پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeاداریئےمرکزی بلوچستان کی حیثیت .; اداریہ

مرکزی بلوچستان کی حیثیت .; اداریہ

مرکزی بلوچستان کی حیثیت
اداریہ
بلوچ وطن کی مرکزی حیثیت جو پاکستان کے زیر تسلط بلوچستان سے وابستہ ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں آباد بلوچ مرکزی بلوچستان پر نظر جمائے ہوئے ہیں کہ کب مرکزی بلوچستان کی اٹھتی لہر بلوچوں کو آزاد و خودمختار آزاد وطن و آزاد قوم کی پہچان دے گا. مقبوضہ بلوچستان جو پاکستان کے 44% فیصد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس میں وہ علاقے شامل نہیں جو انگریزی نوآبادیات بنے سے پہلے تھے اگر ان علاقوں کو شامل کیا جائے تو 65%سے زیادہ رقبہ بلوچستان ہی ہوگا اسکے علاوہ مغربی بلوچستان جو کہ ایران کے زیر تسلط ہے وہ بھی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے ایران کے ساتھ جو وسیع لائن بلوچ وطن کو تقسیم کرنے حوالے سے کھینچی گئی وہ گولڈ سمتھ لائن لائن کہلائی اور افغانستان کے ساتھ افغان وطن و بلوچستان کو تقسیم کے حوالے ڈیورنڈ لائن جسے نہ بلوچ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی افغان. جو کہ سو سالہ معاہدہ کے بعد ختم ہو گئی لیکن اس پر نہ افغانستان کی جانب سے کوئی خاص اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی بلوچ اس طاقت میں ہیں کہ وہ اپنے بکھرے ہوئے حصوں کو یکجاہ کر سکیں. افغانستان و بلوچستان کی ڈیورنڈ لائن پر موقف شروع سے ہی ایک رہا ہے اور بلوچ رہنما حیر بیار مری نے بلوچ وطن کی آزادی کے بعد بلوچ و پشتون علاقوں کے بارے واضع موقف کے ساتھ کہا کہ جو پشتون بلوچستان میں رہنا چاہتے ہیں وہ بلوچستان کے باسی ہونگے جو پشتون افغانستان کے ساتھ یا اپنا علیحدہ وطن بنائیں گے بلوچ اسکی سواگت کرینگے لیکن تاریخی علاقوں کی تقسیم ممکن نہیں. اور بلوچ و پشتون احمد شاہ ابدالی و نصیر خان نوری کے دور سے دوستانہ برادرانہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شراکت داری کے ساتھ رہے تھے اور ایک دوسرے کے مفادات کی تحفظ کرتے رہے تھے اور وقت نے کروٹ لی اور ماضی کے وہ رہنما تاریخ و قوم کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں. اور ہر کھٹن دور میں افغانستان بلوچوں کی پناہ گاہ رہی ہے اور بلوچستان ہر کھٹن دور میں افغانیوں کو پناہ دی ہے لیکن ایران کے ساتھ تعلقات شروع سے ہی کشیدہ رہے ہیں نوشیروان عادل کی دور حکومت ہو جسے بلوچ نوشیروان ظالم کے نام سے پکارتے ہیں یا پھر خمینی کی. ہر دور میں بلوچ ایران سے مدمقابل رہے اگر دوستی رہی بھی برائے نام. اور اپنے مفاد کے تحت جب ایران کے مفادات پورے ہوئے تو پھر وہی ظلم و ستم برقرار رہا اب تک خمینی کی حکومت نے ہزاروں بلوچوں کو منشیات کے سمگلنگ کے بہانے پھانسی پر چڑھا چکا ہے سینکڑوں رہبر معتبر و سرداروں کو اپسی چپقلش و سازش کے تحت راستے سے ہٹا چکا ہے اب ایران بھیڑ کی کال میں بھیڑیے کا کردار نبھا رہا ہے اس لیے بلوچ آزادی پسند اس حوالے سے اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کریں نہ کہ وقت رکتا نہیں بلکہ بہہ جاتا ہے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز