سه‌شنبه, آوریل 23, 2024
Homeآرٹیکلزغداری کا کلنک ; تحریر:مہراب مہر

غداری کا کلنک ; تحریر:مہراب مہر

زندگی حسین یادوں کے سہارے و حسین تصورات کے بیچ سفر کر کے بلوچستان کی خاک چھانتا رہا۔وطن کے گوشے گوشے میں آزادی کا حسین نعرہ لگ رہا تھا نوجوانوں کے دلوں میں جوش و ولولہ پنپ رہا تھا آزادی کے حسین نعمت کو وہ سمجھ چکے تھے جو لوگ فکری بنیادوں پر تحریک سے جڑ گئے وہ تحریک کے ہی وہ گئے جو لوگ ذاتی و گروہی مفادات کے لیے تحریک کا حصہ بن گئے وہ وقت و حالات کے تحت ڈگھمگا تے گئے ہر سخت ترین حالات میں انکے رویوں میں تبدیلی آتی گئی اور تحریک انھیں اپنے اندر سے مردہ کر کے نکالتی رہی ۔ ویسے بھی کوئی بھی تحریک یا تنظیم فکر و نظریے کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے اور جو لوگ شعوری طور اس ادارے یا نظریے سے جڑ جائیں گے وہ اس نظریے کے پھیلاؤ کو اپنا مقصد و منزل سمجھیں گے۔ اور اسی مقصد کے تحت وہ اپنے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ گزشتہ بیس سالوں سے تحریک آزادی کی جنگ بلوچستان کے کونے کونے میں جاری ہے۔ان بیس سالوں میں وطن کے کئی سورما وطن کی مٹی کے ہو کر رہ گئے وہ کئی اس مٹی کے ساتھ غداری کر کے اپنی پیشانی پر سیاہ دھبہ لگا کر تاریخ میں بدنامی کا نام لیکر زندہ بدست مردہ ہو گئے ۔ تحریک سمندر کی مانند اپنے اندر مردوں کو ساحل پر لے آتی ہے اسی طرح تحریک میں کمزور و غیر شعوری لوگ جلد از جلد میدان چھوڑ کر ریاست کی طاقت سے خوف زدہ ہو کر غداری کا کلنک اپنے پیشانی پر لگا لیتے ہیں۔ بلوچ جہد آزادی کی ابتدا شعوری حوالے سے ہوئی لوگ جوق درجوق تحریک کا حصہ بنتے گئے جب تحریک کی شدت زور پکڑتی گئی تو ریاستی ظلم و جبر میں اضعافہ ہوتا گیا۔ تو کمزور ذہنیت و سوچ کے مالک افراد آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کرتے گئے چونکہ وہ پختہ یقین نہیں رکھتے تھے کہ بلوچستان آزاد ہوسکتا ہے بلکہ وہ ماحول سے متاثر ہو کر تحریک کا حصہ بن گئے تھے۔بلوچ تحریک میں جو لوگ قباعلی سوچ کے تحت نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ جہد آزادی کا حصہ بن گئے وہ زیادہ تر قبائلیت کی چاپ لیے تحریک میں نمودار ہوئے۔اور دو تین سالوں میں ہی وہ تحریک سے کنارہ کش ہوکر ریاست کے بغل بچہ بن گئے وہ سرنڈر ہو کر تمام قومی وسائل کو ریاست کے سامنے ڈھیر کرتے گئے۔ شاہد وہ سمجھ بیٹھے تھے ۔کہ جہد انکی مرحوم منت چل رہی تھی انکے سرنڈر ہونے سے جدوجہد ختم ہو جائے گی۔ویسے بھی ہر انسان اپنے تہی انھی خیالات کے آثار میں گرفتار ہوگا اور جلد ہی ان پر حقیقت فاش ہوگی تو وہ نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔ کیونکہ جو لوگ اپنے وطن کے ساتھ وفا نہ کر سکے وہ کسی اور کے ساتھ کیا وفا کرینگے۔ جو اپنے وطن کے نہ ہو سکے وہ دشمن کے لیے کیا کرسکیں گے۔ کیونکہ جو لوگ موت کے خوف میں مبتلا ہو نگے اور دنیا عیش عشرت کی زندگی کو اپنا مقصد بنا لینگے۔ وہ کئی بھی کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ غداری سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے دور نہ جائیں بنگال کے جعفر و دکن کے صادق کو لے لیں جھنوں کی غداری کر سراج الدولہ و ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کر کے دنیا کی تاریخ میں بد نما داغ بن گئے اور آج ٹیپو سلطان و سراج الدولہ ہندوستان کی تاریخ میں نامور کردار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں جبکہ وہی پر جعفر و صادق تاریخ میں غدار کے طور پر یا د کیے جاتے ہیں اور غداری ایک ایسا کلنک ہے جو کسی قوم قبیلے میں کوئی ایک فرد ایسا گھناونا عمل کرتا ہے تو قبیلے کا کوئی بھی فرد اس پر لعنت کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے ساتھ اپنے تمام رشتوں کو توڑ دیتے ہیں آج جعفر و صادق کے ساتھ اسکے خاندان واے اپنا شجرہ نصب نہیں جوڑتے وہ ان کو اپنے لیے عیب تصور کرتے ہیں کیونکہ انکے عمل سے وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں غداری کا کلنک رہتی دنیا تک رہتا ہے جس طرح شہید کے قربانیاں رہتی دنیا تک رہتے ہیں اسی طرح غدار کا بدنما کردار تاریخ کی بدترین صحفوں میں محفوظ ہو تا ہے۔ کسی جدو جہد یا جنگ کسی بھی قوم و ملک میں دشمن کے خلاف جنگ کرنے والے و قربان ہونے والوں کی کمی نہیں ہوتی اسی طرح وہاں غداربھی اپنے سیاہ کرتوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں وہاں پر ایسے واقعات کا تسلسل دیکھنے کو ملے گا۔ نورا مینگل انگریزی غلامی کے خلاف کمربستہ انگریزوں کے خلاف جنگ کر رہا تھا انھوں نے کئی محرکوں میں انگریزوں کو شکست دے دی تھی۔ انگریزی حکومت نے نورا مینگل کی گرفتاری کے لیے مختلف لوگوں کو مراعات دے رہا تھا۔ تو نورا مینگل پناہ کی غرض سے نواب خاران حبیب خان نوشیروانی کے ہاں پناہ لے لی لیکن نواب خاران حبیب خان نوشیروانی نے وطن کے اس سچے فرزند کو وطن کے ساتھ غداری کر کے انھیں انگریزوں کے ہاتھ میں دے دیا وہ تاریخ کا سیاہ باب اب بھی ہر بلوچ تاریخ میں دیکھنے کو ملے گا۔ اپنے قوم و وطن سے غداری کا انجام عبرتناک موت کے ساتھ ساتھ ذلت کا بد نما داغ اسکی موت کے بعد بھی اس کا نصیب ہی ہوگا۔ بلوچ جہد ہو یا کوئی اور جہد ۔ ہر جد وجہد میں اپنے دوستوں کے ساتھ غداری و دشمن کے ساتھ ملی بھگت کے کئی قصے موجود ہیں۔ لیکن ہر قصے کا انجام بد نما موت و ذلت کے سوا غدار کو کچھ نہیں ملا ہے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے کھبی دشمن کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو کئی جہد کار کا۔ فتح و شکست وقت و حالات محل و وقوع طاقت و حکمت عملی پر منعصر ہوتا ہے ۔ شکست کے خوف سے دشمن کے ساتھ مل کر اپنے جہد و وطن کے خلاف کام کرنا ذلت کا وہ بد نما داغ ہیں جسے صدیوں سالوں تک ہزاروں لوگ اپنے خون سے بھی دھو نہیں سکتے۔ تاریخ کی بے رحمی نے صادق و جعفر کو ذلت و بدنامی کے استعارے کے طور پر پیش کر چکاہے اگر کسی کو سبق سیکھنا ہے تو وہ صادق و جعفر سے سبق سیکھ لیں وہ خان خاران سے سبق سیکھ لیں وہ رازق بگٹی سے سبق سیکھ لیں۔ یہ متحریک عمل ہے یہ تحریک خدانخواستہ کمزور پڑ جائے تو بھی تاریخ میں بنگان ثناء غدار ہی کہلائیں گے۔ اور جن کے لیے انھوں نے اپنے وطن کے ساتھ غداری کی۔ وہ دشمن بھی انھیں غدار ہی کہے گا۔ کیونکہ انھوں نے اپنے وطن کے ساتھ غداری کی ہے۔ اور غداری ایک ایسا کلنک ہے جسے آپ جس مقصد کے لیے اپنائیں۔ چاہے وہ پیسے کی لالچ ہو نام و نمود و حیثیت کی ہو۔چاہے موت سے بچنے کے لیے ہو۔وہ تاریخ میں بد نما داغ ہی بن کر رہے گا۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر مر ا نہیں بلکہ زندہ ہو گیا کیونکہ اس زہر کے پیالے نے اسکی سچائی کونئی زندگی دی اور دنیا کے ہر زبان و قوم میں وہ سچائی کی علامت بن کر زندہ رہ گیا۔بینڈکٹ آرنلڈ امریکی انقلاب کے میں کامیاب کمانڈر ہونے کے باوجود برطانیہ کے ساتھ مل گیا اور اپنے وطن کے خلاف برطانیہ کی فوج کی جانب سے لڑا اور اسے اسکے وطن نے اپنی مٹی نصیب نہیں ہونے دی وہ غداری کے کلنک کے ساتھ برطانیہ میں ہی مرا۔ اور تاریخ میں غدار کا تاج پہن کر کلنک کے ساتھ رہتی دنیا تک زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ غداری ہر تحریک و قوم کا خاصہ رہا ہے ہر قوم و وطن میں غدار پیدا ہوئے ہیں جسطرح وطن کے لیے مر مٹنے والوں کی کمی نہیں اسی طرح غداروں کی بھی کمی نہیں۔ انگریزوں کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت میں جرنل ڈائر کا دست راست عیدو نے غداری کی مثال قائم کی انھوں نے انگریزوں کو سادہ لوح بلوچوں کو دھوکہ دینے اور انھیں انگریزی غلامی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تاریخ میں وہ عیدو غدار کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔بلوچ جہد آزادی کے خلاف کام کرنے والوں کی صورت میں ہو جیسے کہ شفیق مینگل ثناء اللہ زہری جیسے سانپ بلوچ تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر جانے جائیں گے اسی طرح اور بھی بہت سے کردار ہیں جو اپنے وطن کی خلاف دشمنوں کے ساتھ ہم رکاب ہیں شاہد آج وہ دنیاوی نام و نمود شہرت و حیثیت میں بہت بڑے نام نظر آئیں لیکن تاریخ کی بے رحمی میں وہ تاریخ کے سیاہ باب کا ہی حصہ رہیں گے کیونکہ جس نے تاریخ میں غداری کی ہے وہ اپنے وطن میں اپنے سیاہ کرتوں کی وجہ بدنامی و ذلت کا نشان بن گئے ہیں۔ غداری کسی مجبوری بے بسی کے پیچے ڈھکی چھپی نہیں جاسکتی۔ کیونکہ غداری اپنے وطن و اپنے سوچ کے خلاف دشمن کا حصہ بننا ہے چاہے اسے کسی بھی مجبوری کا نام دیا جائے وہ غداری ہی ہوگی۔ جو موت کے بعد تذلیل کا تاج پہنائے گی۔ بلوچ جہد آزادی میں غداروں کی کمی نہیں۔ اور غدار تو شروع سے ہی تھے لیکن کچھ لوگ جہد آزادی کا حصہ بن کر حالات کے تاب نہ لاتے ہو ئے دشمن کے سامنے ڈھیر ہوگئے ۔ اگر انھیں کوئی بھی نام دیا جائے لیکن انھوں نے غداری کا تاج پہن لیا ہے وہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دشمن کے صف میں کھڑے ہیں۔بلوچ جہد آزادی میں آج جس رفتار سے کلاتی و موالی عیدوستار بگٹی وغیرہ جیسے کردار جس بھی وجہ سے دشمن کے سامنے سرنڈر ہوتے ہیں وہ غدار ہی کہلائیں گے کیونکہ انھوں نے اپنے جہد آزادی کے ساتھ خوف موت یا زر زمین و عیاشی کے لیے سرنڈر ہوئے لیکن جس طرح تاریخ کا بدنما داغ اپنے پیشانی پر کلنک بنا کر چلے گئے وہ اب دھلنے والا نہیں۔یہ تحریک ہے یہ چلتی رہے گی اتار چڑھاؤ تحریکوں کا خاصا رہے ہیں تحریک کی ضمانت اسکے وہ تضادات ہیں جو کہ دو قوموں کے بیچ ہوتے ہیں وقت کے ساتھ یہ تضادات ابھرتے جاتے ہیں لیکن جو لوگ اس وقت تحریک کا حصہ ہیں جو تحریک کا حصہ ہو کر اب دشمن کے ہم رکاب بنیں گے انکی موت ہر حال میں آنی ہے موت برحق ہے لیکن وہ موت بدنامی کا داغ لیے زمین کے ساتھ دھوکہ دہی و بے وفاہی کا کلنک اس شخص کے کردار کو تہس نہس کردے گا۔ رازق بگٹی جس شخصیت کے مالک تھے وہ بی ایس او کے زمانے میں ایک نامور لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے تھے لیکن جس انداز سے اس نے بلوچ قومی تحریک کے خلاف کام کیا اور اپنے ہی ہم زبان ہم ثقافت لوگوں کا خون پنچابی کے کہنے پر بہایا اور اس دوران وہ ایک نامی گرامی کردار بن چکے تھے لیکن ریاستی کرسی و حیثیت کا کوئی بھروسہ نہیں۔آپکی شخصیت و کردار اس کرسی سے مشحق نہیں بلکہ آپ کا وہ عمل وہ کام جو آپ اس دوران کرتے ہیں جس سے آپ کا کردار بنتا ہے وہی زندہ رہتا ہے رازق بگٹی نے جو موت پائی وہ ہر ایک لیے ایک عبرتناک انجام ہے جو وطن کے ساتھ غداری کرتے ہیں جب آپ اپنے وطن کے ساتھ غداری کرتے ہیں تو اس دشمن سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنا چہیتا بنائے گا۔ لفظ غداری انکے محفلوں کی زینت بنے گی۔ کہ یہ اپنے بھائیوں کے قاتل میں ہمارا ہمنوا بن سکتا ہے تو کل یہ پیسے کے لیے کسی اور کا ہم رکاب کیسے نہیں بن سکتا یہ اپنے بلوچستان کا نہ ہوسکا تو یہ پاکستان کا کیسے ہو سکے گا۔
یہ غداری یہ دھوکہ دہی انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے رہے ہیں اور خاص کر سیاسی میدان و جنگ میں مفادات کے بیچ بچاؤ میں ایسے کردار سخت ترین حالات میں پہچانے گئے ہیں ۔اور انکی پہچان ہی تحریک کو مزید مضبوطی کی طرف لے جائے گا۔ کیونکہ یہی سے حساسیت مزید زیادہ ہو جائے گی۔اور زیادہ باریکی کے ساتھ کرداروں کو پہچاننے کا موقع ملے گا۔ ہر تحریک آزادی میں ایسے کرداروں کی کمی نہیں رہی ہے اور نہ ہی رہے گی۔ الجزائر کی تحریک آزادی کی بنیاد رکھنے والا سید عبدالقادر گرفتاری کے بعد الجزائر کی تحریک آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آئے اور الجزائر کی آزادی کیلئے جدوجہد کو اپنی غلطی قرار دیا۔ لیکن الجزائر عمر بن بیلا کی قیادت میں آزاد ہوا لیکن سیدعبدالقادر آج بھی ایک غدار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں اور بلوچ جہد آزاد ی میں بھی کلاتی کی طرف آج جتنے لوگ دشمن سے گلے مل چکے ہیں وہ اپنے لیے غداری کا لقب لے چکے ہیں ۔ انھیں بلوچ وطن اپنے ساتھ غداری کے بدلے بدترین انجام سے دو چار کرے گا انکو کفن بھی نصیب نہیں ہوگا۔ وہ جس قبرستان میں دفن ہوں اس قبرستان میں وہ غدار کے لقب سے یاد کیے جائیں گے۔ بلوچ جہد آزادی کے ان بیس سالوں میں بہت سے لوگ جہد آزادی کے ساتھ چل نہ سکے خاموشی اختیار کر کے گمنامی کی زندگی کو نیک نامی کی موت پر ترجیع دے کر وطن کے دشت و بیابان میں اپنے مردہ ضمیر کے ساتھ زندہ ہیں اور ساتھ ساتھ اس دوران بہت سے لوگ جہد آزادی کی شدت کے ساتھ دشمن کے جبر و ظلم سے حواسہ باختہ ہو کر خوف کے سایہ تلے دشمن کے ساتھ گھل مل گئے۔ اور اپنی بندوقیں ریاست کے ہاتھ میں دیکر وہ خوش ہیں کہ وہ موت سے بچ گئے لیکن یہ نہیں جانتے کہ عبرتناک موت بھی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے جو کردار نام کماتے ہیں یا تاریخ میں عظمت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں وہ کردار اپنے فکر و سوچ پر قائم و دائم رہ کر بے عزتی کی زندگی سے موت کو ترجیع دینگے۔ آج بلوچ جہد میں جو لوگ جہد آزادی کو ایڈونچر سمجھ کرشامل ہوئے تھے وہ تو آہستہ آہستہ اپنے گھروں کی زینت بن گئے اور جو لوگ مضبوط فکر و سوچ کے تحت وطن کے آزادی کے لیے اپنی نجی زندگی کو عظیم مقصد کے لیے قربان کر گئے ان کا کردار تاریخ کے سنہرے حروف میں نقش ہوچکا ہے۔جو غداری کا کلنک اپنی پیشانی پر لگا چکے ہیں وہ غداری کے استعارے بن کر رہیں گے جسطرح صادق و جعفر آج غداری کے استعارے بن چکے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے بینڈکٹ ارنلڈ ایک جرنل ہوتے ہوئے اپنے ملک کے ساتھ غداری کی اور اس غداری کا انجام اسے اپنے وطن کی مٹی نصیب نہیں ہونے دی ۔اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو ہر تحریک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کچھ پیسوں کے لیے اپنی دھرتی کا سودا کرچکے ہیں۔ اور یہ صورتحال بلوچ قومی تحریک میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ہر شخص اپنے کردار کا ذمہ دار ہے کیونکہ جہد آزادی کی سوچ ہر ایک کا اپنا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سوچ کے تحت تحریک سے جڑ جاتا ہے لیکن کچھ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ اور جب تحریک میں ایسے مفاد پرستوں کے لیے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ پتلی گلی سے راہ فرار اختیار کر کے ریاست کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ بلوچ تحریک میں ایسے افراد جو کہ نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد جوق درجوق سرنڈر ہوئے ایک طرف سے وہ سرنڈر ہو رہے تھے تو دوسری طرف بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ تحریک کا حصہ بن رہے تھے کیونکہ وطن سے محبت کا ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے جو لوگ ایک ہی وقت میں سرنڈر ہورہے تھے تو دوسری طرف ایسے نڈر و بہادر نوجوان وطن کے لیے مرمٹنے پر تیار تھے کیونکہ انھیں یہ اداراک تھا کہ وطن آزاد ہو یا نہ لیکن وہ اپنا فرض نبھا کر ہی چلیں گے۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو بلوچ جہد آزادی میں زیادہ تر وہی لوگ سرنڈر ہوئے ہیں۔ جو بلوچ تحریک میں کوئی خاص کرادار کے مالک نہیں تھے اگر وہ کسی بھی دور میں تحریک میں ذمہ دار رہے تھے ان سے انکی ذمہ داری انکے سیاہ کرتوں کی وجہ سے ان سے لی گئی تھی۔اور وہ کسی بھی چو ر راستے کے متلاشی تھے۔ اور وہ ریاستی ظلم و جبر کو دیکھ کر اس حد تک خوفزدہ ہوئے کہ انھوں نے اپنی بندوقیں پھینک دی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کافی عرصہ پہلے سرنڈر ہوچکے تھے انکے خیالات و سوچ بہت پہلے سرنڈر ہو گئے تھے ان کا جسم و جان صرف ادھر تھا جبکہ انکے سوچ ریاست کے سامنے سرشگون تھا۔
تحریکوں کو ایسے لوگوں کے سرنڈر ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی سے پہلے تحریک کے اندر مسترد ہوچکے تھے انکو صرف ایک فیصلے کی نوعیت کے مطابق دیکھا جاتا تھا کہ بلوچ ہونے کے ناتے انھوں نے تحریک جوائن کرلی لیکن بعد کے حالات میں وہ نہ چل سکے تو وہ ریٹائرڈ ہو کر تحریک کے لیے بوجھ بن چکے تھے اب ریاست انھی ناکردہ کرداروں کو بڑے بڑے تاج پہنا کر یا کمانڈر بنا کر تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش میں ہے جو اپنے تحریک میں مسترد کردار بن چکے تھے وہ دشمن کے لیے بدتر ہونگے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دشمن ایسے افراد کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے تحریک کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ تاکہ وہ تحریک کے ہاتھوں مارے جائیں بالفرض اگر وہ تحریک کے ہاتھوں مارنے سے بچ بھی گئے تو ریاست کسی بھی طرح ایسے کرداروں کو معاف نہیں کرے گاے کیونکہ یہ غدار غدار ہی رہیں گے اسی لیے دشمن بھی انھی اپنے لیے زہر قاتل سمجھے گا۔ اور جلد ہی یہ مختلف طریقوں میں مارے جائیں گے۔ اور نہ رہیں گے گھر کے و گھاٹ کے۔ یہ دھوبی کے کتے بن کر بلوچ تاریخ کے سیاہ ابواب میں یاد رکھے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز