پنج‌شنبه, آوریل 18, 2024
Homeاداریئےکشمیری برہان وانی کا قتل اور بلوچستان

کشمیری برہان وانی کا قتل اور بلوچستان

کشمیر کی مذہبی عسکری تنظیم “حزب المجاہدین” کے کارکن اور سوشل میڈیا کے ذریعے نام کمانے والے نوجوان جنگجو کمانڈر برہان مظفّر وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کی بنا پر جمو و کشمیر میں احتجاجوں و مظاہروں کا جو سلسلہ شروع ہواہے۔ وہ ایک فطری ردعمل ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے مقتد ر حلقے جس ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے برہان مظفّر وانی کے قتل کو “ماورائے عدالت قتل” اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیکر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ یہ ردعمل نہ صرف پاکستانی حکمرانوں، پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے دھرے معیار کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ خطے میں ان کی مذہبی شدت پسندی کی پشت پناہی کرنے، پاکستانی فوج و خفیہ ایجنسیوں کی کشمیر میں سیاسی و معاشی مفادات اور دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے مذہبی دہشتگردی کو ہوا دے کر پھیلانے کا کھلم کھلا اظہار بھی ہے۔
ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر سورج کو انگلی سے چھپانے کا نفسیاتی مزاج یوں تو پاکستانی مقتدرہ و پنجابی قوم کے نسلی خصلت میں شامل ہے۔ لیکن کھبی کھبی تو یہ اپنے مفادات کے تحت تمام تر حدود و قیود کو بھی پار کرجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب انڈین آرمی کے کمانڈنٹ میجر جنرل اشوک نرولہ نے پریس بریفنگ کے دوران راشٹریہ رائفلز، ریزرو پولیس فورس اور جموں و کشمیر پولیس کی مشترکہ آپریشن میں برہان وانی سمیت تین مذہبی شدت پسندوں کی ہلاکت کی خبر دی، تو پاکستانی حکمرانوں، فوج اور خفیہ اداروں میں کلبلی سی مچ گئی۔ اور فوری طور پہ پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پریس کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ” کشمیری حریت رہنما برہان وانی سمیت دیگر کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل قابل مذمت ہے۔ کشمیری عوام پر مظالم و انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کشمیریوں کو ان کی حق خوداردایت کے مطالبے سے دستبردار نہیں کرسکتے۔ انڈین حکومت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔”
حیرت کی بات ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا واویلا وہ پاکستانی حکمران اور فوجی جنتا مچا رہےہیں۔ جن کے اپنے ہاتھ بلوچ اور سندھیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کیا بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے، اذیت خانوں میں انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کرنے، بلوچ فرزندوں کو شہید کرکے ان کے جسد کو اجتماعی قبروں میں دفنانے اور بلا امتیاز بلوچ آبادیوں پر بمباری کرنے کا گھناؤنا عمل ماورائے عدالت قتل، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں نہیں آتے ؟ کیا جبر و بربریت کے ذریعے پاکستانی مقتدرہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک پر قدغن لگا سکتے ہیں؟ کیا پاکستانی ظلم اور انسانیت سوز عمل بلوچ فرزندوں کی پیروں میں لغزش پیدا کرکے ان کو آزادی کی جدوجہد سے روک سکتا ہے؟ اگر یہ ممکن ہوتا تو آج دنیا میں وہ ممالک وجود نہیں رکھتے، جو قومی جہد آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں قربانیوں کے نتیجے میں آزادی حاصل کر چکے ہیں۔
واضح رہے قارئین کہ 2010 ء میں مذہبی شدت پسند تنظیم “حزب المجاہدین” میں شامل ہونے والے 22 سالہ برہان مظفّر وانی نہ صرف اس تنظیم کا ضلعی کمانڈر تھا، بلکہ تقریبا ایک ماہ قبل ہی برہان وانی نے ایک ویڈیو پیغام ریلیز کرکے جموں و کشمیر میں ہندو پنڈتوں اور کشمیر میں رہنے والے ہندوؤں کے گھروں پر بم حملے کرنے اور کشمیر پولیس کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس کی اطلاع دینے پر دس لاکھ کا انعام رکھا ہوا تھا۔ اور اب پاکستان اپنی اصلیت آشکار کرتے ہوئے برہان وانی جیسے مطلوب شدت پسند اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کو “ماورائے عدالت قتل” قرار دے رہاہے۔
27مارچ 1948ء سے پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اور اپنی اس تسلط کو بلوچ قوم پر فوجی یلغار، جبر و استبداد، معاشی کنٹرول، استحصال، اپنی گماشتہ پارلیمنٹ پرستوں کی حکومت اور مذہبی جنونیوں کے ذریعے برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہے۔ اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مخدوش تر بنادیا ہے۔ بلوچستان میں فوجی یلغار میں تیزی، بلوچ فرزندوں کی گھروں اور دوران سفر اغواء نما گرفتاریاں، زیر حراست بلوچ فرزندوں پر بہیمانہ تشدّد، ماورائے عدالت بلوچوں کا قتل، ویرانوں میں مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔
پاکستان، بلوچستان میں ریاستی رٹ قائم کرنے کے نام پہ انسانی حقوق کی پامالی کے تمام تر حدود کو پار کررہی ہے۔ ریاستی فورسز بلوچستان میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اور ان کو لوگوں کے عزت نفس کو مجروح کرنے، بلوچ روایات کو پامال کرنے، لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کرنے، بلوچ قوم دوست فرزندوں کی زندگی اجیرن کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اور پاکستان اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے انسانی حقوق کی قراردادوں (جن کی پاسداری کرنے کیلئے پاکستان نے ان پر دستخط بھی کر رکھے ہیں) کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ اور پھر بھی کشمیر میں انڈین فورسز کی کارروائیوں کو ریاستی دہشتگردی اور مذہبی شدت پسندوں کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتی ہے۔ اور بلوچستان میں اپنی ریاستی دہشت گردی و انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو قانون کی عمل داری قرار دیتی ہے۔
برہان مظفّر وانی کی ہلاکت کو لیکر جب اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کے موضوع پر خصوصی کانفرنس سے خطاب کے دوران اس مذہبی عسکریت پسند کے قتل کو، ماورائے عدالت قتل قرار دیا، تو اس کے جواب میں انڈین مندوب نے کہا کہ “کیا ایک ایسے ملک کو انسانی حقوق کی بات زیب دیتی ہے۔ جو خود “دہشتگردی کو ریاستی پالیسی” کے طور پر استعمال کرتا ہے۔”
اب وقت ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ پاکستان سے اس کے آس دہرے معیار کا جواب طلب کرے۔ وگرنہ پاکستان “دہشتگردی کو ریاستی پالیسی” کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے دنیا کے امن و استحکام کو مزید تہہ و بالا کر دے گا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز