پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزڈاکٹر اللہ نظر کے ایما پر غنی بلوچ کی طرف سے جاری...

ڈاکٹر اللہ نظر کے ایما پر غنی بلوچ کی طرف سے جاری کردہ آ ڈیو کے تناظر میں ! تحریر : جمال ناصربلوچ

جمہوری اور جابر طرز میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ جابر طرز کا نظام جہاں کہیں بھی ہو وہاں پر بنیادی انسانی فطرت کو رد کر کے، مصنوعی طریقے سے سوچنے اور سمجھے، اختلاف رائے اور تخلیقی عنصر کو دبایا جاتا ہے. سائنس کہتا ہے کہ انسان کی اسی فطرت نے انسان کو ارتقائی عمل میں دوسرے جانداروں کے مد مقابل برتری عطا کی، انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے اس حوالے سے یہ کشمکش رہی ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصر ازخود عقل کل کے دعوے داروں نے اپنی طاقت کی بناء پر انسانی فطرت دبانے کی کوشش کی، اسی انسانی فطرت، معاشرے کے بنیادی اصول سمیت اجتماعیت جیسے عناصر کو بلوچ معاشرہ اور قومی تحریک کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس بات کو سمجھنے میں وقت درکار نہیں کہ ہمارے یہاں بھی عقل کل اور کتاب سے رہنمائی لینے والے لیڈر اور ان کی تنظیمیں معاشرے اور انسانی فطرت سے نہ واقف ہیں اور یہی ناواقفی ان کے اعمال کو قومی، اجتماعیت اور اصولی کے بجائے گروہی راہ پر چلا رہی ہے، یہ تو ممکن نہیں کہ یہاں پر ان کی اسی نادانی اور اپنے چاگرد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے قومی مسئلوں اور تشکیل ریاست کے راہ میں رکاوٹوں پر تفصیلی بحث کر سکوں مگر گزشتہ دنوں ان کی کچھ حرکتوں نے یہ موقع ضرور دیا ہے کہ چند بنیادی چیزوں پر روشنی ڈالوں.
اللہ نظر کی ایما پر غنی بلوچ کی طرف سے جاری کردہ ایڈٹ شدہ آڈیو کو سنا، اس کے تمام پہلو پر بات کرنے کی گنجائش ہے لیکن میں یہاں پر اظہار رائے ، حق اختلاف اور تخلیقات جیسے عناصر پر بحث کرنا چاہتا ہوں،تمام انسان ایک جیسے نہیں سوچتے، ایک ہی چیز پر ہر ایک فرد اپنی الگ رائے رکھتا ہے مگر بہترین معاشرے، تنظیمیں یا انسانی سماج وہ ہیں جہاں اس بنیادی انسانی فطرت کو دبانے کے بجائے اس حق کو قبول کرتے ہوئے اظہارخلاف کا احترام کیا جاتا ہے اور دلائل کی بنیاد پر منطقی راہ کی تلاش کو سراہا جاتا ہے تحریک میں موجودہ اختلافات سے لیکر بلوچ سیاست کی موجودہ بدلتے فطرت کو اگر دیکھا جائے تو کچھ عنا صر قومی مفادات کے تناظر میں انتہائی مثبت ہیں اور دوسرے ایسے کہ جن کی وجہ سے (قومی مفادات کے تناظر میں ) خدشات لاحق ہیں، خدشات جنم لینے کی وجہ ان عناصر یا عمل (جو بھی نام دیا جائے) کا منفی ہونا ہے ، مثبت اور منفی دونوں پہلو کو دیکھ کر ہی بہتر فیصلہ سازی کی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ جو عمل ایک سوچ کے ماننے والوں کے لئے مثبت ہو تو دوسرے کے لئے ویسا ہی ہو، مثال کے طور پر قومی تحریک کی مضبوطی اور بلوچ قومی مفادات کا تحفظ ہمارے لئے ایک مثبت عمل ہے تو دوسری طرف پاکستان کے لئے وہ ایک منفی عمل ہے اور چونکہ پاکستان کے حوالے سے عمل منفی ہے اسی لئے پاکستان کو خدشات لاحق ہونا بھی فطرتی ہے، مثبت اور منفی کا دائر کار اگر پاکستان اور بلوچ سے محدود کر کے اسے صرف بلوچ آزادی پسند سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم یہ محسوس کریں گے کہ ہمارے سیاست میں بھی ہر کوئی مثبت اور منفی کی تشریح اپنے مفادات کے تحت کرتا ہے. مثال کے طور پر ہمارے دوست اختلاف رائے کے عمل کو ( اس بات پر بحث نہیں کہ کیا طریقہ ہو، کس انداز میں ہو یا کس پر، کس حد تک ہو ) مثبت سمجھتے ہیں، مگر دوسری طرف اللہ نظر ، براہمداغ سمیت دوسرے بلوچ سیاست دان یا تنظیمیں اس عمل کو منفی سمجھتے ہیں ، اور ان کی اس عمل کو منفی سمجھنا تنظیمی مفادات کی بنیاد پر ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں یہ عمل ان کے غلطیوں کو ظاہر کرسکتی ہے جسے وہ اپنے تناظر میں مثبت نہیں سمجھتے. مگر مثبت اور منفی کی تشریح کا یہ عمل صرف \’ اختلاف رائے \’ کی حد تک نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار دوسرے چیزوں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے. ماضی میں بھی اللہ نظر اور ان کے دوستوں نے اسی روش کی وجہ سے تحریک کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نقصان سے دوچار کیا. بی این ایم میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے بجائے، اختلاف رائے کرنے والوں کو تنظیم چھوڑنے پر مجبور کیا گیا. عصا ظفر کا استعفیٰ اور اس کے بعد بی این ایم کا حال ہمارے سامنے ہے . اسی طرح بی ایس او آزاد میں بھی جب قومی مفادات اور پارٹی آئین کو لیکر اختلاف نے جنم لیا تو ان لوگوں کو نکالا گیا جو اختلاف رکھتے تھے . اسی طرح بی آر پی میں بھی انور عادل سمیت دوسرے مثال ہمارے سامنے ہیں. بی این ایم ، بی ایس او اور بی آر پی کا طرز اظہار رائے سمیت دوسرے انسانی فطرت کے خلاف ہیں اسی لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ سیاست کی فطرت ہی یہی ہے، اسی غلط اندازے کی بنا پر ان لوگوں نے حیربیار مری کو ڈکٹیٹر کہنا شروع کیا، اسی بنا ء پر یہ کہا گیا کہ حیربیار مری تو اختلاف رائے برداشت نہیں کرتا ان کے دوست بھی اسی طرز پر عمل کرتے ہیں. لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سچائی اپنا دفاع خود کر رہی ہے. غنی بلوچ کی طرف سے ایڈٹ شدہ آڈیو جس کو ہر طرح سے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی آج وہی آڈیو آپ لوگوں کے اپنے الزامات اور پروپیگنڈے کا جواب دے رہی ہے. جہاں سنگت شبیر بلوچ حیربیار مری کے اس پالیسی کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارے یہاں فیصلے دوست اجتماعی طور پر کرتے ہیں، جہاں اسلم، شبیر،سلام سمیت تمام دوستوں کا قومی فیصلوں میں ایک نہ ایک کردار ہے اور وہی فیصلے حیربیار مری بطور ذمدار اعلی قبول کرتے ہیں اور تمام دوستوں کی رائے کو سنتے ہیں اور ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں. آپ لوگوں کے بقول حیربیار مری ڈکٹیٹر ہیں تو کون سا ڈکٹیٹر فیصلے کرنے کے اختیارات ان لوگوں کو دیتا ہے جو ہمارے جیسے عام سیاسی جہد کار ہوں ؟ آپ کی آڈیو تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کے عنصر موجود ہیں جہاں پر انسانی فطرت کو جابر کی طرح کچلنے کے بجائے اس کا احترام کیا جاتا ہے . آیا اللہ نظر نے بی این ایم کے حوالے سے اس طرح کیا ؟ جہاں تک مجھے یاد ہے عصا ظفر اور ان کے دوستوں کو فیصلہ سازی میں اظہار رائے کے حق مانگے پر غدار کہا گیا ؟؟ اسی طرح موجودہ تحریک میں دوسرے بہت سے مثال موجود ہیں.
دوسرے آڈیو سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم اختلاف کو انسانی فطرت کا بنیاد سمجھتے ہوئے اس کو منفی کے بجائے مثبت قرار دیتے ہیں، لیکن اللہ نظر یا دوسرے لوگ شاہد یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جو چیز ان کے نظر میں منفی ہے وہی ہماری نظر میں بھی منفی ہو مگر ایسا نہیں کیوں کہ ہماری سیاست کا فطرت ان کی سیاسی فطرت سے انتہائی مختلف ہے. آڈیو کے دوسرے حصے میں سنگت بیبگر سلام کے طریقہ کار سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں، آیا سلام سے اختلاف رکھنے پر بیگر بلوچ کو دوستوں نے الگ کیا ؟ یا سلام کو اس لئے سائیڈ لائن کیا گیا کہ ہمارے چند دوست سلام سے اختلاف رکھتے ہیں ؟ آیا اختلاف رائے رکھنے کے بعد تمام دوست کام کرنے کے وقت ایک نہیں ( جیسا کے ٹویٹر پر دوستوں کی مشترکہ محنت نے کمپین کو کامیاب کیا ؟) ؟ کیا ہمارے یہاں اختلاف نہیں ہوتے یا ہم اظہار رائے کے بجائے جی جی حضوری کرتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو سب سے بڑا سوال تو بلوچستان لبریشن چارٹر ہے جس کو ایک فرد تشکیل نہیں دے سکتا اور دیتا تو تشکیل دینے کے بعد سینکڑوں دفعہ دلائل کی بنیاد پر تبدیلی کیسے ممکن ہوتی ؟ یہ سوالات ازخود آپ لوگوں کے ان الزامات کا جواب ہیں جو ہمارے دوستوں پر ایک عرصے سے لگائیے جارے ہیں. ہم اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں ، بحث کرتے ہیں، جہاں جذبات اور بحث کے دوران ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے. دلائل کو دلائل سے توڑا جاتا ہے ں، جو بہترین دلائل کی بنیاد پر بہتر رائے دے، اسی بنا پر اس کی مثبت اور منفی پر کل کر بحث ہوتی ہے جہاں سب برابر اظہار کر سکتے ہیں. اسی عمل کے بعد فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس فیصلے کو تمام دوست ساتھ لیکر چلتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دوستوں نے دو سے تین سال کی محنت اور بحث کے نتیجہ سے بلوچستان لبریشن چارٹر کی صورت میں وہ دستاویز تشکیل دی جس کی مثال بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی اور اللہ نظر ، براہمداغ سمیت دوسرے رہنما اور ان کے ادارے تو اس دستاویز کو نہ ماننے کا ایک دلیل جسے سیاسی کہا جائے دینے سے قاصر تھے بنیادی فرق وہی ہے جہاں سے آرٹیکل کا آغاز کیا گیا یعنی جمہوری اور جابر طرز کا واضح فرق، جمہوری طرز ،، جہاں انسانی فطرت جیسے کہ ، تخلیق ، اظہار رائے، سوچ اور دوسرے چیزوں کا بہتر استعمال کرکے بلوچستان لبریشن چارٹر قوم کو دیا جاتا ہے، دوسری طرف جابر طرز جہاں انسانی فطرت کو دبایا جاتا ہے اس دبانے کے عمل کو مثبت سمجھا جاتا ہے، اور اس کا نتیجہ کیا؟ بی ایل ایف کی پاکستان کے لئے خطرہ سے بدل کر بلوچ سماج کے لئے خطرہ بن جانا ،بی آر پی کا قومی پارٹی کے طور پر بنیاد رکھنے سے لیکر ایک قبائلی طرز کا پارٹی بن جانا. ہماری نظریاتی سنگتوں کے سیاسی فطرت ، سیاسی مقاصد اور ان کی بنیاد پر ہمارا سیاسی عمل۔۔۔.اور دوسری طرف دوسروں کے سیاسی فطرت ، سیاسی مقاصد اور عمل میں اتنا ہی فرق ہے جتنا جمہور اور جابر طرز میں ہے ، اسی طرح ہمارے اور اللہ نظر سمیت دوسروں کے سیاسی مفادات میں بھی اتنا ہی تضاد ہے جتنا تضاد منفی اور مثبت میں ہے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز