شنبه, آوریل 20, 2024
Homeخبریںپاکستان کو بلوچ نہیں بلوچستان کی ضرورت ہے۔بی این ایم

پاکستان کو بلوچ نہیں بلوچستان کی ضرورت ہے۔بی این ایم

کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ کل جیونی کے علاقے کلدان سے داؤد کلمتی، کنر کلمتی، منیر کلمتی، اکبر کلمتی اور ملا رشید کو پاکستنای فورسز نے اُٹھا کر غائب کیا گیا ہے۔ جو عام نہتے شہری ہیں۔ عام شہریوں کو اغوا کرکے اُن کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا پاکستانی فوج کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ان کا مقصد علاقہ مکینوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ کیونکہ پاکستان کو بلوچ نہیں بلوچستان کی ضرورت ہے۔ مختلف علاقوں میںیہی فوج بلوچوں سے بھتہ وصولی میں ملوث ہے۔ گزشتہ رات تربت دشتی بازار میں فوجی چھاپے کے دوران ایک نوجوان اسلم مجید ولد عبدالمجید کو بھی اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔کل آواران کے علاقے تیرتیج میں پاکستانی فوج نے عام آبادی پر دھاوا بول کر خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی افراد کو اُٹھا کر غائب کیا۔ جن میں امین ولد اسماعیل، امداد ولد کریم بخش، عویض ولد مراد شامل ہیں۔ تشدد سے کمسن بچہ نوید ولد خدا بخش اور سیٹھ باہوٹ زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اسی مہینے کئی افراد کو فورسز نے اغوا کرکے لاپتہ کیا اور بعد میں ایک درجن کے قریب افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ان لاپتہ افراد کو بھی غیر قانونی حراست میں قتل کرکے پھینک دیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ گزشتہ ایک عرصے سے بلوچوں کو قتل کرکے مقابلے میں مارے جانے کی جھوٹ بولی جارہی ہے اور پاکستانی میڈیا بھی بھرپور طریقے سے آرمی کی درندگیوں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے جو صحافتی پیشہ کے برخلاف ہیں۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے کوئی بھی خبر عالمی اداروں تک نہیں پہنچ پاتا، جس کا فائدہ اُٹھا کر پاکستانی فورسز بلوچوں کی اغوا، مارو اور پھینکو کی پالیسی میں تیزی لا چکے ہیں۔ ایسے میں عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کی صورتحال کو واضح کرکے بلوچستان میں مداخلت کرکے پاکستان کی وحشی فوج کے مظالم کو روکنے میں اپنا کردار کریں۔ دیرہ بگٹی میں جاری آپریشن میں شدت لائی گئی ہے۔ جس میں کئی بلوچ فرزندوں کو اغوا اور قتل کیا گیا ہے۔ چھبیس اگست کو خاران کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز نے عام آبادی پر حملہ کرکے دو درجن سے زائد افراد کو اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ پچھلے دنوں کٹھ پتلی صوبائی حکومت نے ایک سال میں 13500 سے زائد بلوچوں کو حراست میں لینے کا اعتراف بھی کیا مگر آج تک کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے خاندان و رشتہ داروں کو معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ایک سرکاری بیان میں آواران میں نام نہاد امن کمیٹی کا ذکر کیا گیا ہے، جو یقیناًایک ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ جس کا مقصد آواران و گرد ونواح میں سرکاری منصوبوں کو بندوق کے زور پر پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ پاکستان سڑکیں تعمیر کرکے اپنی فوجی نقل و حرکت میں تیزی اور آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انہیں بلوچوں کی حالت زندگی بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں جو سات دہائیوں میں اچھی طرح ثابت ہوچکا ہے۔ جن بہانوں سے اسکول اور کالج کی عمارتیں تعمیر کی گئیں، آج وہ فوجی کیمپ اور چیک پوسٹ بنائے گئے ہیں۔ بلوچ قوم پاکستان کی ان شاطرانہ چالوں کو بخوبی جان چکا ہے۔چین پاکستانی اقتصادی رہداری کے تحفظ کے نام پر ہزاروں بلوچوں کو قتل، اغوا، لاپتہ اوربے گھر کر دیا گیا ہے۔ ایسے منصوبے کسی صورت قابل قبول نہیں جو بلوچوں کی لاشوں پر تعمیر کئے جا رہے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز