جمعه, مارس 29, 2024
Homeخبریںلاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین و خطرناک مسئلہ ہے،...

لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین و خطرناک مسئلہ ہے، بی ایس او آزاد

کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے 30اگست کو لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ موجودہ دور میں دنیا کی کسی بھی خطے کے لاپتہ افراد کے مسئلے سے زیادہ سنگین و خطرناک مسئلہ ہے۔کیوں کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے ہاتھوں اغواء ہونے والے سیاسی کارکنان کو مارو پھینکو پالیسی کے تحت قتل کیا جا رہا ہے۔ ریاستی فورسز کی کاروائیوں کے دوران ہونے والے نہتے بلوچ فرزندان کی اغواء کے حقائق کو بدلنے کے لئے مقامی میڈیا فورسز کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے فوجی ترجمان کی بیانات کو ہی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جبکہ عالمی میڈیا کی بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کے حوالے سے خاموشی فورسز کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ایک عرصے سے سیاسی کارکنان کو اغواء کرکے ان کی مسخ شدہ لاشین ویرانوں یا اجتماعی قبروں میں دفنائی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کو کالجوں، گھروں سے یا دورانِ سفر اغواء کرنے کی کاروائیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ پچھلے کئی عرصوں سے جاری ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی سابقہ سینئیر وائس چئیرمین زاکر مجید بلوچ 8جون 2009کو مستونگ سے اُٹھا کر فورسز نے اپنے کیمپ منتقل کردیا۔  زاکر مجید بلوچ کی اغواء کوچھ سال کا طویل عرصہ گزرنے او خود ریاستی عدلیہ کی احکامات کے باوجود تاحال عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ بی ایس او آزاد کے چئیرمین زاہد بلوچ کوبھی گزشتہ سال 18مارچ کو فورسز نے کوئٹہ سے دن دیہاڑے اغواء کردیا تھا، طویل احتجاج کے باوجود تاحال زاہد بلوچ بھی فورسز کی تحویل میں ہیں، انہوں نے کہا بلوچ اسٹوڈنٹس لیڈران کی زندگیوں کے حوالے مختلف خدشے جنم لے رہے ہیں۔ کیوں کہ ہزاروں سیاسی کارکنان ریاستی فورسز کی حراستی مراکز میں تشدد سے شہید کیے جا چکے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے سینکڑوں لیڈر و کارکنان سمیت ڈاکٹر دین محمد بلوچ، رمضان بلوچ، زاہد بلوچ،اور سیاسی جماعتوں کے ہزاروں کارکنان سالوں سے فورسز کی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ جہاں انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آئے روز مغوی بلوچ فرزند ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور بلوچ آبادیوں پر حملہ آور ہو کر درجنوں فرزندان کو اغواء کرنے سے ریاستی فورسز یہی ثا بت کررہے ہیں کہ وہ کسی جنگی قانون و اخلاقیات کے پابند نہیں۔انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کی خاموشی اور عالمی میڈیا کی عدم توجہی کے باعث اس طرح کی کاروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ آج 30اگست کو نال کے علاقے گریشہ میں فورسز نے گونی، اور داردان سے کئی لوگوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔ نہتے بلوچ عوام پر ریاستی طاقت کے آزادانہ استعمال سے روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ جبکہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی کاروائیاں بھی روز بہ روز شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ بی ایس او آزا دلاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر اقوا م متحدہ سمیت انسانی حقوق کی اداروں و سول سوسائٹی کی تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے خلاف اور بی ایس او آزاد کے چیرمین زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ، ڈاکٹر دین محمد سمیت  ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنی آواز اُٹھائیں۔ تاکہ زیر حراست ہزاروں مغوی سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز