جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںقیام سے لیکر آج تک بحرانوں کا زمہ دار مسلح و سیاسی...

قیام سے لیکر آج تک بحرانوں کا زمہ دار مسلح و سیاسی پارٹیاں ہیں۔ کانسٹیٹیوشنل بلاک

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کانسٹیٹیونل بلاک کی جانب سے کوئٹہ، اوتھل، کراچی ، حب اور تمپ زون میں اور27نومبر کوریفرنسز کا انعقاد کیا گیا۔بی ایس او کے قیام کے حقیقی تاریخ کے حوالے سے ابہام اور 27نومبر1967کے دن کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے کانسٹیٹیوشنل بلاک کی جانب سے 27نومبر کو بطور یو م تاسیس منانے کے بجائے مختلف زونوںمیں بی ایس او کے قیام ، مقاصد اور موجودہ بحرانی صورتحال پر بحث کیا گیا۔ منعقدہ ریفرنسز میں کہا گیا کہ قومی تحریک کے مختلف ادوار میں مسلح اور سیاسی محازپر بی ایس او کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے باجگزار رکھنے کا رویہ ہمیشہ حاوی رہا ہے اور تاحال جاری و ساری ہے جو کہ بی ایس اوکی قیام سے آج تک کے تنظیمی تقسیم اور بحرانوں کی حقیقی وجہ ہے بی ایس او آزاد کو مفاداتی سیاست اور سیاسی و مسلح تنظیموں کے دست نگری سے نکال کرہی حقیقی معنوں میں بی ایس او کے قیام کے مقصد کو زندہ کیا جا سکے گا ۔ بی ایس او کے قیام نے بلوچستان کے غیر سیاسی حالات میںجدید قوم پرستی کے سوچ کو پروان چڑھا کر قومی تحریک کی سیاسی بنیادیں تشکیل دیں جن پر قومی تحریک کے موجودہ ادارے کھڑے ہیں لیکن موجودہ قومی سیاست میں بی ایس او کی حقیقی شکل کوبحال کرنے کے بجائے اسے مزید بحرانوں میں دھکیل دیا گیا ہے جس سے پوری قومی تحریک نقصان سے دوچار ہے ۔ آج سے پانچ دہائی قبل تشکیل پانے والے سیاسی حالات اور قومی آزادی کے شعلوںسے متاثر ہو کر بلوچ طلبہ نے خود کر منظم کرنے اور اپنے سماج میں طلبہ کا تاریخی کردار زندہ کرنے کیلے تنظیم کی شکل اختیار کی۔ اس وقت کے سماجی حالات اور مسلح جد و جہد کے ابتدائی شکل اور محدود یت میں بلوچ طلبہ نے اپنے قوم میں سیاسی رویوں اور سیاسی اداروں کے جانب سفر کا آغاز کیا جس نے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے بی ایس او کی شکل اختیار کی جس کا تاریخی تسلسل آج بھی جاری ہے ۔ 1960کی دہائی میں بلوچ طلبہ کی منظم سرگرمیاں اور بی ایس او کا قیا م بلوچ معاشرے میں جدید سیاسی اداروں اور جدید قوم پرستی کی ترویج کی جانب ایک آغاز تھا جس نے آگے جا کر قومی تحریک کو سیاسی قوت فراہم کیا بی ایس او کے فلیٹ فارم پرہی بلوچ طلبہ اپنے وقت کے انقلابی حالات اور نئے نظریات سے متعارف ہوئے جس نے بلوچ معاشرے میں قومی آزادی کے ساتھ سماجی تبدیلی کے بھی راہیں روشن کیں ۔ بی ایس او کے قیام نے بلوچ معاشرے میں طلبہ کو منظم وباشعور بنا کر ان کے تاریخی کردار کو زندہ کیالیکن طلبہ کے اس تاریخی کردار کوبی ایس او کے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہی مختلف زریعوں سے اپنے حقیقی مقاصد سے منحرف کیا گیا ۔1970کے ابتداءمیں ابھرنے والی سیاسی طاقت کی دوڑ نے بی ایس او کو سب سے زیادہ متاثر کیا جس کے نتیجے میںپیدا ہونے ولی منفی سیاست کے باقیات آ ج بھی بی ایس او پر نافذ ہیں اس باجگزارانہ سوچ سے چٹکارہ پانے کی اشد ضرورت ہے ۔ قومی تحریک میں سیاسی رویوں اور سیاسی اداروں کی مناسب ترقی اور نشونما نہ ہونے کی وجہ سے نیب کے بعد بھی مختلف ادوار میں قوی تحریک میں ابھرنے والے مسائل سے بی ایس او براہِ راست متاثر ہوا ہے ۔ بی ایس او کو طلبہ کی حقیقی تنظیم کے طور پر اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع دینے کے بجائے ہر دور میں اسے سیاسی اور مسلح حلقوں کے زیر اثر رکھتے ہوئے بلوچ طلبہ کے آزادی و تبدیلی کے لگن کو مخصوص سیاسی مقاصدکیلئے استعما ل کیا گیا ۔ جس کے منفی اثرات نہ صرف بی ایس او کے کیڈروں کی سیاسی نہ پختگی کی شکل میں سامنے آیا ہے بلکہ اس سے بی ایس او سمیت تمام تحریک کے اداروں پر بھی مہلک اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ جنہیں اپاہج بنا کر سیاسی پارٹیوں یا مسلح تنظیموں کے بیساکیوںپر چلنے پر مجبور کیا گیا ۔ اس عمل نے جہاں ایک طرف بی ایس او کے اداروں اور اس کے سیاسی بنیادوں کو منظم ہونے سے روکھا وہی بی ایس او کے پیداوار میں سیاسی پختگی کوبھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں قومی تحریک میں ابھرنے والی عوامی سیاست بھی غیر پختگی کا شکار ہوئی ہے ۔ انہی عوامل کی وجہ سے آج پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود بی ایس او ایک منظم ادارے کی شکل اختیار نہیں کر پایا ہے بلکہ ہر دور کی طرح آج بھی پے در پے بحرانوں کا سامنہ کر رہی ہے ۔ آج بھی بی ایس او کے پاس نہ منظم آئین ہے اور نہ ہی ایک منظم سیاسی لائحہ عمل ہے بلکہ بی ایس او کے اداروں کو اپنا سیاسی مقام تلاش کرنے کیلئے ان پارٹیوں اور تنظیموں کے در پر دستک دینے کی ضرورت پڑ رہی ہے جو آج تک خود کو منظم نہیں کر پائے ہیں ۔ البتہ ان پارٹیوں اور تنظیموں نے بی ایس او کی ان کمزوریوں کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے غیر پختہ لیڈر شپ اور غیر منظم اداروں کو اپنے زیر دست لانے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ بی ایس او کے اداروں کوہائی جیک کرنے کا یہی عمل رہا ہے جس کی بدولت بی ایس کی تاریخ تقسیم اور غیر منظم سیاست کا عکاس رہا ہے اور قوی تحریک میںدیگرپارٹیوں اور تنظیموں کے برعکس زیادہ منظم ہونے کے باوجود بھی بی ایس او خود کو قومی تحریک کے سیاسی بحرانوں سے بچا نہیں پائی ہے بلکہ تحریک میں جہاں جہاں مسلح اور سیاسی پارٹیاں تقسیم ہوئی ہیں وہیںوہیں بی ایس او کو بھی تقیم کی جانب لے جایا گیا ہے ۔ جبکہ قومی تحریک میں سیاسی قبلہ تبدیل کرنے والے کے پیچھے بھی بی ایس او تقسیم ہوئی ہے ۔ جو کہ اس بات کی غماز ہے کہ بی ایس او کے ادارے ہمیشہ ان سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں یرغمال رہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں آنے والی تبدیلوں نے بی ایس کو براہ راست متاثر کیا ۔ بی ایس او کی سابقہ بحرانوں اور مسائل کی ایک مربوط اور سبق آموز تاریخ ہونے کے باوجود قومی تحریک کے موجودہ دور میں سرگرم سیا سی پارٹیوں اور مسلح تنظیموں نے بجائے تاریخ سے سبق سیکھنے اور بی ایس او کو مضبوطی کی راہ پر لگانے کے اپنے تاریخی غلطیوں کے تسلسل کو فخریہ دہرایا جس سے جہاں ایک طرف پارلیمنٹ پرستوں نے بی ایس او کے یرغما ل سیاسی قوت میں سے اپنا حصہ اپنے دھڑوں کی صورت میں الگ کر کے انہیں اپنے جی حضوری پر لگا دیا وہیں آزادی کی نام پر سیاست کرنے والے گروہوں نے بھی ایک ہی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی ایس او کو بطور ادارہ تسلیم کرنے اور بلوچستان میں انقلابی اور صحت مند طلبہ سیاست کو فروغ دینے کے بجائے اس کی سیاسی طاقت کو اپنے حق میں کیش کرنے پر زور آزمائی کی جس کے اثرات بی ایس او آزاد کے ادارو ں کی کھوکلے پن اور موجودہ بحرانوں کی صورت میں ابھرا ہے جہاںبی ایس او آزاد کی اداروں پر چند افراد کو قابض کر کے ان کے زریعے اداروں کی حیثیت اور وقار کو بے اثر کر دیا گیا ہے ۔ جس سے بی ایس او آزاد بھی گزشتہ ادوار کی منفی اور مہلک سیاسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے طلبہ کو منظم کرنے اور آزادی و انقلاب کیلئے ان کے تاریخی کردار کو ابھارنے کے بجائے ان مخصوص سیاسی گروہوں کی ترویج کو اپنا مطمع نظر بنا چکا ہے ۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ طلبہ نے آج سے 5دہائی قبل جس انقلابی جذبے کے تحت منظم ہو کر بی ایس او کوتشکیل دیا تھا آج بھی بلوچ طلبہ میں انقلابی راہیں مسدود نہیں ہوئی ہیں ۔ بی ایس او اپنے تاریخ کے حوالے سے شاہد ہے کہ ہر دور کی منفی سیاست اور بحرانوں کے باوجود بی ایس او کے اندر ایسے عوامل رہے ہیں جو کہ کسی سیاسی پارٹی یا مسلح تنظیم کے بجائے بی ایس او سے مخلص رہے ہیں ۔ جنہوں نے ہر دور میں بی ایس او کو سیاست کی نظر کرنے کے مخالفت کی ہے ۔ آج بی ایس او آزاد کے ان کے بحرانوں میں بھی بی ایس او کے ممبران ماضی کی نسبت زیادہ باشعور اور زیادہ منظم ہیں جو کہ بی ایس او کے قیام کے حقیقی مقصد پر قائم ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز