جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزمڈل کلاس کی پرانی شراب نئے برانڈ کی بوتل میں تحریر:میران بلوچ

مڈل کلاس کی پرانی شراب نئے برانڈ کی بوتل میں تحریر:میران بلوچ

حب الوطنی کی کوشش،اصول،اورجذبات کو قوم پرستی کہا جاتا ہے ،جبکہ قوم پرستی کی دوسری معنی ہے کہ
ایک آزاد ریاست کی خاطر جدوجہد کرنے کو قوم پرستی کہتے ہیں نیشنلزم کا بنیادی مقصد قوم کی بہتری اور
اچھائی کے لیے کام کرنا ہے ۔ Anthony D. Smithاپنی کتاب Nationalism: Theory, Ideology, History میں لکھتا ہے کہ قوم پرستی کے تین مضبوط ستون ہوتے ہیں ان تینوں ستونوں پر نیشنلزم قائم ہوتا ہے پہلا قومی آزادی یا قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنا دوئم قومی یکجہتی تیسرا قومی شناخت کوئی بھی قوم ان تینوں ستونوں کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ہے ،وہ مزید کہتا ہے کہ ایک نظریاتی تحریک جو اپنی قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کررہا ہوتا ہے اسکے لیے قومی شناخت اور قومی یکجہتی کو محفوظ کرنا سب سے بڑی چلنج ہوتا ہے کیونکہ قابض کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قومی شناخت کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ کے ذریعے قومی یکجتی کو نقصان پہنچائے ۔خود سٹائل قوم پرست بھی اسی دوران ابھرتے ہیں وہ نیشنلزم کو نقصان سے دوچارکروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔نیشنلزم کا نظریہ جدوجہد میں مقاصد کا تعین کرتا ہے اور قومی آزادی ہی نیشنلزم کا ہدف ہوتا ہے لیکن کچھ جعلی اور مصنوعی قوم پر ست قوم یاکہ جدوجہد میں شامل ہوکر قومی تحریک میں لوگوں کا دھیان اصل ٹارگٹ سے ہٹا کر انھیں دوسرے مسائل میں الجھا دیتے ہیں اور صاف اور واضح قوم پرستی کی تحریک کو ابہام زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح بلوچ قومی تحریک مکمل نیشنلزم کی بنیاد پر چل رہا ہے کیونکہ بلوچستان پر پاکستان نے قبضہ کرکے بلوچ قوم کو غلام بنایا ہوا ہے اور اس غلامی کے خلاف بلوچ قوم نیشنلزم کے نظریہ کے تحت جدوجہد کررہے ہیں اب یہاں بلوچ قوم ،لوگوں اور پارٹیوں میں بہت سے لوگ خود کو قوم پرست کہتے ہیں کیا وہ قوم پرستی کے تعریف میں قوم پرستی کے تینوں تقاضوں کو پورا کررہے ہیں یا نہیں اس میں نیشنل پارٹی ،بی این پی جڑوان ،بھی خود کو نیشنلسٹ کہتے ہیں لیکن وہ قومی آزادی کے قوم پرستی کے تقاضے کو پورا نہیں کررہے ہیں وہ بلوچ قومی آزادی کی بجائے پنجابی غلامی کو قبول کرچکے ہیں لیکن خود کو قوم پرست کہتے ہیں دوسرا قومی آزادی پسندوں میں بھی اس وقت چار طرح کے طبقے پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ مختلف آزادی پسند پارٹیوں میں موجود ہیں پہلا جدوجہد کا ایماندار طبقہ ہے یہ جدوجہد کا وہ طبقہ ہے جو ایمانداری خلوص،کمٹمنٹ ،نیک نیتی اور گمنامی میں قوم پرستی کے نظریہ پر قائم ہے اس ایماندار طبقہ میں کچھ گمنام سرمچار ہیں جو قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں جو اپنی خواہشات،زندگی اور تعلقات سب کچھ قومی آزادی کی خاطر تیاگ دے چکے ہیں اور اب بھی بلوچستان کے پہاڑوں ،جنگلوں اورصحراؤں میں دُشمن سے نبردآزما ہیں جبکہ کچھ سیاسی حوالے سے دُشمن کے خلاف ایمانداری اور خلوص سے کام کررہے ہیں جبکہ کچھ باہر کام کررہے ہیں اس ایماندار طبقہ میں جو سب کام کررہے ہیں ان میں ایک چیز یکساں ہے کہ یہ چاہے سرمچاری کررہے ہیں، چاہئے سیاسی کام، چاہئے باہر کام کررہے ہیں یہ خلوص ،نیک نیتی،مخلصی اور قومی جذبہ سے کام کررہے ہیں ،دوسرا طبقہ جنگی منافع خوروں کا ہے اس میں نیشنلزم کی جدوجہد کے دوران جدوجہدکے نام پر یہ طبقہ ابھارتا ہے کیونکہ قومی نیشنلزم کی جدوجہد سے پہلے یہ لوگ انتہائی غریب بیکار،تنگ دست اور محتاج اور سماج کے مسترد کردہ لوگ ہوتے ہیں لیکن جدوجہد کی بدولت اور لوگوں کی قربانیوں اور قومی تحریک کا نام استعمال کرکے یہ گروپ اُبھرتا ہے اس میں سرمچار قومی بندوق اٹھا کر منشیات کا کاروبار کرکے ،چوری چکاری کرکے،یا تحریک کے نام پرلوگوں سے ٹیکس لیکر پیسہ کماتا ہے اوراس کمبخت اور بدبخت کا کاروبار قومی بندوق کو استعمال کرکے پیسہ کمانا اور پھر ان پیسوں کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرنا ہوتا ہے جبکہ اس منافع خور طبقہ کا سیاسی طبقہ بھی چندہ جمع کرکے یا کوئی اوردونمبری کرکے تحریک کے نام پر پیسہ بناتا ہے اور اس جنگی منافع خور کا سفارتی نمائندہ بھی تحریک کے نام پر باہر سے پیسہ لیکر اپنے لیے فلیٹ دوکان ،جائداداور کلب بناتا ہے یہ قومی جدوجہد کا منافع خور طبقہ ہوتا ہے ،یہ طبقہ جو پیسہ بناتا ہے اس پیسہ کو تحریک کے بجائے اپنے اور اپنی خاندان کے لیے خرچ کرتا ہے لیکن ایماندار طبقہ جو سرمچار ،سیاسی جہدکار یا سفارتکاری میں جدوجہد میں شریک ہے یہ انکا خیال نہیں رکھتا ہے ،یہ جنگی منافع خور قومی پیسہ قوم اور جہدکاروں کے بجائے اپنے ذات اور خاندان کی فلاح کی خاطر استعمال کرتا ہے اسکا ایماندار طبقہ کا جہدکار مرگ کے قریب ہو یا کسی بھی مشکل میں ہو یہ اسکو کمک اور مدد نہیں کرتا ہے بلکہ قومی جدوجہد کے نام پر حاصل پیسہ کو اپنی ہی عیاشی ،پر تعیش اور عیش وعشرت میں استعمال کرتا ہے ۔ایک چیز ساری دنیا میں ایک جیسا ہے جیسا کہ کالا ،گورا،چورکو ہر جگہ کالا ،گورا اور چور کہاجاتا ہے اسے امریکہ میں کالا گورا اور چور کہا جاتا ہے اگر وہ فرانس میں ہو بھی انھیں کالا ،گورا اور چورہی کہا جاتا ہے اگر یہ بلوچستان میں ہو اسے کالا ،گورا اور چورکہاجاتا ہے اسی طرح سے بدعنوان ،کرپٹ،بے ایمان ،ٹھگ ،دروغ گو ،لالچی انسان ہرجگہ موجود ہوتے ہیں بدعنوان ،کرپٹ ،بے ایمان ،ٹھگ ،دروغ گو،لالچی انسان اگر فوج میں ہے وہ اپنی بدعنوانی ،بے ایمانی ،ٹھگی،دروغ گوئی سے فوجی نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے اگر وہ سیاست میں ہے تو یہی نقصان دیتا ہے اگر کسی ملک کا سفیر ہے توملک کا نقصان ہی کرتا ہے ۔اسی طرح تحریکوں میں بھی کوئی بدعنوان ،کرپٹ ،بے ایمان،ٹھگ،دروغ گو ،لالچی انسان اگر سرمچاری کررہا ہے تو وہاں سے وہ قومی تحریک کا نقصان کررہا ہے اگر کوئی جہدکار سیاسی پلیٹ فارم سے جدوجہد کررہا ہے وہ اگر کرپٹ،بے ایمان ،دروغ گو اور لالچی انسان ہے وہ سیاسی طور پر جدوجہدکا نقصان کررہا ہے اگر کوئی باہر موجود ہے اس میں یہی بے ایمانی ،ٹھگی،لالچ ہے تو وہ بھی تحریک کا نقصان کررہا ہے ،،بے ایمان ،کرپٹ دروغ گو سرمچاری میں موجود ہے سیاست میں موجود ہے اور سفارت کاری میں موجود ہے جہاں بھی ہے اسکی فطرت ہی نقصان دینا ہے اسکا عمل نقصان دہ ہے بلوچ قومی تحریک میں یہ جنگی منافع خور کرپٹ ،بے ایمان ، لالچی اور دروغ گو تمام پارٹیوں میں ہیں ان کو ڈھونڈ نکالنا ضروری ہے تیسرا جدوجہد کا پیدا گیر طبقہ ہوتا ہے یہ بھی نیشنلزم کے سلوگن کو استعمال کرتا ہے لیکن اسکا کوئی خاص نظریہ فکر سوچ اور اصول نہیں ہوتا ہے یہ پیداگیر گروہ ہوتا ہے جہاں اسکے ذاتی مفادات تعلقات،ذاتی وابستگی ،سنگتی اورموڈ اور مزاج ہوتا ہے یہ وہاں پر کام کرتا ہے یہ موسمی پرندہ جیسا ہوتا ہے یہ طبقہ زیادہ تر اپنا سمت تبدیل کرتا رہتا ہے کھبی اس پارٹی میں تو کھبی اس پارٹی میں اس گروہ کو گالی دیکر کسی دوسری گروہ میں جگہ بنانا، پھر ذاتی چھوٹے چھوٹے چیزوں اور مسئلے مسائل پر ناراض ہوکر دوسری پارٹی میں جاکر پیداگیری اور خاطر ومدارات کرنا انکا دستور اور معمول ہوتا ہے چوتھا ٹوپاس طبقہ ہوتا ہے یہ نسل میں بلوچ نہیں بلکہ کسی اور نسل سے انکا تعلق ہوتا ہے اور یہ جدوجہد میں شامل ہوتے ہیں لیکن انکا اعتبار کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ طبقہ زیادہ تر قابض کا بھیجا ہوا طبقہ ہوتا ہے یا کہ قابض کو زیادہ قابل قبول ہوتا ہے اس گروہ سے قابض زیادہ کام نکالتا ہے ۔
بلوچ قومی تحریک جو خالص قوم پرستی کی تحریک ہے اس کو ہر دور میں ایماندار جدوجہدی طبقہ کے بغیر باقی تینوں طبقوں نے ملکر سبوتاژ کیا اور جدوجہد کے ایک دورانیہ میں جدوجہد کو نیشنلزم سے ہٹا کر اسے الجھانے کے لیے نیشنلزم کی روح قومی یکجہتی کو نقصان دینے کے لیے مڈل کلاس کاجراثیم قومی تحریک میں پھیلا کر جدوجہد کو کمزور کیا گیا ۔شروع میں ٹوپاس صابر اینڈ کمپنی نے بی ایس او سے سیاست کرتے ہوئے جدوجہدکیا پھر مڈل کلاس بن کر قوم کی یکجہتی کو مڈل کلاس اورطبقاتی سیاست سے گرمادیا اور کہا کہ یہ سردار اور نواب قومی تحریک تحریک کے لیے خطرہ ہیں یہ غریبوں سے برابری کی بنیاد پر کامریڈ شپ سے کام نہیں کرتے ہیں قوم پرستی کے ستون قومی یکجہتی پر پھوٹ ڈالنے کے لیے ان لوگوں نے طبقاتی اور مڈل کلاسی کا چرچا خوب کیا پھر جاتے جاتے پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے یہ ٹوپاس مڈل کلاس سے مڈل مین بن گیا ،کہور خان نے بعد میں قوم پرستی کی تحریک اور قومی یکجہتی کو نقصان دینے کے لیے کہا کہ بلوچ قوم کی تشکیل نہیں ہوئی ہے بلوچ قبائل میں تقسیم ہے وغیرہ وغیرہ جیسے من گھڑت اور بے بنیاد بہانے کرتے ہوئے مڈل کلاس کا نعرہ لگایا اور سرداروں اورنوابوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے بہت سے نوجوانوں کو جدوجہد اور نیشنلزم کے اہداف سے دورکرتے ہوئے آخر میں جاکر خود پاکستان کے ملازم بن گئے ۔اسی قابض کے سازشی سنت کو اسکے بعد ڈاکٹر حئی ،مالک ،یسین،اکرم،نے زندہ کرتے ہوئے قومی نیشنلزم کی جدوجہد میں شگاف ڈالنے کے لیے مڈل کلاسی کا شاطرانہ حربہ استعمال کیا ، ،نیشنلزم کی روح یعنی قومی یکجہتی پر جب انکا وار کا میاب ہوا تو انکا راستہ بعد میں پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو کی طرف صاف ہوا ۔ان لوگوں نے کہا ہم غریب ہیں اور غریبوں کی دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور بی این ایم بعد میں نیشنل پارٹی کے پرچم تلے غریبوں کی آواز بننے کا ناٹک اور ڈراما کرتے رہے ان لوگوں نے کہا کہ سردار اور سرکار میں فرق نہیں ہے وہ کسی کی بات نہیں سنتے ہیں وہ جابر اور ظالم ہیں اور ہم مظلوم ہیں اور مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اسی لیے سارے مڈل کلاس غریب لوگ ہمارا ساتھ دیں پھر مکران کے بہت سے لوگوں کو ان لوگوں نے دھوکہ دیکر اپنے ساتھ ملایا لیکن بعد میں سب نے دیکھ لیا کہ مڈل کلاس سے وہ کس طرح قابض کے مڈل مین بن گئے ۔آج ایک بار پھر صابر ٹوپاس کی نقش قدم پر چلتے ہوئے آج کے جدوجہدی ٹوپاس نائلہ قادری سے لیکر نورمریم تک کا ٹولہ اور کہور خان ،مالک ،حئی ،یسین ،اکرم کی سنت کو زندہ کرنے والے آج کے مڈل کلاس وہی حربہ وہی،ہتکنڈے ،وہی پرانی سردار اور غریب والی گھٹیا پروپیگنڈے کواستعمال کرتے ہوئے نیشنلزم کی دل قومی یکجتہی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔جس طرح قوم پرستی کے دعوی دارپارلیمانی بلوچ پارٹیاں نیشنلزم کی ایک ستون قومی آزادی پر سمجھوتہ کرکے بلوچ نیشنلزم کی ستون کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں اور قوم پرستی کی اصل روح کے مطابق وہ قوم پرست نہیں کہلائے جاسکتے ہیں اسی طرح آزادی کے دوران کچھ جعلی آزادی پسند جدوجہد کے دوران قومی یکجتی کو پارہ پارہ کرکے اپنے مڈل کلاسی سلوگن سے بلوچ نیشنلزم کی جسم سے دل نکال کردعوی قوم پرستی کا کررہے ہیں ۔کیا کنیاکی جہد میں جومو کنیتا ،امریکہ، کی جنگ میں جارج واشنگٹن تنزانیہ کی کاز میں جیولیس نیریرے ،جنوبی افریقہ کی جنگ میں منڈیلا سمیت سب لیڈر قبائلی چیف نہیں تھے اور بلوچ جنگ آزادی میں کیا مہراب خان،یوسف عزیز مگسی،نواب خیربخش اول ،آغا عبدالکریم،خیربخش مری دوئم،نواب نوروز خان،نواب اکبر خان بگٹی،بالاچ خان ،قبائلی سردار اور نواب نہیں تھے جھنوں نے قوم پرستی کے جزبہ کے تحت قومی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے نیشنلزم کو بلوچ سرڈگار میں پھیلایا اور قوم پرستی کے تینوں ستونوں کو توانا اور مضبوط کیا لیکن آج پھر دوسری طرف سبوتاژ گروپ اور ایران کے سائے میں پناہ لینے والے اور تیسری طرف ٹوپاس،جنگی منافع خوراورپیداگیراپنی چالبازانہ،موقع پرستانہ فطرت سے مجبور قوم پرستی کے قومی یکجتی کو صابر ،کہورخان،رازق بگٹی،مالک اور یسین کے پرانی مڈل کلاسی شراب کو نئی برانڈ کی بوتل میں ڈال کر قوم اور ایمانداری سے جدوجہد کرنے والے جہدکاروں کو ورغلانے اور دھوکہ میں رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کیونکر ہر دس سے بیس سال بعد مڈل کلاس طبقہ جدوجہد میں طبقاتی کا نعرہ بلند کرتے ہیں اب سوال اٹھتا ہے کیا قومی تحریک کو سرداروں اور نوابوں نے نقصان پہنچایا یا کہ مڈل کلاسوں کی بچگانہ حرکتوں کی وجہ سے جدوجہد کو نقصان ہوا اگر انفرادی حوالے کسی بھی سردار اور نواب نے قومی تحریک کو نقصان دیا ہے اس فرد کو ہدف تنقید بنایا جانا چاہیے ،اسکی پالیسیوں پر تنقید ہونا چاہئے اسکے ذاتی رویوں پر سوال اٹھانا چاہئے نا کہ قوم پرستی کی دوسرے مضبوط ستون قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جائے ،اگر قومی تحریک کو سردار اور نوابوں نے نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ایک مڈل کلاس گروہ بی ایل ایف ،بی این ایم ،اور بی ایس او کی شکل میں موجود ہے جہاں کوئی بھی سردار اور نواب لیڈر نہیں بلکہ سارے عام لوگ لیڈر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان سے مکران کے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے ،اگر بی ایل اے میں سترہ سال سے ایک سردار سرداری چلاکر فردواحد کی بالادستی قائم کیا ہوا تھا تو کیا لوگوں میں اس وقت بی ایل اے اور بی ایل ایف کا موازنہ کریں تولوگوں میں کس کی مقبولیت زیادہ ہے ،کس پارٹی میں ڈسپلن،اصول،اور کنٹرول اینڈ کمانڈ بہتر ہے ۔اگر بی ایل اے کی مقبولیت بی ایل ایف سے زیادہ ہے اور لوگ بی ایل اے پر بی ایل ایف سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں تو کیا بی ایل اے کی لیڈر شپ اور تنظیمی ساکھ اور اعتبار خود بلوچ قومی تحریک میں مڈل کلاسی کو نفی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اگر بی ایل اے ڈسپلن ،اصول،بہتر حکمت عملی کے حوالے بی ایل ایف سے بہتر ہے تو کیا فرد واحد نے 17سالوں میں بی ایل ایف جیسے ادارتی تنظیم سے بہتر کام نہیں کیا ہے اگر دوسری طرف پھر بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پکڑنے پرفرضی سینئر سبوتاژی کمانڈر مطمعن نہیں ہے تو الگ سے نائلہ قادری کے لیے دوکان کھولنے کی بجائے وہ جاکر بی ایل ایف جیسی ادراتی تنظیم میں شمولیت کریں اور قومی تحریک کو فائدہ دیں اگر سردار تحریک کے لیے فائدہ مند کے بجائے نقصان دہ ہیں تو سب مڈل کلاس بی ایل ایف میں شمولیت کرکے قوم کو متبادل سسٹم دیں ۔کیونکہ اگر بی ایل اے میں سسٹم نہیں ہے ،سترہ سالوں تک بغیر اصول اور سسٹم کے بی ایل اے چلا اور فرد واحد نے سرداری کی اور اس ایک سردار کی سزاپوری تحریک کو دینے اور قوم پرستی کی ستون قومی یکجہتی کو نقصان دینے سے بہتر ہے کہ سنئیر کمانڈر کے مثالی تنظیم بی ایل ایف میں نظام ہے ادارہ ہے ،اور وہاں سسٹم صحیح ہے پھر وہ قومی تنظیموں کو توڑنے کے بجائے وہاں کام کرکے قومی تحریک کو فائدہ دیں اگر وہ فائدہ بی ایل اے نہ دے سکا بی ایل ایف قوم کو وہ فائدہ دے قوم کو خوشی ہوگی کیونکہ ہم پنجاب کی غلامی سے نجات چاہتے ہیں اور بقول سبوتاژی گروپ کے کہ اتحاد اور یکجتی سے نجات ممکن ہے تو بجائے کہ وہ بی ایل ایف سے یکجا ہوں وہ الگ سے دھڑا کیونکر بنا کرقومی تحریک میں مزید انتشار اور تقسیم لارہے ہیں ، وہ فردواحد کا رٹا لگاکر نائلہ قادری کی خاطر الگ سے دوکان کھول کر اس ٹوپاس کی خاطر بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرکے قوم پرستی کے ستون قومی یکجہتی کو نقصان دینے کے بجائے کیونکر کسی اور اداراتی اور مثالی تنظیم بی ایل ایف میں شمولیت اختیار نہیں کرتے ہیں اسی نائلہ قادری نے اسی فرضی سینئر کمانڈر سے فراڈ کرکے پارٹی کے بیس لاکھ روپے لیے اور سبوتاژی کمانڈر نے اس کے خلاف فیس بک میں کیا سے کیا نہیں کہا کیا قادری جو بی ایل اے کا بیس لاکھ چراکر بھاگ سکتی ہے جس سے بیس لاکھ کا بوجھ برداشت نہیں ہو سکتا ہے پھر یہ لالچی ٹوپاس عورت ا لگ سے دوکان کا بوجھ کیسے برداشت کرسکتی ہے ا ب یہ ٹوپاس ،سیاسی پیداگیر اور جنگی منافع خور پھر اسی سبوتاژی لوگوں کو استعمال کرکے الگ سے دوکان کھولیں اور دوکان کھولنے کے لیے بہانہ فردواحد کو قرار دیکر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا ئے تو اس قومی تحریک کو نقصان دینے والے عمل کی ہر زی شعور شخص مخالفت کرے گا اور بلوچ قومی تحریک مورو لبریشن مومنٹ کی طرح تقسیم درتقسیم ہوکر20سے 22مسلح پارٹیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ان لوگوں کو الگ سے گروہ بنا دینے میں بی ایل ایف نے مدد کی تو سمجھ لو کہ اس نے قومی تحریک میں تقسیم درتقسیم کا دروازہ کھولا ہے کل کو ہر کوئی فرضی سینئر کمانڈر کی طرح اپنے پچاس لوگوں کے ساتھ جس تنظیم سے ناراض ہوا تو دوسری تنظیم سے مدد لیکر الگ سے دھڑا بنائے گا اور اس دھڑا بندی اور تقسیم درتقسیم کو پھر روکنا مورومومنٹ کی طرح ناممکن ہوگا ۔ پھر انگولا کی تحریک کی طرح بلوچ قومی تحریک کو آپسی خانہ جنگی سے روکنا بھی مشکل ہوگا کیونکہ ہمیشہ بے وقوف نادان وقتی مفادات کی خاطر مستقل خطرہ اور تباہی کو دعوت دیتے ہیں جبکہ عقل مند اور سمجھدار وقتی نقصان اٹھاکر بھی مستقل خطرہ اور تباہی سے اپنی قوم اور جدوجہد کو بچاتا ہے حیربیار مری اور باقیوں میں فرق یہی ہے کہ حیربیار مری وقتی مفادات کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ مستقل تحریکی لاحق خطرہ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے اور یہی ایک دوراندیش اور مستقل مزاج لیڈر کا معیارہوتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے بی ایل ایف وقتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے وقتی فائدہ کے لیے انکی نظر میں مستقبل میں تحریک تباہ وبرباد ہو اس سلسلے میں انھیں کوئی بھی پرواہ نہیں ہے کیونکہ جب بھی موُرخ قلم اٹھائے گا تو اس بندر بانٹ اور تقسیم درتقسیم کا ذمہ دار بھی سبوتاژی گروہ کے ساتھ ساتھ بی ایل ایف کو ٹھیرائے گا کیونکہ اب اکیسویں صدی ہے بلوچ اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ صابر ،کہور خان ،مالک اور رازق بگٹی کے پرانے شراب کو کوئی بھی ٹوپاس ،جنگی منافع خور ،سیاسی پیداگیر نئی برانڈکی بوتل میں لاکرپیش کریں اور وہ اسکا فرق نہ کرسکیں ،آج کا نوجوان ،تعلیم یافتہ اور شعور یافتہ طبقہ کسی بھی تضادات سے بھرے انٹرویو اور قومی تحریک کے خلاف منفی عزائم کو سمجھ سکتا ہے آج کے نوجوانوں کو جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی سے زیادہ دیر اندھیرے میں رکھا نہیں جاسکتا ہے ۔آج قومی تحریک میں ایک طرف سارا ایماندار طبقہ ہے چاہئے وہ مسلح میدان سیاسی میدان یاکہ سفارتی میدان میں ہے جو خلوص ،ایمانداری،نیشنلزم کے جذبہ کے تحت گمنامی میں قومی جدوجہد میں اپنا کام کررہا ہے تو دوسری طرف ٹوپاس،سیاسی پیداگیراور جنگی منافع خور گروپ ہے جو تحریک کو کھبی مڈل کلاسی کا سلوگن لیکر نقصان دے رہا ہے یا تحریک کے نام پر سماج کے مسترد کردہ ،فقیر ،بھکاری،سیلفی سرمچار،سیاسی لیڈر،یا سفارتی نماہندہ بن کر دولت مند بن گئے جھنوں نے تحریک کے نام پر کاروبار شروع کیا جو بھکاری سے بلڈنگ ،کلبوں،دوکانوں کے مالک بن گئے ہیں اور یہ لوگ ،تحریک کے نام پر فقیر سے بادشاہ بن گئے ہیں اور تیسری طرف سیاسی پیداگیر ہیں یہ سب وظیفہ خور طبقہ قوم پرستی کا کندھا استعمال کرکے پوزیشن حاصل کرتے ہیں جب یہ فقیر اور مسترد کردہ لوگ کوئی بھی پوزیشن حاصل کرکے اپنا رتبہ تبدیل کرتے ہیں تو یہ فقیر اورمسترد کردہ لوگ اس نئی رتبہ اور اسٹیٹس کو برداشت بھی نہیں کرسکتے ہیں اور انکا وار بھی قومی یکجہتی اور نیشنلزم ہوتا ہے ، اسی طرح سیاسی پیداگیر،جنگی منافع خور،ٹوپاس اور سماج کے فقیر بھکاری اور مسترد کردہ لوگ نیشنلزم کے نام پر سیاست کر کے نیشنلزم ہی کا شکار کرتے ہیں اور یہ لوگ نیشنلزم کو اپنی مڈل کلاسی نعرہ سے نقصان دینے کی کوشش کرتے ہیں پھر یہ لوگ قوم پرست سے مڈل کلاس بنتے ہیں پھر آخر میں یہ لوگ مڈل کلاس سے ترقی کرکے قابض کے مڈل مین بن جاتے ہیں ،کیونکہ نیشنلزم اور مڈل کلاس ایک دوسرے کے برعکس اور بالمقابل ہیں ،یہ آگ اور پانی ،زندہ ومردہ صحیح اور غلط،خوبصورت وبدصورت ،سرد اور گرم ،آزاد اور غلام ،نفرت اور محبت ،امن اور جنگ کی طرح ایک دوسرے کی ضد ہیں کس طرح سے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک نیشنلزم کی جدوجہد کرے اور پھر نیشنلزم کی مضبوط ستون قومی آزادی ،قومی یکجہتی اور قومی شناخت کو مٹائے تو پھر کس طرح سے ممکن ہو انہیں قوم پرست قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ زیادہ تر قابض کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ محکوم قوم کی قومی شناخت کو مٹاسکیں ،پارلیمانی لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ محکوم قوم کی آزادی کے جدوجہد کو ابہام زدہ اور کنفیوژ کریں جبکہ جدوجہد کے دوراں جنگی منافع خور،ٹوپاس ،سیاسی پیداگیروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نیشنلزم کی ستون قومی یکجہتی کو مڈل کلاسی نعرے میں تبدیل کریں

یہ بھی پڑھیں

فیچرز