پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزماضی کے نتائج اور حالیہ لہر تحریر : اسلم بلوچ

ماضی کے نتائج اور حالیہ لہر تحریر : اسلم بلوچ

انسانی احساسات،جذبات اور تجربات کا اگر تعلق تنقید سے جوڑکردیکھیں تو تب بھی کھرے و کھوٹے،سچ و جھوٹ،صحیح و غلط،خامیوں اور خوبیوں کے بیچ چانچ پرکھ کا عمل ہی صرف اور صرف تنقید کہلائے گا کہتے ہیں کہ انسانی ذہن حقائق کی پہچان کا وسیلہ ہوتا ہے اس فطری حقیقت کو اگر بنیاد بناکر ہم غور کریں تو یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ تنقید صرف اور صرف احساسات،جذبات،معلومات(ناقص یا مستند سے قطع نظر)یا تجربات کی تشریح کا نام نہیں تنقید کیلئے علم،مکمل معلومات، مناسب و موزوں طریقہ کار ضروری ہوتا ہے ساتھ ہی تنقید کرنے والے کا منصب کردار و بصیرت کو بھی مدنظر رکھنا لازمی ہوتا ہے کیونکہ تنقید میں ذاتی نظریات،خواہشات و ذاتی عقائد کی گنجائش نہیں ہوتی اورتنقید میں بلاوجہ شک کا عنصر بغیر تحقیق اسکا برملا اظہار سیدھی طرح سے تعصب کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
سب سے بنیادی بات جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ تنقید کے پیچھے کا مقصد ہے کہ آیا واقعتاً عمل میں بہتری اور اصلاح کے لئے رہنما اصولوں کی ضرورت کے پیش نظر سوالات جنم لے چکے ہیں اورسوالات برائے راست تعمیری عمل سے تعلق رکھتے ہیں، عمل سے جوڑے خامی،کمزوری، جھوٹ، بے بنیاد و غیر حقیقی کے متعلق جو لکھا، کہا یا سمجھایاجارہا ہے اسے اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے اسمیں ہرگز قوانین لاگو یا ضابطہ بندی نہیں کی جاسکتی اگر ایسا کیا جائے تو یہ تنقید سے زیادہ قانون سازی اور اسکے اختیارات رکھنے کے زمرے میں آتا ہے اگر تنقیدی عمل میں ایسا کوئی تاثر عام کیا جائے تو یہ تاثر از خود تنازعے کو بنیاد فراہم کرے گا اور دوسری طرف اگر سوالات کی صحت اور رکھنے کے طریقہ کار میں ذرا برابر بھی تضحیک یا نفی و بے قدری نظر آئے تو تنقید اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اور اسکے پیچھے کا مقصد تنقیدی عمل کو مشکوک بناکر دیگر عزائم کی نشاندہی کرتے ہوئے تعمیر کی بجائے بدظنی دوریاں اور پیچیدگیوں کا سبب بن جاتا ہے ۔
کامل مکمل کا تصور یا اسکے متعلق دیگر تصورات کے بیچ وقوع پذیری کیلئے عمل واحد ذریعہ ہے مسلسل عمل از خود کل کی تلاش یا حصول کی جانب اشارہ کرتا ہے نہ کہ اسکے مکمل ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو عمل کے تسلسل میں تنقیدی نقطہ نظرتعمیری بہتری کیلئے بطور معاون پیش ہوتا رہتا ہے ماضی کی درست درجہ بندی اور اسمیں رتبہ شناسی کو تخلیقات کی تجزیے سے مربوط کرکے حقائق تک رسائی ممکن بنایا جاتا ہے ایسا نہیں کہ رد، کسی بھی سطح کی نفی یا تضحیک و تعصب کے ساتھ عمل میں ٹکراؤ پیدا کیا جاتا ہے حالات و قوت کا اسکو ممکن یا نا ممکن بنانے میں بڑی حد تک عمل دخل ہوتا ہے تو جاری عمل سے جوڑے تمام حقیقی عوامل اور حالات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
وسیع مطالعہ،حوالہ جات، تجربات ان کے بیانیہ میں بھی ضرورت سوالات کے صحت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے ناکہ انکے بل پر بے قدری تضحیک نفی یا ذاتی خودساختہ قوانین،اصول یا ضابطوں کے ذریعے غلبہ پسندی اور برتری کیلئے امتیازی تاثرات پیدا کرنا۔
اسی تناظر میں اگر ہم بلوچ جدوجہد آزادی میں جاری تنقیدی عمل کا تجزیاتی جائزہ لینا چاہیں تو بہت سے ایسے نقاط کا خلاصہ ہوجاتا ہے جو بالکل متضاد حیثیت رکھتے ہیں ایک تو ہمارے ہاں ابتدائی حوالے سے ہی طفلانہ غیر سنجیدگی کاپہلو حاوی نظرآتا ہے ابتدائی نوعیت کے حوالے سے ایسے رویے غیر متوقع نہیں ہوتے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پچھلے تمام عرصے میں تسلسل کے ساتھ ا سمیں سنجیدگی اور علمی و عملی پختگی کے حوالے سے بہتری کی جگہ مزید بدتری کے آثار نمایاں ہوتے گئے جسکی وجہ سے ہم اس عمل سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے اور جو نتائج سامنے آئے وہ تحریک کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں کسی صورت حوصلہ افزاء قرار نہیں دیئے جاسکتے اگر قابل تشویش قرار دئیے جائیں تو غلط نہیں ہوگا تو یہ سمجھنا بہت ضروری ہوچکا ہے کہ ہم تنقید کی حقیقت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے جاری عمل اور وقت و حالات اور عمومی مزاج کو بھی اچھی طرح سمجھیں ۔
اگر ہم تنقید کی حقیقت اور ضرورت پے نظر ڈالیں تو اس سے انکار ممکن نہیں کہ تنقید ہی وہ ذریعہ ہے جو منطق و دلیل کو جلا بخشتی ہے جہاں منطق و دلیل کی پہنچ نہیں وہاں تنقید موجود رہتا ہے علم کی طلب وجستجو میں بھی تنقید بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے بلوچ جدوجہد آزادی میں تنقید کی ضرورت اہمیت اور افادیت روز اول سے ہی رہی ہے اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری بھی رہا ہے روایتی انداز میں محدود پیمانوں پر یہ گلے شکووں کی صورت میں مثبت یا منفی اثرات کے ساتھ چلتا رہا ہے ادارہ جاتی حوالے سے علمی و عملی سطح پر اسکی کوئی پختہ مثال موجود نہیں ہاں بطور طلباء تنظیم بی ایس او میں کونسل سیشن، کابینہ، سنٹرل کمیٹی اور زونل اجلاسوں میں تنقیدی ایجنڈا بحث و مباحثوں کا ایک سلسلہ ضرور رہا ہے انکے علاوہ اورکوئی مثال نظر نہیں آتا موجودہ حالات میں سوشل میڈیا کے استعمال نے اسمیں آزادانہ و وسیع شراکت داری کو آسان بنادیا ہے جس میں ذمہ داری پہچان اور آداب کے لحاظ سے پابندیاں لاگو کرنا تقریبا تقریبامشکل ہوچکا ہے اسکے اخلاقی حدود و شرکت کا معیار اورطریقہ کار و پیمانے مقرر کرکے ان پر اختیارحاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ،تو ایک طرف تنقید کی حقیقت وضرورت دوسری طرف ادارہ جاتی روایت کا فقدان اور سوشل میڈیا کا استعمال مزید پیچیدگیوں کا باعث بنا رہا تمام عرصے میں یہ مسئلہ اپنے حل کیلئے صرف ایک متفقہ وضاحت و تشریح کا طلب گار رہا جو بد قسمتی سے ممکن نہ ہوسکا ایسے حالات میں اب ہم قومی جدوجہد سے جوڑے عملا سرگرم عمل حقیقی قوتوں پر نظر ڈالیں تو شروعات سے ہی انکے بیچ سیاسی و ادارہ جاتی رویوں کا فقدان رہا ہے آپسی تعلقات،لین دین و جاری جدوجہد میں کسی بھی حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کیلئے انکا مکمل انحصار شخصی رابطوں مزاج رویوں پر رہاہے تمام عرصے میں درپیش مسائل کو سمجھنے اور انکے حل کیلئے کسی بھی متفقہ و مشترکہ ادارے کی ضرورت اگر محسوس کی بھی گئی تو اسکو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہے (اسکے وجوہات چائے کچھ بھی رہے ہوں) انہی وجوہات کی بناء پر چھوٹے بڑے تمام مسائل جوں کے توں رہے بلکہ مزید پیچیدگی اور الجھن کا شکار ہوتے گئے۔ تو اسی ایک کمزوری کی بنیاد پر تنقیدی عمل موزوں و مناسب مقام و طریقہ کار سے محروم رہا ابتدائی حوالے سے جو بھی سوالات اٹھائے گئے وہ حقیقی طور پر دوران عمل سراٹھاچکے تھے ایک حد تک تحریک کے رفتار پر پوری طرح اثر انداز ہونے جارہے تھے اندیشوں اور خدشات کے اظہار کو ساتھیوں کی طرف سے نظر انداز کرنے کے عمل نے مکمل طور پر تنقیدی عمل کو سطحی و عوامی نوعیت کیلئے جواز فراہم کیا جس کی بنا پر تنقیدی عمل شروع سے ہی تجزیاتی حوالے سے حقیقی عوامل کی طرف جانے کی بجائے شک جذباتیت اور ردعمل کا شکار ہوا ابتداء سے لیکر سات آٹھ سالوں تک جدوجہد کے طفیل جو ماحول بن چکا تھا وہ از خود بہت سے معمولی اور سطحی خامیوں،کمزوریوں اور نادانیوں کی برپائی کررہاتھا ایسا بھی نہیں تھا سب کچھ بالکل ٹھیک چل رہا تھا اور یوں بھی نہیں کہہ سکتے بگاڑ اپنے آخری حدوں کو پار کرنے والا تھا بالکل اسی مقام پرلین
دین،تعلقات، ذمہ داریوں اور رویوں و فرائض کے حوالے سے بھی سخت تربیت کی ضرورت پیش آرہی تھی اور اور ساتھ ہی ساتھ وقت و حالات کے تحت رتبہ بندی اور حد بندیوں کی بھی لیکن ان پر کام نہیں ہوسکا یا نظر انداز کردیئے گئے اسی کمزوری اور خامی کی بدولت سطحی سیاست اور گروہیت والی روایتی سوچ تقویت حاصل کرنے لگی ایک دوسرے پر سبقت و برتری کا رجحان ایسے سر چڑھ کر بولا کہ رہی سہی اخلاقی قدریں دم توڑنے لگیں، توڑ جوڑ کیلئے تنظیمی ضابطے اور گوریلا جنگی ضابطے بھی خاطر میں نہیں لائیں گے،جدوجہد کے حوالے سے اندرون خانہ مجموعی حوالے سے سب کو مخالفین وحاسدین کے وجود اور درباری مزاج وچاپلوسی جیسے فطری منفی عناصر اور انکے رویوں کا بھی سامنا رہا ایسے منفی رویے وعناصرہمیشہ سے کمزوری اور خامیوں کے بیچ خوب پنپتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرنے کی روش نے بہت سے جذباتی مخلص ساتھیوں کو کسی نہ کسی حوالے سے متاثر کیا۔ حاسدین اور مخالفین کے وجود نے انکو پوری طرح سے مایوسی کی طرف دھکیلنا شروع کیا ان مسائل کے بیچ جہاں بہت سے مخلص ساتھیوں کو ایک تنظیم سے دوسری تنظیم سے رابطوں پر مجبور کیا بالکل اسی مقام پر حاسدین مخالفین چاپلوس اور درباریوں کو بھی جگہ بنانے کا پورا موقع فراہم کیا آپسی رابطوں کے فقدان کی وجہ سے مکمل انحصار سنی سنائی باتوں پر رہا جسکا فائدہ سیدھی طرح سے منفی عناصر نے اٹھایا چند مخلص ساتھیوں کے علاوہ ظاہری طور ان مخالفین اور حاسدین کا مقصد نا تو مسائل کا حل تھا اور نہ ہی تحریک تھی انکے اپنے اپنے عزائم تھے حقیقی دوستوں کے بیچ پیدا خلیج کو مزید گہرا کرنے سے فائدہ انہی عناصر کا تھااس دوران تنقیدی عمل ادارہ جاتی رویوں کے فقدان اور سوشل میڈیا کے استعمال نے اس بہتی گنگا میں سب کو ہاتھ دھونے کا بہت خوب موقع فراہم کیا ،کچھ ساتھی جدوجہد میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کے حوالے سے خدشات و اندیشوں کو نظر انداز کررہے تھے تو ہم تنقید سوشل میڈیا اور تعلقات کو اس نہج پر لے جانے سے جہاں سے واپسی مشکل ہو۔
یہ گمان و تاثر ہر طرف زور پکڑنے لگا کہ تباہی و بربادی کا ذمہ دار سامنے والا ہے ہم تو کامیابی و کامرانی کے قریب ہیں ایک تعمیری عمل جب ایک رسہ کشی کی صورت حال پیش کرتے ہوئے ایک محاذ میں تبدیل ہوا تو آپسی جھگڑوں کے حوالے سے توجہ حاصل کرنے لگا جس کے منفی اثرات برائے راست بلوچ عو ام اور تحریک کے خیرخواہ حلقوں پر پڑنے لگیں، دشمن کے خلاف اصل محاذ اور بنیادی عمل کسی نہ کسی حد تک عدم توجہی کا شکار ہوا،دشمن کو اس سے زیادہ بہتر موقع اور کیا چاہئے تھا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ایک تعمیری عمل سے مربوط ہمارے طفلانہ رویوں اور آپسی رسہ کشی نے مفادات کی جنگ کی جو منظر کشی کی دشمن نے اسمیں اچھے سے رنگ بھر کر اسکی عوامی سطح پر خوب نمائش کی اور تحریکی سرگرمیوں اور ساتھیوں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کئے بدقسمتی سے سطحی سیاست و جذباتیت اور گروہی برتری کیلئے ہم نے بھی بہت سے ایسے غلط اور غیر اخلاقی حربے آزمائے جو دشمن کے پروپیگنڈہ کی تصدیق کرتے ہوئے اسکے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے لگیں، جنگی واقعات میں فردی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہم نے پوری جنگی عمل و حالات کو سمجھے بغیر اسکے تسلسل کی نفی کرنا شروع کی جس عمل کو رفتار دیکراسکی تقویت مقصود تھا اسی عمل کو کسی نہ کسی حوالے یا زاویے سے کمزور کرنے لگے تو مطلوبہ نتائج کیسے حاصل ہوتے اسی دورانیہ میں دشمن نے مزاحمتی لہر کو روکنے اور ختم کرنے کیلئے فوجی جارحیت کا بھر پور سہارا لیا دشمن کی طرف سے دوطرفہ وار میں جو کچھ سہہ چکے اور جو سہہ نہ سکے وہ سب کے سامنے ہیں۔
لہٰذا ان تمام حالات کے پیش نظر یہ بات صاف ہوچکا ہے کہ ہم کم از کم وہ سب کچھ نہیں دہرائے جن کی بدولت ہم اس نہج تک پہنچ چکے ہیں۔اگر ہم تنقید کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں اس کیلئے سب سے پہلے حقیقی قوتوں کو بھی دل و جان سے تسلیم کرنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ تنقید کی اصل حقیقت سے رجوع کرنا ہوگا اور اس کیلئے متفقہ ادارہ جاتی موقع و ماحول بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا اپنے گروہی حیثیت اور مقام کو مجموعی طورپر تحریک اور قومی مفادات سے مربوط کرنا ہوگا۔وہ عوامل جو تحریک میں قیمت رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے وقت و حالات کے تحت ان میں توازن پیدا کرنا ہوگا پندرہ سالہ تجربات نے ہمیں جو کچھ سکھایا اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے اب بھی وقت ہے کیونکہ ہم پر جو دھن سوار تھے انکی حقیقت اور ہمارے اصل حقیقت کو دشمن کی جارحیت نے ہمارے سامنے طشت از بام کردیا، بدقسمتی سے اسکی قیمت ہمارے قیمتی جان اور مقدس لہو رہا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وہ غلطیاں ہرگز نا دہرائے جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز