جمعه, آوریل 19, 2024
Homeآرٹیکلزڈیلٹا خوابوں کا مرکز ہے, تحریر:اسد بلوچ

ڈیلٹا خوابوں کا مرکز ہے, تحریر:اسد بلوچ

بلندیوں کے سفر میں کائنات خوابوں کے سہارے نئے راستے تلاش رہی ہے کتنی عجب ہے کہ ہم خوابوں کا قتل کررہے ہیں۔ ماضی گزیدہ لوگ ہیں نئی راہوں سے شاید ہمارا کوئی لینا دینا نہیں بنتا اس لیے خوابوں کو قتل کر کے اپنی دنیا تسخیر کرنے کی چاہت میں سرگرداں ہیں۔
 
روشنی اور بلندی کے منبع ایسے ان گنت خوابوں کے مرکز جو عمارت ڈھادی گئی اس میں بسے لاتعداد خواب چکنا چور ہوگئے، اب ہم خواب نہیں بن سکتے، اب ہم روشنی کو نہیں پاسکتے اور اب ہم بلندی پہ نہیں چڑھ سکتے مگر یہ حقیقت نہییں ہے، روشنی کے پروانوں کے لیئے ٹھہرنا، رک جانا، پیچھے دیکھنا، شکست کھانا کبھی تاریخ کا حصہ نہیں رہا، ہاں جنہوں نے سوچا تھا کہ وہ خوابوں کا قتل کرینگے، روشنی کو تاریکی کے دبیز پردے سے موت دینگے. انہوں نے ایسا ہی کچھ کیا جو ڈیلٹا کے ساتھ کیاگیا مگر حقیقت یہ ہے کہ سقراط افلاطون جنم دیتا رہا ہے۔ جس زہر کا جام سقراط کے بدن میں ڈالا گیا وہ دائمی زندگی کا استعارہ تھا مگر قاتل کو یہ حقیقت معلوم نہ تھا اس نے سوچا تھا کہ وہ قتل کر کے خوابوں کا منبع اجاڑ دیگا پھر کوئی خواب نہیں بنے گا، پھر کہیں سے روشنی نہیں پھوٹے گی، پھر کسی کو سفر کا خیال نہیں آئے گا، لیکن سقراط کے ابدی زندگی کے ہزاروں برس بعد ڈیلٹا آج بھی زندہ ہے، روشنی بکھیر رہی ہے، شہید قندیل صبا دشتیاری کا قتل ایسے ہی کسی سازشی ذہن کا پروردہ تھا جو خوابوں سے متنفر تھا جسے روشنی سے گھن آتی تھی اس نے ایک دو گولیوں اور کچھ پیسے فضول میں برباد کیے کیوں کہ صباء دشتیاری اس کے بعد قندیل بن کر امر ہوگیا کیوں کہ قندیل کبھی مرتا نہیں ہے۔
 
جو عمارت روشنی کا استعارہ تھا جہاں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ کر ارد گرد کی تاریکی چھاٹ رہی تھی وہ عمارت اب گرادی گئی ہے۔ جس بلڈوزر سے اس عمارت کی چار دیواری ڈھائی جارہی تھی گویا کانچ کی کرچیاں تھیں جو دل پر بکھر کر اسے چلھنی کررہی تھیں کیوں کہ ہمارے بہت سارے خواب اسی عمارت سے وابستہ تھے۔ ان گنت ایسے خواب ابھی بنے جارہے تھے جو روشنی کے ساتھ مل کر تاریکی کا گلا گھوٹنے کو تھے ۔
 
ایک پودا ابھر رہی تھی ابھی ایک نسل کو سیراب ہونا تھا اور خواب لے کر ارد گرد بکھرنا تھا مگر ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔ ڈائنا مک انگلش لینگویج انسٹی ٹیوٹ نے جب سفر کا آغاز کیا تھا تو علاقہ میں تعلیمی صورتحال جہالت کے پنجوں میں جکھڑا ہوا تھا یہاں سے نوجوان اٹھے روشنی سمیٹی علم سیکھا اور آگے بڑھے پھر ڈیلٹا کہیں نہیں رکا کامیابی پہ کامیابی کا مسلسل سفر جاری رہا، ڈیلٹا اسکول کا قیام شاندار مستقبل کا آغاز ثابت ہوا ۔ اکیسویں صدی کی تربت میں ڈیلٹا کی روشنیاں ناقابل تسخیر ہیں ہر ادارہ، ہر مقام اور ہر جگہ ڈیلٹا اپنی توانا شناخت کے ساتھ موجود ہے، یہاں علم سے مسلح ہو کر اٹھے نوجوانون نے مقابلہ کے امتحانات میں دھاک بٹھادی، صوبائی سطح کا کوئی ایسا امتحان نہیں گزرا جس میں ڈیلٹا فخر کے ساتھ نظر نہ آیا ہو۔ ابھی حال میں ڈیلٹا نے سب کو پچھاڑ دیا مقابلہ کے امتحان میں 12نوجوان تربت سے کامیاب ہوئے تو سب ڈیلٹین نکلے۔ مگر اب یہ ہے کہ ڈیلٹا کی عمارت ڈھا دی گئی ہے گویا خواب بننتے بنتتے قاتل کو اچانک کوئی خیال آیا اس نے وہ کیا جو ہزاروں برس قبل یونانیوں نے سقراط کے ساتھ کیا تھا، لیکن کیا سقراط مرا؟ نہیں تو ڈیلٹا بھی امررہے گا کیوں کہ اب بھی صحرا کے سفر میں زاد راہ ساتھ ہے اب بھی ڈیلٹا زندہ ہے، اب بھی زندگی مقابلے کے میدان میں موت کے سامنے سرنگوں نہیں ہے جب تک کائنات قائم ہے موت زندگی کو شکست نہیں دے سکے گی، ہاں یہ ہے کہ وہ اپنی قوت ضرور لگا دیگی اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی قوت آزمائی میں مصروف ہے لیکن ہمارا یقین ہے کہ روشنی دائمی ہے اور اس کازماز پر ہمیشہ اپنی کرنیں بکھیرتا رہے گا اسے منور کرتا رہے گا، صرف وہ عمارت ڈھا دی گئی ہے ڈیلٹا نہیں، ڈیلٹا روشنی کا منبع ہے کامیابی کے ساتھ رو بہ سفر ہے اس کے دامن میں ہزاروں پروانوں کا بسیرا ہے قاتل کو خبر ہو کہ پروانے موت سے نہیں ڈرتے زندگی کے لیے لڑتے ہیں یہی تاریخ کی حقیقت ہے اور تاریخ کو کوئی قاتل اپنے جہل کی قوت سے نہیں جھٹلا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز