جمعه, مارس 29, 2024
Homeاداریئےپاکستان کی دہشت گردانہ پالیسی

پاکستان کی دہشت گردانہ پالیسی

ہمگام نوشت
پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس (MI) کے زیر قیادت و زیر نگرانی اسلامائزیشن، جہاد، پرائیویٹ مذہبی آرمی اورمذہبی انتہا پسندی کا جو کلچر فروغ پا کر دنیا میں پھیل رہا ہے۔ مذہب کی آڑ میں اس پاکستانی مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر عالمی برادری کیلئے فکر مندی کے اسباب پیدا کئے ہیں۔ خصوصا انڈیا اور افغانستان براہ راست اس کی زد میں ہیں۔ مذہبی پرائیویٹ آرمی بنانے اور مذہبی انتہا پسند دہشتگردوں کو کرائے کے طور پر استعمال کرنے کے اس پاکستانی کردار و حکمت عملی نے بلوچ قوم کے سماجی، ثقافتی اور معاشی ترقی کو بھی منجمد کرکے تباہی سے دوچار کردیاہے۔ 27مارچ 1948 سے لیکر آج تک پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کرکے بلوچ قوم پر جبر و استبداد اور فوج کشی کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اور ساتھ ہی بنگلہ دیش میں 70 کی دہائی میں جماعت اسلامی کی زیر سرپرستی “الشمس” و “البدر” طرز پہ بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندوں کو ڈیتھ اسکواڈ کے طور پہ بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس پاکستانی کردار و حکمت عملی پہ سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وگرنہ یہ ناسور مزید تیزی سے پھیل کر دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ انڈیا اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کر دے گا۔ “اوڑی” سیکٹر میں پاکستان کا اپنے پرائیویٹ مذہبی آرمی کے ذریعے بھارتی فوجیوں پر حملہ اور افغانستان کے اورزگان و ہلمند صوبوں پر طالبان کی شکل میں حملہ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
طالبان، حقانی نیٹ ورک، جماعت الاحرار، داعش اور دیگر درجن بھر مذہبی دہشتگرد تنظیموں کے نہ صرف تربیتی مراکز پاکستان میں موجود ہیں، بلکہ ان تنظیموں کے انتہا پسند سربراہان و اہم اراکین پاکستانی فوج و انٹیلیجنس اداروں کی زیر سرپرستی کوئٹہ، پشاور، خیبر پختون خواہ کے قبائلی علاقوں اور کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ اور وہیں سے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ و خفیہ اداروں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے ساتھ انڈیا میں بھی دہشت گردانہ حملے کروا رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کی موجودگی اور ان کی پاکستان آرمی و آئی ایس آئی کی جانب سے سرپرستی کرنے کے اہم دستاویزی ثبوت نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی افغانستان (NDS) کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے 17 جولائی 2016 کو چھ ایسے دستاویزات کابل میں میڈیا نمائندوں کے سامنے منظر عام پر لایا، جو ایم آئی اور آئی ایس آئی کے اختیارداران کی جانب سے لکھے گئے آفیشل لیٹر تھے۔ جن میں پاکستانی فوج، ایم آئی اور آئی ایس آئی کی جانب سے سرکاری سطح پر “آپریشن ضرب عضب” کے دوران حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے سربراہان و اہم اراکین، ان کے اہل خانہ، ان کے اسلحہ اور زیر استعمال دیگر سامان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور ان کی بحالی و مالی امداد کی بابت ہدایات درج تھے۔ اسی طرح یکم اگست 2016 کو افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے پینٹاگان میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان میں ان شدت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کی، ان کا کہنا تھا کہ “دہشتگرد تنظیم داعش کے 70 فیصد جنگجوؤں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جو افغانستان میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں۔ جو پچھلے پندرہ سال سے طالبان، جماعت الاحرار، شہر یار محسود گروپ، قاری ادریس گروپ، طمانچی ملا گروپ اور مولوی فقیر گروپ جیسے دہشتگرد تنظیموں کے پلیٹ فارم سے افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ اور اب وہ داعش کے ساتھ منسلک ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں اور اورکزئی ایجنسی سے ہے۔”
پاکستان نہ صرف ہندوستانیوں، افغانیوں اور بلوچوں کا مشترکہ وہ ازلی دشمن ہے۔ اور ان اقوام کے فرزندوں کو مذہبی دہشتگردوں کے ذریعے نشانہ بنا رہا ہے، بلکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اور بھارت و افغانستان میں مذہبی دہشتگردوں کے ہاتھوں بے گناہ و معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ پاکستان عالمی برادری اور اس خطے کیلئے ایک ناسور بن چکا ہے۔ اس ناسور کے آپریشن و بیخ کنی کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ اس موذی مرض سے دنیا کا چٹکارہ ممکن ہو۔ اگر آج عالمی برادری اور انڈیا و افغانستان نے اس بات سے پہلو تہی کی، اور اس ناسور کو مزید کھلی چھوٹ دی۔ تو یہ کینسر ان کو چاٹ لے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی حمایت و کمک کرکے آزادی بلوچستان کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ “آزاد بلوچستان” ہی اس خطے میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز