جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزکیا پاکستان کو یوگوسلاویہ کی طرح تقسیم کرنا چاہیے؟ تحریر:لارینس سیلن

کیا پاکستان کو یوگوسلاویہ کی طرح تقسیم کرنا چاہیے؟ تحریر:لارینس سیلن

جنگ عظیم دوئم کے بعد چھ ریاستوں کو ملا کر یوگوسلاویہ کا وفاق بنا دیا گیا اوراسکی اندرونی انتظامی ڈھانچہ نسلی او تاریخی بنیادوں پر رکھی گئی۔ جس میں بوسنیا اور ہرزیگوینا ، کروشیا ، میسیڈونیا، مونٹینیگرو، سربیا، سلوینیا اور سربیا کے دو خود امختار صوبے وئوودینااور کوسوو شامل تھے۔
 
یوگوسلاویہ کا وفاق کامیابی سے چلتا رہا جس کی وجہ تاحیات صدر جوزف بروز ٹیٹو کی مضبوظ لیڈرشپ تھی لیکن 1980میں اسکی وفات کے بعد وفاق کی کمزور مرکز بڑھتے ہوئے نسلی اور قوم پرستنہ شدد کو برداشت نہ کرسکی۔
اسی طرح پاکستان صحیح معنوں میں ایک ریاست یا ملک نہیں بلکہ ایک مصنوعی سیاسی وجود ہے جس کو برطانیہ نے ہندوستان کو تقسیم کر کے بنایا ۔ اسکی وجود اسلامی نظریے کے بنیاد پر رکھی گئی جن میں ایسے پانچ نسل اور قومیں شامل تھیں جنہوں نے پہلے کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی نہیں گزاری ، یہ نسلیں اور قومیں بنگالی، پنجابی،سندھی، پشتون اور بلوچ ہیں۔
 
ایسا کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ایک ملحد ( لا مذہب )تھے جو کہ ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ جسکا ذکر اس نے پاکستان بننے سے مخص چند دن پہلے ۱۱ اگست کو اپنی تقریر میں کیا لیکن ایک سال پہلے تک انہوں نے بے فکر ہو کر مسلمانوں کو ڈاریکٹ ایکشن لینے کو کہا جسکی وجہ سے مذہب کے نام پر فسادات اور خون خرابے کیے گئے ۔ سیاسی نفسیات دان اشیش نینڈے لکھتے ہیں کہ؛ جناح نے علماء کو ہمیشہ اپنے سے دور رکھا لیکن انکو بخوبی جنوبی ایشا کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کی حصول کے لیے استعمال کرنے کے خوہشمند تھے۔
پاکستان اپنی وجود کے دن سے ہی کچھ اصولوں کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ جیسے کہ پنجابی نسلی برتری ، بھارت سے خوف، فوج کا سیاست پر گرفت ، نسلی ہم آہنگی میں کمی اور اسلام کو بطور ایک داخلی اور بینالاقوامی پالیسی کے طور پر استعمال کرنا۔پاکستان کی اسلام کے علاوہ اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں اس وقت ناکام رہا جب 1950 کی دہائی میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام جو کہ اکثریت میں تھے سیاسی بے چینی کا سکار ہوئے ۔ اس مسلے نے 1971 میں ایک خون خوارتنازعہ اختیار کیا اور مشرقی پاکستان نے بنگلا دیش بنا پر مغربی پاکستان سے آزاد حاصل کی ۔کراچی اور اسکے گردونواح کے علاقے مقامی باشندے سندھی اور تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرنے والے مہاجروں کے درمیان ہمیشہ سے ایک میدان ِجنگ بنا ہوا ہے۔
 
بلوچستان جو پاکستان کا سب سے بڑا حصہ ہے اس نے کبھی بھی پاکستان میں شامل ہونیکی حمایت نہیں کی مگر پاکستان کی فوج نےحملہ کر کے زبردستی اس کا الحاق کیا۔ بلوچستان جو پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے اس کی سرحدیں افغانستان ،ایران اور جنوب میں بحیراہ عرب سے ملتی ہیں ۔بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود سب سے غریب ترین خطہ ہے۔ جسکی آبادی بہت غربت اور مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہے جو بجلی اور صاف پانی جیسے بنیادی انسانی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
پاکستان ، بلوچستان کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہا ہے ۔ بلوچ عوام کے فیصلے کے بغیر ان کی زمین پر ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ بلوچستان پر کئی دہائیوں سے فوجی جاریت اور ظلم کیا جارہا ہے تاکہ بلوچستان ہمیشہ کے لیے پاکستان کی ایک کالونی ہی رہئے۔
پاکستان نے نسلی اور قومی اختلافات کوختم کرنے کے لیے ہمیشہ طاقت کا استعمال کیا جس کی وجہ سے صوبائی سطح پر اختلافات نے جنم کیا اور علیحدگی کی تحریکوں نے شدت پکڑی۔ اس کی وجہ پاکستان کی بنیادی ریاستی پالیساں ہیں جن پروہ روز اول سے عمل پیراں ہے جن میں پنجابی نسلی برتری، انڈیا سے بلا جواز خوف، فوج کا سیاست پر حاوی ہونا اور خطے میں اپنا اثرو رسوخ بھڑانے کے لیے اسلامی شدت پسندی کو بھڑاوا دینا شامل ہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان جان بوجھ کر اور براہ راست افغانستان میں امریکی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے اسی لیے ہمیں اب کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی لانی ہوگی ۔ اس خطے کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی امریکہ سمیت پورے جنوبی ایشیا کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
 
نوٹ : لارینس سیلن امریکی فوج کے سابقہ کرنل ہیں جو کہ افغانستان میں امریکی فوج کے سنڑل کمانڈ میں تعنات رہے ہیں اور عراق جنگ میں بھی انہوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز