شنبه, آوریل 20, 2024
Homeآرٹیکلزپرنس محی الدین کی ہرزہ سرائیاں,حقیقت کے برعکس!,تحریر:عبدالواجد بلوچ

پرنس محی الدین کی ہرزہ سرائیاں,حقیقت کے برعکس!,تحریر:عبدالواجد بلوچ

بلوچستان پر نومولود ریاست پاکستان کی قبضہ گیریت سے پہلے اس تاریخ پر نظر دوڑانا ضروری ہے کہ بلوچستان کی سالمیت پر بیرونی قوتوں نے کس طرح حملہ کیا تھا اور بلوچ مادر وطن کے عظیم فرزندوں نے ان قبضہ گیر قوتوں کے سامنے کس طرح مزاحمت کی اور ان کے آگے کس طرح سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔’’بلوچستان لبریشن چارٹر کے مطابق تاریخ کے ان پنوں پر بحث کی گئی جس سے بلوچوں کے آبائی وطن کو بلوچستان کہا جاتا ہے لیکن آج تک بلوچ اپنے آبائی وطن کے مالک نہیں ہیں ۔اذیت رساں واقعات کا ایک سلسلہ جو انیسویں اور بیسویں صدی کی فاتحانہ سامراجی جنگوں سے کسی طرح بھی کم نہیں نے بلوچستان کے قدرتی فروغ کو مسخ کیا اور بلوچوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے سے روکے رکھا۔‘‘
تاہم بلوچستان کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن مرحلہ 1666تھا جب مختلف بلوچ اتحادیوں کو اکھٹا کیا گیا اور ایک بلوچ قومی ریاست تشکیل دی گئی،قومی اتحاد کے اس لمحے سے بلوچ قوم نے اپنے ہمسایوں اور دیگر اقوام سے باہمی سفارتی تعلقات استوار کئے۔
’’بلوچستان کی تاریخی اور سماجی سیاسی سرحدیں اٹھارویں صدی میں بلوچ سیاسی قائد اور حاکم میر نصیر خان بلوچ جنہیں نوری نصیر خان 1749تا1794کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی جانب سے خاکہ کشی کی گئی۔‘‘اس کے بعد برطانوی سلطنت 13نومبر1839کو خود مختار ریاست بلوچستان پر حملہ آور ہوئی ،تقسیم کرو اور حکومت کرو کی برطانوی نو آبادیاتی پالیسی کے نتیجے میں بلوچستان آئندہ کے لئے تین حصوں میں تقسیم کی گئی۔1871میں ایک ثالثی لکیر ڈیورنڈ سمڈ لائن کھینچی گئی جس کے تحت بلوچستان کا مغربی حصہ خاندانِ کاجار کو دے دیا گیا۔1893میں ایک دوسری لکیر ڈیورند لائن کھینچی گئی اس لائن کے تحت بلوچستان کا شمالی حصہ افغانستان کو دے دیا گیا،یہ بناوٹی سرحدیں بلوچ قوم کی رضامندی مفادات اور بہبود کے خلاف کھینچی گئیں۔اس کے باوجود بلوچ قوم نے کبھی بھی اپنی آزادی کی جدوجہد میں کمی آنے نہیں دی،برطانیہ سے دوبارہ مکمل آزادی حاصل کرنے کے لئے قومی سطح پر منظم سیاسی جدوجہد کا آغاز 1920کی دہائی کے اوائل ہی سے ہوگیا تھا بلوچ قوم کی لازوال کوششوں کے نتیجے میں انگریزوں کے مشرقی بلوچستان سے خروج کے بعد بلوچستان 11اگست1947کو آزاد ہوگیا تھا اور اس کی خبر 12اگست1947کو The New York Timesمیں چھپی تھی۔بلوچستان کے ایوان زیریں نے اپنے 12سے15دسمبر 1947کے ہونے والے اجلاسوں میں متفقہ طور پر بلوچستان کی آزادی کے اعلان کو منظور کیا تھا،بلوچستان کے ایوان بالا نے بھی 2جنوری سے لیکر4جنوری1948تک ہونے والے اپنے اجلاس میں ایوان زیریں کے اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔
نومولود ریاست پاکستان کی مصنوعی طور پر بنائی گئی اسلامی ریاست کو 14اگست1947کو محض اس لئے وجود دیا گیا تھا کہ انگریز سامراج کو اس وقت اس خطے میں ہندوستان کی آزادی کے بعد ایک کالونی کی ضرورت تھی جس پر اسلام کو ہتھیار بناکر اس ریاست کو دنیا کے نقشے پر وجود دیا گیا جو کہ آج دنیا کے لئے درد سر بن چکا ہے۔اس بناوٹی ریاست نے اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی بلوچستان کی خودمختاری و سالمیت پر اپنی گدھ جیسے نظریں لگائی تھیں اس کے بعد بالآخر27مارچ1948بلوچستان کی خود مختارریاست پر زبردستی قبضہ کیا جو تاحال جاری ہے۔
لیکن بلوچ قوم نے پاکستان کی اس قبضہ گیریت خلاف شروع دن سے علم بغاوت بلند یہاں میں شہید قائد غلام محمد بلوچ کی اس تقریر کو کوڈ کرونگا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان نے ہم پر جنگ مسلط نہیں کی بلکہ ہم گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کی جبری اور ناجائز قبضے کے خلاف بلوچ سرزمین کی بحالی اور آزادی کے لئے یہ جنگ شروع کی ہے۔‘‘آغا عبدالکریم خان سے لیکر نواب نوروز تک،بابو شیروف مری سے لیکر نواب خیر بخش مری تک،مینگل اور پھر نواب اکبر بگٹی کی شہادت تک یہ وہ سلسلہ ہے جو پاکستان کی بلوچ سرزمین پر جبری قبضے کے خلاف آزادی بلوچستان کے لئے ستر سالہ دورانیہ پر محیط جہد ہے جنہیں 2000کی دہائی میں سنگت حیربیار اور بلوچ جہدکاروں نے نئی جہت بخشی اور یہ جنگ تاحال جاری ہے۔اس جنگ میں لاکھوں بلوچ فرزندوں نے اپنے خون بہائی ہیں اور ہزاروں پاکستانی ازیت گاہوں میں اذیت برداشت کررہے ہیں،ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بلوچ پاکستانی جبر و ستم کی وجہ سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں جناب پرنس محی الدین جو اپنے آپ کو نوری نصیر خان اور خان محراب خان کا جانشین کہتا ہے نے انتہائی بہیمانی اور چالاکی سے اپنے آباؤ اجداد کی ان قربانیوں کو پاؤ تلے روند ڈالا جنہوں نے اپنی سروں کا نذرانہ قومی آزادی کے لئے دیا تھا،موصوف کہتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے اندرونی معاملات پر مداخلت کرنے سے پرہیز کریں بلوچستان پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے میں قربانیاں دیں ہیں اور محمد علی جناح اور ان کی بہن فاطمہ جناح خان آف قلات احمد یار خان کے انتہائی قریب تھیں۔جناب شاید بھول گئے ہیں یا ان کا محافظہ کمزور ہے یا تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جس بیان پر وہ ہرزہ سرائی کررہے ہیں وہ ان کا نہیں بلکہ ان آقاؤں کی طرف سے ان کو دیکر میاں مٹو کی طرح اس کو رٹنے کے لئے دیا گیا کیونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی آقاؤں کو بلوچستان بلوچ اور بلوچ شناخت کا ذرہ برابر بھی معلومات نہیں،شاید جناب پرنس محی الدین صاحب یہ بھی بھول چکے ہیں کہ محمد علی جناح بلوچستان کی آزادی کے مقدمے کا وکیل تھا اور یہ فطری عمل ہے کہ ایک ریاست کے خان کا اور اس ریاست کی آزادی کے لئے وکالت کرنے والے فرد کا گہرا تعلق تو ہوتا ہی ہے لیکن خان قلات کو شاید یہ خبر نہیں تھی کہ مہاتمہ گاندی جنہوں نے محمد علی جناح کی سیاسی معاشی تعلیم اور ہر حوالے سے تربیت کی تھی ان پیٹ پر چرا گھونپ سکتا ہے تو امیر سرزمین خدا کی طرف سے نعمتوں سے مالا مال بلوچستان کو دیکھ کر ان کی نیت میں کھوٹ آنا تو فطری امر تھا ہی۔لیکن اس کا قطعاََ یہ مقصد نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان کی Creation کے لئے قربانیاں دی ہیں ہاں البتہ خطے میں بنائی گئی نومولود ریاست کے وجود کے بعد ان کی معاشی استحکام کے لئے خان آف قلات نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اور اس کے بعد کو سونوں نے تول کر ان کے وزن کے حساب سے سونا دیا تھا جس سے بعد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بنائی گئی ہاں یہ وہ ان احسانات کا بدلہ تھا کہ بعد میں پاکستان نے بزور ہتھیار بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا اور بلوچستان کو ایک کالونی کی حیثیت سے سلوک کرتا گیا جو تاحال جاری ہے۔جناب پرنس محی الدین کی یاداشت شاید کام کرنا چھوڑ چکی ہے کہ جس وقت قلات اسٹیٹ پر حملہ کیا گیا تھا اس وقت ان کے آباؤ اجداد عورتوں اور بلوچی نشان پر ٹینک سے حملہ کرکے خان آف قلات اور ان کے بچوں کو نظر بند کیا گیا اور بعد میں کراچی سے ان کو مجبور کیا گیا کہ الحاق پر دستخط کرلیں۔اگر آپ کے آباؤ اجداد نے پاکستان کی وجود کے لئے قربانیاں دی ہوتیں تو آغا عبدالکریم خان کو پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ بلوچستان پر قبضہ کرنے کے خلاف بغاوت کرتے؟؟؟کیا پاکستان سے وفاداری اتنی شدید تھی کے قرآن کے نام پر آغا عبدالکریم خان کو واپس بلا کر انہیں پس زنداں کیا جانا وہی قربانیاں تھی جو پاکستان کے لئے دیئے گئے تھے؟؟کیا نواب نوروز خان ایسے بے کار بیٹھنے والے بزرگ تھے کہ جنہوں نے پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف ایک جنگ شروع کی جنہیں ان کے سات ساتھیوں اور بیٹوں کے ساتھ شاطرانہ اور چالاکی سے قرآن کے نام پر دھوکہ دیکر ان کو حیدرآباد جیل میں ڈالا گیا اور ان کے سات ساتھیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا اور انہیں جیل ہی میں موت کے آغوش میں جانا پڑا کیا یہی پاکستان کے ساتھ وفاداریاں تھیں جو آپ کے آباؤ اجداد دے رہے تھے؟؟؟1948,1950,1960,1970اور آج 2000سے جاری پاکستانی بربریت ظلم و ستم کی ختم نہ ہونے والی سلسلہ انہی قربانیوں کے ثمر ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے میں اپنا پسینہ گرایا تھا؟؟کیا 20000ہزار سے زائد بلوچ لاپتہ افراد کا قصور یہی ہے جو پاکستانی خفیہ اداروں کے پاس ہیں موت و زیست سنگھم میں سانسیں لے رہے ہیں ان کا دوش یہی ہے کہ انہوں پاکستان بنانے میں اپنے خون گرائے تھے؟؟؟کیا ان 5000مسخ شدہ لاشوں اور آپ کے ناک کے نیچے خضدار میں ملنے والی اجتماعی قبروں سے ملی بوسیدہ لاشوں کو یہ انعام دیا گیا تھا کہ وہ پاکستانی محب وطن ہیں؟؟؟میرے خیال میں ان عورتوں بچوں کا بھی یہ قصور تھا جو پاکستانی خفیہ اداروں کا ہاتھ میں اپنی غیرت کا جنازہ نکلتے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے میں قربانیاں دی تھیں شاید پاکستان ان کو انعامات سے نواز رہا ہے۔زرا پوچھ لیں خان قلات سلیمان داؤد سے کہ وہ کیوں جلاوطنی کا درد سہہ رہا ہے؟؟پوچھ لیں ان بلوچ سیاسی کارکنان سے جنہوں ایک ایک مہینہ اپنے آبلا پاؤں سے کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھا کہ ان کے پیارے کہاں ہیں؟؟کیا آپ حیدر،سمی،فرزانہ مجید اور ان ہزاروں بچوں کو یہ جواب دے سکتے ہیں کہ ان کے پیاروں نے پاکستان بنانے میں قربانیاں دی تھیں اسی لئے انہیں غائب کرکے انعامات سے نوازا جارہا ہے۔پنجابی زبان بول کر جناب والا آپ کسی بھی طرح حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے جو تاریخ کے اوراق پر ایسے تحریر ہیں جنہیں کوئی بھی نہیں مٹاسکتا۔پڑھ لیں اس تاریخ کو جو بنگلہ دیش پر پاکستانی زبان بولنے والے ان ملاؤں سے منسلک ہے کہ ان کا کیا حشر ہورہا ہے۔یہ مکافات عمل کا سلسلہ بلوچستان کی تاریخ پر بھی دہرائی جائے گی فقط انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے دو۔آج بلوچستان پر پاکستانی جبر کے خلاف دنیا کے بیشتر ممالک اٹھ کھڑے ہیں سب سے آگے ایشیا کی بڑی جمہوریت ہندوستان نے جب بلوچ قوم پر پاکستانی مظالم کو اچھالا ہے بلوچ شہداء کی قربانیاں رنگ لانے لگی ہیں تو بلوچستان میں موجود جعفر و صادق کے کردار کا زندہ ہونا یقینی امر ہے لیکن انجام کا خیال بھی ہونا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز