پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeاداریئےپاکستانی تزویراتی اثاثے، افغان طالبان اور بلوچ تحریک. ہمگام اداریہ

پاکستانی تزویراتی اثاثے، افغان طالبان اور بلوچ تحریک. ہمگام اداریہ

ترقی پسندانہ رجحانات کا حامل بلوچ قومی تحریک آزادی ایک سیکیولر اور جمہوری تحریک ہے ، جو ایک سیکیولر، جمہوری ،آزاد بلوچستان کیلئے جدوجہد ہے ۔ پاکستان جہاں اس تحریک کو کچلنے کیلئے اپنے ریاستی جارحیت کا مظاھرہ کھلے بندوں کررہا ہے وہیں اپنے عسکری قوت کے علاوہ وہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے کئی اور محاذ بھی کھول رہا ہے ۔ ان میں سب سے قابلِ ذکر بلوچ تحریک کے ترقی پسندانہ سیکیولر رجحانات کو بہانہ بناتے ہوئے اپنے لے پالک نظریاتی اثاثے مذہبی شدت پسندوں کو بلوچ تحریک کے سامنے کھڑا کرنا ہے ۔ اس وقت بلوچستان میں بلوچ تحریک آزادی کے خلاف جتنے بھی پاکستانی تشکیل شدہ ڈیتھ اسکواڈ وجود رکھتے ہیں ان سب کا بالواستہ یا بلا واستہ تعلق پاکستان و سعودی عر ب کے تشکیل دیئے ہوئے مذہبی شدت پسند گروہوں سے ہیں ، جو ریاستی آشیر باد سے بلوچ سیکیولر رجحانات کو مغربی تہذیب سے نتھی کرکے بلوچ تحریک کو کوئی کفری تحریک قرار دیکر لوگوں کو اسکے خلاف بھڑکانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ آزادی پسند بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواء و شہادتوں میں ملوث ہیں، یعنی یہ وہی عناصر ہیں جن کے خلاف امریکا سمیت دوسرے مغربی اقوام نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام سے آج سے 14 سال پہلے جنگ شروع کردی اور ان عناصر کو امن عالم کیلئے ایک خطرہ قرار دیا ۔ آج بلوچ تحریک بھی انہی عناصر سے دوبدو نظر آرہا ہے یعنی آج بلوچ اور مہذب اقوام عالم ایک ہی دشمن سے نبرد آزما ہیں ۔
اس مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینا ہو ، یا انکو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنا ، مالی و عسکری لحاظ سے شدت پسندوں کو کمک دینا ہو ، یا دہشتگردی کیلئے ریکروٹ تیار کرنے کیلئے بے تحاشہ مدرسوں کی تعمیر ، اسامہ کا ایبٹ آباد میں موجودگی ہو یا پھر افغان طالبان کا کوئٹہ شوریٰ کے نام سے پاکستان کے کوئٹہ کنٹونمنٹ میں محفوظ رہائش ، ان سب عوامل میں پاکستان کا کردار روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا دوغلہ کردار بھی کسی وضاحت کا محتاج نہیں ۔ ان مذہبی شدت پسندوں کو پاکستان اپنی تزوریاتی اثاثے قرار دیکر انکو کھلے بندوں پالتا اور استعمال کرتا نظر آتا ہے ۔ جس کی حالیہ مثال افغانستان کے شہر قندوز پر قبضے کے دوران پاکستانی پنجابیوں کا طالبان کے ساتھ وسیع پیمانے پر موجودگی ظاھر کرتا ہے کہ جب تک پاکستان کا وجود اس خطے میں محفوظ ہے وہ تمام ہمسائے اقوام اور امن عالم کو تباہ کرتا رہے گا ۔
جس طرح پاکستان اپنے ان تزوریاتی اثاثے ، مذہبی شدت پسندوں کو افغانستان ، انڈیا اور امریکہ و نیٹو کے خلاف استعمال کررہا ہے ، اسی طرح پاکستان انہیں سیکیولر و جمہوری بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف بھی استعمال کررہا ہے ۔ حال ہی میں کچھ واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ افغان طالبان جو قندوز پر حملہ کرتا ہے وہ مکمل طور پر پاکستانی فوج کے اشارے پر یہ سب کررہی ہے۔ گذشتہ سال بلوچستان اور افغانستان کے سرحد کے مقام پر افغان طالبان نے دس بلوچ سرمچاروں کو اپنے گھیرے میں لیکر گرفتار کیا تھا ، بلوچ سرمچار وں نے اس لیئے مزاحمت نہیں کی تھی کیونکہ وہ افغان طالبان سے لڑنے کے بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے ، اور انہیں بات چیت کے بہانے ہی گرفتار کیا گیا ۔ ان سرمچاروں میں درخان مری ، میر ہزار خان ساسولی جیسے سینئر کمانڈروں کے ساتھ ساتھ دولت خان محمد حسنی ، قائم خان بگٹی ،سفر خان مری ، شہزاد نیچاری ،نیال خان بگٹی ، میر جان بلوچ ، خدا بخش مری اور کریم بخش بگٹی شامل تھے۔ جن کے بارے میں اب اطلاعات آرہی ہیں کہ افغان طالبان نے پیسے لیکر ان سرمچاروں کو پاکستانی فوج کے حوالے کیا ہے ۔
ستر کے دہائی کے دوران بلوچ سرمچاروں اور افغان طالبان کے بیچ جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں ،لیکن موجودہ تحریک کے شروع ہونے کے بعد گوکہ پاکستان کے پیدا گیر مذہبی شدت پسند گروہوں سے بلوچ مد مقابل رہے ہیں ، لیکن افغان طالبان کے ساتھ باقاعدہ ٹکراو کی نوبت نہیں آئی ہے ۔ اس واقعے کے بعد اب خطے کی صورتحال میں ایک نئی کشمکش پیدا ہوگئی ہے، اور یہ سوال سر اٹھا رہے ہیں کہ کیا اب بلوچ سیکیولر آزادی پسند تنظیمیں باقاعدہ افغان طالبان سے مدمقابل ہونگے؟ اور اس مقابل میں کیا مہذب اقوام عالم اس مشترکہ دشمن کے خلاف بلوچ قومی تحریک کی کردوں کے طرز پر اخلاقی ، سیاسی ، سفارتی ، مالی اور عسکری معاونت کریگی تاکہ وہ پاکستان کے حمایت یافتہ و کمک یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکیں ؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز