جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںفورسز نے آواران ضلع کے کئی گاؤں پر فضائی و زمینی حملوں...

فورسز نے آواران ضلع کے کئی گاؤں پر فضائی و زمینی حملوں کے بعد محاصرہ کیا ہوا ہے، بی این ایم

کوئٹہ(ہمگام نیوز)بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ قابض ریاستی فورسز نے آواران ضلع کے کئی گاؤں پر فضائی و زمینی حملوں کے بعد محاصرہ کیا ہوا ہے، یہ محاصرہ آج چھٹے روز بھی جاری رہا، جس کی وجہ سے کسی کی بھی خیریت دریافت نہیں ہورہی ۔آج بھی زیرک گاؤں سے دھواں اُڑتا دکھائی دیا ہے۔ زیرک ، وہلی، رحیمو بازار، مُلّا حاجی زیارت گاؤں اور آسکانی کوہ و چنوکی پہاڑی پر شدید بمباری سے کئی لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔گاؤں اور پہاڑی علاقوں میں بمباری سے کئی عام لوگوں، چرواہوں اور ان کی مال مویشیوں و زراعت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے مگر تاحال گھیراؤ کی وجہ سے ان نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا مگر اس محاصرے سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ کئی انسانی جانوں کی ضیاع اور اپنی مظالم کو چھپانے کے لئے آمد و رفت کے تمام راستے بند کرکے ثبوت مٹانے کی کوشش کی جارہی ہیں، اس ضمن میں مقامی و بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ علاقے کا دورہ کرکے مظالم کو اجاگر کرکے اپنا حقیقی کردار ادا کریں ۔ اس آپریشن و تشدد کو وسعت دیتے ہوئے آج میہی گاؤں کو ایک دفعہ پھر گھیر کر خواتین و بچوں پر تشدد کی گئی۔ شہید سلیمان بلوچ کی والدہ کو فورسز نے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور چار گھنٹے بعد چھوڑ دیا، اس وحشت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، اس سے تین ہفتہ پہلے اسی میہی گاؤں کی اکثر گھروں کو مارٹر سے گراکر تباہ کیا گیا تھا۔آج بھی شہید رحمت بلوچ کے گھروں کو جلایا گیا۔ مشکے فورسز کیمپ میں کئی نئے دستے خضدار اور آواران سے آکر ایک اور بربریت کی تیاری کر رہے ہیں۔ترجمان نے بی این ایم کے رمضان بلوچ کی گمشدگی کو 24 جولائی کو پانچ سال مکمل ہونے پر ان کی ہمت و جرات کو بلوچ جہد آزادی کیلئے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 24 جولائی 2010 کو زیرو پوائنٹ سے رمضان بلوچ کوفورسز کے اہلکار ان کے بیٹے علی حیدرو دوسرے چشم دید گواہوں کے سامنے اُٹھا کر لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں، ان کی بازیابی کیلئے بی این ایم کے علاوہ ان کے کمسن بیٹے نے ماما قدیر کے ساتھ تین ہزار کلومیٹر کا طویل لانگ مارچ کیا مگر اس کے باوجود عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں، لاپتہ بلوچوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز