پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزگندی سیاست کے گندے انڈے،تحریر:داد شاہ بلوچ

گندی سیاست کے گندے انڈے،تحریر:داد شاہ بلوچ

سیاست برائے سیاست جہاں گندگی کی ڈھیر سے اٹی پڑی ہے وہیں اسکی بدنما دھبے نسلوں کی زندگیاں اجیرن کرتی رہینگی، نسل در نسل آج کے باقیات کل تک اور کل کے باقیات مستقبل کے کل تک اس طرح سے یہ سائیکل چلتا رہیگا کیونکہ سیاست جب گندی ہوجائے تو اجتماعی سوچ کی پراگندگی میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی، ہر چیز کامیابی و ناکامی کے وقتی پیمانے میں ناپی جائے گی، لوگ بھیڑچال میں پھنس جاتے ہیں اور فیصلے کرنے والے لوگ ہر طرح کی من چاہے عمل کرکے اسکا داد وصول کرتے ہیں، چونکہ فیصلہ کرنے کا کماحقہ معدودے چند لوگوں کے ہر کسی میں نہیں ہوتا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور فیصلے عموماً انہی لوگوں کی طرف سے آتے اور مسلط کئیے جاتے ہیں جو کہ اس گندی سیاست کے سرغنہ ہیں، جو کہ واک اور اختیار کل ہیں، گندی سیاست چونکہ اخلاقی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی اسی لئیے اسے برقرار رکھنے کے لیے قوت کا ہونا لازم ہے، اور قوت ہر اس طبقے پر آزمائی جائے گی جو کہ ان کے فیصلوں کی توثیق نہیں کرتا یا انکے من مانیوں پر آواز بلند کرتا ہے، کسی بھی اصولوں سے بھاگی ہوئی گروہ کو لیکر یہ لوگ اپنی اجتماعات میں سروں کی تعداد کو ہمیشہ استعدادی صلاحیتوں کے سامنے کھڑے کرتے ہیں اور سیاسی و اخلاقی حیثیت کے کمزور پڑجانے کی صورت وہ ہر سیاسی سماجی و انتظامی شئے کو طاقت کی محور کے گرد گھوماتے ہوئے اس کو طاقتور گروہوں کی باندھی بنا دیتے ہیں.

طاقت کی حصول اس طرز سیاست میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے تاکہ اپنی کسی بھی طرح کی بات، پالیسی، طریقہ کار اور انداز عمل کو منوایا جا سکے، بلوچ سیاست میں اس طرح کے کئی نظیر ماضی قریب و بعید میں موجود ہیں، ایسے دسیوں مثالیں موجود ہیں جہاں طاقت کی حصول اور اسے برقرار رکھنے کی خاطر طرح طرح کی ریشہ دوانیوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے اور یہ گھناؤنا عمل آج بھی جاری ہے، پسے ہوئے طبقات اور مقبوضہ معاشروں میں اس طرح کی مثالیں تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں، گندی. سیاست کے ان مرشدوں کے ہر فیصلے کے پیچھے ایک مقصد کار فرما پوتی ہے کہ اپنی ماتحت لوگوں پر کس طرح کنٹرول برقرار رکھا جائے اور اپنی قوت کو کس طرح مزید توسیع دیا جائے اور ایک مضبوط قوت کے علاوہ یہ چیز ممکن نہیں، باقی سب چیزیں ثانوی حیثیت میں رہینگی، یہ سوچے سمجھے اور باقاعدہ منصوبے کے تحت اس سیاسی عمل کو پروان چڑھاتے ہیں جہاں پاور پالیٹکس بالفاظ دیگر سیاسی قوت کا کھیل اپنی زوروں پر ہوگی، اب ان سے یہ امید کہ انکے سوچ و نیت کے برعکس انکے فیصلے احسن ہونگے بذات خود کم عقلی ہے کیونکہ کوئی بھی فیصلہ انسان کی نیت اور بنیادی مقصد کی عکاس ہوتی ہے، وہ اپنی ہر بات کو تولنے اور بولنے کی فلسفے اور ہر کام کو نتائج کے بنیاد پر دیکھنے کے بر عکس ہر عمل اور ہر کردار کو ایک قبول عام کا درجہ دیکر پیش کرتے ہیں، کیا چیز پاپولر ہے، پاپولر پالیٹکس گو کہ الگ باب ہے لیکن پاور پالیٹکس میں اسکا بنیادی کردار ہے یعنی ویسے فیصلے اور وہی عمل کرنے اور کروانے ہیں جو کہ مشہور عام ہوں اور آسانی سے لوگوں کی دل میں قبول عام ہوجائیں، مقصد گئی تیل لینے، یہ نہیں سوچا اور دیکھا جاتا کہ کسی عمل کے دوران یا نتیجتاً نفع نقصان کا نتاسب کیا رہا ہے بلکہ سب سے پہلی چیز یہی ہوتی ہے کہ اسکو کس طرح اپنی سیاست چمکانے کو استعمال کیا جائے، اوریہی انکی زندگی اور سیاست کا حاصل وصول ہے، بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ہر اس عمل کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کریں کہ جس کہ. سر زد نہ ہونے سے ایک پوری عمل یا مکمل دورانیہ کئی زاویے اور انداز کے نقصانات سے بچ جاتا، لیکن انکو معلوم ہے کہ نفع و نقصان کے تناسب کا علم کوئی دو اور دو چار کی کلیے کی طرح سادہ اور سہل نہیں کہ جو عام آدمی کی سمجھ میں آسانی سے آجائے، لہذا وہ اسی پیچیدگیوں کی بنیاد پر اپنی پراگندہ سیاست کی گندے کھیل جاری رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، یہ امید لگائے رکھنا کہ لوگ سیاست کی باریکیوں کو سمجھ کر انہیں رد کردیں گے بالکل عبس ہے، کیونکہ لوگوں کو چیدہ چیدہ واقعات اور ان سے جڑے پیچیدہ و گنجلک حقائق کو سہل بنا کر نہ سمجھایا جائے تو گندی سیاست ہی باقی سارے موجود خلا کو پر کردیگی اور وہی سیاست ہی بس سیاست کہلائی جائی گی، سرمایہ دارانہ نظام سیاست و دولت میں جو قبیح رسم رائج ہے اور اسی رسم کی بنیاد پر سرمایہ داری نظام کی سانسیں چلتی ہیں وہ بے حسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، ہر چیز سے بے نیاز اور بے حس ہوکر اپنی مفادات کو تحفظ دینا، لوگوں کو گھیر گھار کے ان سے پیسے نکلوانا، زہنوں سے کھیل کر لوگوں کو راغب کرنا، میڈیا ھاوسز کو بھاری بھرکم اشتہارات دیکر دو آنے کی چیز دو روپے میں بیچنا، اور بھی کئی سطح و انداز کی موشگافیاں ہیں جو سرمایہ دارانہ طرز کاروبار کی بنیاد ہیں، اور یہاں مروجہ گندی سیاسی عمل میں بھی بے حسی، لاشعوری، کم علمی، منافقت، دروغ گوئی اور سادگی کو غنیمت سمجھ کر اسے مزید گہرا کرنے کی سعی کی جاتی ہے، چونکہ علم و فہم و فراست سے انسان سماجی و سیاسی ماحول میں جنم لینے والی تضادات کو سمجھ کر اپنے لئیے راہ نکالنے کی جتن کرتا ہے اور سیاسی و. سماجی تضادات سے ابھرتی ہوئی نتائج جب میرے وجود کے لیے لازم و ملزوم ہوں تو کیا مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں لوگوں کو باشعور بناکر اپنے ہی وجود کو ختم کرنے کی راہ پر چل پڑوں اور اپنی بنیادوں کی بیخ کنی کردوں، ظاہر سی بات ہے کہ میں لوگوں تک وہی پہنچاؤں گا جو آگے چل کر میری مفادات کی ضامن بن جائے، اب غور کرو کہ کون سے ایسی گروہ ہیں جو اپنی مدار سے ہٹ کر سیاست کررہے ہیں.

بلوچ سیاست میں خودشناسی کی علمی بنیادیں کیوں ابھی تک جڑ نہیں پکڑسکیں، کیا اس حوالے یہ دلیل کافی نہیں کہ اس چھوٹے سے عرصے میں ہم ابھی تک نصف درجن بار ٹوٹ کر درجن بھر کے قریب پارٹیوں میں بٹ گئے ہیں اور اصول و ضوابط کا یہ حال ہے کہ کسی کو جوابدہ ٹہراو تو وہ بھاگ کر کسی اور تنظیم کے ہاں پناہ لے لیتا ہے یا اسکی ایما پر جوابدہی سے انکار کا رستہ اپناتا ہے، ان سب کمزوریوں کے ہوتے کیوں ابھی تک نعرے بازی و ہلڑبازیوں سمیت بیانات کی بھڑک بازیوں تک سب چیزیں محدود ہیں، کوئی تو توجیہہ ہوگی، کچھ تو اسباب و علل ہونگے کہ جن کو نظرانداز کردیا گیا ہے، آیا ایک غلطی کو بار بار دہرانے سے کیا وہ غلطی کہلانے کی حقدار رہیگی یا وہ ایک فیصلے کی حیثیت سے یاد رکھی جائیگی، آیا ایک پالیسی پروسس کے ناکامی اور اسکے بعد پھر سے اسکی ناکامی اور تسلسل کے ساتھ بے ثمر رہنے کے بعد اس سے جڑے رہنے کا عمل دانشمندی ہوگی، ہر مسئلے پر بیان بازی، ہر مسئلے پر احتجاج اور ہر دوسرے مسئلے کے بعد لائحہ عمل اور پالیسز، کسی بھی چیز میں تسلسل نہیں ماسوائے کوتاہیاں کرنے کے، یہی وہ واحد چیز ہے جسمیں ہم ایک تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوچکے، کوتاہیوں کی تسلسل، سیاسی تنظیموں کی بد نظمی کا عالم اور ستم بالائے ستم یہ کہ ایک ایشو ابھی تک لائحہ عمل اور پالیسیوں کی تسلسل کی تشنگی سے سیراب نہیں ہوجاتا کہ کسی اور مگر یکساں نوعیت کے مسئلے پر ایک اور لائحہ عمل یا پالیسی کا اعلان کرکے پچھلے کو ایسے بھلا دیا جاتا ہے کہ شاید کوئی پالیسی تھی ہی نہیں، چیزوں کو منطقی انجام تک پہنچائے بنا دوسری چیزوں میں کود پڑنے کا رواج اور پھر سب کے سب نئی پروسس اور مسئلے میں لگ جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد ایک اور واقعہ ہوجاتا ہے اور پچھلے پالیسیوں کو پیچے چھوڑنے کی تسلسل برقرار رہتی ہے، پھر ایک نیا بیان اسی پالیسی کے ساتھ کسی دوسرے عمل کے لئے، بندہ پوچھے تو کہ ابھی تک ایک بھی پالیسی کامیاب نہیں ہوئی تو اس بار کس طرح سے یہی پالیسی یکساں انداز کے ساتھ کامیاب رہیگی، جتنے لاپتہ افراد تھے سیاسی تنظیموں و پارٹیوں سے وابستہ لوگ ان کے لیے ہونے والے احتجاجی عمل کی تسلسل کو جانچ لیں تو اندازہ ہوجائے گا، بھوک ہڑتالوں کی تاریخ دیکھ لیں سوائے چند تعریفی جملوں اور کچھ چہروں کی پذیرائی کے علاوہ حاصل وصول کیا ہے، ہر بار اقوام متحدہ کی حضور سجدہ ریزی، ہر بار پریس کلبوں پر نعرہ و ہلڑبازی، ہر بار بلوچستان کے عوام کی معاشی ناکہ بندی اور ہر بار کی طرح اخباری بیانات، یہ سب کہیں نہ کہیں ہورہا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا اور پھر تیسرا واقع ہوجاتا ہے اور تنظیم و پارٹی پرانے کو چھوڑکر نئے کی طرف لپک جاتے ہیں، نئی ذائقہ اور نئی ناموں کے ساتھ اور لوگوں کو پھر سے ایک نئی مگر مصنوعی جوش و جذبے کی بنیاد پر متحرک رکھتے ہیں، اس امید پر کہ کل کوئی اور شہید ہوجائے گا کوئی اور پسگ زینت زندان بن جائے گا کوئی اور بہن بیٹی اٹھا لی جائے گی، یعنی دوکان چلتی رہے گی بس، چونکہ ہمدردیاں ہیں، بلوچ جہدکار ہیں غائب ہوجاتے ہیں، قابض کے خلاف نفرت کا اظہار فطری ٹہر جاتا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، لیکن ہمدردیوں کو سیاسی قد کاٹ بڑھانے کے لیے کیش کرنے کی نفسیات اپنے عروج پر ہے، اگر سوچا اور دیکھا جائے تو نہ اقوام متحدہ نے ایک بلوچ کی بازیابی کو یقینی بنایا نہ کبھی آپکی بات سنی، نہ کبھی آپکی احتجاج سے کوئی ایک بھی شخص بازیاب ہوکر گھر کو پہنچا، اور نہ ہی آپکی تنظیمی و پارٹی پالیسیوں کی تسلسل برقرار رہی، ہر نئے مسئلے پر پرانے کو داخل دفتر کرتے رہنے کی نفسیات اپنی جگی آج تک برقرار ہے، کیوں، کیونکہ یہ مردہ وجود کو زندہ رکھنے کی ایندھن فراہم کرتی رہیگی، کبھی سوچیں تو سہی کہ اگر ہڑتال، غریب و پوریاگر کی معاشی ناکہ بندی، اجتجاج و نعرہ بازی پھڑک بازیاں نہ ہوتیں تو ان پارٹیوں کا کام کیا رہتا اس پورے عمل کے دوران،لیکن سوچئے مت کیونکہ سوچ شعور کی جنم بومی ہے اور یہ جنم بومی بہت سوں کی سیاسی قبرستان بنے نہ بنے لیکن سوچنے والوں کی ضرور بن جائے گی.

ہر نقصان پر اور ہر حادثے کو لیکر اسے انقلابی عمل کی ناگزیریت سے جوڑنا کہاں کی عقل مندی ہے، انقلاب آپ سے آپ کا سب کچھ مانگتا ہے، سب کچھ مطلب سب کچھ، لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں یا تنظیموں و پارٹیوں کی نرالے منطق بہت ہی عجیب ہے جہاں انقلاب آپ سے آپ کا سب کچھ لے لیتا ہے تو وہیں آپکا دماغ، شعور، سوچنے کی صلاحیت بھی تو لے لیتاہے، اگر آپ اپنے جسم و اعصاب کو انقلابی عمل کے لیے دھان کررہے ہو تو وہیں عقل کی استعمال میں کیا قباحت ہے، نقصانات یا پے در پے ایک ہی قسم کے حادثات سے دوچار ہونے کا عمل عقلمندی و انقلابی دانشمندی کے زمرے میں آتا ہے کیا؟ جب تک آپ کے نقصانات کم اور دشمن کے زیادہ نہیں ہونگے تو کیسے آپ اسے شکست دوچار کریں گے، لیکن یہ سب باتیں گندی سیاست کے باباؤں کی مقصدیت سے میل نہیں کھاتے سو یہ باتیں قابل گردن زدنی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہر ہونے والے نقصان کے بعد دشمن کے ارادے اور مضبوط ہونگے، ہمارے ہر بحران کے بعد دشمن کے اعصاب زیادہ قوی ہونگے اور ہمارے ساتھ تواتر کے ساتھ پیش آنے والے حادثات دشمن کو مزید پرعزم بنائیں گے، ویسے قابض و مقبوضہ کے. درمیان جنگ ہتھیاروں کی نہیں اعصاب کی ہوتی ہے، قوت کی نہیں عزم کی ہوتی ہے، کبھی تو مارنے اور چھپ جانے کی صلاحیت کمزور قوموں کی ہتھیار ہوا کرتے تھے لیکن یہاں تو منطق ہی الٹ ہے، اور یہ جنگ برابری کی نہیں بلکہ دشمن کے مقابلے اپنی کمزوری کو مان کر چھاپہ مار انداز کی ہوتی ہے، تو یہاں دیکھنے سے تعلق رکھنے والی بات یہی ہے کہ کیا مندرجہ بالا باتوں میں کسی ایک کی جانب مثبت اشارے ملتے ہیں یا پھر ہر سطح پر معاملہ اسکا الٹ ہے، بالکل الٹ ہے کیونکہ ہم دشمن کو تھکا نہیں رہے بلکہ آسان اہداف بن رہے ہیں، دشمن کی جگہ ہم خود تھکے جارہے ہیں، وہ جب چاہے جہاں چاہے ہمیں اٹھا لے اور مار کہ پھینک دے، اور ہم اس سے سیکھنے کے بجائے اس چیز کو قربانی قرار دے کر من ہی من طرم خان بنے پھرتے ہیں، ہم اتنی آسانی دستیاب ہیں کہ دشمن ہماری اس دستیابی پر خود رشک کرتی ہوگی اور اس پر طرہ یہ کہ ہماری طرم خانیاں ہیں کہ ختم نہیں ہوتیں، ہر گرتی لاش ہمارے لئیے باعث فخر ہے اور ہونی بھی چاہئے، لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ لاش گرنے کہ اسباب بھی ہمارے اس تفاخرانہ مسکراہٹ کے حصہ ہیں، یہی غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کی سمندر ہے جو اس بحران کا اصل بنیاد ہے.

جب تک کوئی گندگی کو گندگی تسلیم ہی نہ کرے تو اسکو ختم کرنے کا سوچنا پاگل پن ہے، اسی طرح اس گندی سیاست کے کرتا دھرتا اپنی وجود کو برقرار رکھنے کی خاطر اصولوں آدرشوں اور ارمانوں کی بھلی چڑھاتے جائیں گے، اور وہ اس بات کو جب تسلیم ہی نہیں کریں گے کہ ہم سے کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو وہ اپنی انداز و ترتیب کو تبدیل بھی نہیں کریں گے، تبدیلی کے لئے تسلیم کرنا اولیں قدم ہے، لہذا یہاں تبدیلی کی اس چھوٹے دورانیے میں کوئی امکان نہیں، بلوچ اسی طرح اس گندی سیاست کے بھینٹ چڑھتے رہیں گے اور اس گندی سیاست کے کرتا دھرتا عوام کو اس عقیدے پر راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بیان بازی و بھڑک بازی بھی ایک سیاست ہے، نعرہ بازی و ہلڑبازی کی سیاست عین عبادت جیسا ہے، اور سب سے بڑی بات کہ وہ خالص سرمایہ دارانہ طرز کاروبار کی طرح عوام میں بہت سے لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ انقلاب خون بچا کر جد و جہد کرنے کا نام نہیں بلکہ خون کی ندیاں بہا کر اور روز روز زندانوں کی زینت بن جانے کا نام ہے، اور چھوٹی پیکٹ بڑی دھمال کی طرح یہ لوگ اپنی باتوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ بیچ بھی رہے ہیں، اس بات پر کوئی بات کرنے کا روادار نہیں کہ اس چھوٹے اور قلیل عرصے میں اتنے بڑی تعداد( تعداد بحوالہ تناسب) میں لوگوں کا ریاست کے ہتھے چڑھ جانا بذات خود ایک بھاری بھرکم نقصان ہے( شہداء و گمشدہ مجموعی)، اس پر کوئی بحث نہیں کوئی بات نہیں کسی قسم کا کوئی بھی پریشانی نہیں، اور عام لوگوں کو زیادہ تر مسلسل حادثوں کے زد پہ رکھا ہوا ہے، انہیں سوچنے نہ دینے کا یہ ایک بہت ہی بڑا شاطرانہ منصوبہ ہے جو کسی کو شاید سمجھ نہیں آ رہی، ہم سوچتے کیوں نہیں کہ کل جو زمہ داری ادا کرنی تھی وہ آج کے ہونے والے حادثے کی نظر کیوں ہوئی جا رہی ہے، ایسی کتنی زمہ داریاں ہیں جو ہم ہر نئے حادثے کی گرداب میں پھینک کر بھول جاتے ہیں اور ایک نئی ذمہ داری کی طرف لپک جاتے ہیں، کسی حقیقی سیاسی تنظیم کا کام زہنوں کی تعلیم و تربیت ہے، عوام کو سمجھانے اور تحریک کو بنیادیں فراہم کرنے کا زمہ ہے، مگر ان عام لوگوں کو تو تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی دھار میں ہر طرح سے پھنسایا گیا ہے اور وہ انہی واقعات سے متعلق اورانکے گرد گھومتی سیاست کو قومی سیاست سمجھ چکے ہیں، اور مزید براں یہ کہ ان کی اس سیاسی نالائقی کو اگر حقیقت کی ترازو میں رکھنے کی کوشش کرتے حق و سچ کی میزان کو وزن میں رکھنے کی کوشش کی جائے تو سب برس پڑتے ہیں کہ شرم کر جس پر انگلی اٹھا رہے ہو، انکا بیٹا شہید ہے انکی بیوی غائب ہے، بچے جنگ کی وجہ سے یتیم ہیں، اسکا بھائی زنداں میں ہے ہمارا لیڈر مقید ہے اسکے بچے آل. و عیال سمیت اغواء ہوئے ہیں، انکی بہن کو اٹھایا ہے، لیکن کیا اس چیز کا اور دشمن کی ان نیچ حرکتوں کا کسی کو اول دن سے اندازہ نہیں تھا، جہاں قومی تحریک سے جڑی قربانیوں کو بطور رشوت پیش کرنے کی کوششیں ہوتی ہوں پھر وہ گندی سیاست نہیں تو اور کیا ہے.

سب سے پہلی سیاسی درس جب یہی دیا جاتا ہے کہ “یہ انقلاب ہے اور یہاں کم ظرف کا ٹک جانا مشکل ہے” ڈاکٹر چی کا یہ قول ہی اس بات کا دلیل ہے کہ ٹک جانا ہے، ٹہر جانا ہے، عمل سے جڑ کر، مقصدیت سے نتھی ہوکر، ایسے میں تو مقبوضہ زمین پر ہزاروں قسم کی قیامتیں گرتی رہی ہیں اور گرتی رہیں گی لیکن اپنے مقصد سے سر مو انحراف کرنا یا ہٹنا نہیں ہے، دشمن کی ہر چال آپکو آپکے مقصد سے ہٹانے کے لیے ہے، وہ چاہتے ہیں کہ آپ دستبردار ہو جائیں، اور ہم ہیں کہ کسی بھی واقع کے بعد مقصدیت کی تسلسل کو چھوڑ کر جٹ جاتے ہیں دشمن کے عارضی چالوں کے خلاف شور و شرابا کرنے اور ہنگامہ مچانے اور اصل بنیادی مقصد اسی شور میں دب سی جاتی ہے، آج تک کوئی بھی شور شرابا کامیابی نہ حاصل کر سکا اور نہ اقوام متحدہ نے اس طرف نظر کرم کی، لیکن لوگ ہیں کہ مگن ہیں اپنے دھن اور اپنی شور و غوغا میں، یہ بات ضرور ہے کہ کم از کم اس گندی سیاست کے باوا آدم اور بی بی ہوا تو اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ اس تمام شور و شرابوں اور ہنگاموں سے ہونا تو کچھ نہیں بس تصویریں زندہ رہینگی، پروجیکشن ملتا رہیگا، اور اندھے کو اسکے علاوہ اور کیا چاہئیں بس دو آنکھیں باقی اللہ اللہ خیر صلہ، زرا غور تو کیجیے کہ ان ہنگامہ شوروغل اور مقصدیت سے عاری احتجاج و ہڑتالوں کو نکال. کر ان کے جھولی میں اور بچتا کیا ہے، یہی وہ چیز ہے جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، گو کہ یہ تمام حربے قابل استعمال ہیں لیکن نتائج سے جڑ جانا لازم ہے، اور جب تک گندی سیاست کے گندے انڈوں سے پھوٹنے والی اس خراباتی سوچ کو سمجھیں گے نہیں تب تک آپ کو جذباتی بنیادوں پر ہر چیز غلط محسوس ہوگی، چونکہ ہمارے زہن پہلے سے بھرے ہوئے ہیں ہم یقین کامل میں مبتلا ہیں کہ یہاں کسی سے کوئی غلطی کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی اور جتنے ہیں سب فرشتے ہیں، سو ہم سوچیں گے کیا، سوچنے کے لیے پہلے یہ امکان دل میں رکھنا لازم ہے کہ ہر انسان سے کوتاہی سرزد ہونے کی گنجائش ہما وقت موجود ہے لیکن انسان کو جب فرشتے کا درجہ دیا جائے اور لیڈروں سے رہنمائی لینے کے بجائے انکی پوجا کی جائے تو ایسے ہی حالات ہونگے جو ابھی بلوچ آزادی پسند سیاسی حلقوں کو درپیش ہیں.

ہر چیز کی اپنی ہی کچھ اصول، ضوابط، انداز، طور طریقے اور ضروریات و محدودات ہوتے ہیں، سیاست اور جنگ تو خیر بہت ہی بڑی اور پیچیدہ عوامل ہیں انسانی زندگی میں عام باتوں اور فعل کے بھی اسی طرح حدود و قیود ہیں، ان سے ہٹ کر وہ مقصد کبھی بھی خاصل نہیں کی جاسکتی، بلوچ سیاست اور بشمول سماج میں رہنے والے لوگوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہر چمکتی ہوئی شئے سونا نہیں ہوتا، ہر بات اور ہر عمل پر اور اسکے مبینہ نتائج و خلاصے پر غور کرنا لازم ہے، بلکہ گندی سیاست کرنا اور اسکے بنیاد پر اپنی سیاست چمکانا نہایت آسان ہے لیکن اسی سیاست کی پھر مستقبل میں جاکر بیخ کنی سب سے مشکل کام ہے، آج کے ہونے والے فیصلے اور اعمال کی نوعیت کل کی آنے والی جد و جہد کی تجربات ہونگے، اور وہ تجربات کتنے تلخ ہونگے اور کتنے شیرین، اس پر آج ہی سوچ و بچار کی ضرورت ہے، آنے والی کل کی تاسف سے بہتر ہے آج ہی اس بارے کچھ فکر کیا جائے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز