چهارشنبه, آوریل 24, 2024
Homeآرٹیکلزوطن کا انمول جانثار شہید عرفان سرور:تحریر :مھراب مھر

وطن کا انمول جانثار شہید عرفان سرور:تحریر :مھراب مھر

مونچھیں سانولا چہرے پر سیاہی مائل نظر آ رہے تھے۔ آنکھوں میں لالی ھر وقت اپنا تاثیر چھوڑ رہی تھی۔ بااعتماد کم گو غور کرنے و سننے کی صلاحیت لیے وہ اوتاک میں آئے تھے۔ وہ پہاڑوں میں سرمچاروں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا ۔وہ وطن کی آزادی کے لیے اپنا فرض نبھانا چاہتا تھا۔ اس کے چچا اسے کاہان کیمپ لے گئے تھے۔ شہری ماحول سے آیا ہوا یہ نو خیز نوجوان ابھی تک زندگی کے تکالیف خوشی و غموں سے بے نیاز اپنے جذبے کے تحت تحریک سے وابستہ ہوگیا تھا۔ بندوق بغل میں لیے ہر عمل پر وہ غور کر رہا تھا۔ وہ سیکھ رہا تھا۔ وہ سرمچاروں کے کیمپ میں تھا۔ اپنے چچا کے دیکھا دیکھی اپنے دن بتا رہا تھا. وہ ابھی تک نوخیز نوجوان تھا۔ جوانی ایک دو سال اس دور کھڑی اسے تک رہا تھا۔ ابھی تک وہ نوجوانی کے جوش میں پہاڑوں کے سینے کو کاٹ سکتا تھا۔ وہ وطن کی محبت میں دیوانہ ہو کر پہاڑوں کی تکلیف دہ و پر کھٹن حالات میں خود کو ڈھال رہا تھا۔ بلند حوصلے کے ساتھ اس نے شہری زندگی اپنی مرضی سے ترک کی تھی۔ اور پہاڑوں میں جنگ آزادی کے لیے میدان عمل کا حصہ بن چکے تھے۔ کاہان کے تپتے پہاڑوں میں وہ آزادی کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہا تھا۔ کاہان کے کیمپوں میں دو سال گزارنے کے بعد وہ نوشکی و قلات کے پہاڑوں میں ڈیرہ ڈالتے نظر آئے۔ وہ شہری محاذ پر جاتے وہاں بھی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے قومی فرائض سر انجام دیتے۔ اب وہ جوانی کے جوش میں وطن کی مٹی میں خود کو ڈھال چکا تھا۔ اور ایک دو سال یہاں رہنے کے بعد وہ بولان کی پہاڑوں کی زینت بنے۔ مختلف محاذوں پر میدان جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ بہادری کے ساتھ لڑتے رہے۔ وہ شہید رشید حرف شیدے حرف بابو کے قریبی ساتھی تھے۔ دونوں شہید مستونگ کے شہری محاذ میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ وہ مزاجا سخت طبعیت کے مالک تھے۔ جذباتی نوجوان تھے۔ وطن سے انتہا درجے کی حد تک محبت کرتے تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے وطن اس کی محبوبہ ہے۔ جس کے ساتھ اس نے اپنے بچپن کے دن گزارے ہیں۔ اس سے کئی وعدے و قسمیں کی ہے۔ اب جب وہ نوجوانی میں قدم رکھ چکا تھا تو اپنی محبوبہ کی عزت و آبرو پر دشمن کے نظر بد کو پھوڑنے کی کوشش میں وطن کے سنگلاخ چٹانوں پر ڈیرہ ڈالے نظر آتے رہے۔ وہ کون تھا کس کے گھر میں پلا بڑھا وہ شہید عرفان سرور عرف خلیل بلوچ تھا۔ جو ہر محاذ پر دشمن کے خلاف کمر بستہ رہا۔ وہ بہادری کا اعلی نمونہ تھا۔ جہاں اسے دشمن کی چھوٹی سی کمزوری دیکھنے کو ملتی وہ عقاب کی طرح اس پر جھپٹ پڑتا۔ وہ ایک بے مثال سپاہی تھے۔ اس نے سات آٹھ سال تک بلوچستان کے پہاڑوں و شہروں میں جنگ کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ شہید خلیل شہید شیدے کے ساتھ وطن کے کونے کونے تک دشمن پر موثر حملے کرتے نظر آئے۔ وہ دنیائی زندگی میں وطن کی آزادی کاحسرت دل میں لیے وطن کی خاک چھانتا رہا۔ وہ پہاڑوں میں میدان جنگ کا حصہ رہنے کے ساتھ شہری کاموں میں بھی جٹا رہا۔ اس نے بہادری کے ساتھ مستونگ و کوئٹہ میں دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔ شہید زبیر و شہید خلیل کوئٹہ میں دشمن پر یکے بعد دیگرے حملے کرتے رہے۔ وطن کا قرض ادا کرتے رہے۔ اس کے ذمے کوئی بھی کام ہوتا تو اسکو ختم کرنے تک بے چین رہتے۔ کام ختم کر کے ہی دم لیتے۔ پہاڑوں کی سخت زندگی کو وہ جذب کرچکے تھے۔ تنظیمی کاموں کے حوالے سے اسے شہر بیج دیا گیا تھا۔ اس نے شہر کی پررونق زندگی میں جلد ہی خود کو ڈھال دیا۔ اور دیوانہ وار دشمن پر حملے کرتے رہے۔ پر خلوص جذبہ لیے میدان عمل میں اپنے جوہر دکھاتا رہا۔ شہید زبیر شہید خلیل شہید رشید اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ دشمن کو یک بعد دیگرے موثر انداز میں نشانہ بناتے رہے۔ شہید خلیل اپنی زندگی کی سات آٹھ سال جہد آزادی میں اپنے بے لوث جذبے کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ دشمن ہر طرف سیاسی ورکروں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنارہی تھی۔ شہید خلیل دل میں بدلے کا انگار لیے دشمن کی تاک میں بیٹھے رہے۔ اور دشمن پر اپنے گوریلا ٹیکٹس کے ساتھ حملے کرتے رہے۔ شہید خلیل ایک نڈر لائق پر خلوص قومی جذبے سے سرشار قربانی کے لیے ہر وقت تیار وطن پر مرمٹنے والے نوجوان تھے۔ اس کے چہرے پر وطن کی غلامی کے درد و تکالیف کی شکنیں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ ہر وقت دشمن پر حملے کا سوچتے تھے۔ کوئٹہ و مستونگ میں مختلف محاذوں پر وہ دشمن کو کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ شہید خلیل دشمن پر ایک حملے میں زخمی ہوئے تھے۔ وہ زخمی حالت میں دشمن کے گھیراؤ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ موت اسے چھو کر گزر گئی تھی۔ صحت یابی کے بعد وہ پھر سے تازہ دم ہو کر دشمن پر قہر ڈالتے ہوئے نظر آئے۔ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں اس کے سینے پر انگارے برسنے جیسا ہی تھا۔ اکثر وہ دشمن کے اس اذیت ناک حملے کا جواب دینے کے بارے میں سوچتے تھے۔ وہ پہاڑی محاذ سے کوئٹہ میں عسکری کاموں کے حوالے سے متعین ہوچکے تھے۔ وہ کوئٹہ و مستونگ میں اپنی قومی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہے تھے۔ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا غلام سرور کا بیٹا عرفان سرور کی تربیت بلوچی اسٹریٹ میں ہوئی تھی۔ یہ وہی بلوچی اسٹریٹ ہے جہاں سے بابو عبداللہ جان جمالدینی و اس کے رفقا لٹ خانے میں بیٹھ کر ریاست کے ظلم و ستم کی داستان کو نوشتہ قلم کرتے رہے ۔وقت بدلتا گیا مستونگ کے زرخیز زمین سے فیض محمد یوسفزئی بابو عبدالکریم شورش عبدالرحیم خواجہ خیل کے بعد نئی نسل نے ان کے نقش قدم پر چل کر وطن کی تاریخ کو اپنے خون سے رقم کرنے لگے۔ شہید خلیل دہوار قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ دہوار قبیلہ مستونگ قلات میں آباد ہیں۔ شہید عرفان سرور کا خاندان دو پشتوں سے مستونگ سے نقل مکانی کرکے کوئٹہ میں آباد ہوئے تھے۔ دہوار قبیلے کا بلوچ تحریک آزادی میں نمایاں کردار رہا ہے ملک سعید دہوار عبدالرحیم خواجہ خیل فیض محمد یوسفزئی بلوچ تحریک آزادی میں اپنا پر خلوص کردار ادا کرچکے ہیں۔ شہید خلیل کے دادا پر دادا کوئٹہ میں آباد رہے تھے۔ 1931 کے زلزلے میں ان کے خاندان کے کئی افراد زلزلہ کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ پھر زندگی نے کچھ عرصے کے بعد اپنی راہ لی۔ بچے بڑے ہوتے گئے۔ شہید خلیل سے باپ کا سایہ بچپن میں چھن گیا۔ والد کی وفات کے بعد اس کی تربیت اس کے چچا نے کی تھی. اس کا والد سیاسی حوالے سے پختہ نظریہ رکھتا تھا۔ اور گھر میں سیاسی ماحول میں اس کی تربیت ہوئی۔ اس کا والد سیاسی میدان میں دیگر بلوچ قوم پرست پارٹیوں میں حصہ دار رہے تھے۔ اور قومی سوچ رکھتے تھے۔ اس نے اپنے بھائی کی سیاسی تربیت کی تھی۔ بھائی بھی پہاڑوں کی زینت بنا۔ اور اس کے بیٹے نے اپنے چچا کے ساتھ پہاڑوں میں وطن کی آزادی کے لیے میدان جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ غلام سرور کا بیٹا عرفان سرور پلیں شہید کم گو خاموش طبع نوجوان ایسے نڈر کام کرے گا ۔اور وطن کا قرض ادا کرے گا۔ شہید عرفان سرور کی تربیت ایک سیاسی گھر میں ہوئی تھی۔ جہاں چچا کی اشتہاری ہونے کے بعد اس کے دل میں وطن کے لیے آزادی کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کا جذبہ پروان چڑھا تھا۔ اور وہ خلوص کے ساتھ تحریک کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ اور دلیری کے ساتھ میدان جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ جب وہ کوئٹہ میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ تو دشمن پر تواتر کے ساتھ حملوں نے دشمن کی کمر توڑ دی تھی۔ دشمن کے انٹیلی جنس اداروں نے اپنے نیٹ ورک کا جال بچھا دیا تھا۔ اس کے چچا کے گھر ہر روز کے چھاپوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ اپنے گھر کو اسی دن چھوڑ چکا تھا جب اس نے وطن کی آزادی کے لیے پہاڑوں کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ وہ کوئٹہ میں اپنے علیحدہ گھر میں رہتے اور دشمن پر حملے کرتے۔ کچھ دوستوں کی گرفتاری کے بعد اسے سختی سے تاکید کی گئی کہ وہ شہر سے نکل جائے۔ لیکن وہ اس سوچ کے تحت شہر میں رک گیا تھا کہ ابھی ایک دو کام ہے جوکہ لازمی طور کرنے ہیں۔ اور کچھ وسائل ہیں جنھیں سنبھالنے کے ساتھ محفوظ ٹھکانوں پر پہنچانے کے بعد ہی میں شہر سے نکل جاؤنگا۔ وہ ذمہ داری کے ساتھ اپنے انھی کاموں میں لگے ہوئے تھے کہ اسے ائر پورٹ روڈ سے اس کے گاڑی سمیت انٹیلی جینس اداروں نے 5 نومبر 2010 کو اغواء کر لیا ۔اور 30 نومبر 2010 کو اسکی مسخ شدہ لاش کوئٹہ کے علاقے دشت سے بر آمد ہوئی۔ اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شہید اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر کہتا تھا کہ موت برحق ہے لیکن دشمن کے ہاتھوں میں جانے سے بہتر ہے کہ انسان دشمن کے ہاتھوں میں پڑنے سے پہلے خود کو گولی مار دے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر مسلح رہتا تھا۔ کہ وقت و حالات کا بھروسہ نہیں۔ لیکن شہید کو اس کی آخری خواہش پورا کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ دشمن نے بڑی مکاری کے ساتھ اسے اس کی گاڑی سمیت اٹھا لیا۔ اب اس کی جنگ براہ راست دشمن سے شروع ہوچکی تھی۔ وہ دلیری کے ساتھ دشمن سے سینہ سپر رہے تھے۔ بالآخر دشمن نے شکست کھا کر اسے شہید تو کردیا لیکن شہید کی فکر و قربانیاں بلوچ قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ وطن کے وہ نازک پھول تھے جسکی خوشبو پورے وطن کو معطر کر رہی تھی۔ شہید عرفان سرور اپنی عسکری صلاحیتوں کی بدولت انمول ساتھی تھے۔ غلامی کے احساس کو دل میں لیے وہ دیدہ دلیری کے ساتھ سات آٹھ سالوں تک جہد آزادی میں اپنا بے مثال کردار ادا کرتے رہے۔ خصوصا 2009 سے 2010 تک وہ بہادری کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن پر وار کرتا رہا ۔اس کی بہادری و عسکری صلاحیتوں بے لوث جذبہ خلوص ایمانداری و قربانیوں کی بدولت بلوچ لبریشن آرمی نے شہید عرفان سرور عرف خلیل کو پُلیں بلوچ کا خطاب دیا۔ اسے اس کی وصیت کے تحت شہدائے بلوچستان کوئٹہ نیوکاہان میں وطن کے سپرد کردیا گیا۔ وہ اپنے دیگر وطن پر قربان ہونے والے ساتھیوں کے ساتھ وطن کی آغوش میں سو رہے ہیں۔ وہ ہمارے بیچ موجود نہیں لیکن قوم کی غلامی کا احساس لیے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز