جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزوجاہت مسعود اور اجمل کمال کی دانشورانہ بدیانتی تحریر: منظور بلوچ

وجاہت مسعود اور اجمل کمال کی دانشورانہ بدیانتی تحریر: منظور بلوچ

ثنا بلوچ نے ایک سیدھا سادہ مسئلہ اٹھا یا تھا جس کا تعلق اس مفروضے سے تھا کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے باعث قائم ہوا ہے اور جناح کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر لبرل دانشور پاکستان میں ریاست کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لبرلز ہوں یا دائیں بازو کے دانشور جو بھی دلائل دیں، آخری تجزیہ میں دونوں کا بیانیہ ایک ہی بن جاتا ہے یعنی یہ کہ قوموں کے استحصال پر یہ بھی متفق ہیں محکوم اقوام کو نہ بولنے کا حق ہے نہ شکوہ شکایت کا ۔ کشورناہید ہوں یا احمد ندیم قاسمی جب بلوچستان کا مسئلہ آتا ہے تو ان کا بیانیہ ریاست کے بیانیہ سے مختلف نہیں ہوتا۔
ثنا بلوچ کے تاریخی تناظر میں جمہوریت سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کے جوابات کی بجائے وجاہت مسعود صاحب افسانہ طرازی پر اتر آئے اور چاند پینٹ کرنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاند اور اس کی روشنی سب کے لیے یکساں ضرورہے۔ لیکن اس کو ہرکوئی اپنے تناظر میں دیکھتا ہے،کوئی اس کی چاندنی میں جھومتا ہے تو کسی کو یہ چاندنی زہر بھری لگتی ہے۔ بھوکے کوچاند میں روٹیاں ہی نظرآتی ہیں۔
وجاہت مسعود صاحب نے باتوں باتوں میں یہ جتلانے کی کوشش کہ بلوچ جس حال میں ہیں، مار کھا رہے ہیں، ان کی لاشیں گرائی جارہی ہیں یا پھر ان کے پیارے ان کی نظروں سے دور عقوبت خانوں میں ہیں وہ اسی پر شکر کریں کیونکہ وہ تاریخ کو زندہ کر نا نہیں چاہتے۔ عام طورپر جب دانشور دیانت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو وہ یہی باور کراتے ہیں کہ ماضی کو بھول جائیے، جو ہونا تھا سو ہوا ، اس کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن محکوم لوگ ہمیشہ اپنی تاریخ سے جڑے رہتے ہیں یہ ان کے لیے عیاشی کی بجائے ایک رستا ہوازخم ہی ہوتی ہے۔
وجاہت مسعود سے کسی نے التجا نہیں کی کہ وہ تاریخ کو زندہ کریں کیونکہ تاریخ نہ ان کی محتاج ہے نہ ہی ہماری خواہشوں کی پابند ہے ہم ماضی پرستی کے بجائے ماضی شناسی کی بات کرتے ہیں۔ آدمی جو کچھ سیکھتا، بولتا اور لکھتا ہے، وہ ماضی کی ہی باز گشت ہوتی ہے۔ جب ایک انسان لاکھوں سال سے لاشعور سے جان چھڑا نہیں سکتا تو ماضی قریب کی تاریخ کو دفن کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بلوچستان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ جمہوری عمل، روایات اور کلچر کے خلاف تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بلوچستان پر قبضہ کے بعد قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پشتونخوا میں خان صاحب کی حکومت کو برطرف کیاگیا۔ جناح نے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا جس میں حکومت برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی شامل تھا۔
جناح نے ہی اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ اس تمام حقائق پر اور یا مقبول جان، عطا الحق قاسمی، حامد میر سے لے کر اجمل کمال ، وجاہت مسعود اور کشورناہید کا بیانیہ ایک ہے۔اگرفرق ہے تو صرف طریقہ واردات کا ہے۔ ابھی یہ بحث بھی جاری تھی کہ اجمل کمال صاحب بھی اس کا حصہ بن گئے۔ اور وہ بھی بنیادی سوالات پر اظہار خیال کی بجائے بلوچوں پربرس پڑے اور ان کویاد دلانے کی کوشش کی کہ آ پ کے خان صاحب توانگریزوں کے بوٹ پالش کرتے تھے، بلوچوں کی ریاست شرمناک تھی وغیرہ وغیرہ
ہم نے کب کہا کہ خان صاحب فرشتہ تھے۔ بلوچ تویہی سمجھتے ہیں کہ ان کی کمزوری اوربزدلی کی وجہ سے آج بلوچوں کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ ماما قدیر ہزاروں میل پیدل چل کرلانگ مارچ کرتے ہیں لیکن اس جمہوریت کو ذرہ برابر بھی خفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہی دانشور ہیں جو ڈاکٹر مالک بلوچ کو نیلسن منڈیلا قرار دیتے ہیں۔ یہ کچھ اور نہیں کرتے، نیلسن منڈیلا کی توہین کرتے ہیں۔
یوں توہزاروں واقعات میں جو پتھر سے پتھر دل کوبھی چیر سکتے ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک واقعے کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں ایک نوجوان بازیاب ہوا جو کئی ماہ سے لاپتہ تھا۔ جب اس کی والدہ کو ناگہانی طور پر یہ خبر ملی تو وہ خوشی کے باعث دل کادورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئی اور اپنے پیارے بچے کا چہرہ تک نہیں دیکھ سکی۔
چونکہ اجمل کمال صاحب، وجاہت مسعود اس درد سے نہیں گزرے وہ جو بات کریں کہہ سکتے ہیں وہ بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی بھی کرسکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب مشاہد حسین سید وفاقی وزیر اطلاعات تھے۔ تو ہم کچھ دوستوں کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک صحافتی ٹورپر تھے۔ وہاں اس ادارے میں ورکشاپس ہوئی تھیں۔جس کے سربراہ بی اے تبسم تھے یہ صاحب بیس گریڈ میں تھے اور اس وقت ن لیگ کے ایم این اے طارق عزیز کے بہنوئی تھے۔ ایک دن ہم نے ان کو چائے پر اپنے ہوٹل میں بلایا تو ہمارے ہمراہ الاہور سے بھی ایک رپورٹر تھے۔
بی اے تبسم نے دوران گفتگو نواز شریف کی خوب خبر لی۔ان کاشکوہ یہ اٹھا کہ ایم کیو ایم چونکہ نوازشریف کی اتحادی جماعت تھی۔ لہٰذا اس کی سفارش پر ان کی جگہ ایک مہاجر کو 21گریڈ میں پروموشن کیا گیا ان کے اس فیصلہ سے وہ اور ان کی اہلیہ اس قدر دل برداشتہ ہوگئے کہ ان کی بیوی نے پارٹیوں میں جانا چھوڑ دیا۔ ابھی ہم ان کی باتیں سن رہے تھے کہ لاہوری رپورٹر نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ’’ میں نوں پاکستان کولو نفرت نہیں ہویا‘‘ اس وقت میرے ساتھ جان اچکزئی بھی موجود تھے۔جو بعد میں مولانا فضل الرحمن کے ترجمان مقرر ہوئے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ ایک پرموشن پر پنجابی پاکستان سے نفرت کرسکتے ہیں لیکن جہاں ہم رہتے ہیں وہاں تو ہردس سال بعد فوجی آپریشن کر کے ہماری نسل کشی کی جاتی ہے۔پھر بھی ہم غدار کہلاتے ہیں اور جب اجمل کمال صاحب گویا اور یا مقبول جان، ہارون رشید اور حسن نثار بن کر بلوچوں کو مطعون کرنے لگے تو ان کی تمام تر ترقی پسندی اور لبرل ازم ہوا میں اڑ گئی۔
ہم تو یہ سمجھتے تھے۔ اور غلط سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ابھی کچھ دانش ور با ضمیر ہیں جن کا قلم طوائف نہیں بنا ہوا ہے۔ لیکن ایک بحث نے ساری قلعی کھول کر رکھ دی اور بلوچ کی حیثیت سے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ صرف اور یا مقبول جان حسن نثار، سلیم صافی کو مطعون ٹھہرا یا نہیں جاسکتا۔ یہاں کے لبرل اور ترقی پسندی بلوچ مسئلہ پر ایک ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کا قیام، اس کی تاریخ کیا انگریزوں کی مرہون منت نہیں ہے؟ کیا اس وقت پاکستان کا ایک بھی ایسا سیاست دان نہیں جس کے آبا و اجداد نے انگریزوں کی غلامی نہیں کی؟ اس پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے ان لبرلز نے اگر ڈاکٹر مبشر حسن کا کتابچہ ’’پاکستان کے جھوٹے حکمران طبقات‘‘ پڑھ رکھا ہوتا تو با ت صاف ہو جاتی ۔
جب ولی خان نے ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ لکھی توان کے خلاف ایک طوفان اٹھایا گیا۔ایک بار شہید نواب اکبر خان بگٹی نے واقعہ سنایا کہ نواز دورحکومت میں اسفند یار ولی خان بڑے خوش تھے کہ اب ان کے صوبہ کانام تبدیل ہو گا۔ شہید نوا ب اکبربگٹی نے پوچھا کیا’’نوائے وقت‘‘بھی اس کے حق میں ہے۔ اسفند یار ولی نے نفی میں سرہلایا۔ اس پر شہید نوا ب بگٹی نے کہاکہ ان کے صوبہ کا نام تبدیل نہیں ہو گا۔
افسوس کی بات ہے کہ اب نوائے وقت کی پالیسی نے نام نہاد لبرلز نے اختیار کر رکھی ہے جب اجمل کمال اور وجاہت مسعود اپنے کہی ہوئی باتوں میں الجھ کررہ گئے تھے۔ تو بلوچستان سے ایک اور نام نہاد دانشور ان کی مدد کوآگئے۔ انہوں نے وجاہت مسعود، اجمل کمال، کے ساتھ ساتھ ثنا بلوچ کو جید عالم قرار دیا تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ثنا بلوچ جید عالم بن گئے ہیں۔ اگر ان کا اشارہ بی این پی کے رہنما ثنا بلوچ کی طرف تھا تب بھی ان کی بات غلط تھی۔
انہوں نے اجمل کمال کے ساتھ اپنی نیاز مندی کے اظہار کے لیے یہ کہہ دیا کہ بزرگوں کے ساتھ اس طرح سے گفتگو نہیں ہوتی۔ پھریہ عذر بھی تراش لیا کہ بلوچستان تو اجمل کمال صاحب کا موضوع نہیں۔ یہ بڑی نرالی بات ہے کہ اگر بزرگ دانشوری میں ڈنڈی ماریں، تاریخ کومسخ کریں اور بد دیانتی کے مرتکب ہوا تو ان کوبزرگ سمجھ کران کی باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ اجمل کمال صاحب بزرگ ہیں، شفیق انسان ہیں۔ ہوں گے۔ لیکن ان کودانشوارانہ بد یانتی کا حق کس نے دیا ہے؟ یہ بھی نرالی منطق ہے کہ بلوچستان ان کا موضوع نہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ بلوچستان ان کا موضوع نہیں۔ ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ان کو بلوچوں سے کیا سروکار۔ ان کو تو حاکموں کی طرح بلوچوں کی سرزمین ،گیس، تیل، سونے، چاندی سے محبت ہے جن کی وجہ سے کراچی روشنیوں کا شہر اور لاہور، اسلام آباد کی رونقیں بلوچوں کے وسائل سے ہیں۔
اگر بلوچستان ان کا موضوع نہیں تو انہوں نے اس پرلکھا ہی کیوں؟ عجیب بات ہے کہ اجمل کمال صاحب کے لیے فلسطین موضوع ہوسکتا ہے، محموددرویش ہوسکتا ہے لیکن بلوچستان نہیں۔ تحقیق اور تاریخ کا عام طالب علم بھی جان سکتا ہے کہ اس میں اولیت تو دیانت کو حاصل ہے۔جب آپ تاریخ اور تحقیق کے میدان میں آتے ہیں تو پہلے سے ایک سچ نہیں گڑھتے بلکہ تحقیق کے دوران جو سچائی سامنے آئے، وہی سچ ہوتا ہے بے شک وہ آپ کے تراشیدہ سچ سے مختلف ہی کیوں نہ ہو، بھلے اس سے لوگ ناراض ہی کیوں نہ ہوتے ہوں
لیکن لگتا ہے کہ دیانت سے ان دانشوروں کا تعلق نہیں بنتا۔دوسری جانب ہمارے ذوالفقار زلفی صاحب حقائق بیان کرنے کے بعد پشیمان ہوئے اور یہ کہہ کر اجمل کمال سے معافی مانگی کہ ان کی باتوں سے ان کی دل آزار ی ہوئی ہو گی۔ ہمیں ان کی پشیمانی سے بہت رنج ہوا کہ تاریخ اور تحقیق کے معاملات میں دل آزاری کیا ہونی ہے۔ کیاکالے کو سفید اس لیے کہیں کہ اجمل صاحب کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔
اگر اجمل کمال اور وجاہت مسعود ایک لمحے کے لیے بلوچ بن جائیں اور ان کے پیارے بچے برسوں سے غائب ہوں تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا بیانیہ کیا ہوتا ہے ۔ اس بارے میں نیلسن منڈیلانے خوبصورت بات کہی کہ اگر آپ ترکی ریاست کو جاناچاہتے ہیں تو ایک لمحہ کیلئے کر د بن جائیں۔
ہم ثنا بلوچ کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے صرف چند سوالات اٹھا کر وجاہت مسعود اور اجمل کمال صاحب کے لبرل ازم سے ہمیں آگاہ کیا اورہمیں پتہ چلا کہ اس معاملے میں اوریا مقبول جان، عطا الحق قاسمی، اجمل کمال اور وجاہت مسعود ایک ہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز