چهارشنبه, آوریل 17, 2024
Homeآرٹیکلزناعاقبت اندیش لوگ،تحریر:تبریز بلوچ

ناعاقبت اندیش لوگ،تحریر:تبریز بلوچ

ریاستی پروپگنڈا شروع سے یہی رہا کہ تین سردار ہے جو بلوچستان کے حالات خراب کر رہے ہیں خود باہر ملکوں میں بیٹھ کر عیاشیاں کر رہے ہیں اور اپنے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں را فنڈڈ آرگنائزیشن چلا رہے ہیں یہ سب پیسے کا کھیل ہے وغیرہ وغیرہ اور سرفراز بگٹی تو سرنڈر شدہ لوگوں سے کچھ معلومات اکٹھا کر کے بڑے دعوے کے ساتھ بلوچ جہد آزادی کو پیسے کا کھیل کرار دے رہے ہیں اور بیرون ملک بیٹھے تمام رہبروں کے خلاف اپنا پروپگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں کہ یہ سب کچھ پیسے کے لیے کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ جن سے قریبا ہر باشعور بلوچ باخبر ہے کہ جو پروپگنڈا ریاست کے حواری و مداری کر رہے ہیں وہ سیاسی لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں لیکن جب یہی پروپگنڈا آپ کے اپنے ہی کرے تو سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا. جس طرح کہ کسی زمانے میں ڈاکٹر مالک و اسکے یاروں نے سرداروں کے خلاف متوسط طبقے کا نعرہ دیا جسے معصوم بلوچوں نے قبول کر لیا اور وہ اس آڑ میں سرداروں کو نہیں تحریک کو کنڈم کرتے رہے اور آج پارلیمان کی زینت بنے بیٹھے ہیں بلوچوں کے خون کو چوس رہے ہیں بالکل اسی طرح آزادی پسندوں میں بھی یہی خیال پھل پھول رہا ہے کہ جی فلاں تو سردار ہے وہ اپنی سرداری رویوں سے نہیں نکل سکتا وہ قوم کو کیا آزادی دے گا ان سرداروں سے کچھ ہونے والا نہیں. لگتا ایسے ہے کہ یہ یا تو کسی مخصوص زاویہ کے لیے یہ باتیں کر رہے ہیں یا تحریک کی رفتار میں کمی لانے کی کوشش میں لگے ہیں یا پھر ان کے مقاصد سنگین نوعیت کے ہیں یہی سردار جب تحریک سے وابستہ ہوئے تحریک کو ایندھن فراہم کرتے رہے یہاں تک کہ تحریک کی ابتدا ہی انھوں نے کی بلکہ یہاں پر نام لینا غیر مناسب نہ ہو تحریک کی بنیاد نواب خیر بخش مری و اسکے صاحبزادے حیر بیار مری نے رکھی جب ڈاکٹر اللہ نظر سمیت بہت سے نوجوان پیر و بزرگ جو شہید ہو چکے ہیں یا جو زندہ ہیں وہ تو پارلیمانی پارٹیوں کے مدار میں گردش کر رہے تھے اب وہ اس نتیجے پر آگئے ہیں جس نے تحریک کی بنیاد رکھی آج وہ نواب بن گئے جب آپکے دودھ کے دانت نہیں نکلے تھے اس وقت وہ بے سر و پا تحریک کے لیے دن رات ایک کرتے رہے اب آپ جو پروپگنڈا کر رہے ہیں اسکا منطق یہ تو نہیں کہ مایوسی کو ہوا دے دی جائے تاکہ آپ کے لیے راستہ صاف ہو جائے کیا ان کے کردار سے انکاری ہو کر یہ جہد منطقی منزل تک پہنچ پائے گی؟ کیا تحریک آج جس نج پر پہنچ چکی ہے یہ سب صرف اور صرف آپکی قربانیوں کی بدولت ہے یا صرف آپکی قابلیت و صلاحیتوں کے نتیجے ہیں اگر ہاں تو اسکا کھل کر اظہار کیا جائے تاکہ قوم کو معلوم ہو سکے کیونکہ اس دوران تحریک کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بھی آپکے کھاتے میں شمار ہوں تو پھر آپکے نئے پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی حتمی فیصلہ کر سکے گا. بہر کیف ہر مسئلہ کسی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں. بلوچ تحریک ایسے ہزاروں غلطیوں کے بعد ہزاروں مسائل کو جنم دے چکا ہے کہ اب آزادی پسند بھی سرکار کی زبان میں بولتے ہیں اب سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں خصوصاً مہر گہوش جو عموما وتی باتیں دہراتے رہتے ہیں جو صدیوں پہلے کہے جاچکے ہیں لیکن تواتر کے ساتھ وہ ایک ہی نقطے کو لیکر اختتام تباہی و بربادی پر ختم کرتے ہیں جب کوئی عام ورکر یا سپاہی یہ باتیں کہے تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ وہ فردی رائے یا نقطہ نظر سمجھا جائے گا لیکن جب یہی سرفراز بگٹی کی باتیں ایک ذمہ دار شخص جو کسی تنظیم سے وابستہ ہے اور کافی عرصے سے بلکہ اب تک وہ ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کر رہا ہے اب اس رہنمائی میں وہ سپاہی کیا بنے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ جو تعداد اس کے ہاتھ میں تھا ساٹھ ستر سے گٹ کر دس تک پہنچا اب اس سے گلہ کرنا یا اسے کچھ کہنا بیل کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوگا لیکن جو ورکر یا عوام ہیں اس پر وہ اپنے لکھے ہوئے جملوں کی منفی اثر سے نالاں دانشوری کے بھگی میں سوار چل رہے ہیں اگر اس سے کوئی ورکر پوچھ لے. کہ سرفراز بگٹی و آپکی باتوں میں فرق کیا ہے تو جواب صفر آئے گا اور غصے سے لال پیلے ہوتے رہیں گے یہ جنگ آزادی نہیں ایک کاروبار ہے اب اس جملے کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے بہت سے لوگ مایوسی کے رسی کو پکڑ لیں گے آپ تو کسی کو کیا امید دلا سکتے ہیں آپ خود اس جنگ کو تجارت سمجھ رہے ہیں تو پھر اس جہد سے وابستگی کے معنی کیا ہو سکتے ہیں؟ کیا ایک ذمہ دار شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے اختراعی خیالات کو قوم کے سامنے لائے جو کہ امید کے بدلے مایوسی کے بھٹی میں پک کر نکل رہے ہیں اب جو سیاسی منظر نامہ بن رہا ہے اس پر مہر گہوش کئی بار الٹے سیدھے جملوں کے ذریعے ایسے خیالات پیش کئے ہیں جن پر وہ خود ایک لمحے کے لیے عمل نہیں کرتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بے وقوف بنانے کی ہر ممکن حد تک کوشش میں لگے رہتے ہیں اور تجارت و تباہی کے علاوہ کوئی امید انکی طرف سے نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ذہنی طور پر معوف ہو چکے ہیں اور مزید جدوجہد کی پیچیدگی و حالات سے بے بہرہ ہو کر وہ اپنے ذہنی اختراع کو لیکر ایک کھونے کی تلاش میں ہے وہ وہی باتیں دہراتے ہیں ان کمزوریوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے پیدا کردہ وہ خود رہے ہیں بعض مسائل کی جڑ وہ خود رہے ہیں اور اب تک اسی ڈگر پر روان ہے بی ایس او سے لیکر بی ایل اے کے سفر تک اس نے ایسے کارنامے انجام دیے کہ کہنے کے لائق نہیں اب وہ جدوجہد کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہے افسوس تو اسکے اعمال پر نہیں کیونکہ اس سے توقع کی امید نہیں لیکن جو لوگ پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ بھی اسکی بے ربط باتوں کو تہہ دل سے قبول کرتے ہیں یہاں پر وجہ سیاسی اندرونی مسائل ہے لیکن جو سرفراز بگٹی کی زبان میں وہ تحریک کو تجارت تجارت کر رہے ہیں شاہد اسکا حصہ اسے نہیں ملا یا جو ملا ہے وہ کم ہے یا اسکی نظر میں یہ جہد تجارت رہی ہے اور تجارتی سوچ کے تحت اس کا حصہ بنے ہیں خدا جانے کہ ایسے خیالات میرے ذہین میں کیوں آرہے ہیں جو خون سے لت پت لاش پڑی ہے وہ آپکی سربراہی میں پڑتے رہے ہیں اب وہ لت پت لاش قومی آزادی کے نام پر تجارتی بن گیا. لگتا ہے کہ پیچیدہ حالات میں انسان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اللہ نہ کرے ایسا ہو. لیکن جو باتیں عام مجلسوں کے ہوتے ہیں یا انسان کے جو بے بہودہ خیالات ہوتے ہیں جو ہر وقت لاشعوری طور اچلتے رہتے ہیں انھیں رنگین کرکے قوم کے سامنے لانے سے یہ واضع ہوجاتا ہے کہ آپ اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں کیونکہ تحریک میں حالات اوپر نیچے سخت و نرم ہوتے رہتے ہیں اور کسی ذمہ دار کا رویہ ہمیشہ ذمہ دارانہ رہے نہ کہ بچگانہ. جذباتی پن میں کچھ باتیں لکھ کر ان پر شرمندگی سے بہتر ہے کہ پہلے سوچ سمجھ کر لکھا جائے جس طرح ڈاکٹر اللہ نظر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مالک و حاصل کو قتل کر دیا جائے لیکن تین چار دن گزرنے کے بعد ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوچ کر بولتے نہیں بلکہ بول کر سوچتے ہیں اور مہر گہوش بھی ان سے مختلف نہیں. اگر مہر گہوش کی نظر میں یہ جہد تجارتی ہے تو کھل کر انکی نشاندہی کرے جو یہ تجارت کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ تجارت کا معیار کیا ہے اور وہ کس نوعیت کی تجارت کر رہے ہیں اور پھر مہر گہوش اتنے عرصے خاموش کیوں رہے وہ اس تجارت کو دیکھتے ہوئے بھی اسکے خاموش رہنے کے پیچھے کیا راز چھپا ہے آیا وہ راز حصے کا تھا یا آج انکے کھوکھلے پن کا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ تنقید کر رہے ہیں یا جہد کے خلاف پروپیگنڈا. میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ لکھنے سے پہلے اپنے وژن پر نظر ثانی کرے اور کچھ پڑھ لے تاکہ اسکی بند آنکھیں کھل سکے اس طرح ہاتھ پاوں مارنے سے کچھ معصوم نوجوان ضرور جئے جئے کار کچھ وقت تک کرینگے لیکن انکی معیاد بھی ایک سال سے تجاوز نہ کرے گی اور ان اختراعی خیالات کا قلع قلم ہو گا لیکن کچھ وقت ضرور ضائع ہو گا ویسے بھی کوئی شخص پڑھنے و سمجھنے سے پہلے کسی بھی مضمون پر تمز اپ کرکے جاہل کو عالم بنا دیتے ہیں اور یہ سلسلہ سوشل میڈیا کی دین ہے کہ سرفراز بگٹی و مہر گہوش ایک ہی زبان بولتے نظر آتے ہیں وہ تو دشمن ہے اس سے گلہ نہیں لیکن تم تو اپنے ہوتے ہوئے تنقید کے نام پر وہی پروپگنڈا کر رہے ہو جو سرفراز کر رہا ہے واللہ عالم کیا معاملہ ہے بہر کیف بہت ہی سنجیدگی کا متقاضی ہے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز