صحافت ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس پیشہ ہے اور صحافی کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے جو معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں اور خرابیوں کے علاوہ ظلم و ناانصافی کو اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کرتا ہے اور معاشرے کی اصلاح کرتا ہےاور پسے ہوئے طبقات کی آواز ہوتا ہے۔
صحافی کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی خبر کی تہہ تک جائے، خبر کی تحقیق کرے اور اصل حقائق کو جان کر پھر اُس خبر کو سامنے لائے اور تجزیہ کاروں و لکھاریوں پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی خبر اور موضوع پر تجزیہ کرنے اور لکھنے سے پہلے اُس خبر کے متعلق پوری جانکاری حاصل کرے اور اُس خبر کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں۔
صحافی کسی مخصوص جماعت، فرقے، قبیلے اور قوم کا نہیں ہوتا بلکہ صحافی ہمشہ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر لکھتا اور تجزیہ کرتا ہے لیکن پاکستان میں یہ صحافت کا پیشہ بھی کسی حد تک اب غیر جانبدار نہیں رہا ہے بلکہ صحافی بھی مکمل جانبداری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے حقائق کو بری طرح مسخ کر کے سامنے لاتے ہیں اور لوگوں میں نفرتوں کا بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں۔ عرف عام میں ایسے صحافیوں کو زرد صحافت اور لفافہ صحافت کا علم بردار کہا جاتا ہے۔
پاکستانی صحافی اب گوادر سمیت دیگر واقعات خصوصًا FWO کے سندھی ورکروں کے قتل کو لے کر بلوچ قوم اور بلوچ تحریک کے متعلق اپنی ذہنی پستی کو اپنی تحریروں کے ذریعہ باہر لا رہے ہیں اور مزید ادھم مچا رہے ہیں۔ ان صحافیوں کی تحریروں اور سوشل میڈیا پر بلوچوں کے متعلق ریمارکس دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں بلوچوں کے لیے کتنی نفرت پائی جاتی ہے اور وہ گوادر واقعہ کو جواز بنا کر بلوچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ سندھی اور پنجابی صحافی مل کر ریاستی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر بلوچ و سندھیوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی مکمل تیاری کر چکے ہیں۔
حسن مجتبٰی نامی شخص کی جنگ اخبار میں تحریر اور سوشل میڈیا پر ریمارکس کو پڑھ کر اس بندے کی ذہنی اور اخلاقی پستی کا معلوم ہوجاتا ہے۔ ریمارکس پڑھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ شخص کوئی صحافی ہے یا کوئی غنڈہ ہے۔
لکھنے کے لیے معلومات کا ہونا حد درجہ ضروری ہے اور لکھتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط لازمی ہے۔ گالی گلوچ، بداخلاقی کسی انسان کے حسب نسب، ذہنی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔ اب یہ حسن مجتبٰی کس کی نمائندگی کا حق ادا کر کے بلوچ قوم، بلوچ تحریک اور مزاحمت کاروں کے خلاف بے بنیاد الزامات کا سہارا لے رہے ہیں اور اس عمل کے پیچھے اُس کے کیا مقاصد کارفرما ہیں۔
آج ایسے صحافی اور دانش ور اتنے سیخ پا ہیں، کیا انہوں نے کبھی بلوچ قوم کے خلاف ریاستی بربریت پر کچھ لکھنے اور بولنے کی جسارت کی ہے؟۔ کیا وجہ ہے کہ ریاستی مظالم پر یہ انصاف پسند چپ سادہ لیتے ہیں۔ بلوچ قوم کو چھوڑیے، انہوں بلوچستان میں صحافیوں کے قتل اور صحافتی سرگرمیوں پر ریاستی پابندیوں پر کبھی احتجاج کیا ہے؟ کبھی اس طرح کی تحریر لکھنے اور ریاستی اداروں کے متعلق اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کی جرات کی ہیں؟۔
– آج بھی بلوچستان میں ظلم و جبر اپنے عروج پر ہے۔ سی پیک اور ترقی کے سہانے خواب دکھا کر بلوچ سرزمین اور وسائل پر سامراجی قوتیں مل کر قبضہ کر کے لوٹ مار ، ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ ہزاروں بلوچ لاپتہ ہیں، بلوچوں نے ہزاروں مسخ شدہ لاشیں اُٹھائی ہیں، گھروں کو جلتے اور خاک ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں لیکن کسی کو بلوچوں کے نوحہ لکھنےکی توفیق نہیں ہوئی۔ اب جب کہ بلوچ اپنے زور بازو پر اپنے وسائل اور سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں تو ریاستی دانش خوروں اور صحافیوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔