جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزمقصد، منزل اور ہماری طرز سیاست ؛ رستم بلوچ

مقصد، منزل اور ہماری طرز سیاست ؛ رستم بلوچ

نظریہ تصورات کا میل یا سیٹ ہوتا ہے جو خاص خیال رکھتا ہے کہ سماج کو کسے ہونا چاہئیے اورکس طرح سیاسی حوالے سے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے اس سیٹ مٰین قدامت پرستی سوشلزم قوم پرستی جیسی پروگرام پارٹی کا ہددف ٹارگٹ مقصد ہوتے ہین نظریہ اخلاقی وژن اور ایئیڈئل الفاط ہوتے ہین نظریہ مین صیع اور غلط اقدار کا سیٹ ہوتا ہے اور یہ تصور پیدا کرتے ہین کہ ہمین کونسی جہد کرنی چاہے کیا صحیح کیا غلط جو غلط ہے اسے کسے روکا جاے اسکے خلاف جہد کیا جاے اسکے خلاف لڑا جاے مختلف نظریہ مختلف اقدار پر زور دیتے ہیں جیسا کہ آزادی مسوات برابری انصاف قومی آزادی وغیرہ۔ اگر ائیڈئل برابری ہے تو تب برسراقتدار کلاس دشمن ہےاگر ائیڈئل قومی ٓآزادی ہے تو دشمن باہر سے ٓانے والے قابض ہیں۔ اگر ائیڈئل عورتون کی آزادی ہے تو دشمن مردکی تحکمانہ ہے جس سے نمٹا جاتا ہے۔ بلوچستان مین جوقومی تحریک چل رہی ہے اس مین نظریہ آیا سوشلزم ہے عورتون کی مردون کے ساتھ براری کا ہے مڈل کلاس اور بالادست کامسلہ ہے یا سردارون اور نوابون کی سرداری کا خاتمہ کا مسلہ ہے یا کہ اسلامی نظام لانے کا مسلہ ہے؟ اگر مسلہ عورتون کی آزادی ،مسوات سرداری نظام سوشلزم کا ہے تو نظریہ بھی وہی ہونا چاہیے اگر مسلہ ایک غیر قوم کی بلوچستان پر قبضہ کا ہے تو نظریہ بھی قبضہ گیریت سے نجات کا ہونا چاہیے دشمن سردار نواب سرمایہ دار امریکہ فرانس جرمنی ہندوستان کے بجاے پنجابی اور پاکستان ہونا چایہے اور ساری قوت طاقت انرجی اسکے اوپر خرچ ہونا چایئہے جو چیز قابض کو بلوچ سرزمیں مین فایدہ دے رہا ہے اسے ٹارگٹ کیا جانا چاہیے اسکی معشیت اسکے فوجی اسکا نطام درم برم کیا جانا چاہیے تھا تاکہ بلوچ مزمت کی وجہ سے سرمایہ کاری پاکستان میں روکھتی لیکن بلوچ دنیا کی واحد قوم ہے جوآزادی کی تحریک چلا رہا ہے مگر اپنے معاملے مین بہت کنفوزن اور ابہام کا شکار ہے ٹارگٹ منزل قومی ٓازادای ہے مگر سوشلزم کمونزم اونچ نہچ سرداری نوابی مڈل کلاس کے معاملون میں تحریک کو الجیایا گیا ہے حالانکہ یہ قابض کی حکمت عملی تھی کہ بلوچ جہد کا رخ قابض کی طرف سے موڈ کر دوسری مسلون مین اسے الجا ئین اور آج پاکستان اپنی پالسی مین کسی حد تک کامیاب ہوا ہے اسے بلوچ جہد کو موڈنے مین کامیابی ملی ہے دوسری طرف بی ایل ایف بی ار اے پنجابی پاکساتانی فوج پاکستانی معشیت کے بجاے بلوچ قومی معشیت، بلوچ نوجوانون کا ٹارگٹ، پاکستانی پولیس مین کا کردار، چوری چکاری اور منشیات کا کاروبار کر رہے ہیں ۔ کیا یہ قبضہ گیر کے خلاف قومی جہد ہے یا کہ قبضہ گیر کے سرایت کیے گئیے لوگوں کی کامیابی ہے کہ قابض نے سب پارٹیون تنطمیون میں اپنے لوگ بیجھے تا کہ جہد کا رخ ٹیکنیکل انداز مین موڈ دیں جب آئی آر اے میں برطانیہ اپنے لوگ داخل کر سکتا ہے تامل ٹاہیگرز مین سیری لنکا ریاستی اجنٹ داخل کر سکتا ہے چیچنین تحریک میں روس اپنے لوگ بیج سکتا ہے کشمیر کی تحریک مین انڈیا اپنے لوگ داخل کر سکتا ہے تب بلوچ تحریک میں پاکستان کس طرح اپنے لوگ داخل نہیں کرسکتا آیا بلوچ تحریک آئرش، تامیل تحریکوں سے بھی مضبوط ہے؟ بلوچ مزاحمتی مہاز میں بی ایل اے کے کمپ میں ریاست نے اپنے ۲ لوگ بیجے تھے آفرین بشیر زیب کو جس نے انھین گرفتار کیا پھر راشد پٹھان ،مقبول شمبےزئی حسن افضل دلبر جسے لوگ بی ایل ایف کے ٹاپ پوزیشن مین ہوسکتے ہیں تو کیا آج ساری مزاحمتی اور سیاسی تنظیمون مین انکے لوگ نہیں ہیں؟۔ کیا یہ ان اجنٹوں کی کامیابی نہئن ہے کہ قومی نظریہ کو انھون نے الجھایا اور درہم برہم کیا ہوا ہے بقول نانا پاٹیکر ایک مچھر سالہ سب کو ایجڈا بناتا ہے ۔آج قابض کے کتنے گند ہونگے کہ جنھون نے قومی تحریک کا بہیڑا غرق کیا ہوا ہے ۔کیا ہمیں انکا اندازہ ہے یا بس زندا باد مردا باد اور جو کوئی جی حضوری چاپلسی کرتا ہے بس انکی بانسری کے سرور میں سب کچھ فراموش کر رہے ہیں اور اپنی ذاتی لیڈری کے شوق میں سب آنکھین بند کرکے ریاستی آلہ کارون کے اشارون مین قومی پروگرام مقصد ٹارگٹ اور نظریہ کے بجاے قابض کی بچاہی ہوہی شازش کا شکار ہورے ہیں۔ ھمارا مقصد منزل مغرب کی طرف ہے اور رخ ہم مشرق کی طرف کر رہے ہیں اس وقت مقصد صرف اور صرف قومی ٓازادی ہے اسے چھوڑ کر دوسری چیزون کے پیچھے پڑ چکے ہیں ۔ پوشیدہ غیر مرئی چیز کو نمودار ،آشکار اور مرئی کرنے کے لئیے اھداف مقررکرنا پہلی کامیابی کی نشانی ہےساتھ ہی ساتھ تکمیل اور اھداف تک پنچنے اور مقصد کے درمیان نطم ضبط ڈسپلین پل کی مانند ہے بلوچ شہدا نے اتنی قربانیاں دیں لوگ قومی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ نچاور کرچکے ہیں اسکے باوجود ہم قومی نظریہ کو ساحل سمندر میں غرق کرکے ریاست کے بیجھے ہوے لوگوں کی شطرنج کے مہرے کے طور پر استعمال ہو رے ہیں ہمیں اندازا نہیں کہ منزل کس رخ میں ہے اور ہم کس طرف جارے ہیں چند بازیگر مختلف پارٹیوں میں ٹاپ لیڈر شپ کے قریب ہی پنج چکے ہیں اور انھون نے سادہ لوح کارکنان کے ذہنوں کو محدو د کرکے انھین تنگ نظر کیا ہوا ہے کیونکہ یہان انکا ذاتی یا گروہی مفادات وابستہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بقول آرئچ پرومن کامیاب انقلابی صا حب تدبیر ہوتا ہے جبکہ ناکامیاب جرائم پیشہ اور مجرم اور اپرادھی ہوتا ہے قوم میں صاحب تدبیر لیڈر اسٹن اوملے کے مطابق بھیڑ ،میش کی بالون کا دیکھ بال اور کھنچی کرکے صحیح کرتا ہے جبکہ سیاست دان اسکی کال اتارتا ہے آج بلوچ سیاست میں سب قوم کی کال اتارنے والے بیٹھے ہیں ہر ایک اپنی مزدوری لینے کی دوڑ میں ہے کہ کب سازش کرکے اپنی الگ الگ شناخت بنا کر سیاست دان بن کر قوم کی کال اتار دیں انقلابی جہد میں ٓازادی کی جہد میں سیاست دان نہیں بلکہ صاحب تدبیر ہی قومی تحریک کو منزل مقصود تک لے جا سکتے ہیں جنکی سوچ سمندر جسی وسعی ہوتا ہے وہ دور اندیش اور ایک نسل سے دوسری نسل تک سوچتا ہے وہ خود کو ایک گروہ ایک جھتے تک محدود نہیں کرتا ہے ۔قابض کی پلان ہر وقت یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی سوچ کو قومی سے گروہی کریں پھر گروہی کے بعد پار ٹی کے اندر پارٹی بازی کرہیں اور اسی طرح سوچ پوری قومی سے نکل کر چند مفاد پرست تک سکڑ جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اور پھر اس گروہ میں ہر ایک دوسرے سے بلیک میل ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کی خاطر قومی پروگرام سوچ فکر نظریہ کے بجاے صرف اورصرف اس جھتے کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بی ایل ایف اسکی واضع مثال ہے کہ جسکی سوچ فکر نظریہ مقصد سے ہٹ کر گروہ تک محدود ہو گیا وہاں جب شکاری دلیپ واحد قمبر ثنا اور بہت سے اچھے لوگوں نے ڈاکٹر نظر کی محدود سوچ اور گروہیت کی جانب سفر پر بات کی آواز اٹھائی تو انکو گروہ کے اندر اختر ندیم خلیل منان نےالگ گرو بنا کر کاونٹر کیا بعد میں قمبر نے مصلحت پسندی کرکے خاموشی اختیار کی انکی بالادستی قبول کی۔ کیا وہ سیاست دانی سوچ سے قومی جہد اور اپنی پارٹی کے وشنامی کا سبب بنے یا کہ قوم کی نظروں سے روز بہ روز گرتے جارہے ہیں ہو سکتا ہے اس جھتے کو وقتی طور پر فائدہ ہوا ہو لیکن قومی جہد کو نقصان ہوا ہے کیونکہ سیاست دان بن کر یہ لوگ قوم کی کال اتار رہے ہیں بلوچ قوم میں اگر سیاسی مدبر اورسیاسی تدبیر لیڈر ہے تو اس کا کچھ جلک حیر بیار مری میں دیکھائی دیتا ہے جنکے بیان انٹریوو اور عمل سے ظاھر ہے کہ وہ قومی سوچ نظریہ کو پروان چڑانا چاہتا ہے لیکن وہان بھی بہت سی چیزون میں بہت سی کمزوریان پائی جاتی ہیں دنیا کی جتنی تحریکیں نا کامیاب ہوئیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوہیں ان سب میں ایک چیز مماثلت رکھتا ہے کہ جب سوچ فکر نظریہ سے ہٹ کر اور مقصد سے ہٹ کر کام کیا گیا الگ سوچ اور گروہ کی بنیاد ڈالا گیا تو پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ وسعت اختیا ر کرتا گیا یہ قومی المیہ نہیں تو کیا ہے کہ پوری قوم کی بات کرنے والا پوری قوم کے لیے جہد کرنے والا خود کو قوم سے الگ کرکے ایک گروہ کی نماہندگی کرنے لگتا ہے کہ یہ اسکی جی حضوری کرتے ہیں اسے بوس مانتے ہیں پھر اگر لوگ اسکی گروہ سے اسکی خوش نودی چاپلسی جی حضوری کرنے سے انکار کرہیں تو یہ اس گروہ کو بھی توڑے دیتا ہے جس طرح بی ایل ایف بی این ایم بی ایس او اور آگے بھی بی ایل ایف بی این ایم اس غیر انقلابی اور گینگ کی طرح رہا تو بہت زیادہ امکان ہے کہ یہ مزید ٹوٹ جایں گے پھر کیونکہ ہر ایک اپنی زاتی اور بھر تنظیموں کے اندر اپنی الگ لابی اور جی حضو ری کرنے والے تلاش کرتا رے گا یہ نظریہ سے ہٹ کر گینگ طرز کی سیاست اور صرف سیاست ہوگی جو صرف چند افراد کی مفادات کے گرد گومتی ہے پھر یہان ہر ایک کی کوشش ہوگی کہ وفاداری کسی خاص شخص سے ہو پارٹی نظم ضبط اصول کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے گینگ کی طرح دو شخصیات کے مفادات ٹکرا جاہیں تو پارٹی تقسیم ۔کیا بلوچ قوم باربار اسی طرح پاکستانی طرز تجربہ کرتا رہے جس طرح پاکستان کو تجربہ گاہ بنایا گیا ہے کہ کھبی جموریت تو کھبی آمریت توکھبی ٹیکنوکریٹ کا ماڈل تو کھبی ملائت تو پھر راتون رات ملائیت سے اعتدال پسند کیا ہم اسکی طرح تونہیں ہیں کہ کھبی سوشلزم تو کھبی نمازی تو ایک دم اینٹی مزئیب تو کھبی تحریک مین سماجی تبدیلی کا نھرہ تو کھبی سردار نوابون کی حمایت پھر جلدی ہی انکی مخالفت اگر ایمانداری سے سوچا جاہے کہ ہم اب بھی سرگردان نہیں ہیں الجھے ہوے نہیں ہیں جدوجہد کی ٹرین پٹری سے نہیں اتری ہوئی ہے ۔اس وقت ہم منزل تک نہیں پنچ سکتے جب تک نظریہ کی رہنمائی لیتے ہوے مقصد کی خاطر جہد نہیں کر یں گے نظریہ واضع ہے اور وہ ہے پاکستانی غلامی سے نجات اسے پاکستانی سرایت کیے گہے لوگون نے کنفوز کیا ہوا ہے اس کنفوزن ابہام سے نکلنے کے لہیے اور پاکستانی سازشیوں سے تحریک کو بچانے کے لیے اب اصل چیزون پر لکھنے کا رجحان ڈالنا چایے اور قومی نظریہ کی رہنما ستارے کی طرح پیروی کرنا چاہیے پھر یہی راستہ ہمیں منزل تک لے جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز