑھنے کا تجربہ نہیں ہے تو تم کوشش کرو گے کے اپنے طور پر کوئی آسان سے آسان طریقہ نکال کر اس درخت پر چڑھ سکو جبکہ اگر میں چڑھنے کی کوشش کروں گا تو میں صرف اس طریقے سے ہی چڑھوں گا جو میں نے سیکھا ہوا ہے اور بار بار دہرایا ہوا ہے اس سیکھے ہوئے طریقے پر چل چل کر شاید میں نے کبھی توجہ ہی نہ دیا ہو کہ اس سے زیادہ بہتر اور طریقے ہوسکتے ہیں ، گوکہ تمہارے گرنے یا پھسلنے کی گنجائش مجھ سے زیادہ موجود رہے گی لیکن شاید تم اپنے نا تجربہ کاری کی وجہ سے ایک ایسا طریقہ دریافت کرلو جو میرے طریقے سے بہت آسان اور سہل ہو، اس طرح تو پھر تم اپنے تخلیق کی وجہ سے مجھ سے زیادہ افضل ہوگئے ، تجربہ تو ایک تسلیم شدہ اور ریاض شدہ حد ہوتا ہے اسکی حدود میں بندگی، بے ساختگی سے دوری اور طلبِ احترام کی وجہ سے کبھی کبھی مجھے اس سے گھِن آتی ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تجربہ کار تخلیق نہیں کرسکتا اور یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ نوخیز ہمیشہ تخلیق کار ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے تجربہ کار میں صحیح ہونے کی گنجائش زیادہ اور تخلیق کی کم ہوتی ہے اور نوخیز میں تخلیق کی گنجائش زیادہ اور صحیح ہونے کی کم ہوتی ہے لیکن ہم صرف تجربے کے پہلو کو دیکھتے ہیں اسی کے بنیاد پر افضلیت اور عزت کو معیار بناتے ہیں اور دوسرا پہلو نظر انداز کرتے ہیں، اسی طرح لوگ تو افضلیت ڈھونڈنے کیلئے کہیں اپنے عمر کو لیکر چھوٹوں سے احترام کا متقاضی ہیں تو کہیں مردانگی کو بنیاد پر کمزور عورت سے سیوا اور عزت کا مطالبہ کرتے ہیں، ویسے جہاں تک احترام اور عزت کی بات ہے تو ہم جن اختراعی پیمانوں کو لیکر کسی کی عزت اور احترام کرتے ہیں یا اپنے لئے عزت و احترام کا طلبگار ہوتے ہیں کیا وہ درست ہیں؟ درست کو چھوڑو کیا وہ عزت و ذلت کے پیمانہ جات تم نے یا میں نے بنائے ہیں ؟ کیا انہیں ہمارے باپ یا داد انے بنایا ہے ؟ یقین کرو ہمارے آباء کی حیثیت اپنے زماں میں کبھی ہم سے بہتر نہیں رہی ہوگی ، انکے مرضی پر بھی کوئی قدر یا پیمانہ نہیں بنا ہوگا ، یعنی جن پیمانوں یا سلیقوں پر کہی گئی بات کو ہم اپنا عزت و احترام یا بے عزتی سمجھتے ہیں وہ ہم نے خود بنائے ہی نہیں ہیں وہ معلوم نہیں باہر سے کس نے بناکر ہم پر مسلط کردیئے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ چیز یا بات تمہاری عزت و احترام ہے اور یہ چیز اور بات تمہاری بے عزتی ہے۔ کیا یہ احساسات اجتماعی ہوتے ہیں ؟ نہیں عزت محسوس کرنا یا بے عزتی کا احساس تو ہمارا داخلی ردعمل ہے پھر اسکا تعین باہر سے کیسے ہوسکتا ہے،تمہیں نہیں لگتا کہ احترام اور عزت کے پیمانے ہر زمان و مکاں میں اسکے مخصوص مراعات اور اختیار پسند طبقے کی تخلیق ہوتے ہیں جن کا مقصد ہمیشہ ایک حاصل شدہ مرتبے کو مستقل کرنا اور بہت سے غلط چھپانا ہوتا ہے یعنی ایک مسلمان ہونے کے حیثیت سے تم احترام کی وجہ سے یہ سوال نہیں کرسکتے کے نبی(ص) نے گیارہ شادیاں کیوں کی ورنہ یہ توہینِ رسالت ہوجائے گا، ایک بلوچ ہونے کے حیثیت سے تم خیربخش مری سے یہ سوال نہیں کرسکتے کے اسکے ہوتے ہوئے بی ایل اے تقسیم کیوں ہوا ؟ ورنہ یہ اسکے صلاحیتوں پر سوال بن کر اسکے بے عزتی کا موجب بن جائے گا اور شاید اسی طرح اس کیمپ میں بھی بہت سے عزت و احترام کے ایسے پیمانے متعین ہوں جو میرے اور گہرام کے غلط حرکات کو چھپا رہے ہوں ؟ اگر تمہارا
سگریٹ پینے جیسا کوئی عادتِ عمومیہ میرے یا گہرام کیلئے بے احترامی تصور کیا جاتا ہے تو اسکا مطلب یہاں درجات مقرر ہیں اور ہم درجہ اعلیٰ پر فائز ہیں اسلئے تمہاری عمومیت وہاں قابلِ قبول نہیں، بات محض سگریٹ نہیں اسکی اور بہت سی صورتیں دِکھتی ہیں جیسے ٹانگیں پھیلانا ، کھانے کیلئے پہلے ہاتھ دھونا ، دروازے سے پہلے باہر نکلنا وغیرہ، کبھی تم نے سوچا ہے کہ ہمیں
آخر کس نے بتایا ہے کہ پچھلے سال حج کرکے آنے والے محلے کے حاجی صاحب ، محلے کے بڑے بنگلے والے سیٹھ صاحب اور کسی کے کام سے کام نہ رکھنے والے خاموش سے کیبن والے چاچا کا احترام کریں؟ کس نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ حج کرنا ، کسی کو نقصان نہ دینا اور پیسے والا ہونا وغیرہ عزت اور احترام کا معیار ہیں؟ کم از کم نہ میں نے اور نہ ہی تم نے یہ معیار متعین کیئے ہے ، ذاتی طور پر میری نظر میں ان میں سے کوئی بھی عزت کا حقدار نہیں\”
چاکر مسلسل بولتے جارہا تھا ، معلوم نہیں وہ اسے سمجھا رہا تھا یا خود کو ، ایک معمولی سی بات کو انتہائی طول دے رہا تھا شیہک کو محسوس ہونے لگا کہ چاکر کے اس سپاٹ چہرے کے پیچھے الجھے ہوئے خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ چھپا ہوا ہے اور وہ بس موقع چاہتا ہے کہ کہیں سے اپنی بات شروع کردے، لیکن بیچ میں ہی اسکی بات کاٹتے ہوئے شیہک بولنے لگا \”لیکن پھر بھی اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ احساسِ احترام و عزت انسانی فطرت کا حصہ ہیں پھر آخر کون اسکا حقدار ہے؟ \”شیہک کی بات سننے کے بعد چاکر پھر اسی روانی سے بولنے لگا \”میں اس بات سے ہرگز انکار نہیں کرتا کہ احترام و عزت وجود رکھتے ہیں لیکن اسے داخلی ردعمل کا ماحصل ہونا چاہئے نا کہ یہ خارجی ہو میری نظر میں لائق احترام صرف سارتر کا بیان کردہ \” حیاتِ مصدقہ \” اور نطشے کا \” فوق البشر \” ہے یعنی وہ زندگی جو بامعنی ہو یا وہ انسان جو بامعنی زندگی گذارتی ہو ، سارتر کے نزدیک زندگی تب بامعنی بن سکتی ہے جب انسان اپنی آزادی قبول کرے ، اسکے لئے جتن کرے اور اسکے ساتھ ملنے والی ذمہ داریوں کو پورا کرے ، یہ آزادی انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی لیکن دیکھا جائے تو ہر اجتماعی آزادی کا نتیجہ کہیں نا کہیں جاکر فرد کی آزادی کی صورت میں نکلتا ہے یعنی آزادی ایک سوچ سے ہو یا اپنے ذات سے ، ریت سے ہو یا رسم سے ، عقیدے سے ہو یا قبضہ گیر سے سامراج سے ہو یا خدا سے اسکا ماحصل فرد کی ہی آزادی ہے اور جو اس آزادی کی جتن کرے تو کوشش کا یہ فیصلہ خود ہی اپنے آزادی کو قبول کرکے اسکا استعمال ہے پھر جتن کرنے والا بھی آزاد سو فقط وہ قابلِ احترام ہے جو آزاد ہے لیکن پھر بھی یہ میرا ذاتی رائے ہے تم اسے قبول کرکے احترام و عزت کے پیمانے مقرر کرو گے تو یہ ایک بار پھر خارجی پیمانہ ہوگا\”۔ باتیں کرتے کرتے چاکر اچانک خاموش ہوگیا اور اٹھ کھڑا ہوا \”تم یہیں بیٹھو میں آتا ہوں\” یہ کہتے ہوئے چاکر کھڑا ہوگیا اور اپنے بندوق کو اٹھا کر بائیں کندھے سے لٹکا دیا دو قدم چلنے کے بعد اپنے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے قریب ہی واقع چھوٹے سے پہاڑی پر چڑھنے لگا وہ آہستہ آہستہ اوپر چڑھا رہا تھا اور شیہک اپنی جگہ پر لیٹتے لیٹتے ہی گردن ٹیڑھی کرکے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا کہ \” میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ چاکر جو کچھ کہہ رہا تھا ہر بات سے میں اتفاق کرتا ہوں یا سب کچھ میں سمجھ سکا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میں ایک خوشحال زندگی کے بجائے بامعنی زندگی گذارنا چاہوں گا چاکر کے زبان میں \” حیاتِ مصدقہ \” ہی چاہوں گا پھر یقیناً چاکر کے اقدار کے مطابق میں قابلِ احترام ٹہرتا ہوں ، اگر چاکر جیسا شخص جو خود کو بھی قابلِ احترام نہیں سمجھتا اسکے نزدیک میں قابلِ احترام ٹہروں تو پھر یہ یقیناً حقیقی احترام و عزت ہوگا\” وہ یہی سوچتے سوچتے اپنے آپ ہی مسکرانے لگا ، شیہک کو اس بات پر خوشگوار حیرت ہورہی تھی کہ محض دس منٹ کی گفتگو کی وجہ سے اب اسکی رائے چاکر کے بارے میں بدل رہا تھا، اسکی توجہ اچانک چاکر کی آواز کی طرف چلی گئی جو زور سے کچھ بول رہا تھا شیہک سننے کی کوشش کرنے لگا تو چاکر زور زور سے کہہ رہا تھا \” ہیلو گہرام ہیلو ، ہیلو برزین ہیلو ، ہیلو گہرام ہیلو\”
(6)
قدموں کی چاپ سن کر شیہک چونک کر نیند سے اٹھ گیا اور فوری اپنا بندوق اٹھا لیا ، مڑ کر دیکھا تو چاکر پہاڑی سے اتر کر اس کی جانب آرہا ہے ، پتھر پر سر رکھ کر لیٹے لیٹے جانے کب اسکی آنکھ لگ گئی تھی اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا لیکن وہ خود کو ایسے تازہ دم ظاہر کرنے لگا جیسے وہ سویا ہی نہیں ہے ایسے جنگی حالت میں آنکھ کا لگ جانا یقیناً چاکر کو پسند نہیں آئیگا ، چاکر جب قریب پہنچا تو شیہک نے فوراً اس سے پوچھا \” کسی سے رابطہ ہوا؟ \” چاکر اسکے قریب بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا \” نہیں شاید سب نے مخابرے بند کیئے ہوئے ہیں ، ہیلیوں کی مزید آواز نہیں آرہی لیکن دور سے فائرنگ کی آواز آرہی ہے لگتا ہے ایس ایس جی اتارے گئے ہیں شاید کہیں دوستوں کی ان سے مڈبھیڑ ہوگئی ہو اسکا مطلب ہیلی مکمل گئے نہیں ہیں وہ جلد واپس آئیں گے \” یہ باتیں تو پریشان کن تھیں لیکن چاکر اتنے اطمینان سے بیان کررہا تھا کہ شہیک اس کے چہرے کے طمانیت دیکھ کر بالکل پریشان نہیں ہوا۔ \” تم لڑنے کیوں آئے ہو؟\” گہرام کے دیئے ہوئے چادر سے اپنے بندو ق پر لگے دھول کو صاف کرتے ہوئے چاکر نے شیہک کی طرف دیکھے بغیر ہی یہ سوال ایسے انداز میں پوچھا جیسے شیہک کسی تھانے میں بیٹھا ہوا ہو اور اسکی پوچھ گچھ ہورہی ہے \” جی ، کیا مطلب میں سمجھا نہیں\” اس بے محل سوال پر شیہک جیسے چونک سا گیا ، چاکر نے اب اپنی بندوق گود میں رکھتے ہوئے اسکی طرف دیکھ کر مزید وضاحت سے بولنا شروع کیا \” میرا مطلب اس آزادی کی جہد میں تم شامل کیوں ہوئے؟ تم کس لئے اسکا حصہ بننا چاہتے ہو ، کھل کر بولو ، سچ سچ بولو ؟\” یہ پوچھنے کے بعد چاکر زمین پر پڑے سگریٹ کی ڈبیا اٹھاتے ہوئے اس سے سگریٹ کے دو دانے نکال لیئے ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور دوسرا شیہک کی طرف بڑھایا اور ماچس کی تیلی جلا کر تیلی کے جلتے شعلے کو اپنے ہتھیلیوں کے فانوس میں سنبھالتے ہوئے تھوڑا جھک کر پہلے شیہک کا سگریٹ سلگایا اور پھر شعلے کو اپنے ہونٹوں کے قریب لاکر ان میں دبے سگریٹ کو سلگانے لگا اور شیہک کے آنکھوں میں دیکھ کر مسکرانے لگا اس سگریٹ اور اس مسکراہٹ کا مطلب شیہک اور چاکر دونوں سمجھتے تھے یعنی چاکر روایتی احترام کے بندھنوں سے آزاد ہوکر شیہک کو سننا چاہ رہا تھا ، سوال سننے کے باوجود شیہک ابھی تک خاموش تھا شاید کچھ سوچ رہا تھا ، شاید اس نے کبھی خود بھی اس بارے میں گہرائی سے نہیں سوچا تھا۔
شیہک بالآخر اپنے خاموشی کو توڑتے ہوئے بولنے لگا \”میں نے کہیں پڑھا تھا سچائی تب سچی ہے جب اسکا تعلق ہمارے ذات سے بنے ورنہ سچائی موضوعی اور تصوراتی ہی رہے گی ، میں تمہارے اس سوال کو معلوم نہیں اپنے ذات سے کیسے جوڑ کر بیان کروں شاید میں مجبور ہوں کہ لڑوں ، میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ، میں بلوچستان پر جبری قبضے کی روایتی تاریخ کو نظر انداز کروں بھی تو مجھے غلامی اور نیم انسان پن اپنے روزمرہ میں نظر آتا ہے ، بالفرض میں اپنے قومی غلامی سے سمجھوتہ کر بھی لوں تو پھر بھی پاکستان جیسے ملک میں میں اپنی انفرادی آزادی نہیں پاسکتا ، بلوچستان میں کتنے باغی ہیں یا کتنے ایسے لوگ ہیں جو غلامی سے انکار کرتے ہوئے آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں بہت کم بہت ہی کم لیکن دوسری طرف غلامی سے سمجھوتہ کرنے والے اکثریت کی زندگی میں کونسی اچھی تبدیلی آئی ہے؟ یہاں سیاست ہو ، معیشت ہو یا سرداریت سب ایک غلام گردش ہیں ایک جاندار کو انسان بننے سے روکنے کی دیواریں ہیں، راہ فرار صرف خاموشی ہے لیکن خاموش بھی حل نہیں ، میں
آزاد زندگی پر خوشحالی کو ترجیح دیکر اپنی پوری قوت صرف کرکے ایک اچھی سی نوکری حاصل کر لوں بھی تو میری حیثیت کیا رہے گی یہی کہ میں ایک بڑے مشین کے ایک معمولی پرزے کی طرح ایک میکانکی زندگی گذاروں کسی اور کے متعین کردہ وقت اور مقدار کے مطابق کام کرتے ہوئے کسی شخص یا اسی ریاست کیلئے پیسے کماؤں جس نے مجھ سے میری آزادی چھینی ہے اور وہ میرے کمائے ہوئے پیسے کا ایک چھوٹا سا حصہ مجھے تنخواہ کی صورت میں واپس دیکر خوش کرے اور میں اسکا احسان مند بھی رہوں پھر اسی تنخواہ کی آدھے سے زیادہ وہ دوبارہ کسی اور طریقے سے ٹیکسوں کی صورت میں مجھ سے واپس لے ، یعنی میں اگر اپنے آزادی سے سمجھوتہ کرکے غلامی کو قبول کروں بلکہ اس غلامی کے زنجیر کو مضبوط کرنے کیلئے آقا کا کمک کار بنوں پھر بھی بدلے میں اگر خوش قسمت رہا تو ایک گھر گاڑی اور بیوی پاؤں اور ان کے ساتھ وقت گذارنے کیلئے چھٹی کا انتظار کروں کیا واقعی زندگی کا مقصد یہی ہوتا ہے؟ ایک بار میں زندگی کے مقصد پر کوئی کتاب پڑھ رہا تھا جس میں جرمن فلسفی شوپنہاور کہتا ہے کہ زندگی کا مقصد ماورائیت ہے جاویدانی ہے اور ماورائیت صرف جمالیات سے حاصل ہوتا ہے، لیکن میں کہتا ہوں جب تک میں اپنے انفرادی یا اجتماعی آزادی سے محروم ہوں تب تک جمالیات اندھی ہے ، چاکر تمہارے الفاظوں کے مطابق دیکھوں بھی تو زندگی کا مقصد مجھے \”حیات مصدقہ\” یا بامعنی زندگی کا حصول نظر آتا ہے اور اس کیلئے بھی تو شرط اول آزادی ہی ہے نا ، میں اگر تم سے سچ کہوں تو میں انسان سے مایوس ہوں ، میں اپنے زمین اور سماج سے باہر بھی انسان کو دیکھتا ہوں تو وہ ہر طرف مجھے اپنے آزادی سے بھاگتا اور اس سے سمجھوتا کرتا نظر آتا ہے ، کہیں انسان عقیدے کا غلام بن کر ، کہیں معیشت کا غلام بن کر ، کہیں مشین کا غلام بن کر ، کہیں کسی ملک کا غلام بن کر ، کہیں مراعات کا غلام بن کر اور کہیں کسی انسان کا غلام بن کر اپنی مرضی دوسروں کے حوالے کررہا ہے ، اپنے ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے اور اپنے آزادی سے دستبردار ہورہا ہے۔ چاکر تم نے نطشے کا ذکر کیا تھا ، نطشے سے میں ایک اختلاف رکھتا ہوں وہ جہاں سامراجیت اور قبضہ گیریت کو انسان کو غلام بنانے کا ذمہ دار ٹہراتا ہے وہیں وہ قوم پرستی اور اشتمالیت کو بھی انسان کی انفرادی آزادی کو گروہ کے بھینٹ چڑھا کر سلب کرنے کا گنہگار قرار دیتا ہے لیکن وہ خود آزاد معاشرے کا باسی تھا شاید یہ سمجھ نہیں پایا کہ غلام معاشروں میں انفرادی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک اجتماعی آزادی حاصل نہ ہو، غلام معاشرے میں آزاد فرد پیدا ہو ہی نہیں سکتا ، میں فلسفی نہیں کہ انسان کی آزادی کا کوئی فلسفہ پیش کرسکوں، میں نیم تعلیم یافتہ ہوں بات سادہ کرکے پھر سمجھتا ہوں میں اتنا جانتا ہوں میری ماورائیت جمالیات اور تخلیق میں چھپی ہے اور اپنے انفردای آزادی کے بغیر میں کبھی تخلیق اور جمالیات تک نہیں پہنچ سکتا اور میری انفرادی آزادی کے حصول کا پہلا ذریعہ میری سماجی اور قومی آزادی ہے ، میں یہاں خود کو آزاد کرنے کی خاطر لڑنے آیا ہوں ، چاکر میں آپ جیسا بہادر نہیں ، ایک سچی بات بتاؤں میں صبح سے ہی خوفزدہ ہوں ، نا ہی مجھ میں اتنی برداشت ہے ، مجھے موت سے بھی ڈر لگتا ہے لیکن پھر بھی یہاں آنا اس جہد کا حصہ بننا میری مجبوری ہے میں صرف آپ کے ساتھ رہ کر ہی ایک آزاد انسان کہلایا جاسکتا ہوں ، حتمی آزادی پاسکتا ہوں سارتر کا \” حیات مصدقہ \” تک پہنچ سکتا ہوں نطشے کا \” فوق البشر \” بن سکتا ہوں۔ میری ذاتی اور انفرادی آزادی قوم کی آزادی سے منسلک ہے بلکہ قوم کی آزادی بھی تو یہی ہے کہ ہم ایک قوم کے لوگ مل کر ایک دوسرے کو آزاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں\”۔
شیہک بات کرتے جارہا تھا اور چاکر اسے غور سے دیکھ اور سن رہا تھا چاکر اتنے طویل جواب کا بالکل امید نہیں رکھ رہا تھا ، جیسے ہی شیہک
خاموش ہوا تو ماحول میں ایک سکوت طاری ہوگیا دونوں مزید کچھ نہیں بول رہے تھے، چاکر نے پاس پڑے پانی کے بوتل کو اٹھایا اس کا ڈھکن کھولتے ہوئے اسے ہونٹوں سے لگادیا اور پانی کے تین چار بڑے گھونٹ حلق سے اتار دیئے بوتل کا ڈھکن دوبارہ بند کرکے اس نے آرام سے بوتل دوبارہ سائے میں رکھ دیا تاکہ پانی ٹھنڈا رہ سکے اور خاموشی کو توڑتے ہوئے بولنے لگا \”شیہک صرف تم خوفزدہ نہیں ، صرف تم ڈرتے نہیں بلکہ ہم سب ڈرتے ہیں ، آج ہم سب اپنے گھروں سے دور یہاں بیٹھے ہیں اسکی وجہ صرف ڈر ہے ، ختم ہونے کا ڈر۔ یہی ڈر انفرادی طور پر موت اور اجتماعی طور پر معدومیت ہے، کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ خوف اور ڈر کیا ہے؟ اور اس ڈر سے چھٹکارہ کیسے ملتا ہے؟ خوف اور ڈر کے اپنے سطحات ہیں جیسے جیسے تم اسکے اعلیٰ سطحات تک پہنچوگے ویسے ویسے وہ نچلی سطح سے ختم ہوتا جائے گا ، بنیادی ڈر ہمارا انفرادی ہے اپنے ذات کیلئے لیکن جب وہی ڈر اپنے اگلے اعلیٰ سطح ہمارے خاندان کیلئے پیدا ہوجائے تو پھر ہمارا اپنے ذات کیلئے ڈر ختم ہوجاتا ہے ہم خاندان کو بچانے کیلئے اپنی ذات بغیر خوف کے قربان کرسکتے ہیں ، اس سے اگلی سطح قوم کیلئے ڈر ہے جب ہم اپنی قومی خوف اور ڈر کو محسوس کرپائے تو پھر ہمارا اپنا ذاتی حتیٰ کے خاندانی ڈر بھی ختم ہوجاتا ہے ، سارتر اپنے فرانسیسی قوم کے بجائے الجزائریوں کی حمایت کرتا تھا کیونکہ وہ ڈر کے اگلے اعلیٰ سطح تک پہنچ چکا تھا انسانیت کیلئے ڈر اس لئے شاید اسے قوم کی پرواہ نہیں تھی۔ ڈر تو ہم سب رہے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے قومی خوف اور ڈر کو محسوس کرپائے تو ہم باقی سب ڈر اور خوف سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔ خوف بالکل بُری چیز نہیں ہے ، یہی تو بقائے انسانیت ہے ، یہی تو تخلیق ہے ، یہی تو ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ اگر انسان تاریک غاروں سے اس جدید دنیا تک پہنچا تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہی ڈر تھا ، فطرت کا ڈر اپنے ماحول کا ڈر اس ڈر پر قابو پاتے پاتے ہم فطرت پر قابو حاصل کررہے ہیں ، اندھیرے اور جانوروں کے ڈر نے ہی آگ کا ایجاد ممکن بنایا۔ جہاں تک بات ہے موت کا تو اس سے کیا ڈرنا اسکا ہمارے زندگی سے تعلق ہی نہیں ، جب موت آتی ہے تو زندگی نہیں ہوتی اور جب تک زندگی ہے موت کبھی نہیں آسکتی ، بقولِ سارتر \”موت تو زندگی کی خارجی حد ہے اسکا زندگی کے اندر سے کوئی لینا دینا نہیں\” ، ویسے میں تو موت کو ایک نعمت سمجھتا ہوں یہ ایک بند باندھ کر ہمارے زندگی کو ترتیب اور معنویت بخشتا ہے ورنہ موت کے بغیر زندگی محض بے ترتیب واقعات کا مجموعہ ہوتا ، شیہک ایک بات پوچھوں تمہارا سب سے بڑا خوف کیا ہے ؟\”
چاکر کے اس سوال کے ساتھ ہی انہیں فائرنگ اور چھوٹے دھماکوں کی آواز سنائی دینے لگی وہ آوازیں زیادہ دور سے نہیں آرہے تھے چاکر اٹھ کھڑا ہوا اور شیہک سے بولنے لگا \”ہمیں یہاں سے نکلنا پڑے گا تھوڑا آگے ایک گھاٹی ہے وہ اونچائی پر ہے ، وہ چھپ کر رہنے اور ارگرد نظر
رکھنے کیلئے بہترین جگہ ہے ، ہمارے دوست بلا وجہ فائرنگ نہیں کرسکتے ضرور ایس ایس جی اتارے گئے ہیں اور وہ یہاں آسکتے ہیں \”شیہک نے جلدی سے اپنا کلاشن اور گہرام کا دیا ہوا چادر اٹھا لیا اور چاکر نے پانی کا بوتل اٹھا کر کم گہرے چشمے میں ڈبو دیا جو بلبلے بناتا ہوا بھرنے لگا ، پھر وہ تیزی سے وہاں سے نکلنے لگے ایک بار پھر قریب ہی کہیں بمباری کی بھی آوازیں آنی لگیں پتہ نہیں شیہک کو یہ دھماکے سننے کی عادت ہوگئی یا پتہ نہیں یہ چاکر کی باتیں تھیں کہ اسے اب پہلے کی طرح ڈر نہیں لگ رہا تھا۔
(7)
راستہ پتھریلہ تھا جگہ جگہ برساتی پانی کے تیز بہاو کے ساتھ آنے والے بڑے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے ، کہیں کہیں تو انکے اوپر سے چلنا پڑا
تھا ، ایک جگہ پھسلنے کی وجہ سے شیہک کے کلاشن کا بٹ زور سے پتھر پر لگ گیا جس سے اس پر نشان بن گیا تھا ، تقریباً آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد وہ اس گھاٹی کے قریب پہنچے تھے ، شیہک غور سے دیکھ رہا تھا کہ وہ چڑھے کیسے کیونکہ نوے کے زاویے کے ڈھلان پر چڑھ کر ہی اوپر پہنچا جاسکتا تھا ، چاکر مہارت کے ساتھ منٹوں میں اوپر چڑھ گیا اور شیہک کو کہنے لگا \”تم اپنی بندوق مجھے دے دو پھر دونوں ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر اوپر آؤ\” چند گھنٹے قبل شیہک جس چاکر کیلئے سرد جذبات رکھتا تھا اب وہ خود کو اس سے اتنا قریب سمجھنے لگا کہ اسے اپنی کمزوری ظاہر کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں ہورہی تھی اس نے اپنا بندوق \”بٹ\” سے پکڑ کر ہاتھ لمبا کرتے ہوئے چاکر کو تھمادیا اور خود دونوں ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر اوپر چڑھنے لگا جب وہ اونچائی کے قریب پہنچا تو چاکر نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اوپر کھینچ لیا اور تھوڑا آگے جاکر وہ ایسی جگہ پر بیٹھ گئے جہاں سے نیچے کا سارا منظر آسانی سے دِکھائی دے رہا تھا ، یہاں سے وہ دشمن پر نظر رکھ سکتے تھے اور اگر مڈ بھیڑ ہوجاتی تو وہ آسانی سے دشمن کو نشانہ بنا سکتے تھے اور خود بھی نظروں سے اوجھل رہتے پہاڑی لڑائیوں میں اکثر تعداد سے زیادہ اونچی پوزیشن کا اہمیت ہوتا ہے ، شیہک سر اوپر کرکے آسمان کی طرف دیکھ کر اندازہ لگانے لگا کہ اگر ہیلی مشرق یا مغرب کی طرف سے آتے ہوئے ہمارے اوپر سے گذریں گے تو وہ ہمیں نہیں دیکھ سکیں گے لیکن اگر وہ شمال اور جنوب کی طرف سے آئے تو پھر شاید انکی نظر ہم پر پڑجائے ، چاکر نے ایک بار پھر اپنا مخابرہ \” آن \” کیا اور پھر سے \”کلچ\” دباتے ہوئے وہی دہرانے لگا \” ہیلو گہرام ہیلو ، ہیلو برزین ہیلو ، ہیلو 88 ہیلو ، ہیلو گہرام ہیلو \” لیکن پھر سے وہی خاموشی ، اس نے اپنا مخابرہ بند کرنے کے بجائے کھلا چھوڑ کر ایک اونچی جگہ پر رکھ دیا اور شیہک کے قریبا بیٹھ گیا ، تقریباً شام کے چار بج رہے تھے سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا جس کی وجہ سے مغربی اونچے پہاڑ کا سایہ بنتا جارہا تھا بس تھوڑی ہی دیر میں اتنا سایہ بن جائے گا کہ وہ دونوں اس سائے میں بیٹھ سکے ، بھوک کی شدت برقرار تھی لیکن بار بار بھوک مٹانے کیلئے شیہک پانی کے گھونٹ بھرتا جارہا تھا ، شیہک کو رات کا بے صبری سے انتظار تھا کیونکہ چاکر کہتا ہے کہ تاریکی گوریلہ کا سب سے بڑا ساتھی ہوتا ہے ، کافی دیر تک یونہی خاموشی رہی ہر کوئی اپنے خیالوں میں گم تھا ، چاکر کے ذہن میں محض اندیشے دوڑ رہے تھے کیونکہ ایک بار کیمپ سے نکلنے کے بعد ابتک اسکا رابطہ کسی سے نہیں ہوسکا تھا پتہ نہیں باقی کس حال میں تھے چاکر انہی خیالوں میں تھا کہ اچانک شیہک کے گلا صاف کرنے کی آواز نے اسے خیالوں سے نکال دیا اور خاموشی توڑتے ہوئے شیہک بولنے لگا \”میرا سب سے بڑا خوف موت نہیں اور نہ ہی خواری ہے بلکہ میرا خوف اپنے موت اور خواری کا ضائع ہونا ہے ، یہ خوف صرف اپنے لئے نہیں بلکہ سب زندوں اور سب شہیدوں کیلئے ہے کہ ہم نے جو قیمتی دوست اس رستے میں کھودیئے انکی شہادت کو کیا صحیح رخ دیا جائے گا ؟ یا کیا وہ واقعی میں صحیح رخ پر ہیں ، آج ہزاروں بلوچ اپنی زندگیاں لیڈرشپ کے حوالے کرکے اس جدوجہد میں شامل ہیں ، لیکن یہ خوف مجھے اکثر گھیرتا رہتا ہے کہ کیا واقعی یہ لیڈرشپ اتنی اہل ، باصلاحیت ، بے غرض ہے کہ ان قربانیوں اور قربان ہونے کو تیار زندگیوں کو ایک رخ دے سکیں ، حقیقت پوچھو تو ابتک قیادت اور رہنماوں کی سطح دیکھ کر یہ خوف مزید مستحکم ہوگیا ہے ، مجھے خون کے بہہ جانے کا خوف نہیں بلکہ میرا خوف یہ ہے کہ خون کا بہاؤ کسی غلط طرف نہ ہو ، چاکر کیا تم میرا یہ خوف دور کرسکتے ہو ؟ کیا تم مجھے یقین دلا سکتے ہو کہ اس خون کا بہاؤ درست جانب ہوگا ؟ تم تو دس سال سے اس جدوجہد میں ہو ہر تنظیم کو اور اسکے قیادت کو قریب سے جانتے ہو کیا یہ اتنے سارے سربراہ نظر آتے ہیں وہ رہنما اور لیڈر بھی ہیں؟ آج مجھے تم سے یہ جواب چاہئے کیا یہ لیڈرشپ عوام کو صحیح رخ دے سکیں گے؟\”چاکر اسکے باتوں کو غور سے سننے کے بعد خاموش ہوکر فضاؤں کو گھورنے لگا وہ اس سوچ میں پڑگیا کہ وہ کیا جواب دے ، جواب دے بھی کہ نہیں ، وہ اس بات کا جواب دینے کا اہل ہے بھی کہ نہیں پھر آخر کار اس نے خود اعتمادی سے عاری لہجے میں حلق سے بے ترتیب آواز نکالتے ہوئے بولنے لگا \” اف یہ لفظ عوام ، میں کبھی نہیں سمجھ سکا کون ہے ، کیا یہ خواص کا متضاد عوام ہے ؟ پھر خواص کون ہے؟ یہ میں کبھی جان نہیں سکا لیکن میں بس اتنا جانتا ہوں کہ لیڈر وہ ہے جو معاشرے میں عوام نہیں بلکہ لیڈر پیدا کرے ، لیڈر وہ ہے جو انبوہ کو جمہور بنائے ، ان میں فرق کیا ہے انبوہ محض بھِیڑ ہے اور جمہور صاحب رائے اجتماع ، ایک خشک بنجر زمین ہے اور دوسرا وہ زمین جس پر لیڈر کے افکار برسات کے پانی کی طرح برسے ہوں ، لیکن لیڈر ہے یا نہیں مجھے کچھ پتہ نہیں ،میں تو یہ مانتا ہوں کہ لیڈر ضروری نہیں ایک شخص ہو وہ ایک سوچ ، ایک اصول حتیٰ کے چند سطور بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ آگے لیجانا جانتا ہو ، لیڈر کی یہ \”عدم موجودیت\” کا خوف تمہارا بھی ہے اور میرا بھی شاید گروہوں کے لیڈر ہوں لیکن معلوم نہیں قوم کا کون ہے ، پتہ نہیں کوئی ہے یا کوئی بنے گا یا کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ \” نا ہونے اور عدم\” کا خوف محض تمہارا نہیں بلکہ میرا بھی ہے ، ویسے ہمارا تکلیف وہی ہے جو کسی اور صورت میں پورے نوع انسانی کا روز اول سے ہے ، ہم \” عدم \” کے شکار ہیں ، ہم عدم کے مارے ہیں اس نہ ہونے کا شکار ہیں ، انسان پہلے دن سے اس عدم کو پر کرنے کیلئے کبھی دیوتا تخلیق کرتا رہا ، تو کبھی بت تراشتا رہا اور کبھی ماتھا ٹیکتا رہا پھر سائنس کو گلے لگالیا لیکن اس عدم کو وہ ابتک پر نہ کرسکا وہ ابتک جواب نہ پاسکا ، اتنا وسیع کائنات اور ہمارا وجود اتنا چھوٹا شاید اس لئے ہم کبھی عدم کو ہستی میں بدل نہیں سکے ، ویل ڈیوارنٹ ہمارے اس انسانی خوف کو مزید بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ \”انسانیت حیوانیات کے بیچ ایک وقفہ ہے ، حیوانیات حیاتیات کے بیچ ایک وقفہ ، حیاتیات ارضیات کے بیچ ایک وقفہ ہے اور ارضیات فلکیات کے بیچ ایک وقفہ ہے \”، اب کاملیت کہاں ہے عدم کہاں ختم ہوگا ہم ابھی تک اسکے سمجھنے کے قریب نہیں پہنچے ، کرکیگارڈ اس \” عدمیت \” کو خدا سے دوری کہتا ہے ، سارتر اس \” عدمیت \” کو خدا کے نہ ہونے کا خلا سمجھتا ہے اور نطشے کی تو نظر میں اس \”عدمیت\” کی وجہ مرگ خدا ہے اور انسان اس عدم کو پر کرنے کیلئے پہلے دن سے آج تک کیا سے کیا جتن کرتا رہا ہے ، ہم بلوچ اسی طرح ایک اور ہی عدمیت کے شکار ہیں ایک اپنے ہی طرز کے عدم کے مارے ہیں ، شاید ہمارا عدمیت رہنمائی رہا ہے، رخ رہا ہے۔ ہم نے بھی اپنے اس خلاء کو پر کرنے کیلئے کتنے لیڈر بنا کر انکے سامنے سجدہ ریز ہوئے ، کتنے لیڈروں کے بت تراش کر اپنے ایمان ان کے حوالے کر بیٹھے اور کتنے درگاہوں پر اپنا جان سپرد کرکے اندھا یقین کر بیٹھے لیکن طریقہ اور رستہ حقیقی نہیں تھا اس لئے ہم کبھی اس عدمیت سے چھٹکارہ بھی نہ پاسکے ، اسی بارے میں میرا ہر دلعزیز تصوراتی دوست نطشے کہتا ہے کہ \”انسان نے عدمیت سے نجات حاصل کرنے کی تگ و دو میں مزید اسکی راہ ہموار کی اور یہی وہ افسوسناک سچائی ہے جسے زوال کہتے ہیں\” ، ہماری حقیقت بھی یہی ہے حقیقی رہنما کے جگہ کو پر کرنے کیلئے ہم نے اتنے جعلی رہنما بنانے کے دور ہوگئے لیڈشپ کے عدمیت سے نجات حاصل کرنے کے تگ دو میں ہم نے اسکی مزید راہ ہموار کی اور حقیقی رہنمائی سے دور چلتے گئے اور یہ ہمارا زوال ہے۔\”
شیہک اس جواب سے بالکل مطمئن نہیں ہوا اور نہ ہی وہ سمجھ سکا کہ چاکر بولنا کیا چاہ رہا ہے شاید چاکر کو خود پتہ نہیں ہے ، یا وہ بس اسے باتوں
میں گھما رہا ہے لیکن شیہک نے اپنی بات چاکر کے سامنے دوبارہ بے تکلفی سے رکھتے ہوئے کہا کہ\” چاکر تمہارے اس جواب سے میری تسلی نہیں ہوئی، مجھے کتابی اور خیالاتی باتوں میں نہیں گھماؤ آج صاف صاف دِکھ رہا ہے کہ اختلافات ہیں ، دوری ہے ، کوتاہیاں ہیں ، بیوقوفیاں ہیں ، ناسمجھیاں ہیں اور اوپر سے تنقید کا اودھم بھی مچا ہوا ہے ایسے عالم میں یہ ایک فطری سوال ہے کہ جو اپنا لہو بہانا چاہتا ہے وہ ضائع تو نہیں ہوگا؟\” بیچ میں ہی اسکی بات چاکر نے کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں بولنے لگا \” یار ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ تمہیں مجھے اور ہر کسی کو غلط جانے کا ڈر ہے ، اختلافات ، دوریاں ، کوتاہیاں ، بیوقوفیاں اور نا سمجھیاں دِکھ رہی ہیں تو پھر ہمیں ان پر سوال اٹھانے پر کیوں پریشانی ہے؟ اہم چیز یہ غلطیاں ہیں ان غلطیوں پر سوال اٹھانا اتنا اہم نہیں کہ ہم ان غلطیوں کو بھول کر بس اس سوال اور تنقید کے پیچھے پڑجائیں ، ہم نے اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنادیا ہے ، شیہک میرا یقین کرو فکری افلاس اور فکری زوال کی آخری حد تب شروع ہوتی ہے جب ہم اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم سمجھنے لگیں ، اتنا تو سوچو سوالات نے غلطیوں کو جنم نہیں دیا ہے بلکہ غلطیوں نے سوالات کو جنم دیا ہے، کسی کا تخت و تاج چار سوالوں سے چلا نہیں جائے گا سب مفت میں ہڑبڑائے ہوئے ہیں اور نا ہی کوئی اتنا کامل و پارسا یہاں موجود ہے کہ اسے سوال و تنقید سے مبرا قرار دیں حتیٰ کے ہم بھی نہیں غلط ہم سب ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں احساس ہے ، کیا تم نے کبھی زیر تعمیر سڑکوں پر یہ بورڈ پڑھا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ \”خبردار آگے راستہ خطرناک ہے\” تنقید بس وہی بورڈ ہے، بس بتاتا ہے کہ راستہ خطرناک ہے اس رستے پر چلنا یا نہ چلنا گاڑی چلانے والی کی مرضی ہوتی ہے ، تم پوچھ رہے ہو کہ بہتے خون کا رخ صحیح ہے یا نہیں؟ پھر بس منزل کو دیکھنے سے تمہیں پتہ نہیں چلے گا ، آنکھیں جھکا کر رستے کو بھی دیکھو کہ یہ صحیح راستہ ہے یا نہیں اگر صحیح نہیں بھی ہے تو پھر صحیح راستہ ڈھونڈ کر چلو کیونکہ اسکے سوا اور کوئی چارہ نہیں\” شیہک نے کمر بندھ باندھتے ہوئے دوبارہ چاکر کے منہ سے الفاظ چھینتے ہوئے کہا\” وہ تو صحیح ہے چاکر لیکن یہ گالیاں اور بدتمیزیاں تو راستہ ڈھونڈنا نا ہوئے نا\” یہ بات سن کر چاکر نے ایک دم ہنسنا شروع کردیا، شیہک آج صبح سے ابتک پہلی بار اسے ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ بھی ساتھ آہستہ آہستہ ہنستے ہوئے چاکر کے گھٹنے پر خفت سے ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگا\” کیوں ہنس رہے ہو یار \” چاکر نے ہنسی کو روکے بغیر شیہک کی طرف دیکھ کر بولنے لگا \”شیہک جان ہم بھی کرکیگارڈ بنیں کیا؟\” \” کیا مطلب \” شیہک نے دوبارہ استفسار کیا \” میں تم پر نہیں ہنس رہا مجھے ایک بات یاد آگئی جسے شہید زباد نے مجھے سنایا تھا بات تو اتنی بڑی نہیں تھی لیکن ہم بہت ہنسے تھے بس وہی ماحول بنتا دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی ، ڈنمارک میں کرکیگارڈ نام کا ایک فلسفی رہتا تھا، وہ جسمانی لحاظ سے بہت بدصورت تھا لیکن فکری لحاظ سے زرخیز ، ان دنوں فلسفے کی دنیا میں ہیگل کا کوئی ثانی نہیں تھا اور کوئی اس کے افکار سے ٹکر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن کرکیگارڈ اس سے اختلاف رکھتا تھا اسلئے اس نے نا صرف ہیگل پر بلکہ چرچ پر بھی تنقیدی مضامین اور کتابوں کے لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا وہ اپنے دور میں عیسائی ہونے کے باوجود چرچ پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والا شخص بن گیا ، اسے لگا میں دنیا کو ایک نئے خیال اور سوچ سے بہرہ آور کراوں گا لیکن شاید وہ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوا تھا اس لئے وہ ایک طرف فلسفے کی دنیا میں اور دوسری طرف چرچ پر تنقید کرنے کی وجہ سے ڈنمارک کے سڑکوں پر ایک تمسخر کی علامت بن گیا ، وہ جہاں سے گذرتا لوگ اسکی پتلی ٹانگوں اور طوطے جیسے ناک پر بھپتیاں کستے ، اسکے بدصورت چہرے پر ہنستے ، اسے گالیاں دیتے حتیٰ کے اخباروں میں اسکے بدصورت کارٹون بھی روز چھپنے لگے آخر کار وہ اتنا تنگ آگیا کہ گھر سے نکلنا ہی چھوڑدیا۔ اسے پہلے لگا تھا کہ اسکے افکار کے جواب میں سامنے سے بھی لکھا جائے گا اور ایک اچھے بحث کا آغاز ہوگا لیکن یہاں اسکی زندگی اجیرن ہوگئی پھر تنگ آکر اس نے ایک اور قلمی نام سے اپنے مضامین پر خود ہی تنقید کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف اپنے اصلی نام سے اس تنقید کا جواب دینے لگا پھر دوسرے نام سے اس جواب کا جواب دیتا اسکے قلمی نام کا کسی کو پتہ نہیں تھا اسلئے دیکھتے ہی دیکھتے اخباروں میں ایک سنجیدہ بحث شروع ہو گئی ، اس بحث نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی اور آج اسی کرکیگارڈ کو \” وجودیت پسندی \” کا باوہ اعظم کہا جاتا ہے جس کے افکار پر نطشے ، ہائیڈیگر اورسارتر جیسے بلند پائے کے دانشوروں نے اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ اسی بات پر شہید زباد نے کہا تھا کہ اب ہمیں گالیاں مل رہی ہیں تو کیا کریں ہم بھی کرکیگارڈ کی طرح اپنا جواب خود دیں کیا؟ پھر ہنستے ہوئے جب اس نے یہ کہا کہ ہم نا تو کرکیگارڈ کی طرح بدصورت ہیں اور نا ہی اتنا ذہین پھر ہم جائیں بھی تو کہاں جائیں اس بات پر ہم دونوں بہت ہنسے تھے آج بس وہی بات یاد آگئی\” اپنی بات پوری کرتے ہی چاکر دوبارہ سے ہنسنے لگا اور اسکے ساتھ شیہک بھی ہنسنے لگا اور ہنستے ہنستے شیہک نے کہا \”او چاکر ایک بات بولوں میں نے کرکیگارڈ کی تصویر دیکھی ہے قسم سے ڈنمارک والوں کا کوئی قصور نہیں تھا\” اس بات پر چاکر اور زور سے ہنسنے لگا۔ اسی ہنسی میں انہیں دوبارہ ہیلیوں کی آواز آنے لگی انکی آواز بہت دور نہیں تھی اور تیزی سے نزدیک سے نزدیک آرہی تھی ، \” شہیک جلدی سے لیٹ جاؤ ہیلی ہیں \” چاکر یہ کہتے ہی اٹھ کر بالکل کونے میں منہ کے بل لیٹ گئے اور اپنے جسم کو بالکل سکیڑ دیا ، پھر اچانک ہیلی کی آواز اتنی تیزی سے انکے سماعتوں سے ٹکرانے لگی کے انہیں اور کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک گولیوں کی ایک بوچھاڑ شروع ہوگئی چٹانوں پر گولیاں لگنے سے پتھر ٹوٹ ٹوٹ کر چاکر کے اوپر گر رہے تھے اس نے اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھے تاکہ پتھروں سے بچ سکے، فائرنگ کی آواز رکی اور ہیلی فائرنگ کرتے ہوئے گذر گیا ، چاکر وہیں لیٹا رہا جب شور کچھ کم ہوا تو اسنے زور سے بولا \” شہیک تم ٹھیک ہو نا ؟\” سامنے سے کوئی جواب نہیں آیا شاید شور کی وجہ سے شیہک سن نہیں سکا ، چاکر لیٹے لیٹے زور سے بولا \” شہیک ؟\” پھر سے خاموشی اب اس خاموشی میں منحوسیت کا شبیہہ بھی تھا، چاکر مٹی سے غرق جلدی جلدی اٹھ گیا اور شیہک کی طرف دیکھنے لگا، پھر آہستہ آہستہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے شہیک کے قریب رک گیا۔ وہ منہ کے بل پڑا ہوا تھا اسکے قریب خون کا چھوٹا سا تالاب بنتا جارہا تھا، چاکر نے سر کے پچھلے حصے کو جسم سے دور اور باہر نکلتی ہوئی مغز کو دیکھنے کے بعد نبض پر انگلیاں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، ایک گولی سیدھا اسکے سر کو پھاڑ کر نکلا تھا۔ چاکر اسکے بالکل سامنے بیٹھ گیا اور پہلی بار اسکے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا، اسے پہلی بار احساس ہوا کہ شیہک کی ہلکی داڑھی اسکے گورے رنگت پر بہت جچتا ہے ، اسکی عمر بیس بائیس سال سے زیادہ نہیں ہوگی ، سر کے بیچ سے مانگ نکالنے کی وجہ سے اسکے
بال اکثر اسکے چہرے پر آجاتے تھے اور وہ اپنے ہاتھوں سے انہیں پیچھے کردیتا تھا ، اب وہی بال اسکے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے ، چاکر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بکھرے بالوں کو اسکے چہرے سے ہٹانے لگا جس سے چاکر کے ہاتھوں پر اسکا خون لگ ، چاکر اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھنے لگا خون ابھی تک گرم تھا پھر اسکے سر سے نکلتے ہوئے خون کو غور سے گھورنے لگا وہ اسکے سر سے بہتے ہوئے ایک چھوٹے سے گھڑے میں تالاب کی صورت میں جمع ہورہے تھے گھڑے کے بھر جانے کی وجہ سے اب وہ آہستہ آہستہ باہر بہنا بھی شروع ہوگئے تھے۔ چاکر بہت غور سے اس بہتے خون کے رخ کو دیکھ رہا تھا شاید اسے شیہک کا جواب مل جائے کیونکہ شہیک کو تو مرنے اور خون کے بہہ جانے سے ڈر نہیں لگتا تھا اسکا ڈر تو یہی تھا کہ خون کے بہاؤکا رخ کسی غلط جانب نا ہو ، وہ کافی غور سے خون سے بھرے گھڑے کو تکتا رہا پھر شیہک کی چہرے کو دیکھ کر زور سے بولنے لگا \”شیہک جان میں نے بہت غور کیا لیکن مجھے پتہ نہیں چل رہا ہے کہ خون کے بہاؤ کا رخ صحیح جانب ہے یا اسکا رخ غلط ہے، ہاں میں اتنا سمجھ پایا ہوں خون جمع ضرور ہورہا ہے تم ڈرو نہیں اسے بہنے کیلئے ضرور صحیح رخ مل جائے گا\” یہ کہنے کے بعد چاکر وہیں ساکن کافی دیر تک شیہک کو تکتا رہا پھر اٹھ کر دور پڑے گہرام کے دیئے ہوئے چادر کو اٹھایا اور شیہک کے اوپر ڈال کر دوبارہ خاموشی سے بیٹھ گیا ، اتنے میں ایک آواز نے یہ خاموشی توڑ دی اس نے دوبارہ سننے کی کوشش کی تو پتھروں کے نیچے سے مخابرے سے آواز آرہی تھی\”ہیلو چاکر ہیلو ، ہیلو چاکر ہیلو \” چاکر سوچ رہا تھا کہ کاش کے یہ آواز تھوڑی دیر پہلے آتی وہ کب سے یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ شیہک کو بھوک لگی ہے کسی دوست کے ہاتھوں کچھ کھانے کیلئے اسطرف بھیج دو ، وہ اٹھا اور پتھروں کے نیچے سے مخابرے کو نکال کر اسکا \” کلچ \” دباتے ہوئے زور سے بولا \” جی \” سامنے سے گہرام کی آواز تھی \”تم لوگ ٹھیک ہو اور شیہک تمہارے پاس ہے ؟ \”چاکر شیہک کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا پتہ نہیں شیہک اسکے پاس ہے یا نہیں لیکن اسنے دوبارہ کلچ دباتے ہوئے کہا \”ہاں شیہک میرے ساتھ ہے\” سامنے سے دوبارہ گہرام کی آواز آئی جو کوڈ میں بول رہا تھا \”ہم بکریوں کے قریب والے پہاڑی پر ہیں تم دونوں ادھر آجاؤ\” چاکر نے دوبارہ کلچ دباتے ہوئے کہا \” نہیں، ہم گھٹ پر ہیں تم کچھ دوستوں کو بھیجو اور ساتھ کمبل بھی بھیجنا شیہک کو لانا ہے\” گہرام اسکی بات سمجھ گیا اور ایک ہی وقت میں دونوں طرف سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز