پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزقومی تحریک کا بحران تخریب کار گروپ کی تخریبی سرگرمیوں اور بحث...

قومی تحریک کا بحران تخریب کار گروپ کی تخریبی سرگرمیوں اور بحث کے تناظر میں،تحریر: میران بلوچ

تنقید کو سمجھنے کے لیے ہمیں کتاب The Cambridge History of Literary Criticism: کا مطالعہ کرنا چاہئے جس میں لکھا ہے بحران اور تنقید علمی اور لفظی معنوں میں باہم دوست اور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ دوران بحران مثبت اور حقیقی تنقید نے صحیح اور غلط میں امتیاز پیداکرتے ہوئے حقیقی سوچ اور نظریہ کو پروان چڑایا ہے ۔سب سے بڑے علمی نقاد Frank Kermodeنے کہا کہ بحران کسی بھی مومنٹ کا موروثی اور خلقی نہیں وصف نہیں بلکہ مومنٹ کے بارے میں سوچنے کا مختلف طریقہ ہے۔مومنٹ میں بحران ہمیشہ دو مختلف نظریات کی بنیادپہ پیدا ہوتا ہے ۔کسی سیاسی تنظیم میں بحران رومانیت بمقابل حقیقت پسندی ،اصول پرستی بمقابل آزاد خیالی کی بنیاد پہ پیدا ہوتا ہے ۔بحران کے بعد تنقید ایک قدرتی عمل ہے لیکن تنقید کے اپنے کچھ اصول اور دائرے ہیں۔جزباتی انداز میں تنقید کے نام پہ سیاسی فائدے کیلئے اصول اور اخلاقیات کی پامالی کرکے ایک سو اسی ڈگری کی یو ٹرن لینا اور تنگ نظری سے وقتی طور پہ فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے مگر اصول پرستی اور حقائق کی بنیاد پہ تنقید سے ہی اصلاحات اور نئے سیاسی نظام کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔ Terry Eagletonاپنی کتاب The Function of Criticismمیں تنقید کے بارے میں لکھتا ہے کہ تنقید بحث کو دعوت دیتا ہے یہ کوشش کرتا ہے کہ مطمئن کریں ،یہ تصادات کو منظر عام پر لاتا ہے یہ لوگوں کو اظہار رائے کا موقعہ دیتا ہے ۔جدید دور کا علمی اور اصلاحی تنقید لبرل سوچ سے نزدیکی سے بندھا ہوا ہے وہ لبرل ہی نہیں ہے جو تعمیری اور اصلاحی تنقید سے ڈرتا ہو اور اسکو روکھنے کی کوشش کرتا ہو ۔علم زانت،شعوراور تعمیری تنقید نے ہی انسانوں کو ظلم جبر،بربریت،بادشاہت،ڈکٹیٹرشپ،غلامی اور محکومی سے نکلنے کا راستہ دیا ہے اسی لیے علم شعور،تعمیری تنقید کو روکنا روشنی کو روک کر لوگوں کو تاریکی میں دھکیلنے کے مترادف ہے کہ جہاں چند لوگ اپنی من مانیاں اور بدمعاشیاں کریں ۔تنقید سے حقائق تک رسائی حاصل کی جاتی ہے جس کے توسط سے محقق حقائق تک پہنچ سکتا ہے ۔دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی تو یہ تنقید ہے جس نے طاقت ،جھوٹ،فریب دھو کہ دہی کا فردا فاش کیا ہے۔ ایمانوئل کانٹ (Immanuel Kant)نے تنقید کا دروازہ کھولا اور اس نے تنقید کے ہتھیار سے شاہی استبداد ،دھونس اور تنگ نظری کا بت توڑ ا،اس نے حکومت اور نظام کے خلاف سخت تنقید کی اسکی تنقیدیں اور دلائل تضادات کو پکڑنے کے حوالے بہت طاقتور تھیں اسکا قد چھوٹا مگر خیالات بڑھے تھے۔ اس نے دلیل سے وقت کے ظالم حکمرانوں کے بارے میں سوالات پیدا کئے ۔ Elisabeth K. Chavesکتاب Reviewing Political Criticism: Journals, Intellectuals, and the Stateمیں لکھتا ہے کہ تنقید سے بحران کی وضاحت دی جاتی ہے ،جہاں بھی کسی ملک،مومنٹ میں بحران پیدا ہوتا ہے پھر تنقید سے اسکی وضاحت دی جاتی ہے اور نئے راستے تلاش کئے جاتے ہیں۔ زندگی اور موت کی کشمکش کو میڈیکل زبان میں کرائسس کہا جاتا ہے۔ کرائسس فیصلہ سازی کا لمحہ ہوتا ہے اور یہ فیصلے سیاسی لخاظ سے بڑھے دور رس ہوتے ہیں۔ Reinhart Koselleckنے Critique and Crisisمیں لکھا ہے کہ اٹھارویں صدی میں روشن خیالی پورے مغربی یورپ میں عروج پر تھا جہاں ریاست کی مطلق عنان پالیسی پر تنقید ہوتا رہا اور اسکو چیلنج کیا جاتا رہا Denis Diderotجوکہ ایک قاموس نگار (Encyclopedist )تھا جس نے کہا کہ تنقید نگار تمام لوگوں سے زیادہ خودمختار رہا ہے ۔دنیا جہاں میں محکوم سرزمین پر قبضہ کے دوران قابض ریاست جانبدار رہتا ہے وہ محکوم اقوام کی مرضی اور منشا کے برخلاف فیصلہ دیتا ہے وہ چاہتا ہے کہ محکوم لوگوں کی اواز کو دبائیں ،زیادہ تر قابض نے محکوم اقوام کی میڈیا اور دوسرے پرنٹنگ پریس پر قدغن لگانا شروع کیا ۔جیمزاسکاٹ James C. Scott کے مطابق جدید ریاستیں بھی پرنٹنگ پریس کی بدولت ترقی یافتہ ہوگئی ہیں جس میں تنقید اور پریس نے ریاستوں کو مختلف فیلڈ میں ترقی یافتہ بنانے میں مدد دی جس طرح کے مردوم شماری کرنا ،وسائل کی معلومات جمع کرنا ،نقشہ بنانا ،اور ریاست کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنے لوگوں پر قانون اور انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کریں ،تعمیری اور اصلاحی تنقید کی وجہ سے جدید دنیا کی بنیاد پڑی ،ترقی اور خوشحالی روشن خیالی کے دور کی تعمیری تنقید سے ممکن ہوا جہاں انجن ،جہاز،جیٹ،دوائیاں وغیرہ ایجاد ہوئے اور دنیا ترقی کے معراج پر پہنچا یہ سب تعمیری اور اصلاحی بحث سے ممکن ہوا ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر وقت کے غلط لوگوں نے غلطیوں پر لکھنے کی جرم میں دانشوروں ،لکھاریوں، تنقیدنگاروں کے لیے مشکلات پیدا کیے اور انکو ریاستی طاقت سے زندانوں میں ڈال کر ازیت دیا گیا یا ملک بدر کیا گیا یا انکے خلاف دلیل کے بجائے اپنے گھٹیا لوگوں کے زریعے گھٹیاپن کا مظاہرہ کیا گیا ہے لیکن جو صیحح اورمستقل مزج تنقید نگار ہوتا ہے وہ وقت کے فرعونوں کے سامنے ڈٹتا ہے اور اپنی مہم کو جاری رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہ حق کی راہ پر ہے تو حق کی خاطر وہ سب کچھ برداشت کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے ۔1690میں امریکہ میں پہلی اخبار چھپا قبضہ گیریت کے دور میں ہونے کی وجہ سے انھیں مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا ۔تنقید کو قابض برداشت نہیں کرتا ہے کہ اسکی قبضہ گیریت کو اس سے خطرہ لائق ہوتا ہے مگر محکوم اقوام کے لو گ تعمیری اور اصلاحی تنقید کو روکنے کی کوشش کریں یہ عمل اس تنظیم اور مومنٹ کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھاتا ہے۔ ایک تنقید چین میں کلچر انقلاب کے دوران ہوا وہ تعمیری نہیں بلکہ تباہ کن اور تخریبی تنقید تھی جبکہ دوسرادوسوسال تک تعمیری اور اصلاحی تنقید یورپ میں شروع ہوا جس نے دو ہزار سال میں اندھیرے اور پسماندگی ،غربت ،جنگ وجدول میں موجود یورپ کو روشنی ،ترقی ،خوشحالی اور ایجادات کی دہلیز تک پہنچایا ،اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے بلوچ قومی تحریک میں موجود مسائل ،مشکلات ،پیچیدگیوں ،گروہ بندی،تقسیم در تقسیم اور باہمی اختلافات کے حوالے تنقید شروع ہوا جسے سبوتاژی گروپ نے چین کے کلچر انقلاب کی طرح پوتاری میں تبدیل کیا جہاں بلوچی روایات ،سیاسی اخلاقیات کی پروا کئے بغیر اس بحث کو گالی گلوچ اور پوتاری کی نظر کیا گیا جسکی شروعات سے کچھ دوست مخالفت کرتے آرے ہیں لیکن دوسری طرف آج تعمیری تنقید پر تنقید کرنے والے خود اس پوتاری بحث کے خالق ، مالک اورتخلیق کار تھے جنھوں نے تنقید کے نام پر تزلیل کا بازار گرم کیا جن کے گالیوں ،بہتام ،الزم پر مبنی الفاظ بلوچ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ،مگر آج وہ لوگ اپنی باتوں اور لکھے ہوئے تحریروں سے منہ چھپا رہے ہیں یہ خود آج کے باقی ماندہ دوستوں کے لیے ایک سبق اور نصیحت ہے کہ اختلافات اور مخالفت میں اتنی دور نہ جائیں کہ کل کو جب ملیں تو ندامت ہو ۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تنقید اصلاح کے لیے کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کسی اور مقاصد کی تکمیل کی خاطر تنقید کررہا ہوتا ہے جیسے وہ تنقید سمجھتا ہے وہ ری ایکشن ، ڈپریشن اورفرسٹریشن ہے جو وہ تنقید کے نام پر مدمقابل پرنکال رہا ہوتاہے ۔فیس بک پہ پانچ سال کی بحث کچھ لوگوں کے لیے تنقید نہیں بلکہ ڈپریشن ،فرسٹریشن،ٹینشن تھا جسکو مدمقابل پر نکالا جارہا تھا ،اگر وہ اصولی بنیاد پہ اصلاحی تنقید ہوتا تو کیا ایک آدمی کو مخبر ،ملک دُشمن،سنگتوں کا قاتل،ڈرگ ڈیلر،وہ بھی انٹرنیشنل میڈیا میں کہا جائے ،اپنے دوستوں کو دُشمن کے ہاتھوں گرفتار کروانے والا ایجنٹ ، اور شیطان قرار دیکر پھر اچانک وہی شخص راتوں رات انہی تنقید نگاروں کے لیے رہبر،رہنما،قائد،قربانی دینے والا اور فرشتہ بن جائے تو کیا کانٹ نے اس تنقید کی تلقین کی تھی ، توکیا اس طرح کی تنقید سے کانٹ قبر میں تنقید سے توبہ نہیں کررہا ہوگا ۔بی این پی عوامی اور پی این پی مینگل والوں کے درمیان پارٹی کی تقسیم کے وقت اس طرح ہوا کہ ایک دوسرے پر اس طرح کے الزامات کی بارش ہوئی کہ کسی کو نہیں لگتا تھا کہ وہ کھبی بھی ساتھ ملکر کام کریں گے لیکن جب الیکشن قریب ہوئے تو دونوں اسی طرح گلے ملے اور ایک دوسرے کی تعریفیں کرنے لگے کہ شیطان کو بھی ہنسی آئی کہ بلوچ ہوکر ہم کس طرح پل بھر میں چلانگ مارتے ہیں اور اپنے بلوچی اقدار ،رسم وراج،کو بھول کر بازاری زبان استعمال کرتے ہیں اور پھر ذاتی مفادات کی خاطر بلوچی شرم وحیا کے بغیر ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے ہیں ایک دفع اسے ہی لوگوں کے بارے میں شہید بالاچ خان نے کہا کہ پنجابیوں کی طرح جینے والا وہ ہے جو اپنی کہی ہوئی باتوں سے شرمندہ نہیں ہوتا ہے ۔کیونکہ بلوچ جب کوئی غلطی اور بلنڈر کرتا ہے تو وہ زندگی بھر اپنی غلطیوں اور بلنڈر سے شرمندہ ہوتا ہے جبکہ پنجابی کی فطرت ہے کہ وہ شرمندہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا اپنی غلطیوں اور بلنڈرز کا بوجھ کسی دوسرے پر ڈالتا ہے ۔تنقید کسی بھی طرح خراب نہیں ہے بلکہ کچھ لوگ اپنے غصہ ،فرسٹریشن ،ڈپریشن اور ٹینشن کو تنقید کا نام دیکر گالی گلوچ ،الزام تراشی،بہتام ،شگان بازی،کردار کشی کرتے ہیں یہ تنقید نہیں بلکہ ایک طرح کی ذہنی بیماری ہے ۔ہم لوگ نقاد تو ہوتے ہیں لیکن تنقید کی تعریف سے واقف نہیں ہوتے ہیں ہماری تنقید تنقیص اور تعصیب بن چکا ہے جہاں نقص تلاش کرتے ہوئے عیب جوئی کرنا ہے لیکن حقیقت میں تنقید اورنقد صیحح اور غلط میں تمیز کا نام ہے ،ہماری تنقید زیادہ تر شخصی رہا ہے جہاں شخصیات پر تنقید ہوا ہے ،شخص کے افکار ونظریات ،سوچ،پالیسیوں پر تنقید کے بجائے اسکی ذات اور شخصیات کو رگیدا گیا ہے ،شخصی تنقید کو تعصب اورتنقیص کہا جاتا ہے اسکی بنیاد علمی دلائل اور رویہ پہ نہیں بلکہ غصہ ،تعصب،نفرت،ضد،اور جذباتی مزاج پہ ہوتا ہے ۔جبکہ علمی تنقید اصلاحی ،تعمیری اور دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس نقظہ نظر کو لیکر تنقید کرنے سے اگر مدمقابل لوگ پوتاری کرتے ہیں گالی گلوچ کرتے ہیں الزام تراشی کرتے ہیں ان کو کرنے دیں وہ خود لوگوں کی نظروں میں اپنی اوقات دیکھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ گالی گلوچ تو بلوچوں کی پیداوار نہیں بلکہ پنجاب کے ہیرہ منڈی کا سمبل ہے اگر اسے کوئی بلوچ کرتا ہے تو وہ اپنی پہچان خود کرواتا ہے ، وہ اپنی فطرت کا نمونہ دیکھا رہا ہوتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ انسانوں کی کس غلیظ نسل سے اسکا تعلق ہے اور وہ پورے سماج میں اپنی اوقات کو ظاہر کرتا ہے مدمقابل کی کردار ،صحت،عمل،اور ارادہ پر اسکا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ۔اب بی ایل اے کی تقسیم سے ایک بحران آیا ہے جس طرح شروع میں کہا گیا کہ بحران کا اختتام موت یا شفا ہے ۔اب کیا بی ایل اے کی تقسیم موجودہ دور میں صیحح عمل ہے اس سے دُشمن کو نقصان اور قومی تحریک کو فائدہ پہنچتا ہے اگر دُشمن کو اس سے نقصان پہنچتا ہے تو دوست دلیل دیکر اسکی وضاحتیں کریں اگر بی ایل اے کی تقسیم سے بلوچ تحریک کا نقصان ہے تو بی ایل ایف جو ایک آزادی پسند تنظیم ہے کس طرح اس نقصان دہ عمل میں قابض کی طرح تقسیم کی حوصلہ آفزائی کررہا ہے جب حیربیار مری کے سنجیدہ دوستوں نے پانچ سال کی پوتاری بحث کے حوالے آپسی بحث کیا اور انکے اسکائپ تمام ریکارڈ کچھ دوستوں کے پاس موجود ہیں جنھیں پبلک کرنے کی ہم کسی بھی طور پر حمایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ کسی کی ریکارڈنگ کو پبلک کرنا بھی انتہائی درجے کی گھٹیا پن ہے اور اس سے فائدہ کم بلکہ نقصانات زیادہ ہونگے جس میں حیربیار مری کے سنجیدہ دوستوں کی آپسی تمام ریکارڈ موجود ہیں کہ کس طرح انھوں نے پوتاری بحث کی مخالفت کی اور ان سبوتاژی لوگوں کی فلفسہ کے بی ایل ایف ،بی ار اے ،بی این ایم ،کو ختم کرنا شامل ہے کس طرح مخالفت کی اور اسی سے تو انکے آپسی اختلافات پیدا ہوئے تعمیری اور اصلاحی بحث کی کل بھی یہ دوست حمایت کررہے تھے اور آج بھی کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف موجودہ حالات کے پیش نظر تمام آزادی پسندوں کے ساتھ اصولی اتحاد کے لیے کمیٹیاں بن چکی تھی جسکی سبوتاژی گروپ ابتدا میں بھی مخالفت کررہا تھا اور اس مہم کو بھی اپنی پوتاری بحث سے خراب کروانا چاہتا تھا لیکن سنجیدہ دوست انکے سامنے دیوار کی مانند کھڑا ہوئے اور اس پراسس کو جاری رکھا اب اسی دوران پھر بی ایل ایف کا انکے ساتھ ملکر قوم کے ساتھ دھوکہ اور فریب کرکے اتحاد کا ڈرامہ کرنا کیا تحریک دوستی عمل ہے یا قومی تھریک کو نقصان سے دوچار کرنے کی دانستہ کوشش ہے اگر حیربیارمری بی ایل ایف کی طرح سوچتا تو اتحاد کے دوران عابد زامرانی نے حیربیارمری کو پیغام دیا تھا کہ اسکی اخلاقی اور مالی مدد کریں وہ بی ایل ایف کو توڑ کر پانچ کیمپ اپنے ساتھ لیکر الگ سے دھڑا بنائے گا لیکن حیربیارمری نے اس سے کہا کہ بی ایل ایف کی تقسیم سے مجھے کیا فائدہ ہوگا اس سے تو دُشمن کا فائدہ ہے آپ نے کس طرح یہ توقع رکھا کہ میں دُشمن کے کام کی آسانی کیلئے لیے تماری مدد کرسکتا ہوں اگر وہ بی ایل ایف کی طرح سوچتا تو کیاآج بی ایل ایف دو دھڑے میں نہیں ہوتا ہاں قومی جہدکار اگر ایک مسلح یا سیاسی پارٹی سے مطمئن نہیں ہیں اور دُشمن کے سامنے سرنڈر ہونے سے بہتر ہے کہ وہ دوسری مسلح یا سیاسی پارٹی میں شامل ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں اس فلسفہ کے تحت اتحاد سے پہلے اور اختلافات کے دوران حیربیار مری نے لوگوں کو اپنی پارٹی میں لیا لیکن انھیں بھی مکمل ڈسپلن کے تابے کیا لیکن کسی کو بھی الگ سے دھڑا نہ بنایا ہے نہ تسلیم کیا ہے کہ کل کو تقسیم درتقسیم کا عمل شروع ہوکر قومی تحریک ایک نا سلجھنے کے قریب پہنچ جائے لیکن جب اتحاد کا عمل شروع ہوا تو وہ سیاسی اخلاقیات کے طور پر پابند ہوا کہ کسی کے پارٹی کے لوگوں کو نہیں لیا ۔ماسٹر سلیم جیسے قومی ہیرو جو مکران میں اپنی علمی سوچ اور فکر اور عمل کے حوالے یکتا گوریلا کمانڈر ہے کو اپنی پارٹی میں اتحادکے دورانیہ کی وجہ سے نہیں لیا، کیونکہ اتحاد کی پروسس کی وجہ سے اس نے خود کو اخلاقی حوالے سے پابند کیا ہوا تھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گا کہ جس سے کل کو اتحاد کا عمل متاثر ہو لیکن دوسری طرف سیاسی اخلاقیات اور مورالٹی سے خالی جوڑ توڑ والی پاکستانی سیاست سے متاثر لوگوں نے اتحاد کے نام پر تقسیم کاری کا عمل شروع کیا ۔کیا آج کی بی ایل ایف کے سبوتاژی لوگوں کی حمایت اور انکا الگ سے پارٹی توڑنا مستقبل میں بلوچ مسلح پارٹیوں کی تقسیم کا ابتدائی عمل نہیں ہے ۔کیا کل کو بی ار اے ،بی ایل ایف سمیت تمام پارٹیاں اس طرح کے عمل سے متاثر نہیں ہونگے ،مورو لبریشن مومنٹ کی طرح یکجہتی اور انضمام کے بجائے سینکڑوں مسلح تنظیمیں پھر نہیں بنیں گے ۔پھر ان تنظیموں کو آپسی خانہ جنگی اور دوسرے ممالک کی پراکسی اور کرایہ کے سپاہی بنے سے روکنا کیا آسان ہوگا آج جب سبوتاژی گروپ بنا ہے تو اس نے اپنے چند لوگوں کے ساتھ ملاؤں سے ساز باز کرکے مڈل مین بن گئے اور انکے اس عمل سے قومی جدوجہد کا شکل کس طرح مسخ ہوکر دنیا کے سامنے ظاہر ہوگا اسکا تصور کرنا بھی شعور یافتہ جہدکاروں کے لیے عزاب سے کم نہیں ہے ۔ نیشنلزم کی جدوجہد کو ملائیت وانتہا پسندی میں تبدیل کروانا کس کا ایجنڈہ اور پرواگرام ہوسکتا ہے نیشلزم کی آڑ میں مذہبی انتہا پسندوں کو بلوچستان میں مدد دیکر نیشلزم کی فضا اور جگہ کو انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت سے بھرنا کیا قومی مفادات کے عین مطابق عقلی اور شعوری فیصلہ ہو سکتا ہے ۔اگر آج سبوتاژی گروپ بے قابو ہوکر اس طرح کے بلنڈرز کرسکتا ہے تو پھر کل کو اس طرح کے گروپ کو روکنا کیا ممکن ہوسکے گا پھر ہر ایک گروپ اپنی پارٹی سے الگ ہوکر کسی نہ کسی طاقت یا گروپ کا کرایہ کا سپاہی بن کر مورومومنٹ کی طرح بلوچ قومی تحریکی مفادات کے بجائے طاقتور گرووں کے ہاتھوں استعمال ہونگے پھر اس بحران خانہ جنگی اور تقسیم درتقسیم کو روکنا کیا آسان ہوگا ۔کیا اپنے وقتی مفادات کے لیے پوری تحریک کو بحران میں مبتلا کرنا کونسا جدوجہدی اور قومی فریضہ ہے کیا اس بحران کو پیدا کرنے اور ان لوگوں کو سپورٹ کرنے کی اخلاقی ،قومی سیاسی اور جدوجہدی کوئی بھی جواز ان کے پاس موجود ہے اگر صیح جواز انکے پاس ہے تو اس بحران کو حل کرنے کے لیے وہ اپنا جواز دلیل کی بنیاد پر قوم کے سامنے دیں تاکہ لوگ مطمئن ہوں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بحران جس طرح موت یا شفا پر ختم ہوتا ہے ہوسکتا ہے یہ تقسیم وقتی طور پر بی ایل اے کے لیے نقصان دہ عمل ضرور ہے لیکن مستقبل میں بی ایل اے بلوچ قومی تحریک کی سب سے بڑی طاقت ہوگی کیونکہ اس نے اپنی جنگی ڈاکٹرائن تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے اور بہت جلد وہ اپنی طاقت وقوت دُشمن کو ضرور دیکھائے گا اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ابھرے گا لیکن اس تقسیم درتقسیم سے پوری تحریک بے حد متاثر ہوگا اس کے منفی اثرات بہت جلد دیکھنے کو ملیں گے ،اس سے تمام پارٹیاں مستقبل میں متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکیں گے اگر بی ایل ایف اس طرح کے عمل کے مثبت نتائج دیکھتا ہے وہ تعمیری اور اصلاحی بحث سے ہمیں قائل کریں ورنہ تعمیری اور اصلاحی بحث کو سبوتاژی گروپ اور باقی گروپ گالی گلوچ،شگان بازی اور جذباتی بلیک ملینگ سے نہیں روک سکتے ہیں اگر انکی اس طرح کی کھٹیا پن سے دوست پریشان ہوتے تو پانچ سالوں میں سبوتاژی گروپ اور باقیوں نے تعمیری اور اصلاحی تنقید کرنے والوں کو کن کن ناموں الزامات،اور گالیوں سے نہیں نواز ا تو دوست اس وقت خاموش ہوچکے ہوتے کیونکہ دوست جو لکھتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں وہ سب اس چیز کو سمجھتے ہیں کہ یہ پارلیمانی جدوجہد نہیں قومی جدوجہد ہے اور اس میں جدوجہد اور مشن کی کامیابی کے لیے مسلمہ اصول مورال اتھارٹی اخلاقیات،اور جدوجہد اور قوم کے ساتھ ایمانداری ہے ۔باقی کچھ لوگ اگر گالیوں کاجواب گالیوں بہتام تراشی ،الزام لگانے اور شگان بازی سے کرتے وہ سمجھ لیں کہ تعمیری اور اصلاحی بحث کو وہ خود نقصان دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب آپ کسی ریاست کے خلاف لکھتے ہو وہ آپ کو گرفتار کرتا ہے زندان میں ڈالتا ہے ،ڈکٹیٹر کے خلاف لکھتے ہو وہ آپ کو مارتا ہے ،جب کسی غلط سمت پر گامزن جہدکار کے خلاف لکھتے ہو وہ ضرور دلیل ،منطق،حقائق ،ثبوتوں کی بنیاد پر سوال کے جواب میں گالی گلوچ ،الزام تراشی ،بازاری حرکت اور پنجابی فطرت کا مظاہرہ کرتا ہے وہاں حقیقی لوگوں کو سب کچھ برداشت کرنا ہوگا اس گند میں ہاتھ نہیں ڈالنا ہوگا بلکہ مورال اتھارٹی ،اخلاقیات،اور ایمانداری اور سچائی سے اصلاحی اور تعمیری بحث کرنا ہوگا تاکہ صیح اور غلط کا فرق واضح ہو اور قومی تحریک کو اس بھنور ،دھندلاپن سے نکال کر جدوجہدی حقیقی اور خالص ٹریک پر لاکر کامیاب کرنا ہوگا ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز