پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزمکران نامہ: آگے کی کہانی: تحریر: نودبندگ بلوچ

مکران نامہ: آگے کی کہانی: تحریر: نودبندگ بلوچ

پچھلی بار ناکو سے ہوشاب میں ملنے کے بعد جب میں پروم چلا گیا تھا تو کچھ ہی دن بعد مجھے ناکو کا فون آیا وہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے زامران میں اپنے کسی بی ایل ایف زدہ رشتہ دار سے ملوانا چاہتے ہیں اور یہ بہت ضروری ہے کہ اس شخص کی کہانی سامنے آئے کیونکہ بصورت دیگر وہ بھی دوسرے کئی بے گناہوں کی طرح مار دیا جائے گا اور قتل کے بعد یا تو اس پر بھی مخبری کا ٹھپہ لگا کر بری الذمہ ہوا جائے گا یا پھر کبھی قبول ہی نہیں کیا جائے گا ، میں کچھ دن یہاں وہاں پھرنے کے بعد بالآخر حسبِ وعدہ ہوشاب ناکو کے گھر پہنچ گیا، رات ہم نے ناکو کے بیٹھک میں گذاری صبح ناشتے کے تھوڑی دیر بعد ناکو کے بیٹھک کے باہر ایک پرانی سی سنگل کیبن ڈاٹسن آکر کھڑی ہوگئی جو غالباً ہمارا ذریعہ سفر تھا، ناکو نے بتایا کہ یہ اسکے بھانجے کا گاڈی ہے جس میں وہ شہر سے سودا سلف لاکر گاوں میں موجود اپنے چھوٹے سے دکان میں بیچتا ہے، وہ بائیس سال کا کم گو نوجوان تھا، ہمارے آنے پر اس نے گاڈی اسٹارٹ کردی، میں اور ناکو آگے والے سیٹ پر مل کر تنگی سے بیٹھ گئے، سفر شروع ہوئی تو خلافِ معمول ناکو کی باتیں اسکے جوانی کے قصوں کے گرد گھوم رہے تھے جو وہاں سے ہوتے ہوئے موجودہ حالات اور قابض کے آپریشنوں تک پہنچ گئے جس میں تازہ ترین مشکے میہی آپریشن تھا، میں بھی ان آپریشنوں پر اپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے بولنے لگا ”ناکو تمہیں معلوم ہوگا کہ میہی میں ڈاکٹر اللہ نظر کے بھائی اور بھتیجوں سمیت قریبی رشتہ دار شہید ہوئے تھے اور کچھ عرصہ پہلے بھی مشکے میں اسی طرح کے ایک چھاپے میں پانچ دولہے شادی کے دن ہی پکڑے گئے اور بعد میں انہیں شہید کیا گیا ان میں اختر ندیم کے بھائی اور رشتہ دار شامل تھے، یہ واقعی بہت بڑا نقصان ہے“ میں اپنے باتوں میں ہی تھا کہ ناکو نے زور زور سے اپنے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے میری باتوں کو کاٹتے ہوئے بولنے لگا ”نہیں،نہیں ایسا نہیں، معذرت میں آپکے باتوں کو کاٹ رہا ہوں لیکن شاید یہ نقصان ان لوگوں کیلئے ضرور ہوگا جو قومی سوچ و دائرے کے تحت ان شہادتوں کو دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ان گروہ پرستوں کیلئے نقصان نہیں فائدہ ہے، انہوں نے اپنا وجود ہی ایسے لاشوں اور ان سے حاصل جذباتی ہمدردیوں پر بنائے رکھا ہے ورنہ قوم ان سے بیزار ہے، جب بھی انکے منفی کردار و عمل پر تیزی سے سوال اٹھتے ہیں لوگوں کے خاموش احتجاج زبان پاکر بولنے لگتی ہے تو انکے منفی کردار و عمل کے بہتے گٹر پر یہ شہادتیں ڈھکن کا کردار ادا کرکے اس تعفن کو دبا دیتے ہیں“ میں ناکو کے اس رویے کو دیکھ کر حیران ہوگیا اور تھوڑی دیر خاموش ہوکر اسکے باتوں پر سوچنے لگا اور ساتھ ساتھ اپنے اس ردعمل کا جائزہ بھی لینے لگا جب مجھے ان شہادتوں کی اطلاع ملی تھی، یقیناً میرا ردعمل یہی تھا کہ ڈاکٹر اللہ نظر جو کچھ بھی کررہا ہے الگ بات لیکن کچھ بولا نہیں جائے کیونکہ اس نے اپنے بھائی اور بھتیجوں کو قربان ہوتے دیکھا ہے، یعنی ان شہادتوں کے ساتھ ہی میری نظروں میں انکے سیاہ کردار و اعمال دھل گئے، پھر میرے اپنے ذہن میں یہ سوال آنے لگا کہ کیا واقعی یہ شہادتیں کسی زندہ انسان کو ”کلین چِٹ“ دے سکتے ہیں؟ شہادتیں آزادی کیلئے دی گئی اگر کسی شخص کا کردار و عمل ایسا ہے جو ہمیں اس آزادی سے ہی دور لے جائے یا آزادی کے سامنے رکاوٹ بن جائے پھر میرے خیال میں ان شہیدوں کے احترام میں اس شخص کے بابت نا بولنا ان شہیدوں کا احترام نہیں بلکہ انکی بےعزتی ہوگی، ان شہیدوں کا اصل احترام تو یہی ہوگا کہ جس آزادی کی چاہ میں وہ جان دے بیٹھے ہم انکے قربانیوں کا رخ اسی آزادی کی جانب بنائےرکھیں اوراگر کوئ بھی شخص ان قربانیوں کو اپنے ذات یا گروہ کیلئے استعمال کرے جو ان قربانیوں کا رخ موڑے ایسے کسی بھی شخص کو رعایت نہیں دی جائے، میرے ذہن میں اپنے آپ مختلف خیالات و قیاسات آرہے تھے لیکن ایک سوال ایسا تھا جس کا جواب میں ناکو سے چاہتا تھا۔
” ناکو کیا تمہیں ان شہیدوں سے کوئی ہمدردی نہیں؟“ کچے رستے پر تیزی سے گاڈی دوڑانے کی وجہ سے دھول اٹھ کر بند شیشوں کے باوجود گاڈی میں آرہی تھی، ناکو اپنے چادر کے کونے سے اس دھول کو اپنے چہرے سے صاف کرتے ہوئے بولنے لگا ”ہاں ہر شہادت کے بعد مجھے ہمدردی ہوتی ہے، بس اتنا کہ کچھ اور جانیں، کچھ اور جذبات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آکر ضائع ہوگئے“۔ مجھے ناکو کا یہ جواب چونکا دینے کی حد تک ناگوار گذرا ”ناکو یہ جنگ ہے، اس میں شہادتیں ہوتی ہیں آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ضائع ہوگئے؟“ میرے اس ردعمل کو دیکھ کر ناکو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے مجھ سے دوبارہ مخاطب ہوئے ”یہی میں تم سے سننا چاہتا تھا کہ یہ جنگ ہے اور اس میں شہادتیں ہوتی ہیں اب تم دوبارہ سوچو کہ یہ واقعی جنگ ہے؟ میرا عقل و سوچ چھوٹا ہے میں کوئی جنگی کمانڈر بھی نہیں ہوں لیکن اپنے علاقے کے بار بار کے چھاپوں کو دیکھ کر اتنا تو میں جانتا ہوں کہ میہی ہو یا ہوشاب، گبین ہو یا پیدراک، کھوڑو ہو یا شاپک ایسے علاقوں میں فوج چوروں کی طرح نہیں آسکتی، لاو لشکر ہوتا ہے، گاڈیوں کا شور ہوتا ہے، ہیلی کاپٹروں کی گونج ہوتی ہے، اگر یہ واقعی جنگ ہورہی ہے تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی فوج آتی ہے اور سرمچاروں کو پتہ تک نہیں چلتا وہ کسی کو شادی کے تقریب کے دوران آرام سے کان سے پکڑ کر لیجاتے ہیں اور اگلے دن انکی لاش پھینکتے ہیں، اور آئے روز کہیں نا کہیں کسی نا کسی سرمچار کے گھر کے اندر تک پہنچ کر اسے مار دیتے ہیں اور وہ ایسے بے خبر زیادہ تر مقابلے کے حالت تک میں نہیں ہوتے، کیا انہوں نے اتنے بڑے ریاست کو اتنا کمزور سمجھا ہے کہ ایک شخص پھیرے تک کیلئے نہیں بِٹھا سکتے؟ اور ایسا نہیں کہ یہ واقعات خال ہی ہوتے ہوں ہم تواتر کے ساتھ ایسے واقعات دیکھ سکتے ہیں، اگر ایک ہی واقعہ تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملے تو اسکا مطلب تو یہی ہوگا نا کہ یا تو ایک ایسی غلطی وجود رکھتی ہے جس پر قابو نہیں پایا جارہا یا پھر یہ ایسا خود ہی چاہ رہے ہیں“ یہ بات سن کر میں نے ناکو کے باتوں کو کاٹتے ہوئے اس سے پوچھا ”ایسا وہ خودکیوں چاہیں گے؟“ ناکو دوبارہ میری طرف دیکھے بغیر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولنے لگا ”وہ اپنے خواہشات اور قائم سراب کی قیمت لاشوں سے چکا رہے ہیں، آپ مجھے بتائیں ایک گوریلہ کمانڈر کیسے بنتا ہے؟ ظاھر ہے ہر شعبے کی اعلیٰ ذمہ داری ایک وسیع تجربے کا متقاضی ہے، اب یہاں دیکھیں ڈاکٹر اللہ نظر کو جنگ کا کونسا وسیع تجربہ تھا کہ وہ ایک طلبہ تنظیم کے چیئرمین سے نکل کر ایک مسلح تنظیم کے کمانڈر انچیف بن گئے، یہ بات انکی حد تک موقوف نہیں ایسے کئی مثالیں آپکو دے سکتا ہوں کہ یہاں مسلح تنظیموں میں زیادہ تر کمانڈر وہی بنتے جارہے ہیں جو پہلے سیاسی جماعتوں میں بڑے عہدوں پر تھے، اب جنگی میدان کا تجزیہ وہ اپنے سیاسی بھڑک بازیوں کی طرح ہی کرتے ہیں جیسے وہ دعویٰ کرتے رہتے تھے کہ بس بلوچستان پانچ سالوں میں آزاد ہورہا ہے یا پاکستان اب ختم ہوچکا ہے بس اسے ایک اور دِکھا دینا ہے یعنی حقیقی وقت و حالت کے بجائے وہ اپنے حالت کو مبالغوں میں بہت آگے دیکھتے یہی حال انہوں نے مسلح تنظیموں کا کیا، معمولی سی گوریلہ طاقت کو انہوں نے ایک فوج کا ہم پلہ قرار دیکر اپنے لیئے آزاد علاقوں کے دعووں تک پہنچ گئے، وہ کچے ذہنوں کو متاثر کرنے کیلئے ان علاقوں میں گھما کر کہتے دیکھو ہم نے تو فری زون قائم کیئے ہوئے ہیں یہ علاقے آزاد ہیں اور باقی مسلح تنظیم خاص طور پر بی ایل اے اتنے سالوں سے یہ نہیں کرسکی قطع نظر اسکے کے بی ایل اے کی حکمت عملی کیا ہے اور یہ جھوٹے دعوے ، یہ قائم سراب نوخیز ذہنوں پر ایک ایسا جھوٹا تاثر چھوڑدیتا جس سے وہ انہیں بڑی کامیاب قوت سمجھ بیٹھتے، یہ ٹوٹکا وہ صرف بی ایل ایف نہیں بلکہ بی این ایم و بی ایس او کیلئے بھی استعمال کرتے، اب انکے آدھے سے زیادہ شہادتیں اسی فری زون کے خمار کو قائم رکھنے کی قیمت پر ہوئی ہیں، بھلا آپ مجھے بتائیں کے کوئ گوریلہ دور دراز بےآب پہاڑوں میں کیوں نشین ہوتے ہیں؟ ظاھر ہے اسلیئے کہ ہم قوت میں ریاست کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور گوریلہ جنگ کا بنیاد بھی تو یہی ہوتا ہے کہ آپ کمزور ہوتے ہو آپ ریاست سے دوبدو نہیں لڑسکتے ہو اسی لیئے اسکے پہنچ سے دور رہ کر اس پر گوریلہ حملے کرتے ہو، لیکن ان میں جنگی حوالے سے تجربے کی انتہائی قحط اور اس پر طرہ انکی بھڑک بازیاں ان فری زونوں اور ان کے قیمت پر لاشوں کا موجب بن رہی ہیں، اب آپ مجھے بتائیں کے میں افسوس کس بات پر کروں کا ایک فرزند دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوا یا پھر اس بات کا افسوس کروں کہ ایک فرزند ناقص حکمت عملیوں اور بھڑک بازیوں کا شکار بن کر ضائع ہوگیا؟ بات یہاں تک بھی نہیں رکتی مجھے تو ان لڑکوں جنہیں آپ سرمچار اور میں ہچ مچار کہتے ہیں انکی تربیت پر تعجب ہوتا ہے، یقین کریں انکے تربیت کا بنیاد گمنامی اور مخلصی پر استوار نہیں بلکہ سب کے ذہنوں پر ہیرو اور نامور بننے کا لالچ سوار ہے، اب تو یہ ہیروازم اور نام سے بھی آگے نکل گئے ہیں یعنی اب تو یہ مسلح تنظیموں کو پیسہ بنانے کا موقع سمجھتے ہیں، یہ پہاڑوں میں ایک مہینہ تک مسلسل نہیں بیٹھ سکتے میں اس بات کا شاید ہوں انکا کام ہی آئے روز دو چار موٹر سائیکلوں پر بندوق اٹھا کر خود کو دِکھانا اور گھومنا ہے، روز یہ لوگوں کے گھروں میں مہمانیاں وصول کرتے رہتے ہیں زیادہ تر تو سوتے بھی اپنے گھروں میں ہے، ایک نیا لڑکا چار گولیاں چلا کر خود کو چی گویرا سمجھنے لگتا ہے اور ہر چوراہے پر خود کو ظاھر کرکے اپنی بہادری کے قصے سناتا ہے، انہیں گمنامی قبول نہیں اور دوسری طرف بی ایل اے کا میں نے سنا ہے ماما مہندو جیسے لوگ ہوتے ہیں جن کا نام اور کردار انکے موت کے بعد ہی لوگوں کو پتہ چلتا زندگی میں وہ گمنام سپاہی ہی رہتے ہیں، خیر میں آپکو مزید کیا بتاوں ذرا ان علاقوں میں مزید گھومیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔“
ہماری یہ گفتگو ناکو کا بھانجا گاڈی چلاتے ہوئے بہت غور اور خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا لیکن جیسے ہی ناکو خاموش ہوا وہ پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولنے لگا ”برات، ناکو بالکل صحیح کہہ رہا ہے، یہ سرمچار نہیں ہچ مچار ہیں، میں نے ناکو کی طرح دنیا تو نہیں دیکھا ہے اور نا کبھی اسکول گیا ہوں لیکن اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے کیونکہ اگر یہ ہماری جنگ ہوتی تو ہمارے خلاف نہیں لڑی جاتی میں تمہیں اپنے ایک رشتہ دار کا واقعہ سناتا ہوں، اب تو ہمارے علاقے میں بی ایل ایف روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب بی ایل ایف ہمارے علاقے میں اپنے عروج پر تھا اور انکے بدمعاشیاں اور شو بازیاں بھی روز بروز اونچائیوں کو چھو رہے تھے، وہ اکثر یہ اعلان کرتے رہتے تھے کہ ہم علاقے میں ہر وقت موجود ہیں اور سب پر نظر رکھ رہے ہیں، بقول میرے رشتے دار کے ایک رات جب ہم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک گولیوں کی آواز سنائی دی، جب ہم گھروں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ قریب قائم پی ٹی سی ایل کے دفتر کا گیٹ توڑ رہے تھے، اسکے بعد یہ ہمارے دوسرے گھر کی جانب بھڑے جو پی ٹی سی ایل کے دفتر سے تھوڑا ہی دور واقع تھا یہ گھر ہم نے پہلے این آر ایس پی نامی تنظیم کو کرایے پردیا ہوا تھا تاکہ گذر بسر ہوسکے لیکن این آر ایس پی 2008 میں ہی وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور ہمارا یہ مکان کافی وقت سے خالی پڑا تھا، ہم نے دیکھا اچانک وہاں بھی آگ کے شعلے بلند ہونے لگے رات کا وقت تک ہم نے ڈر کے مارے کچھ نا کیا پھرانہوں نے ایکسچینج کو بھی آگ لگادیا، صبح ہم نے دیکھا تو ہمارا ایک کمرہ جل کر بالکل گرگیا تھا اور دوسرے کمرے میں ابھی تک آگ لگی ہوئی تھی اسے شدید نقصان پہنچا تھا اور رہنے کے قابل نا رہا تھا ہم نے آگ بجھائی لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا اسکے بعد ہم نے جب ایکسچینج کو دیکھا تو پتہ چلا کہ پہلے ان سرمچاروں نے وہاں اچھا خاصہ لوٹ مار کیا تھا دو اے سی نکال کر یہ اپنے گھر لے گئے تھے اور سیمنٹ کی بارہ بوریاں جو سرکاری نہیں تھے بلکہ کسی کے ذاتی تھے وہاں رکھے ہوئے تھے وہ بھی اٹھا کر اپنے گھر لے گئے تھے، ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ انہوں نے ہمارے اس خالی مکان کو کیوں جلایا ہے، اگر وجہ این آر ایس پی تھا تو وہ 2008 میں ہی اس مکان کو چھوڑ چکا تھا اور یہ خالی پڑا تھا لیکن پھر بھی پہلے وہ کم از کم ہم سے بات تو کرتے، ہم نے سنا تھا کہ ان سرمچاروں کا اب شیوہ بن چکا ہے کہ ان میں کوئی بھی شامل ہوکر کسی بھی شخص سے اپنی ذاتی دشمنی یا غصہ اتار سکتا ہے یہی شک کچھ وقت بعد ہمارے ساتھ ہونے والے ایک اور واقعے کے بعد یقین میں بدل گیا ، بقول میرے رشتہ دار کے ہمارا چھوٹا سا گھر تھا اس میں ہم تین خاندان رہتے تھے، یہ جگہ کم پڑرہا تھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے دوسرے ذمینوں پر نیا کشادہ گھر تعمیر کریں گے، ہم نے کام شروع کیا پہلے ٹریکٹر والے کو بلا یا ذمین ہموار کرائی اور اسے 35 ہزار ادا کیئے پھر ہم نے تعمیر کیلئے لکڑیاں جمع کرکے وہاں رکھ دیں لیکن ایک دو پہر کو اچانک موٹر سائیکل پر سوار بی ایل ایف کے دو مسلح لوگ وہاں پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ اس علاقے کی ساری ذمین اب بی ایل ایف کی ہیں تم لوگ یہاں گھر تعمیر نہیں کرسکتے اور حکم دیا کہ اپنی لکڑیاں یہاں سے اٹھا کر واپس چلے جاو ، ہم حیران ہوئے کہ بی ایل ایف ہمیں ہماری ذمین سے کیسے بید خل کرسکتی ہے ہم نے ان سے بات کرنا چاہاتو انہوں نے ہمیں دھمکی دی کہ تم لوگ اپنے جانی اور مالی نقصان کا ذمہ دار خود ہوگے پھر اگلے شام جب ہم اپنے ذمینوں پر پہنچے تو دیکھا کہ انہوں نے تعمیر کے غرض سے جمع کی گئی ساری لکڑیاں جلا دی ہیں، یہ ایک واقعہ ہے ایسے ہزاروں واقعات ہیں جہاں یہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے عام لوگوں کیلئے زندگی محال کرتے ہیں، اب آپ مجھے بتائیں کے یہ میری جنگ لڑ رہے ہیں یا میرے خلاف جنگ لڑرہے ہیں؟ میری ذمین آزاد کرنے کیلئے لڑرہے ہیں یا میرے ان حاصل ذمینوں پر بھی قبضہ کرنے کیلئے لڑرہے ہیں؟“ یہ کہنے کے بعد ناکو کے بھتیجے نے اپنے جیب سے ایک پرانا کیو موبائل نکالا اور مجھے اس جلے مکان اور جلی ہوئی لکڑیوں کی تصویریں دِکھانے لگا، اور ہم باتوں باتوں میں زامران پہنچ گئے تھے۔
بلیدہ ، زامران، الندور ، جالگی اور بی ایل ایف و بی آر اے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک کچے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں میرے اور ناکو و اسکے بھانجے کے علاوہ پانچ اور لوگ بھی تھے، یہ ناکو کے رشتہ داروں کا بیٹھک تھا حال احوال اور کھانے کے بعد تھوڑی دیر روایتی طریقے سے موسم ، بارش ، فصلیں موضوع گفتگو رہے پھر ایک خاموشی طاری ہوگئی تھوڑی دیر بعد ناکو نے گلہ صاف کرتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک نوجوان لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولنے لگا ”یہ میرا رشتہ دار عرفی میران(فرضی نام) ہے یہ چار سالوں سے بی ایل ایف میں تھا اور چند مہینے پہلے تنظیمی معاملات پر ان سے اختلاف رکھ کر کنارکش ہوگیا ہے لیکن اب انہی اختلافات کو لیکر میران کو یہ ڈر لاحق ہے کہ اسے بھی (طنزیہ طور پر) کسی خفیہ مشن پر بھیج دیا جائیگا یا پھر کسی سیلاب میں بہا دیا جائے گا، میران کو صرف اپنے جان کا خطرہ نہیں ہے بلکہ بقول اسکے یہاں ایک ایسا شیطانی کھیل چل رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بلیدہ میں بی ایل ایف کے کئی کارکن و کمانڈر اندھی گولیوں کا شکار ہوسکتے ہیں اب آگے میران خود ہی تمہیں احوال دے سکتا ہے“ یہ کہتے ہوئے ناکو میران کی طرف دیکھنے لگا ، میران ناکو کا اشارہ سمجھ کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور ہلک صاف کرتے ہوئے میری طرف دیکھے بغیر اپنی نظریں ذمین پر گاڑھے بولنے لگا
”میں آپ کے توسط سے کچھ باتیں سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ لوگوں کو اصلیت کا پتہ چلے، مجھے معلوم ہے کہ میری جان خطرے میں ہے اور اگر یہ باتیں باہر نکلتی ہیں تو میرے جان کو مزید خطرہ لاحق ہوجائیگا، میں جو باتیں کررہا ہوں انکی مزید تصدیق اور وضاحت بی ایل ایف اور اسکے علاقائی کمانڈر الطاف عابد عرف لللہ اور شوکت کرسکتے ہیں ”میران اداس لہجے میں بے ربط واقعات کا ایک سلسلہ ہمارے سامنے رکھتے ہوئے اپنی بات ہمیں سمجھانے کی کوشش میں بولنے لگا ”بی ایل ایف ایک ایک کرکے سارے مخلص اور سچے دوستوں کو کھا رہا ہے اور آج تنظیم کی باگ ڈور نچلی سطح پر ایسے مفاد پرستوں اور منشیات فروشوں کے ہاتھ میں ہے جن کا مقصد محض پیسہ کمانا اور نشہ کرنا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی ایک حد تک چھوٹ دیکر انہیں استعمال کرکے آہستہ آہستہ راستے سے ہٹایا جاتا ہے یا پھر یہ لوگ جان بچا کر نکلتے ہیں تو ایک اور مقبول شمبیزئی ، راشد پٹھان یا حسن بن جاتے ہیں، ہمارے دیرنہ فکری سنگت مختار کے شہادت کے بعد بعد بہت سے دوست کنارہ کش ہوچکے ہیں اور اس سے پہلے بھی انہوں نے ہمارے ایک دوست اکرام انور کو دھوکے سے مار دیاتھا، جب اکرام انور کا کچھ وقت اسکے گھروالوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تو نچلی سطح پر کیمپ میں یہ بات مشہور کی گئی کہ اکرام مشکے میں ہے، کچھ وقت اس طرح بات کو چھپانے کے بعد بالآخر معلوم ہوا کہ اکرام مشکے میں بھی نہیں ہے اور عرصوں سے لاپتہ ہے اور اس بات کو تنظیم مسلسل نظر انداز کرکے چھپاتا رہا، اس طرح انہوں نے نجانے کتنی جانیں نگل لی ہیں اور اب لگتا ہے ہماری باری ہے“۔ وہ باتیں کرتے کرتے پہلی دفعہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولنے لگا ہمارے علاقے میں ماسٹر فقیر نامی شریف النفس انسان رہتا تھا لیکن اسے قتل کیا گیا، ہم سب کو معلوم تھا کہ ماسٹر فقیر کو بی آر اے کے ایک چور کمانڈر عرفی ڈکی نے مارا ہے، اور ہم سب کو اندازہ تھا کہ کسی ناجائز کام یا مقصد کے تحت ماسٹر فقیر بے گناہ مارا گیا، ہم نے اس طرح کے مسائلوں کو لےکر اپنے علاقائی کمانڈر لللہ کو بتایالیکن کمانڈر لللہ کہتا تھا کہ ڈکی بی آر اے کا ہے وہ چور ہیں ہم حقیقی جہد کار ہیں، لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بی ایل ایف کے اندر رہتے ہوئے ہم جیسے کارکن چار سالوں تک یہ نا سمجھ سکے کہ در پردہ عابد زعمرانی اصل میں گلزار ڈکی اور لللہ کے ذریعے کیا شیطانی کھیل ، کھیل رہے ہیں ، ذیلی سطح پر بی ایل ایف اور بی آر اے کے جتنے شیطانی کارنامے ہیں وہ ان میں مشترک ہیں اور بی ایل ایف و بی آر اے کا یہی مشترکہ شیطانی اعمال بی ایل ٹی کے صورت میں ظاھر ہورہے تھے، مگر جب ہم انکے ساتھ تھے تو اندر رہتے ہوئے بات کرنا انتہائی مشکل تھا، انہوں نے ہر قسم کے ناجائز کام کیئے آج یہی کہا جارہا ہے کہ عرفی ڈکی بلآ خر اپنے کئے گئے گناہوں کی بھینٹ چڑھ گیا اوراب بہت جلد عرفی لللہ کی باری ہے، میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں جس کا چشم دید گواہ میں خود ہوں۔
6جون کو صبح 10بجے ہم سوراپ کے مقام پر ایک جگہ بیٹھے تھے کہ ہمارا ایریا کمانڈر عرفی لللہ دو ساتھیوں کے ساتھ اچانک پہنچا اور ہمیں کہا کہ تیار ہوجاو آج بڑا شکار آنے والا ہے، یہ بات سن کر ہمارے گرد بیٹھے اکثر دوستوں کی چہرے پہ ایک خوف طاری ہوگیا انہیں لگا کہ فوج ہے، انہوں نے کہا کہ فوج ہے تو جانے دو تو عرفی لللہ نے کہا کہ نہیں راشد پٹھان کے بندے ہیں پھر اس نے چھ بندوں کو تیار کیا اور اپنے ساتھ لے گیا 11بجے کے وقت سارے لڑکے سلوکو سے میناز کی جانب نکلے اور جیسے ہی ہم ندی کے پشتی حصے میں کھجور کے درختوں تک پہنچے کمانڈر لللہ نے ہمیں موٹر سائیکلیں بند کرنے کا حکم دیا، ہم وہیں رکے تھے اور لللہ نقاب لگا تے ہوئے اکیلے آگے نکل گیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہمیں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آگے آو اور پھر ترتیب وار سب کو بتا نے لگا کہ بندے پہنچ گئے ہیں دو بندے گولیاں چلائیں نزدیک پہنچتے ہی پہلے لللہ نے اپنے 9MM پستول سے گولیاں چلانا شروع کیا، وہاں دو سے تین بندے کھڑے اپنی گاڈی دھو رہے تھے، گولیوں کی آواز سنتے ہی وہ بھاگ نکلے اور پھر ہماری طرف سے گولیاں برسنا شروع ہوگئے، ان میں سے ایک بندہ مارا گیا اور دوسرا زخمی حالت میں پچھلی جانب دیوار کے سمت بھاگ رہا تھا لللہ نے اس پر گولیاں برسا کر اسے مار دیا، انکی لاشیں وہیں پڑی ہوئی تھیں ہمارے کمانڈر لللہ نے وہاں موجود سروس والے سے گاڈی کی چابیاں لےکر گاڑی اٹھا کر چل نکلا اور ہمیں پیچھے آنے کی تلقین کی۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہمارے جائے رہائش سے تھوڑی دوری پر اچانک گاڈی بند ہوگیا کوششوں کے باوجود گاڈی صحیح ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا تو پھر کمانڈر کے حکم پر ہم نے گاڈی پر پیٹرول چھڑک کر اسکو آگ لگا دی پھر ہم موٹر سائیکلوں پر اپنے جگہ پہنچ گئے، ہمارے ساتھ دو باہر کے لڑکے تھے انہوں نے دریافت کیا کہ جن کو مارا گیا ہے یہ کون کون تھے توکمانڈر صاحب نے کہا کہ یہ راشد پٹھان اور نذیر کے بندے ہیں جو یہاں ڈیتھ اسکواڈ کے لیے کام کررہے تھے۔ شام کو کسی جگہ ہم بیٹھے ہوئے تھے تو ایک اور بندہ آیا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں میں ایک کے سوا باقی بے گناہ تھے تم لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے آخر انہیں کیوں قتل کیا اس پر کمانڈر نے کہا کہ چلو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم پھر اس واقعے کو بی ایل ٹی کے نام سے قبول کرواتے ہیں، پھر اس نے اعلیٰ کمان سے رابطہ کرکے پوری صورتحال سے انہیں آگاہ کیا اور بے فکر ہوگیا کہ اس گناہ پر بی ایل ٹی کا پردہ لگ جائے گا اگلے دن اخبارات میں کوئی بیان نہیں تھا تو وہ اور مطمئن ہوا کہ اسے قبول ہی نہیں کیا گیا ہے لیکن تیسرے روز اچانک بی ایل ایف کے نام سے قبولیت آگئی ، اس پر غصے میں کمانڈر للہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ موسیٰ نے دھوکہ کیا ہے، یہ ہمیں مروائے گا، پھر کیمپ میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا لللہ اسے کہہ رہا تھا کہ تمہیں پلان کا پتہ تھا لیکن پھر بھی تم نے ایسا کیوں کیا۔ دو دن کے تلخی کے بعد اعلیٰ سطح نے انکو مطمئن کردیا اور بات کو ختم کردیا گیا اس واقعے کے دس دن بعد اخباروں میں مقتولین کے ورثہ کا بیان آیا، لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں بے گناہوں کو مارا گیا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا بس بی ایل ایف کو اپنے قبولیت کی پڑ ی تھی اس نے قبول کرلیا ہمیں پھر بعد میں معلوم پڑا کہ واحد قمبر نے موسیٰ کو تحقیقات کا حکم دیا ہے، یہ بات جب کمانڈر لللہ کو معلوم ہوا تو اس نے سب دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ استعمال کرنے کے بعد اب دوسرا عرفی انور مجھے بنایا جارہا ہے یہ لوگ مجھے بھی مروا دینگے اس پر اکثر دوستوں نے کمانڈر لللہ کا ساتھ دیا تو پھر واحد قمبر اور موسی نے کیس بند کردیا آج بلیدہ زامران سے بی ایل ایف کے اکثریت سنجیدہ دوست کنارہ کش ہوچکے ہیں اب اندرونی طور پر بلیدہ زامران میں بی ایل ایف عابد، شوکت اور سرور جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ، جن کا کام منشیات لوٹنا اور ذاتی رنجشوں پر لوگوں کو قتل کرنا ہی ہے، یہ اپنے مفادات کیلئے کسی بھی شخص کو بی ایل ایف میں ذمہ داری دے کر لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں انکو کوئی فرق نہیں پڑتا کے گناہگار مریں یا بے گناہ جب کوئی ان سے اختلاف رکھے یا انکے ہاتھوں میں جس کا لگام نا ہو پھر وہ ایوب فقیر کی طرح کوئی امام حسن بنا کر اسے قتل کردیتے ہیں، اب لللہ کو استعمال کرنے کے بعد یہ اسے بھی قتل کریں گے اور یوں پھر ایک نیا کھیل شروع ہوجائے گا جس کا خدشہ شھید مختار اور چند دوستوں نے پہلے کیا تھا لیکن بد قسمتی اس وقت حقائق ہمارے سامنے نہیں تھے اسلیئے ہم نہیں سمجھ سکے لیکن آج جب زیادہ تر حقائق ہمارے سامنے ہیں تو انہیں سننے والے کوئی نہیں ہے اور لللہ جیسے کئی کردار استعمال ہوتے ہوتے پھر بہرام کی طرح مارے جائینگے یوں بی ایل ایف میں چند اور جرائم پیشہ لوگوں کو کمانڈر بناکر لایا جائے گا اسی طرح جرائم کا مقدار بڑھتا رہے گا اور یہ چکر چلتا رہے گا۔“
میران بغیر رکے بولتے ہی جارہا تھا ، وہ بیچ بیچ میں رک کر تھوڑا سوچ کر دوبارہ سے کوئی بات شروع کردیتا، ایک ساعت کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”میرے ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آج بی ایل ایف ہر جگہ علاقائی سطح غیر سنجیدہ اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں مکمل یرغمال ہے اور ان جرائم پیشہ افراد کو مکمل چھوٹ اسلیئے حاصل ہے کیونکہ وہ منشیات کی لوٹ مار کرکے ہائی کمان کو حصہ دیتے ہیں، ان میں انقلابی یا قومی سوچ نا پید ہے اسلیئے انکے ہاتھوں آئے روز بے گناہوں کا خون بہتا رہتا ہے، یہ تب تک قابلِ قبول رہتے ہیں جب تک کہ وہ لوٹے ہوئے مال کا حصہ پہنچائے یا قابو میں رہیں اور بلا چون چرا انکی باتیں مانیں، بصورت دیگر انکو ایک ایک کرکے راستے سے ہٹایا جاتا ہے اس طرح پھر کسی اور غنڈہ ، بدمعاش جرائم پیشہ فرد کو اسکی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں، بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ اس شیطانی چکر پر اگر کوئی سوال اٹھائے یا تنقید کرے تو پھر اس شخص کی جان بھی خطرے میں پڑجاتی ہے، حال ہی میں جو دوست بی ایل ایف سے ان وجوہات کے بنا پر اختلاف رکھ کر کنارہ کش ہوئے ہیں اب انکے جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور ایسے لوگوں میں سے ایک میں ہوں، اب ہم سرکار اور سرمچار دونوں سے اپنی جان بچائے پھرتے ہیں۔“
میران ایک بارپھر تھوڑی سی خاموشی کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولنے لگا ”بی ایل ایف اور بی آر اے نے بلیدہ زامران کو تباہ کردیا ہے، ان دونوں تنظیموں کا آپس میں تعداد پر مقابلہ بازی ہے اسی مقابلہ کی وجہ سے وہ بغیر تحقیق ہر قسم کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں، پھر نا انکی کوئی تربیت ہوتی ہے یا کچھ اور بس انکے ہاتھ میں بندوق تھما کر چھوڑ دیا جاتا ہے پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کے ایسے لوگ کیا سے کیا کرسکتے ہیں، تین ماہ قبل تک جب ہمارا رابطہ ان لوگوں سے تھا تو یہ ہر جگہ بڑی فخر سے اپنی تعداد بڑھانے اور بتانے میں لگے تھے، بی ایل ایف اور بی آر اے میں اس وقت تک مقابلہ جاری تھا بی ایل ایف کے کمانڈر ہر جگہ کہہ رہا تھا کہ بلیدہ زامران میں اب ہماری تعداد 60 تک پہنچ گئی ہے اور بی آر اے والے 80 کہہ رہے تھے ، یہ سب کے سب چور اور کرپٹ قسم کے لوگ ہیں سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا اب آئیندہ چند دنوں میں ان چوروکرپٹوں میں سے چند کو اکٹھا کرکے لشکر بلوچستان بھی ایک کیمپ کھولنے کیلئے پر تول رہا ہے۔ بقول شھید مختار بلیدہ زامران میں ان دو تنظمیوں کے چار بڑے کیمپ ہیں اور جب ہم ان کمپوں میں جاتے تو چاروں کمانڈر چرس پی رہے ہوتے تھے، ان کے کمانڈروں کی حالت یہ تھی کہ چرس کے بغیر ایک دن نہیں گذار سکتے تھے تو سوچیں انکے سپاہیوں کی کیا حالت ہوگی۔ یہ گوریلہ کیمپ کم اور ساقی خانہ زیادہ لگتے ہیں، لوگ ان تنظیموں میں بھرتی ہی منشیات کے پیسوں سے کمانے کی خاطر ہوتے ہیں، انہی مسائل اور نوانو میں ایوب نامی کسی لیویز اھلکار کو بے گناہ قتل کرنے کے بابت شہید مختار نے عابد زامرانی سے ان مسائل پر اختلاف رکھا اور عابد زامرانی کو تاپک سنٹ کیمپ میں سب دوستوں کے سامنے تلخ لہجے میں کہا کہ ایوب کے بچے انتہائی کسمپرسی کے حالت میں زندہ ہیں اب چلو ایوب کی فیملی سے معافی مانگو اور انکو ان منشیات کے لوٹے پیسوں میں سے کچھ تعاون کرو تاکہ انکی کچھ مدد ہوجائے ، لیکن عابد زامرانی نے متکبر لہجے میں ماننے سے انکار کردیا۔ یہی عابد زامرانی ماضی قریب میں ہی ایک انتہائی غریب انسان تھا، اسکے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے لیکن بی ایل ایف میں آنے کے بعد منشیات کے پیسوں سے اسکی چاندی ہوگئی ہے۔ آج کل عابد کاٹن کے کپڑے پہن کر ہاتھ میں گولڈ لیف سگریٹ لیئے ویگو گاڈیوں میں گھومتا ہے۔ مختار جیسے جتنے سنجیدہ دوست تھے سب ہمارے صفوں سے نکل گئے اور اب ہر روز ایک نیا نشئی چہرہ کیمپ جوائن کرتا ہے، انتہائی مایوسی کے ساتھ ایک بات بتاوں کہ ان تمام معاملات پر دلیپ شکاری اور واحد قمبر نے خود کہا تھا کہ ہم بے بس ہیں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں اور ہم انہیں نہیں روک سکتے اور جہاں تک شوکت و عابد کی بات ہے تو وہ اس لیئے کچھ نہیں کہتے کیونکہ انکو اچھا خاصہ حصہ مل رہا ہے اور آنے والے دنوں میں جب کبھی ان کو اس منشیات کے دھندے کو چلانے کیلئے کوئی قابلِ بھروسہ شخص ہاتھ آگیا تو وہ کسی طرح کوئی خفیہ مشن تشکیل دیکر اپنے ایریا کمانڈ لللہ کو مار دینگے یا پھر لللہ بھی مقبول شمبیزئی بن کر بی ایل ایف کے گناہوں کا تاج اپنے سر رکھ کر ایک اور رکاوٹ بن کے سامنے آئے گا اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔“ میران نے اپنی باتیں پوری کرنے کے بعد تھوڑا پیچھے ہوکر دیوار سے ٹیک لگا دیا اور خاموش ہوگیا جیسے اسے جو کچھ کہنا تھا اس نے کہہ دیا اب وہ زندہ رہے یا سرکار و سرمچار کسی کے ہاتھوں بھی مارا جائے قوم اور وقت اپنا فیصلہ خود کریں گے، جب اسکی باتیں پوری ہوئی تو میرے پاس بھی اس سے پوچھنے کیلئے کچھ نہیں تھا، کیونکہ یہ واقعات اب میرے لیئے انوکھے یا چونکا دینے والے نہیں رہے تھے جہاں جہاں بی ایل ایف اور بی آر اے نے اپنے قدم رکھے وہاں وہاں نا انصافی، بد کرداری، بے لگامی، بے رحمی اور رد انقلابی پن کے ایسے ہزاروں واقعات رقم ہوئے۔ مجھے یہ کہنے میں کوی قباحت محسوس نہیں ہوتی کہ بی ایل ایف اور بی آر اے قومی تحریک کے سامنے اس وقت رکاوٹ بن چکے ہیں لیکن مجھے ہر وقت اور ہر پَل ان نوجوانوں کیلئے دکھ اور افسوس ہوتا رہتا ہے جنکے جذبات، جنکی مخلصی، جنکے جان ان کے ہاتھوں ضائع ہورہے تھے ، ہورہے ہیں اور جب تک انکا وجود ہے ہوتے رہیں گے۔
میران کے باتوں کے بات تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی، اتنی دیر میں چائے بھی آچکی تھی ایک چھوٹا لڑکا ایک ہاتھ میں چائے دان اور دوسرے ہاتھ میں پیالوں کا کٹورہ لیئے سب مہمانوں کے سامنے پیالے رکھ کر انہیں چائے سے بھرتے ہوئے جارہے تھے، اس لڑکے کی عمر نو سال سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن وہ جس مہارت سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں چائے دان لیئے پیالے رکھ کر انہیں بھرتا جارہا تھا اس سے ظاھر ہوتا تھا کہ اسے اس مہمان نوازی کی بہت مشق اور عادت ہے، میں اپنے انہیں خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک سفید ریش بزرگ حاجی صاحب جس کا تھوڑی دیر پہلے ناکو نے تعارف کرایا تھا اور کہا تھا کہ یہ جالگی زامران کا رہائشی ہے بولنے لگا ”میران ایک بات بالکل صحیح کہہ رہا ہے بی ایل ایف اور بی آر اے ایک دوسرے سے مقابلے میں آگے جانے کی چکر میں ہر قسم کے دوغلے و کرپٹ شخص کو اپنے صفوں میں جگا دینے اور ہر منفی عمل میں ملوث ہونے سے نہیں کتراتے، یہی وجہ تھی کہ پچھلے سال ہمارے علاقے جالگی میں بی ایل ایف نے لشکر کشی کرکے نا صرف بے گناہ لوگوں کو مارا بلکہ اپنا بندہ بھی مروا بیٹھے۔ اب پھر اس شرمندگی کو چھپانے کیلئے اخبارات سمیت ہر جگہ جھوٹ بولتے پھرتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ ڈیتھ اسکواڈ والوں سے ہوا اصل قصہ یہ ہے کہ ایرانی زیر قبضہ بلوچستان سے متصل سرحد پر واقع جالگی میں آج پیڑول وڈیزل کا کاروبار عروج پر ہے، تربت ، بلیدہ اور زامران کے مختلف علاقوں سے جالگی کو ملانے والی روڈ پر 7سال پہلے کام شروع کیا گیا اس وقت علاقے کے سنجیدہ لوگوں نے اس عمل کی مذمت کی تھی کہ آگے چل کر یہ بڑی مصیبت سے کم نہیں ہوگا اور جب یہ روڈ مکمل کرکے جالگی کو پیٹرول و ڈیزل کے کاروبار کے لیے مکمل کھول دیا گیا تو یہاں عام لوگوں سے لے کر سرکاری لوگوں تک سب اس روڈ کے ٹیکس میں شریک ہوگئے کیونکہ سب نے پیسہ لگایا تھا گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہاں قائم ٹول پلازہ سے ایف سی لاکھوں کا ٹیکس لینے لگا جس سے ایف سی کی بھی چاندی ہوگئی ٹیکس نہ دینے کی صورت میں ایف سی ٹینکر مالکان کو حراساں کرتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ اس مال غنیمت سے بی آر اے بھی اپنا حصہ مانگنے لگا انھیں بھی ایک حصہ دیا گیا تاکہ جالگی سے پروم آنے جانے والے ٹینکروں کو تحفظ دیا جائے اب چونکہ علاقے میں بی آر اے کے ساتھ ساتھ بی ایل ایف بھی وجود اور طاقت رکھتا تھا تو بی ایل ایف نے کہا کہ ہمارا حصہ بھی الگ سے مقرر کیا جائے اس پر ملا گروپ نے انکار کردیا اور کہا کہ آمدنی کا آدھا حصہ ایف سی اور بی آر اے لے جاتے ہیں اور کچھ یہاں کام کرنے والے مقامی مزدورں کو دیا جاتا ہے کچھ بچتا نہیں انہوں نے مزید ٹیکس دینے سے انکار کردیا، یہ بات انکے پروم ونگ کے کمانڈر زمان کو ناگوار گذرا اس لیئے اس نے بدلہ لینے کی ٹھانی مکمل پلاننگ کے تحت 20 مسلح سرمچاروں کے ساتھ حملہ آور ہوکر تمام سامان پیسے لوٹ کر وہاں کام کرنے والے چند مزدوروں اور ایک 11سالہ بچہ کے ہاتھ پاوں باندھ کر لےگئے پھر آگے آپ کو پتہ ہے کیسے ڈمبانی کے مقام پر اہل علاقہ مورچہ زن ہوگئے اور فائرنگ کے تبادلہ میں ایک سرمچار اور ایک علاقائی ہلاک ہوگئے۔ اصل میں جالگی میں نا کوئی سرکاری ہے، نا ڈیتھ اسکواڈ، نا کوئی سرمچار ہے اور نا کوئی ایف سی بس سب کو اس ٹیکس میں سے حصہ چاہیئے اور پیسہ چاہیئے۔ یہ آزادی اور سرمچاری کی باتیں اب ہمیں پرانے زمانے کی کہانیاں لگتی ہیں کیونکہ ہم تو صرف مفادات کی جنگ دیکھ رہے ہیں ، کوئی پیسہ بنانے کیلئے بی ایل ایف و بی آر اے میں جارہا ہے تو کوئی پیسہ بنانے ملاوں کے ساتھ جارہا ہے اور کوئی فوج کے ساتھ مقصد سب کا پیسہ ، کام سب کا ایک ہے بس نام الگ الگ ہیں۔ “
حاجی صاحب جب اپنی بات پوری کرکے خاموش ہوگئے تو باقی لوگ آپس میں باتوں میں لگ گئے، جب ہماری گفتگو چل رہی تھی تو علاقے کے اور بھی لوگ آکر بیٹھ گئے تھے اور سن رہے تھے، ہر کوئی یا تو اپنی کوئ آپ بیتی بتانے میں لگا ہوا تھا یا پھر کوئ ایسا واقعہ سنا رہا تھا جو اسکے نظروں سے گذرہ ہو، اتنے میں ایک پختہ عمر کا شخص جو وضع و قطع سے ڈرائیور لگ رہا تھا مجھ سے مخاطب ہوکر بولنے لگا ”واجہ یہ واقعی چور و ڈاکو سے کم نہیں ایک باربی آر اے کے ایک سرمچار الطاف اور اس کے کچھ ساتھیوں نے ناگ زامران کے مقام پر ٹینکر گاڑیوں کو روک کر گن پوائنٹ پر لوٹنے کی کوشش کی تو لوگوں نے انکو پکڑلیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سرمچار ہیں لیکن لوگوں نے انکا یقین نہیں کیا اور کہا کہ تم لوگ سرمچار نہیں ہوسکتے چور ہو سرمچاروں کا نام بد نام کررہے ہو، سرمچار بھلا چوری چکاری جیسے کام کیسے کریں گے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو سرمچاروں کی حوالے کرینگے، تھوڑی دیر بعد بی آر اے کے سرمچار موٹر سائیکلوں پر سوار پہنچ گئے اور ٹینکر والوں سے اپنا تعارف کروایا ٹینکر والوں نے کہا اچھا ہوا آپ پہنچ گے یہ چور آپ لوگوں کے نام پر ہمیں لوٹ رہے تھے تو بی آر اے کے کمانڈر ناصر نے انہیں ڈانٹ کر کہا کہ یہ چور نہیں سرمچار ہیں شرم کرو سرمچاروں کو چور کہتے ہو ٹینکر والوں کو زدکوب کرکے ڈرا دھما کر اپنے ساتھی چھڑا کر لے گئے، انہی لوگوں میں سےایک ٹینکر ڈرائیور نے یہ داستان مجھے سناتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے سرمچار یہ ہیں تو پھر پاکستانی غلامی پر گزرا کرنا ہوگا، واجہ خاص طور پر ٹینکر والے ڈرائیوروں کو جو سب بلوچ ہیں ہر روز ایف سی، سرمچار اور چوروں کے ہاتھوں ایک جیسا تذلیل برداشت کرنا پڑتا ہے۔“
جیسے ہی اس شخص نے اپنی بات پوری کی تو پیچھے سے ایک نوجوان بولنے لگا کہ” واجہ میں الندو ر کا رہائشی ہوں، کچھ دن پہلے کی بات ہے الندور کوچک کے علاقے میں کچھ لوگ اپنے زمینوں پر پانی کے لیے بورنگ لگا رہے تھے کہ ایک دن بی آر اے کے سرمچار پہنچ کر لوگوں کو دھمکی دینے لگے کہ یہ زمین قومی ملکیت ہے یہاں کسی کو کنواں کھودنے کی اجازت نہیں ہے تو لوگوں نے کہا کہ ہم بھی پنچاب سے نہیں آئے ہیں، یہ ذمین اگر قومی ملکیت ہے تو قوم ہم ہیں اور سات پشتوں سے یہ زمین ہماری ملکیت رہی ہے، پیچھے ہمارے گھر ہیں اگر ہمارے گھروں کے سامنے ہمیں کنواں کھود کر بورنگ لگانے کی اجازت نہیں تو پھر آو ہمارے گھروں کو بھی بلڈوز کردو۔“ جیسے ہی وہ خاموش ہوا تو کوئی اس بیوقوفانہ حرکت پر ہنسنے لگا ، تو کوئی افسوس کرتے ہوئے اپنا سر دائیں بائیں جھٹکنے لگا، ماسٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے اس نے دبے الفاظوں میں کہا ”یہ اور انکا سوشلزم پاکستان سے یا سرداروں سے تو کوئی ذمین نہیں لے سکیں گے بس ہم غریبوں کے ذمینوں پر انکا زور اور سوشلزم چلے گا۔“
الندور کا وہ رہائشی ایک بار پھر بولنے لگا ”واجہ ایسے تو انکی درجنوں واقعات ہیں ایک دن انہی سرمچاروں نے کوچک کے علاقہ میں صاحب خان نامی زمیندار کے ٹماٹروں کو ضبط کرلیا اور کہا کہ آپ کے ٹماٹر پنجاب جارہے ہیں، اس پر طیش میں آکر صاحب خان نے ان سے کہا کہ میرے دو بوری ٹماٹر و پیاز بلیدہ اور تربت تک نہیں پہنچ پاتے پنچاب دور کی بات ہے، لیکن صاحب خان کے دو بوری ٹماٹر غداری کے شبہہ میں سرمچاروں نے قومی تحویل میں لے لیئے۔“ اسکی بات پوری ہوتے ہی سب ہنسنے لگے، میں رات کے کھانے تک اہلِ علاقہ کے ساتھ ناکو کے ہمراہ بیٹھا رہا اور اس طرح کے کئی واقعات سنتا رہا جن میں بی ایل ایف اور بی آر اے کے بیوقوفی کی حد تک مجرمانہ قصے تھے سب ہنس رہے تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ دل ہی دل میں یہ سب میری طرح اس گومگو میں ہیں کہ ان واقعات پر ہنسا جائے یا ماتم کیا جائے۔
رات ہم نے ناکو کے اس رشتہ دار کے گھر میں گذاری صبح میں نے ناکو کو کہا کہ مجھے ضروری کام سے کراچی جانا ہے میں پھر یہاں سے آپ سے اجازت طلب کرتا ہوں بس مجھے کراچی کے گاڈیوں تک چھوڑ دیں۔ ہم اسی گفتگو میں تھے تو ہمارے میزبان نے کہا کہ اسکا ایک جاننے والا یہاں زامران میں کام سے آیا تھا اب وہ اپنی گاڈی میں کراچی جارہا ہے تو تم اسی کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے، اسکے ساتھ جانا یقیناً بس میں دِکھے کھانے سے بہتر تھا تو میں نے بھی فوراً حامی بھرلی، تھوڑی دیر بعد ناکو اور اسکے بھانجے نے اجازت لی اور ناشتے کے فوراً بعد واپس ہوشاب کیلئے نکل گئے ، ایک گھنٹہ انتظار کے بعد میزبان اپنے جاننے والے کے ہمراہ گاڈی میں پہنچ گیا، وہ تقریباً 35 سال کا پڑھا لکھا شخص معلوم ہورہا تھا ، میزبان کے اصرار کے باوجود وہ چائے پانی کیلئے نہیں اترا کیونکہ اسے دیر ہورہی تھی میں بھی سرسری خدا حافظ کرکے اسکے ساتھ ہولیا اور ہمارا سفر شروع ہوا، وہ ناصر آباد تربت کا رہائشی تھا۔ دوران ِ سفر معمول کی باتیں ہوتی رہی پھر باتوں باتوں میں آخر کار میں اپنے مقصد کے سوال پر آکر اس سے ناصر آباد کے حالات کا پوچھنے لگا ، اسکی باتیں بھی ریاستی جبر سے لیکر بی ایل ایف کے جبر تک پہنچ گئے، میں سوچنے لگا آج کل مکران میں جس سے بھی حالات کا پوچھو وہاں ریاستی جبر اور بی ایل ایف و بی آراے کی بدمستیاں ایک ساتھ کیوں آتی ہیں ، ہم نے شاید بیچ کے فرق کو ختم کردیا ہے۔
ناصر آباد اور بی ایل ایف:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گاڈی چلاتے ہوئے نگاہیں سڑک پر رکھے مجھ سے مخاطب ہوا ”پچھلے دنوں ناصر آباد میں رونما ہونے والے اندوہناک واقعے کا تو آپ کو پتہ ہوگا کہ شہید حامد کے بیٹے اور اسکے کسی ہم عمر لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور تھوڑی بہت تو تو میں میں ہوئی جس کے بعد وہ لڑکا فضل حیدر کے پاس گیا جو بی ایل ایف کا ایک کمانڈر ہے اور واحد قمبر کے ساتھ پہلے جیل بھی کاٹ چکا ہے ، مسئلہ جب لمبا ہوا اور بات ایک دوسرے پر بندوقیں نکالنے تک پہنچی تو اکبر زامرانی نامی شخص نے انکے بیچ صلح صفائی کرکے معاملہ رفع دفع کردیا لیکن اسکے باوجود فضل حیدر نے بعد میں اکبر زامرانی سمیت ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے دو کو مار دیا اور باقی دو شدید زخمی کردیئے۔“ میں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ”ہاں مجھے اس واقعے کا سوشل میڈیا کے توسط سے علم ہے لیکن بی ایل ایف نے تو بیان دیا ہے کہ فضل حیدر سے انکا کوئی تعلق نہیں اسے تو چند ماہ پہلے تنظیم سے فارغ کردیا گیا تھا؟“ میری یہ بات سن کر وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولنے لگا ”نہیں یہ انکا ہمیشہ کا ٹوپی ڈرامہ ہے، جب کبھی مسئلہ آجائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے فلانے شخص کو چھ مہینے پہلے فارغ کردیا تھا، اسکی مثال آپ نے حال ہی میں حاجی قلاتی ، شکاری اور مدینہ وغیرہ کی صورت میں بھی دیکھا ہوگا جیسے ہی انہوں نے ہتھیار پھینکے تو انہی کے مشورے پر یو بی اے نے بیان داغ دیا کہ انہیں چھ مہینہ پہلے فارغ کیا گیاتھا، یہ ہمیشہ لوگوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں، سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر تنظیم سے نکالا تھا تو پھر آپ نے چھ مہینے پہلے لوگوں کو کیوں آگاہ نہیں کیا، وہ آپ کا کمانڈر رہا ہے اور لوگ تو ابھی تک اسے آپ کا کمانڈر سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے دیئے بندوق سے لوگوں کو مار رہا ہے۔ اب جب میڈیا میں بات آئی بدنامی سے بچنے کیلئے کہتے ہیں ہم نے چھ مہینے پہلے اس سے تعلق ختم کردیا تھا حالانکہ اسی بی ایل ایف کے چیلوں کو میں نے بھی سوشل میڈیا پر دیکھا تھا جو مسلسل اس کوشش میں تھے کہ ظاھر کی جائے کہ اکبر زامرانی سمیت باقی سب گنہگار تھے اب اچانک انکے پینترے بدل گئے، میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں کے انہوں نے کچھ وقت پہلے اپنے دو سرمچاروں کے بارے میں بیان دیا تھا کہ وہ اب ہمارا حصہ نہیں ہیں بلکہ انہیں مفرور قرار دیا تھا پھر فضل تو انکا کمانڈر اور پرانا ساتھی تھا اسکے بارے میں انکو چھ ماہ پہلے کیوں چپ لگ گئی تھی؟ “ میں نے ایک بار پھر اسکی بات کاٹتے ہوئے پوچھا ”آج تو سننے میں یہ آرہا ہے کہ انہوں نے فضل حیدر کو چھ ساتھیوں سمیت مار دیا ہے، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ “ وہ زور سے ہنستے ہوئے بولنے لگا ”یہی انکا شیوہ ہے، پہلے لاتے ہیں ہر ناجائز و جائز کام کراتے ہیں جب وہ شخص رکاوٹ بن جائے یا زیادہ حصہ مانگنے لگے یا اسکی وجہ سے اب انہیں لوگوں میں بہت خجالت کا سامنا کرنا پڑے تو پھر اسے راستے سے ہٹا دیتے ہیں ، بالکل ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا“ وہ اپنی بات کرکے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے گاڈی چلائے جارہا تھا اور مجھے ایک بار پھر میران کی باتیں یاد آگئیں وہ بھی تو یہی کہہ رہا تھا ، اسی خدشے کا اظہار کررہا تھا کہ کمانڈر لللہ کو استعمال کرنے کے بعد اب وہ اسے راستے سے ہٹا دیں گے، مجھے احساس ہوا کہ یہ حال محض بلیدہ زامران کا نہیں بلکہ ہر جگہ انکا شیوہ یہی ہے، اس نے دوبارہ ہنستے ہوئے مجھ سے ایک سوال پوچھا ” اگر فضل کو بی ایل ایف نے مارا ہے تو مجھے حیرت ہے وہ بی ایل اے کا یو بی اے پر ہونے والے حملوں پر جاری کیئے گئے مذمتی بیانوں کا کیا کریں گے؟”
اس گفتگو کے بعد ہم کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر اچانک اس نے خاموشی توڑتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا ”میں بی ایل ایف کی حالت دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر بلوچستان آزاد ہوگیا اور ہمارے قسمت کے فیصلے انکے ہاتھوں میں آگئے تو پھر اللہ ہی جانے غریب لوگوں کے ساتھ یہ کیا حشر کریں گے ، ایک بار میرے ایک دوست نے انکے انصاف کا ایک قصہ سنایا تھا میں آپ کو سناتا ہوں پھر آپ خود فیصلہ کریں کے انکے ہاں انصاف کیا ہے، ایک سنگت کا نام ملا فاضل ولد مراد محمد ہے اسکی عمر لگ بھگ 28 سال ہوگی، وہ پہلے ڈگری کالج تربت کا اسٹوڈنٹ اور بی ایس او آزاد کا سرگرم کارکن تھا، ملا فضل شہید رزاق گل اور خلیل ساچان کا قریبی دوست تھا۔ وہ تقریبا ہمیشہ دن رات ایک ہی ساتھ ہوتے تھے، ایک دن شہید رزاق گل ملا فاضل کو فون کرکے کہتا ہے کہ کہاں ہو آجاو آج ڈی بلوچ کی طرف بکریوں کی ریوڈ سے کوئی شوانگ ہمیں شیرو شیلانج کھلائے گا آپ ناصر آباد سے نکلو اور میں تربت سے نکلتا ہوں پھر ایک ساتھ چلتے ہیں، اسی لیئے پھر ملا فاضل ناصر آباد سے نکل جاتا ہے اور راستے میں موٹر سائیکل میں تیل ڈالنے کیلئے رک جاتا ہے، اس دوران کافی دیر ہوجاتی ہے تو ملا واپس رزاق گل کو فون کرکے کہتا ہے کہ آج دیر ہوگئی ہے پھر کل کا پروگرام رکھتے ہیں رزاق گل بھی تب تک تربت میں ہی ہوتا ہے تو وہ بھی کہتا ہے ٹھیک ہے یوں انکا پروگرام کینسل ہوجاتا ہے لیکن اتفاق سے اسی رات ہی رزاق گل کو شہید کیا جاتا ہے، رزاق گل کا دوسرا ساتھی خلیل ساچان بی ایل ایف میں ہے ، کچھ دن بعد وہ ملا فضل کوکسی بہانے بلاتا ہے اور پھر پکڑ کراسے بی ایل ایف کے دشت ساجی کیمپ لے جاتا ہے اور وہاں ملا فاضل کے ہاتھ پاوں باندھ کر اسے دھوپ میں رکھا جاتا ہے وہاں کمانڈر عرفی ملک مری ملا فاضل کو سترہ دن تک شدید اذیتیں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے رزاق گل کا مخبری کیا ہے، اس تشدد سے ملا فاضل کا ایک ہاتھ ضائع ہوجاتا ہے، پھر ایک دن کمانڈر آکر اسے کہتا ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوگئی تھی تم نے رزاق گل کی مخبر ی نہیں کی ہے اور اسے چھوڑ دیتے ہیں، واجہ یہ ہے انکا انصاف اور طریقہ کار۔“
اپنی بات پوری کرنے کے بعد وہ دوبارہ خاموشی کے ساتھ گاڈی چلانے لگا اور ساتھ میں گاڈی کے ٹیپ میں کیسٹ ڈالتے ہوئے دھیمے آواز میں موسیقی شروع کردی ، اور میں ٹیک لگا کراپنے سوچوں میں گم ہوگیا ، میرے کانوں بار بار ناکو کے بھانجے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ” یہ ہماری جنگ نہیں ہے اگر ہماری جنگ ہوتی تو ہمارے خلاف نہیں لڑی جاتی” اور میں سوچ رہا تھا کہ آخر کس نے اور کیوں اس جنگ کا رخ موڑ کر اپنے لوگوں کی طرف کردیا شاید اس سوال کا جواب پانے میں مجھے ایک بار پھر پورا مکران گھومنے کے بعد مشکے و آواران کا بھی رخ کرنا پڑے گا۔
(نوٹ: مندرجہ بالا تحریر میں واقعات سچے اور ترتیب تصوراتی ہے ، یہ مضمون مکمل جبکہ سلسلہ جاری ہے)

یہ بھی پڑھیں

فیچرز