جمعه, مارس 29, 2024
Homeانٹرویوزقبضہ گیر ترکی اور پاکستان نے ہمیشہ بلوچ اور کردوں کی تاریخ...

قبضہ گیر ترکی اور پاکستان نے ہمیشہ بلوچ اور کردوں کی تاریخ کو مسخ کیا ہے :کرد رہنما جواد میلا

کرد رہنما جواد میلا کا خصوصی انٹرویو

ڈاکڑ جوادمیلا ۱۹۴۶ میں دمشق میں پیدا ہوئے، انکے والد ابراہیم میلا کرد جہدکار تھے۔ ان کے والد نے جالادت بادرخان کے ساتھ مل کر آزاد کرد ریاست کو تشکیل دینے کی دوبار کوشش کی، پہلے اگری کے پہاڑی علاقوں میں اور دوسری بار مغربی کردستان میں ، لیکن دونوں دفعہ کرد ریاست زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ ڈاکڑ جوادمیلا آج کل لندن میں مقیم ہیں۔

ھمگام: کیا جدید دور میں کرد وں کا کبھی اپنا ایک الگ ریاست رہا ہے ؟

جواب : گزشتہ صدی میں ۱۹۱۹ سے لیکر ۱۹۲۴ تک ہمار ا کردستان ایک مملکت رہاہے ۔ موجودہ عراق کے زیر تسلط علاقے جنوبی کردستان پر شیخ محمود حافظ حکمران تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ کی فوجیں عراق اور کردستان میں پہنچ گئیں اور انہوں نے کردستان میں تیل دریافت کیا ۔ اس لیے لوگ کہتے ہیں کہ کردستان کا مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ کردستان کی وسائل اور تیل کا ہے ۔ کردستان کے بادشاہ نے برطانیہ کی فوجوں کو کردستان میں داخل ہونے سے روک لیا تھا ۔ بہت بڑی لڑائی ہوئی، اس میں برطانیہ نے اپنی ائیرفورس کو استعمال کیا جس سے کردوں کو شکست ہوئی ۔ ہمارے بادشاہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیااور بعد میں اسے ملک بدر کرکے دو سال تک ہندوستان میں پابند سلال کیا گیا ۔ اس وقت عراق میں کوئی بادشاہت نہیں تھی۔ انگریز وں نے سعودیہ سے شہزادہ فیصل کو استعار لے کر عراق اور کردستان کا بادشاہ بنا دیا۔ ۱۹۴۶ میں ہمارا ایک اور مشرقی ریاست کردش رپبلک مہاباد کے نام سے وجود میں آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جو موجودہ دور میں ایران کے زیر تسلط ہے۔ یہ ریاست تقریبا گیارہ مہینے تک اپنا وجود برقرار رکھ سکا۔ اس وقت برطانیوی ، امریکی اور ایرانی فوجی مل کر ہمارے ریاست پر حملہ آور ہوئیں اور روس نے شروع میں مہاباد آزاد کردستان ریاست کی حمایت کی لیکن بعد میں اس نے مہاباد ریاست کو ان قوتوں کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا ۔ ۱۹۳۰ سے ۱۹۲۷ کے دوران ارارات کے پہاڑوں میں کردوں کی ایک حکومت بنی تھی۔ اب حالیہ دور میں عراقی کردستان میں ہماری ایک حکومت ہے لیکن و ہ کردستان رپبلک اور کردستان مملکت کی طرح آزاد نہیں ہے۔

ہمگام : بہت سے لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ بلوچ اور کرد ایک ہی نسل کے لوگ ہیں، اور کچھ لوگوں کا بشمول کچھ بلوچوں کا یہی خیال ہے کہ بلوچ اصل میں عرب ہیں۔ تو اس حوالے کردوں کی تاریخ میں بلوچوں کا کیا ذکر ہے؟

جواب: میرے خیال میں قبضہ گیر قوتوں عراق، سوریا ، ایران ، ترکی اور پاکستان نے کبھی بلوچوں اور کردوں کیلئے تاریخ کو چھوڑا نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہماری تاریخ کو مسخ اور چھپانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہم اپنی تہذیب اور تاریخ جان سکیں ۔ ہماری تہذیب بہت قدیم اور پرانی ہے ۔ میرے خیال میں ، تین ہزار سال قبل کردوں کا اپنا ایک امپائیر تھا جسے میدی یا ماد سلطنت بھی کہا جاتا ہے (نوٹ: ماد کی قدیم زبان کی صرف تین شاخین آج زندہ ہیں ، جو کہ بلوچی ،گلکی اور ، کردی ہیں) ۔ میرا یہی خیال ہے کہ بلوچ، سندھی اور پشتوں میدس شہنشاہیت کے جنوبی محاذ کے حصہ رہے ہیں اور شمالی افریقہ میں امازخ مغربی محاذ کے حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی شہنشاہیت تھی آج مشرق وسطی کے تمام ریاستیں ہم سے دشمنی کررہے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ ہم کمزور ہیں، بلکہ وہ اس لیے کہ ہمارے پاس ایک مضبوط تہذیب اور قومی وقار ہے۔ اس سے ان تما م ریاستوں کو یہ ڈر ہے کہ کہیں ہم ایک آ زاد ریاست بن گئے تو ہم ان پر پھر سے مسلط نہ ہوجائیں ! لیکن وہ غلط ہیں۔ ہم نے کسی کو قوت سے قبضہ نہیں کیا بلکہ ہماری تہذیب اور انسانیت لوگوں کو فاتح کیا ۔
میں آپ کو کردش شہنشاہیت یا ماد امپائر کے بابت ایک بات بتادوں کہ اس وقت جب بھی کوئی بات یا اعلانیہ شائع ہوا کرتا تھاتو وہ اسے سات زبانوں چھاپتے تھے۔ تین ہزار سال پہلے ہم ان تمام قوموں کو انکے زبان کے ساتھ تسلیم کرتے تھے ۔ اب یہ بدتہذیب وحشی ریاستیں بلوچستان اور مشرق وسطی میں کردستان پر مسلط ہوچکے ہیں اور ہمیں اپنی زبان تک میں بات کرنے نہیں دیتے۔ صلاح الدین ایوبی جس نے مشرق وسطہ پر حکمرانی کی تھی وہ ایک کرد تھا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے کسی کو جبراً یہ نہیں کہا اپنا زبان چھوڑ دو اور کرد بن جاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہماری تہذیب سے ڈرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1972 میں جب میں کردستان کے انقلابی لیڈر جنرل بارزانی سے ملا تو صدام حسین نے اپنے لوگوں کو جنرل برزانی کو قتل کرنے کیلئے بھیجا تھا جس میں وہ ناکام رہے ، تو اس وقت دوسرے آزادی پسند کردش پیشمرگہ (سرمچاروں ) نے بارزانی سے کہاکہ وہ اس کا بدلہ صدام سے لینگے تو جنرل نے کہا کہ نہیں، کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو مجھ میں اور صدام میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ یہ اس بات کا دلیل ہے ہم میں تہذیب اور انسانیت ہے۔ ترکوں، عراقیوں اور ایرانیوں نے کئی دفعہ ہمار ے قصبوں اور گاؤں پر حملہ کیا ، ہمارے بچوں کا بے دردی سے قتل کیا، لیکن کیا ہم نے کبھی ان کے شہروں میں جاکے کسی بے گناہ کو مارا؟ نہیں!

ھمگام : پی کے کے کا دوسرے کرد علاقوں میں کیا کردار ہے؟
جواب: پی کے کے مختلف ناموں سے کردستان کے ہرعلاقے میں موجود ہے جیسا کہ سوریا میں پی وائی ڈی اور عراق اور ایران میں دوسرے مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں اور دوسرے سیاسی پارٹیوں سے مختلف طریقے سے جہدوجہد میں مصروف ہیں۔ تین سال پہلے میں نے قندیل کے پہاڑوں میں ان کے لیڈرشپ سے ملاقات کی تھی۔ میں لندن سے عراقی کردستان گیا اور وہاں سے میں مغربی کردستان گیا جوکہ سوریا کے زیرتسلط ہے۔ کیا آ پ جانتے ہوکہ سوریا کی رجیم نے مجھے گزشتہ تیس سال سے ایک مطلوب شخص قرار دیاہے؟ لیکن میں سوریا کے زیر تسلط کردستان کے علاقے گیا جہاں عرب نہیں تھے، ان کو میں نے بہت سی تجاویز اور آییڈیاز دیں ۔وہ میری بہت عزت کرتے ہیں اور انہوں نے میری حفاظت کے لئے دو پیشمرگہ او ر سفر کے لیے ایک گاڑی فراہم کی ۔

ھمگام: میرا یہ سوال کردوں کی قومی صلاحیت کے متعلق ہے جیسے ہی سوریا بکھر گیا اور خانہ جنگی شروع ہوئی تو کردوں نے فورا حرکت کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو کنٹرول کرنا شروع کردیا، اتنی جلدی میں انہوں نے یہ کام کیسے انجام دیا؟

جواب : اس آشوب سے پہلے جوکہ 2011 شروع ہوئی ، امریکہ اور یورپین یونین نے 2004 میں کہا تھا کہ سوریا، ایران اور شمالی کوریا بدی کے محور ہیں۔ جب انہوں نے یہ کہا تو کردستان میں ایک بڑی بغاوت ہوئی ۔ ہم نے بشار الاسد کا مجسمہ گرا دیا جو کہ صدام حسین کے مجسمے سے بھی بڑا تھا۔ صدام کا مجسمہ تو امریکی ٹینکوں نے گرایا تھا لیکن کردستان میں بشار کا مجسمہ امریکیوں کے بغیر ہمارے لوگوں نے گرایا تھا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ کردوں کا uprising عربوں کے 2011کے انقلاب سے بہت پرانا ہے۔ بشار کی مجسمے کو گرانے سے سات سال قبل ہم نے سوریا کے پرچم کو جلایا اور اس کی جگہ آ زاد کردستان کا پرچم لہرایا۔ بلوچ اور کرد اور دوسرے ستم رسیدہ اقوام آزادی کے لیے تڑپتے ہیں۔ اسی لیے تو جب بھی ان کو ایک چھوٹا سا موقع ملتا ہے تو وہ اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب سائنسدان بھیڑیوں پر تحقیق کررہے تھے تو انہوں نے ان کے ایک بچے کو ان سے الگ کیا اور دوسرے بھیڑیوں سے الگ کر کے اسے پالتو جانوروں کی طرح پال رکھا، بھیڑ ےکا وہ بچہ کتوں اور بلیوں کا طرح عمل کرنے لگا لیکن جب اسے واپس پہاڑوں پر لے گئے اور جب اس نے دوسرے بھیڑیوں کو دیکھا اور سنا تو چند منٹ بعد اسکی فطرت بدل گئی اور وہ پالتوں کتوں اور بلیوں کے بجائے بھیڑیوں کی طرح عمل کرنے لگا۔ بلکل اسی طرح آزاد منش قوم کی حیثیت سے جب بھی بلوچ اور کرد کو موقع ملتا ہے تو وہ بھیڑیے کی مانند تیزی سے اپنے اصل روپ دھار لیتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ایک دن ہمیں ہمارا چانس زور ملے گا۔

ھمگام: خانہ جنگی کے دوران کردوں نے سوریا میں اپنی حکومت قائم کی، اب ان کا اپنا عدالتی نظام ہے ، ان کے اپنے ادارے ہیں، کیا یہ سب انہوں نے اکیلے کیا یا اس میں کوئی دوسری قوت نے ان کا ساتھ دیا؟

جواب : یہ سب انہوں نے خود تنہاکیا، تین سال پہلے میں وہاں گیا تھا، میں نے ان کا مشاہدہ کیا۔ مغربی کردستان کے رہنماوں کا تعلق فقط کردستان کے شامی علاقے سے نہیں بلکہ اس میں ایرانی کردستان ، عراقی کردستان ، ترکی کے کردستان کے لوگ بھی شامل ہیں۔ میں ان میں کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر گزشتہ پچاس سالوں سے جانتا ہوں کیونکہ میں آزادی کی جہد میں شامل رہاہوں۔ سوریا کی کردستان نے اب اپنی پارلیمنٹ بھی قائم کرلی ہے۔ وہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، کیونکہ یہ پارلیمنٹ تین علاقوں کے لیے ہے ۔ اب کردستان کی علاقوں کو توسیع دے جاری ہے کرد چاہتے ہیں کہ تینوں علاقے آپس میں ضم ہوجائیں۔ مغربی کردستان عراق سے شروع ہوکر بحیرہ روم تک جاتاہے۔ ترکی کو ہرسال امریکہ اور اسرائیل سے کروڑوں کے حساب میں امریکی ڈالر ملتے ہیں کیونکہ اس کے بارڈر ایران اور بحیرہ روم سے ملتے ہیں جوکہ اسرائیل سے بہت قریب ہے۔ شاید وہ امریکہ اور اسرائیل کیلئے ایران کی جاسوسی کر رہے ہیں ، وہ ضرور کچھ تو کررہے ہیں۔ اگر عراقی اور سوریائی کردستان متحد ہوئیں تو ایران اور بحیرہ روم کے ساتھ ہماری سرحدیں مل جائیں گی ۔ ترکی کی نسبت ہمارا ایران کے ساتھ بارڈر بہت گہرا ہے اسی لیے کرد ایک متبادل قوت کے طور ابھریں سکتے ہیں اور کروڑوں کا یہ ڈالر ترکی کے بجائے کردوں کو مل جائیں گے۔ کرد علاقوں کو ضم کرنے کا منصوبہ میں نے عراقی کردستان کے صدر جناب مسعود بارزانی اور قندیل کے پہاڑوں میں پی کے کے نمائندوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح یہ تجاویز میں نے سوریا کے کردوں کے سامنے بھی پیش کیا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اگرہم سارے کرد علاقوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوے تو سلمانیہ سے عراقی کردستان کے ھولر شہر تک اور بحیرہ روم تک اگر ریلوے لائن بچھاگیا تو کرد ایران اور رترکی سے آزادانہ طور پر سفر کرسکیں گے ۔

ھمگام: یعنی آپ یہ کہ رہے ہیں کہ اگر کرد متحد ہوے تو دنیا ترکی کے بجائے کردوں کی مدد کرینگے؟

جواب : جی ہاں بلکل درست فرمایا۔ ترکی نے پیش کش کی ہے وہ سوریا میں اپنی زمینی فوج کو بھیجے گی لیکن امریکہ نے اسے قبول نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے ترکی سے کہا کہ کرد یہ کام تم سے بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔

ھمگام: بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے پاکستان نے اسلام کو استعمال کیا ہے کردستان عربوں کے گھیراؤ میں ہے، کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ عربو ں نے اسلام کو آپ کی جہد کے خلاف استعمال کیا ہے؟ اور آپ کے خیال میں اسکی روک تھام کس طرح ممکن ہے ؟

جواب: گزشتہ 1400 سالوں سے عرب ، ایرانی اور ترک قوم کردوں کے خلاف اسلام کو استعمال کررہے ہیں۔ کئی دفعہ ہمارے تحریکیں کامیاب ہوئیں۔ جیسے کہ انیسویں صدی میں شہزادہ میر محمد نے راوندوز میں ترکی کی فوج کو شکست دے کر بھگا دیا۔ انکو شکست دینے کی وجہ اس کے پاس توپیں بنانے کی صلاحتیں تھیں۔ انیسوں صدی میں جب برطانیہ کی فوج عراق اور کردستان میں آئے تو انہوں نے شہزادہ محمد کے توپوں کو دیکھا تو ان کو یہ احساس ہوا یہ توپیں برطانیوی توپوں سے بہتر یں ہیں۔ یہ توپیں اب بھی بغداد اور کردستان کی میوزیموں میں موجود ہیں۔ شہزادہ محمد کی کامیاب حکمرانی کے بعد ترکی نے اسلام کو کردوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ ترکی نے مذہبی لوگوں کو کرائے پر کردستان بھیجا تاکہ کردوں کو یہ فتوی سنائیں کہ جو لوگ ترکی کے خلاف لڑتے ہیں شر عی لحاظ سے ان کی بیویوں کا ان سے طلاق ہوجاتاہے۔ عراقی کردستان میں ایک ایسا قبرستان ہے جو 1400 سال پراناہے جسے اسلامی قبرستان کہتے ہیں اسکی لمبائی دو ہزار میٹر ہے ۔ اب تصورکیجیے کہ جب اس قبرستان کی لمبائی دوہزار میٹر ہے تو انہوں نے کتنے کردوں کو مارڈالا ہوگا؟ مذہب کے نام انہوں نے کردوں کی نسل کشی کی ہے ! انہوں نے کردوں، بلوچوں اور امازخکو کو بھی مارا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سیٹلائٹ تھا نہ کوئی کیمرہ نا کوئی دوسرے ریکارڈ کرنے والے ٹیکنالوجی تھی جو یہ دکھائے کہ کتنے ملین لوگوں کو انہوں نے مارا ہے۔ امازخوں کی مزاحمت تین سو سال تک جاری رہی جب اسلام نارتھ افریقہ پہنچاتھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تیس سال تک جنگ جاری رہا۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کتنے ملین لو گ اس جنگ کے دوران مارے گئے۔ ہمارے پاس اپنی قوم کو مضبوط کرنے کا ایک ہی راستہ ہے ، اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرد ، بلوچ اور امازخ مسلمان ہیں یا نہیں، لیکن سب سے پہلے ان کو کرد ، بلوچ اور امازخ ہونا ہوگا۔

ھمگام: کیا آپ کے خیال میں امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک بلوچ اور کرد آزادی کے تحریکوں کو سپورٹ کرینگے؟

جواب: امریکہ اور یورپ اپنا قومی مفاد اور تجارت دیکھتے ہیں میڈل ایسٹ میں ان کے پاس بائیس عرب ریاستیں ہیں۔ سابقہ سویت یونیں میں سات ترکش ریاستیں ہیں جو تیل اور گیس سے مالامال ہیں جوکہ یورپ کے ساتھ تجارت کررہے ہیں۔ اب یہ یورپی ممالک بائیس عرب ملکوں اور سات ترکش ملکوں کو ناراض کرکے اپنی تجارت بند نہیں کرا سکتے۔ وہ کردوں اور بلوچوں کے آزادی کے بارے میں بلکل پریشان نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنی مفاد اور تجارت کے بارے پریشان ہوتے ہیں۔ اگر ان کا کردستان اور بلوچستان کے اندر مفادات ہوں تو ہمیں سپورٹ کرینگے۔ دوسرے لفظوں میں ا گر ہم (کرد) ان ۲۲ عرب ممالک کے اثرات کو تبدیل کرسکتے ہیں تو شاید ہمیں سپورٹ دیں۔

ھمگام: اسرائیلی وزیر آعظم کے بیان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں جو غالباً پہلا ریاستی سربراہ ہے جس نے آزاد کردستان کی حمایت کی؟

جواب: یہ اچھی بات ہے، لیکن کوئی کرد آزادی کے بارے سنجیدہ نہیں، خود اسرائیل بھی۔ 1991 سے ہم ایک ریاست ہیں عراق کے اندر، ہمارا ایک پارلیمنٹ ہے ہماری ایک فوج بھی ہے، ہمارے اجازت کے بغیر کوئی ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم ایک ریاست ہیں۔ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں آزاد کردستان کی حمایت کرتے تو انہیں پچیس سال پہلے کرنا چاہیے تھا ۔ میں نے اسرائیلی سفیر سے ان کی آزادی کی دن کے مناسبت سے 2016 ، 16مئی میں ملاقات کی تھی۔ کرد اشو کو لیکر میں نے ان سے بات کی اور اپنا نیا کتاب بعنوان Kurdistan and Kurds under Syrian Occupation پیش کیا۔ اگر چہ وہ سرعام یہ نہیں بولتے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک ان کی حیثیت کو تسلیم کریں کہ فقط اسرئیل ہی مشرق وسطی میں اکیلا جمہوری ملک ہے ۔ چونکہ اب کردستا ن ایک جمہوری ریاست ہے۔ اسرا ئیل سے بھی بہتر ۔ اسی لیے میرے خیال میں اسرائیل بھی نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی ریاست اس سے زیادہ جمہوریت پسند ہو ۔ اسرائیل اس مد میں کرڑوں کے حساب میں امریکہ سے ڈالر ملتے ہیں اگر کرد ایک جمہوری ریاست کے حیثیت سے تسلیم ہوا تو یہ سارے پیسے کردستان اور اسرا ئیل کے درمیان تقسیم ہونگے۔ کئی عرصے پہلے اسر ا ئیلی وزیر خارجہ کی وفد مجھے ملنے یہاں لندن آئی تھی، میں نے ان کو بتایا کہ ہماری قوم ہزاروں سال سے مصیبتیں جھیل رہے ہے اور اسی طرح آپ کی قوم بھی گزشتہ چار ہزار سالوں سے مصیبتوں سے گزرچکی ہے، میں نے سوچا ہے کہ اب آپ کا اپنا ایک ریاست ہے تو آپ مصیبت زدگوں کی مدد کرینگے قبضہ گیروں کی نہیں ! لیکن آپ نے بحیثیت دوست ایران کی شاہ کو سپورٹ کیا، لیکن نئے ایران نے 1979 میں چو بیس گھنٹے کے اندر آپ کے خلاف دشمنی شروع کردی، اب ترکی میں کردوں کے خلاف اسرئیل ترکی کا مدد کررہاہے۔ شاید آج کا رجب طیب اوردغان کل کے خمینی سے بھی زیادہ بدتر دشمن نکلے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ان غاصب قبضہ گیروں کی مدد کررہے ہو جنہوں نے کردستان پر قبضہ جمائے رکھا ہے؟ اور کردوں پر ہونے والے ظلم و جبر کو نظرانداز کررہے ہو؟ قدرتی طور ہم مصیبت زدگان کو ایک دوسرے کا مدد کرنا چاہیے !

ھمگام: تو پھر ان کا جواب کیا تھا؟

جواب: وہ پوچھنے لگے آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہمیں ایک ریاست بننے کیلئے کمک مت دیجیے گا، ہم اپنا ریاست خود تشکیل دیں گے لیکن میں کردستان کے جوان بیٹوں کو اسرائیل بھیجونگا آپ انہیں اچھا تعلیم دینے میں مدد کریں ٹریننگ اور ہنر سکھائیں تاکہ وہ اپنے آزاد ریاست کردستان کی بھاگ دوڑ سنبھال سکیں، میں نے ان کو ریس کی گھوڑے کی مثال دی، کہ ا گر آپ کے پاس ریس کیلئے ایک گھوڑا ہے اور اسے بہت دیر تک روزانہ ریس کیلئے ٹریننگ اور اچھا کھانا نہیں دینگے تو اچانگ ایک دن ریس شروع ہونے سے پہلے اسے دس کیلو گرام کا کھانا دیکر اسکی ایک گھنٹے کا ٹریننگ کروا گے ، تو گھوڑا ریس شروع ہونے سے پہلے ہی گر پڑے گا اور وہ ریس ہار جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے لیکن ہمیں پہلے سے تربیت یافتہ گھوڑوں کی تلاش ہے، میں نے کہا کہ پہلے سے تربیت یافتہ یہ گھوڑے آپ کو گرادینگے اور آپ کا گردن ٹوٹ جائیگا۔ جیسا کہ شاہ ایران اور اردغان نے کیا۔ مگر آپ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں ۔

ھمگام : آپ بلوچستان کے ایک دوست اور حمایتی ہو، آپ کا کئی بین الاقوامی سفارت کاروں سے ملاقات ہوئی ہیں، تو کیا کبھی آپ نے ان کے سامنے بلوچستان کا ذکر کیا ، بلوچستان کے بارے ان کے رائے کو جانا؟

جواب: میں نے کونسل آف اسٹولن کنٹریز کے بارے کئی ممالک کے صدر اور سربراہان کو خط لکھا اور ان کو میں نے یہ بتایا کہ نہ صرف کرد بلکہ بلوچ ، سندھی اور امازخ بھی مقبوضہ قومیں ہیں۔ آپ جانتے ہو کہ ہمارے ہاں کردستان میں ایک بڑا قبیلہ ہے جسے سندھی کہتے ہیں۔ میں نے پہلے بتایا کہ بلوچ اور سندھی کردش امپائیر کے مشرقی محاذ کے حصہ رہے ہیں۔ آج بھی بدینان کے علاقے میں رہنے والے سب سے بڑا قبیلہ سندھی ہے۔ لندن میں میرے کئی دوست ہیں جو اپنے نام کے ساتھ سندھی لکھتے ہیں جیسا کہ محمد سندھی۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بلوچ کرد سندھی اور پشتون ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، لیکن2500 سال پہلے جب ماد امپائیر کا سکوت ہوا تو ہم ایک دوسرے سے جدا ہوئیں اور ہماری زبانیں بھی الگ شکلیں اختیار کرگئیں۔ حتی یہاں یو کے میں ولیم شیکسپیر کے تین سو سال پرانے لکھے ہوئے کچھ اوراق کے نسخوں کو لائیں تو یہاں انگلش لوگ انہیں پڑ ھ نہیں سکتے کیونکہ 300 سال بعد زبان کافی تبدیل ہوچکی ہے۔ اب تصور کیجیے کہ کیا تین ہزار سال بعد بھی بلوچی، کردی، سندھی اور پشتون زبانیں ایک ہی رہینگی؟ اس لیے میں زور دیکر کہتاہوں کہ کرد اور بلوچ ایک قوم ہیں۔

ھمگام: صدر بارزانی کہتے ہیں کہ وہ جلد کردستان کی آزادی کیلئے ریفرینڈم کرائیں گے اس بارے آپ کا کیا خیال ہے، وہ کب اس کی تیاریاں شروع کریں گے اور کردستان کی آزادی کا اعلان کرینگے؟
جواب: دوہزار پانچ میں عراقی کردستان میں ایک ریفرینڈم کیا گیا جس میں 98 فیصد لوگوں نے کردستان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی صدر بارزانی کیوں ایک اور ریفرنڈم چاہتے ہیں؟

ھمگام: اب آپ کیا سوچتے ہیں کہ وہ ایک اور ریفرنڈم کراسکتے ہیں؟

جواب: میں نے پہلے بھی کہا کہ کوئی سنجیدگی نہیں، نہ مغرب والے نہ مشرقی اقوام اور نہ ہی اسرائیل، بلکہ خود کردوں کے لیڈرز بھی کردستان کی آزادی کیلئے سنجیدہ نہیں ۔ ننانوے فیصد کرد قوم یہی چاہتی ہے کہ ان کا ملک آزاد ہو، لیکن کرد سیاسی پارٹیاں سوریا ، ایران ، عراق اور ترکی کو ناراض کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے ان ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ یہ ریاستیں سوئے ہوئیں نہیں ہیں، یہ اپنے اچھے افیسروں کو کردستان کے تحریک کے اندر داخل کراتے ہیں اور یہ افسران بہت چالاک اور ہوشیار ہیں اچھا کردی زبان بول سکتے ہیں۔ دو ہفتوں کے اندر کردوں کے گاؤں کے لیڈر بن جاتے ہیں۔ یہ کوئی کرشماتی بات نہیں ہے ۔ یہی وہ غیرسنجیدگی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اب انہیں ایک اور ریفرنڈم چاہیے، ہر دوسرے پانچ سال بعد وہ پھر کہتے ہیں کہ انہیں ریفرنڈم چاہیے۔ ،نہیں ، یہ آزادی حاصل کرنے کا سنجیدہ طریقہ نہیں ہے ۔ آزادی ایک ہی رات میں واقع ہونا چاہیے، یعنی اس کا فیصلہ ایک ہی اندھیری رات ہی میں ہوناچاہیے کہ آپ آزادی چاہتے ہو یا نہیں!
مسود بارزانی کے پاس طاقت ہے، فوج ہے، پیسہ ہے، آزادی کیلئے سارے لوازمات موجود ہیں۔ زمین ، افرادی قوت سب کچھ ہے، ہرچیز پر کنٹرول ہے۔ کچھ لوگوں نے ایک احتجاج میں سلمانیہ شہر کے وسط میں بار زانی کے سرخ پگڑی کو جلا ڈالا۔ بارزانی یزیدیوں کی طرح سرخ پگڑی پہنتے ہیں ۔ تین سال پہلے میں نے ان سے ان کے ہیڈکواٹر میں جاکے ملاقات کی اور ان سے ذاتی طور پر کہا کہ مجھے امید ہے ایک دن آپ سلمانیہ کے وہی اسکوائر پر جاؤگے جہاں آپ کی قبائلی پگڑی جلائی گئی تھی اور یہ اعلان کروگے کہ آپ عراق اور کردستان کے سرحد ی علاقہ میں حمرین کے پہاڑی پر جاکر کردستان کی آزادی کا اعلان کروگے اور یہ کہوگے اب یہ کردستان کا بارڈر ہے۔ تب پانچ کروڑ کرد آپ کی پیروی میں آپ کی سرخ پگڑی کو پہنے گے ، صرف آپ کی ایک لفظ سے سب کچھ تبدیل ہوجائے گا اور اس کے بعد کوئی اس سرخ پگڑی کو نہیں جلائے گا۔

ھمگام: چلو مان لیا کل اگر مسود بارزانی نے کردستان کی آزادی کا اعلان کردیا تو کیا دنیا اس کی حمایت کریگی، اورکیا دنیا کے حمایت کے بغیر کرد اپنا آزادی برقرار رکھ سکتے ہیں؟

جواب: کردوں کو پہلے اس کا اعلان تو کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پرآپ شادی کرنا چاہتے ہیں مگر کسی کو بتا نہیں سکتے تو کیا دنیا کو پتہ ہوگا؟ نہیں۔ تم کو سب سے پہلےیہ بات خود کرنی ہوگی۔ مسعود بارزانی کو آزادی کا اعلان کرنا چاہیے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ دنیا اس کی حمایت کریگی یا نہیں۔ اسرائیل امریکہ کا بہترین دوست ہے، لیکن اسرائیل نے تل ابیب سے اپنے آزادی کا اعلان کیا تھا ناکہ نیویارک سے ۔ جب یہودیوں نے دیکھا کہ اسرائیل میں موجود اس وقت کا برطانوئی گورنر عربوں کی حمایت زیادہ کررہاہے تو انہوں نے انہیں قتل کرڈالا۔ گوکہ برطانیہ کا یہ گورنر مسٹر ہربرٹ سمویل خود ایک یہودی تھا، لیکن انہوں نے اسے قتل کیا کیونکہ قومی مفاد دوستی ، ذاتی دوستی اور مفاد ات سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کرد اپنے مفادات کا تحفظ کریں،جی ہاں عراقی ہمارے دوست ہیں لیکن اگر وہ ہمارے قومی مفاد کے خلاف کام کرینگے تو انہیں روکناہوگا۔ مطلب یہ کہ یہ کردوں کی ہی زمہ واری ہے کہ وہ اپنی آزاد کردستان ریاست کا اعلان کریں۔ یہ کام ان کو خود کرنا ہوگا کرد اس انتظار میں نہ رہیں کہ کوئی دوسرا آکر ان کی آزادی کا اعلان کرے گا۔ مجھے یاد ہے جب کروشیا نے کہا کہ یوگوسلواکیہ سے وہ آزادی چاہتے ہیں تو کسی نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔ سارا یورپ ، بشمول روم کے پادری نے ان کی مخالفت کی لیکن آپ جاکے تاریخ دیکھیں انہوں نے کس طرح اپنی ریاست بنا ڈالی؟ ایک ہی رات میں انہوں نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا اور ساری دنیا انکو حمایت دینے پر مجبور ہوئی۔ ہم کردوں ، بلوچوں اور دوسرے اقوام کو بھی یہی کرنا چاہیے، دوسروں کا بلکل انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہماری آزادی ہے ، یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ ہمیں کرنا چاہیے ، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون خوش ہوگا یاکون ناراض!

ھمگام: کردستان کی آزادی کی جہد میں عورتوں کی شمولیت کیسے ممکن ہوئی؟ اس شمولیت نے تحریک کو کس طرح متاثرکیاہے؟

جواب: کرد عورتوں نے تحریک کو بہت پہلے سے جوائن کیا ہے یہ آج کی بات نہیں۔ مثال کے طور پر عدیلہ خانم جوکہ کردستان میں جاف قبیلہ کی لیڈر تھیں انہوں نے کردستان میں برطانیہ کی گورنر سے 1919 میں ملاقات کی۔ اسی 1919کے زمانے میں برطانیہ میں عورتوں کو پارلیمنٹ تک جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اسی دور میں ہمارے یہاں ایک کر د عورت ہمارے ایک قبیلے کی لیڈ ر تھی ۔ ہم برطانیہ سے اس وقت بہت زیادہ تہذیب یافتہ تھے۔
سوال: لیکن کس چیزنے انہیں کرد آزادی کی جنگ میں شمولیت پر مجبور کیا، کیا یہ جبر کی وجہ سے یا ترقی پسندانہ زہنیت کی بدولت ایسا ممکن ہوا؟
جواب : مجھے یاد ہے ایک جاندرک نامی محترمہ تھیں، پہلا جاندرک ایک فرنچ تھیں، لیکن کردستان میں بھی ایک جاندرک نامی محترمہ تھیں۔ وہ ایک بہت مشہور جنگجو تھیں اور 1963کی کردستان کی انقلاب کا وہ ایک پیشمرگہ تھیں۔ بہت سے عورتوں کو عراقی حکومت نے سزائے موت دیکر پھانسی پرلٹکایا۔ کرد طلبہ لیلا قاسم کو 1974 میں عراق میں پھانسی دی گئی ۔ میری ان سے 1972 میں ملاقات ہوئی تھی انہوں نے اپنی تمام قومی کرد ملبوسات مجھے ہدیہ کیں تاکہ میں انہیں ایک شامی کرد لڑکی کو اما نتً دے دوں۔ میں نے اس کی یہ خواہش پوری کی ۔ سو ہمارے یہاں کرد عورتوں کی تحریک میں شمولیت زمانے سے چلا آرہی ہے لیکن اب تحریک میں عورتوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کرد آزادی کیلئے بھوکے اور پیاسے ہیں۔

ھمگام: کیا آپ کو کرد عورتوں کی تحریک میں شامل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا ؟ انہوں نے تحریک میں کیسے جگہ پائی؟ کیا اس کی وجہ ارتقا ئی عمل تھی یا تحریکی ڈھانچے کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا ؟

جواب : کردش سماج میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، ہمارے لوگ انتہاپسند مسلمانوں کی طرح نہیں ہیں جہاں عورتیں اپنی چہروں کو چھپا تی ہیں، کرد گاؤ ں میں عورتیں مہمان نوازی مردوں کی طرح کرتی ہیں، مردوں کو ان پر پورا بھروسہ ہے۔

ھمگام: کردوں کے نظر وں میں تحریک کا کونسا طریقہ کار زیادہ موثر ہے یعنی مسلح جدوجہد یا سیاسی سفارت کاری؟

جواب: مزاحمت سب سے زیادہ موثر ہے کیونکہ جب آپ اپنے حقوق کیلئے جنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں تو سیاست اور سفارتکاری بہت آسان ہوجاتاہے۔ مزاحمت کے بغیر آزادی حاصل کرنا بہت مشکل ہے!

ھمگام: عبدللہ اوجلان کی حراست نے کرد تحریک کو کس طرح متاثر کیا ہے؟

جواب : عبدللہ اوجلان ایک کرد لیڈر ہے، دوسرے لیڈروں کی طرح اس سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں ۔ عبداللہ ترکی سے لڑا ہے اور سوریا نے اسے سپورٹ دی ہے عبدالرحمان گسملو خمینی کے ایران سے لڑاہے عراق نے اسے سپورٹ کیا ، بارزانی اور طلبانی عراق سے لڑے ہیں، ان کو ایران سے سپورٹ دی گئی تھی۔ 1975 میں مسعود بارزانی کے والد مصطفی بارزانی کا انقلاب 24 گھنٹے کے اندر منہدم ہوگیا۔ ڈاکٹر گسملو کا ایرانی کردستان میں انقلاب بھی ختم ہوا جب اس کا 1989 میں ویانا میں قتل ہوا۔ عبداللہ اوجلان کی تحریک شاندار تھی ، لیکن اس کی گرفتاری کے بعد اس کا گروپ سکڑگیا۔ مثال کے طور پر جب عبدللہ گرفتار ہوتا ہے تو جرمنی میں ایک لاکھ افراد ان کے گروپ کے حمایت میں مظاہرے میں شامل ہوتے ہیں۔ میں نے جرمن پولیس کے ایک رپورٹ کو پڑھا جس میں یہ اعتراف تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی دفعہ جرمن پولیس کو پی کے کے کے اس مظاہرے کو کنٹرول کرنے کیلئے ایسی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی تھی ۔ یہ گروپ یورپ اور کردستان میں بہت مضبوط تھا یہ گروپ اب بھی مضبوط ہے لیکن اس کی گرفتاری کے بعد پہلی والی مضبوطی نہ رہی۔ مجھے امید ہے کہ اب کرد سیکھ چکے ہیں کہ ایک قبضہ گیر سے کمک لیکر دوسرے قبضہ گیر کے خلاف لڑنا کوئی نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ نتیجہ صفر ہی رہے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر گسملو اور عبداللہ اوجلان کے تمام کوششیں راہیگاں گئیں! بارزانی کردستان چھوڑ کر امریکہ گیا اور گسملو مارا گیا اور اوجلان اب بھی جیل میں ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ترکی ، سوریا اور ایران آپس میں تو بڑے اختلافات رکھتے ہیں مگر جب بھی بات کردوں کی آتی ہے تو یہ متحد ہوجاتے ہیں ۔ یہ قبضہ گیر ہمیں سپورٹ نہیں کرتے بلکہ اپنے مفادات دیکھتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں!
ھمگام: آپ اپنے جدوجہد کے بارے کس چیز سے سب سے زیادہ خوش ہیں؟ وہ کونسی سب سے اچھی چیز ہے جسے آپ کی لوگوں نے حاصل کیا ہے؟

جواب: مجھے کر د جنگجو عورتوں پر فخر ہے۔ اس وقت مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں نے کمیش لی کے علاقے میں دورے کے دوران ایک 15سالہ کرد لڑکی کو دیکھا جو اپنی ملک اور لوگوں کے دفاع کیلئے مسلح تھی! سوریا اور عراق میں کردوں کیلئے اچھا موقع ہے کہ وہ جرات کرتے ہوے اپنی آزادی کا اعلان کرلیں۔

ھمگام: کردوں کے درمیان کس طرح کے اختلافات کیا ہیں؟ اور ان کے درمیان یہ اختلافات کیوں ہیں؟

جواب: جہد کے بارے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ کرد پارٹیاں کردوں کے حقوق کو ایرانی، عراقی اور ترکش فریم ورک کے اندر رہتے ہوے ایک حل کی تلاش میں ہیں۔ میری تنظیم کردستان نیشنل کانگریس کا صرف ایک ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ ہے کردستان کی آزادی! ہم ان قبضہ گیروں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے۔ یہ قومیں جو ہمارے قرب وجوار میں رہتے ہیں وہ بڑے وحشی ہیں وہ ہمارے لوگوں کو قتل کررہے
ہیں! ہم اس غلامی کے جرم و ذلت کے ساتھ ایک دن بھی رہنا نہیں چاہتے۔ ان لوگوں نے ہمارے لوگوں کو نفسیاتی طور پر تباہ کردیا ہے۔ یہ ہمارے زبان کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ ہماری تمام مصائب کا واحد حل ہماری آزاد ریاست میں ہے۔

ھمگام: آپ نے اپنی کلچر کو کس طرح زندہ رکھا ہے؟

جواب: ہمارے دو عظیم سپہ سالار ہیں انہوں نے ہمارے زبان اور کلچر کو زند ہ اور محفوظ رکھا ہے۔ ایک ہمارے پہاڑ ہیں اور دوسرے ہمارے کرد مائیں ہیں! ہمارے ماؤں نے کبھی بھی دوسرے زبانوں میں ایک لفظ تک نہیں بولی۔ انہوں نے صرف کردی زبان بولی ہے۔ تاکہ ہماری زبان کا تحفظ ہو!

ھمگام : کیا آپ بلوچوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب: مجھے انتظار ہے کہ ہم کب اکھٹے کام کرسکیں گے، میں اس وقت ایک سیٹلائٹ ٹی وی چینل کیلئے سخت محنت کررہاہوں تاکہ اس میں کردش ، بلوچی اور امازخی زبانوں میں ہم اپنی آزادی کی آواز کو دنیا کو سنا سکیں ! موجودہ دور میں ہمارے یہاں سو سے زیادہ کرد زبان میں ٹی وی چینل ہیں۔ لیکن یہ سب خودمختاری اور وفاقی نظام کے طلب گار ہیں۔ ہم صرف ایک ہی ٹی وی چینل کردوں بلوچوں اور امازخوں کیلئے چاہتے ہیں تاکہ جس کے زریعے ہم اپنی آزادی کا طلب کرسکیں۔ مجھے یقین ہے اگر ہمیں اس طرح کا ایک سہولت میسر ہوا تو ہم کچھ ہی سالو ں میں بہت اچھے نتائج حاصل کرسکیں گے۔ مجھے امید ہے کہ کرد اور بلوچ رہنما اپنی عوام کی آزادی کی خواہش کولیکرہی چلیں گے۔ بحیثیت ایک کرد میرا سو فیصد آزادی کا مطالبہ ہے، اور مجھے یقین ہے کہ بلوچ بھی اپنے لیے یہی چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز