جمعه, مارس 29, 2024
Homeآرٹیکلزگوریلا جنگی اصول اور بلوچ قومی جہد تحریر:رستم بلوچ

گوریلا جنگی اصول اور بلوچ قومی جہد تحریر:رستم بلوچ

ماؤ نے کہا کہ گوریلا جنگ کی پہلی اور خاص اصول ہے کہ وہ خود کو سالم رکھتے ہوئے دشمن کو تباہ کریں گوریلا اوتاک ایسے ہوں کہ جہاں کوئی بھی مخالف داخل نہ ہو سکے اگر داخل ہوئے تو انھیں پکڑنے کی کوشش ہونی چاہئے۔کیوبا کی جنگ سے ظاہر ہوا کہ مشہورہردل عزیز اور مقبول عام، قوت اورفورس طاقتور اور مضبوط دشمن کو شکست دے سکتا ہے لوگوں کی حمایت کے حامل گوریلا فوج اپنے سے منظم بڑی فوج کو شکست دے سکتا ہے الجزائر ویت نام میں کہا گیا کہ گوریلا جنگ عوامی جنگ ہے اور عوام ہی سے نکلا ہے گوریلا فرقہ جماعت مسلح کا قلب یا کہ مرکز ہے اور یہ عوام اور لوگوں کا ہر اول دستہ ہے جو لوگوں کے ساتھ ملا ہوا ہے اور انکی خاطر لڑتا ہے اور انکے دکھ درد تکلیف اسکے دکھ درد تکلیف ہوتے ہیں ،گوریلا فوج کی کچھ خصوصیات ہوتے ہیں ہم نواحی ،لیڈر کا احترام کرنے والا ،بہادری شجاعت ،اپنے گراؤنڈ کا علم اور علاقائی و بین الاقوامی حالات سے آگائی بہتریں حکمت عملی اپنانانے کا فن جانے والے کو کہتے ہیں،سوال ہے کہ گوریلا کیوں لڑتا ہے کس کے لئے لڑتا ہے وہ تو اپنی زندگی قربان کرتا ہے ،پھر کس کے لئے لڑتا ہے قوم کے لئے لوگوں کے لئے ایک اچھے سماج کے لئے وہ مظلوم عوام کی آواز بن کر ظالم کے خلاف لڑتا ہے وہ محکوم کی نمائندہ ہوکر لڑتا ہے اسکے احساسات کی ترجمانی کرنے والا ہوتا ہے۔کمونسٹ سوشلسٹ ایک ملک کے اندر انقلاب برپا کرنے والے سماجی تبدیلی کے لیے لڑتے ہیں ا نکا مشن سماج کی تبدیلی ہوتا ہے جیسے روس، چین ،کیوبا،فرانس،ایران ،انقلابی تحریکوں میں ہوا تھا۔ مثال کے طور پر چین میں جنوب کے ورکر گروپ کی پسماندگی غربت انکے انقلاب کی واجہ اور ایندھن بنے پھر ینین کا لانگ مارچ شروع ہوا جبکہ ویت نام کا انقلاب چاول کاشت کرنے والے کسانوں کی وجہ سے ہوا اور اسکے اول دستے یہی تھے کیونکہ ان پر فرنچ جبر کرتے تھے جبکہ الجزائر میں قبضہ کی بنیاد اور لوگوں کا اسکے خلاف اٹھنے کی وجہ انکے زمین پر نوآبادکاروں کا قبضہ اور انکا استحصال تھا انکے علاقوں میں انکی وسیع پیمانے پر آبادکاری نے الجزائر کے لوگوں کے جذبات ابھارے ،کیوبا میں مزدور کسان اور غلاموں پر ناانصافی نے انھیں جہد کی طرف مائل کیا عوام کی طاقت پر ہر سرمچار کا انحصار ہوتا ہے۔ طاقتور دشمن ہمیں شکست نہیں دے سکتا ہے ہر انقلابی کا بلا مناشبہ اور یقینی سچائی ہوتا ہے اسکے بغیر کوئی انقلابی گوریلا ہو ہی نہیں سکتا ہے دشمن کا قوم اور لوگوں کو شکست دینا ہوہی نہیں سکتا ہے کوئی بھی بڑے سے بڑا دشمن قوم کو شکست نہیں دے سکتا ہے اور اگر گوریلا کے پیچھے عوام قوم لوگ ہوں تو اسے کون شکست دے سکتا ہے یہی چیز تمام گوریلا جنگ کی کامیابی اور ناکامیابی کا وجہ بنے جنہوں نے عوامی طاقت قوت کو سمجھا اور اسے اپنے ساتھ کیا وہ تحریک چاہے کمیونسٹ چین ،کیوبا،روس کی تھی یا نیشنلسٹ ویت نام ،الجزائر کی کامیاب ہوئے۔کمیونسٹ تحریک کی فطرت قومی تحریک کی فطرت سے الگ تلگ ہے اسے کچھ لوگ گڈ مڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ صحیح عمل نہیں ہے کیونکہ قومی تحریک میں نیشنلزم نظریہ ہوتا ہے اور اس میں قومی ہیروز کردار داستان ،تاریخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی کی تشریح اور تجزیہ کے لیے معاشرتی علوم میں تین طریقے دیے گئے ہیں۔ ا) انسٹرومنتلسٹ، ۲) ھیتنو سیمبولسم، ۳) پریموردیلسٹ۔
انسٹرومنتلسٹ کہتے ہیں کہ قوم پرستی دراصل فرانسیسی انقلاب سے پہلے وجود نہیں رکھتی تھی، یہ نظریہ قوم پرستی کی عروج کو اشرافیہ نے فقط طاقت حاصل کرنے کے لیے ایجاد کیا اور شروع میں اس کا تعلق عوام یا قومی مفاد سے نہیں ہے۔
ھتنو سیمبولسم ،انسٹرومنتلسٹ کا الٹ ہے، یہ کہتا ہے فرانسیسی انقلاب سے ہزاروں سال پہلے قوم پرستی تھی، اور قوم پرستی میں سمبل یعنی قومی نشانیوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور یہی قوم پرستی کی بنیاد ہے جہاں قومی دانشور ، اہل علم اور اپنی قوم سے محبت کرنے والے لوگ کردار ادا کرتے ہیں۔ ھتنو سیمبولسم کہتی ہے یہاں پر قوم پرستی کا مطلب قوم کی حفاظت اور اسکے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے۔جیسے موسی کو بھی قوم پرست کہا جاتا ہے جو یہودی قوم کا بانی ہے جس نے انھیں فرعون کی ظلم سے نجات دلایا اور انکی رہبری کی
پریموردیلسٹ کہتا ہے، قوم پرستی نسل اور خون کے حساب سے ہے یہ نظریہ مشترکہ ثقافت ، وطن سے زیادہ نسلی تعلقات کو دیتا ہے، جیسے کہ نازی جرمنی میں ہوا تھا۔کیا بلوچ قومی تحریک کمیونزم سوشلزم کے لئے ہے یا کے قوم پرستی کے لیے اگر قوم پرستی کے لیے ہے تو اس میں اونچ نیچ امیر غریب ،سرمایہ دار جاگیر دار اور یہ طبقات کہاں سے آئے۔سماجی تبدیلی کا نعرہ کس کی بلوچ تحریک میں ایجاد ہے اور کس کا ایجنڈا ہے۔دوسرابلوچ تحریک کی اسکی نیشنلزم کے حوالے سے اور انسٹرامنلسٹ کو بلوچ نیشنلزم سے نکالنے کے لیے اسکے قومی ہیروز اور تاریخ سے انکار لوگ بھی نا سمجھی سے روح کو جدا کر رہے ہیں بلوچ قوم پرستی کی بنیاد حمل جہیند ،نصیر خان نوری وغیرہ ہیں ان سے انکاری انھیں داغدار بنانا کہ نصیر خان نوری نے مکران پر اپنی قومی ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے حملہ کیا اسے برادر کشی کہنا آیا اپنے اس وقت کے ارد گرد کے ماحول سے عدم واقفیت تو نہیں ہے اس وقت کیا چین یورپ سنٹرل ایشیا میں حکمران اور انڈیا میں حکمران اپنی ریاستی رٹ اور باؤنڈری کی بحالی کے لئے اسی طرح یلغار نہیں کر رہے تھے جس طرح نصیر خان نے کیا تو کیا وہ اپنی باؤنڈری بچانے والوں کو کیا کہتے ہیں ولن یا ہیرو۔وہ تو اپنی نیشنلزم کی ابھار کی خاطر انھیں اپنا قومی ہیروز کہتے ہیں اور انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ہم ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں تو پاکستانی اور قابض کے پروپیگنڈے اور انسٹرومنٹلسٹ قوم پرستی کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں۔آزادی سے پہلے یہ ہیروز ، ان کی تاریخ جیسے کہ نوری نصیر خان کا بلوچستان ہماری قوم پرستی کی شہ رگ اور روح ہے اور پاکستان کی کوشش ہے کہ انھیں متنازع اور نزاعی بنا کر نیشنلزم کی شدت کو کم کریں چین کے باوگنگ ،بن چاو،ڈے یاو،لین زیسو اورباقی جو پرانے چین کے ہیروز ہیں کیا ان لوگوں نے غلطیان نہیں کی ہیں فرانس کے ہیرو شارلیمار نے نصیر خان سے زیادہ اپنے علاقوں پر حملے کیے لیکن فرانس کے لوگ اسے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ہندستان یوررپ کے ہیروز نے کیا نصیر خان سے کم غلطیاں کی ہیں کہ آج وہ ممالک قوم پرستی کے غلامی کے دور کو عبور کرچکے ہیں انھیں قابض سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے لیکن وہ اپنے ہیروز کے مجسمے بنا کر ان پر نازاں ہیں اور ہم اپنے ہیروز کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور اس وقت کے قومی جہد کو قابض کی پروپیگنڈے نے بہت نقصان دیا ہوا ہے کیا ہم خود اپنی یاد داشت ،یادگار ہیروز ،تاریخ کو قابض کے تدبیر کا شکار ہوکر ھیتنو سمبلزم قوم پرستی کو کمزور کر رہے ہیں یا کہ مضبوط اگر ہماری قومی جہد جس ھیتنو سمبلزم پر تکیہ کیا ہو ہے اسے ہم کمزور کریں تو نیشنلزم کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بچا کیا ہے؟ اس پر بحث کی بھی گنجائش ہے۔جب جہد نیشنلزم اور قومی آزادی کے لئے ہے تو قوم عوام ،لوگ اہمیت کے حامل ہوئے۔ کیا اس وقت بلوچ گوریلا جنگ قومی مفادات اور گوریلا اصولوں کے تحت لڑی جارہی ہے ؟اگر اس پر صحیح تجزیہ کیا جاہے تو انقلاب قومی آزادی کے نام پر بی ایل ایف ،بی آر اے ،مذاق کر رہے ہیں اور قومی جنگ کو پاکستان کی عین خواہشات کے مطابق قوم کے خلاف لڑا جا رہا ہے اور اس میں بی ایل ایف اور بی آر اے کے کندھوں پر پاکستان اپنی جنگ قوم کے خلاف لڑ رہا ہے جہد کے مرکز محور اور اول دستہ عوام ہیں اس عوام کو ریاست نے ان کے زریعے پوری جہد سے بد زن کیا ہوا ہے کیوبا ویت نام چین الجزائر کی تحریک کو عوامی حمایت اور قابض کی انکے ساتھ نفرت کی وجہ سے کامیابی ملی جبکہ بلوچستان میں گوادر ،تربت پنجگور آواران میں قابض کے بجائے بی ایل ایف اور بی آر اے مسئلہ اور انکی تکالیف کا سبب ہے لوگوں کو قابض کا مخالف ہونا چاہے تھا لیکن انکی بدمعاشی چوری چکاری ،بے گناہوں کی متواتر قتل عام لوگوں کی عزت نفس کا مجروع کرنے کے عمل نے عوامی غم غصہ کا رخ پاکستان کے بجائے تحریک کی طرف کیا ہوا ہے یہ اب پوری بلوچ تحریک کے لیے ایک المیہ ہے اور ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔بی ایل ایف اور بی آر اے قومی آزادی کے پرچم تلے جہد کے نام پر یا کہ آزادی پسندوں کے مورچے سے آزادی پسند اور انکے حمایتوں پر یکے بعد دیگرے حملہ کرتے ہوئے انھیں جہد اورقومی پروگرام کامخالف بنا رہا ہے جس طرح پہلے نیشنل پارٹی بی این پی عوامی اور مینگل کرتے تھے لیکن وہ لوگ اتنے خطرناک اور بھیانک نہیں تھے کہ انکے پاس قومی بندوق نہیں تھی اور مکمل قومی کاز سے نہیں جڑے ہوئے تھے اور انکے خلاف واجہ صباء، غلام محمد ،بی ایس او بی این ایم نے جو مہم چلایا وہ قومی تحریک کو اتنا نقصان نہ دے سکے جتنا کہ یہ مڈل کلاس اور مختلف روپ دھار کر مقدس آزادی کے سلوگن کے تحت دے رہے ہیں۔وہ کام جو قابض دس سال نہ کر سکا یہ چار سال میں کرچکے ہیں۔بی ایل ایف کی قومی کاز اور عوامی حمایت اور لوگوں کی جہد کے ساتھ وابستگی کا انکے ریکارڈنگ سے ہوا کہ جو عام بلوچ زالبول عورتوں کو کس طرح یہ درندے صف اپنی چوری چکاری کے لیے بے عزت کرتے ہیں ان سے مزید توقع اور امید رکھنا کہ یہ جہد کو کسی منزل پہ لے جائیں گے ایسا ہے کہ کوئی بچہ اپنی دودھ جیسی دانتوں سے زمین کو کھینچے ،یہ ممکن ہے کہ زمین کو وہ اپنی دودھ کی دانتوں سے کھینچ سکتا ہے مگر قومی اور انقلابی گوریلا جنگ کو عوامی حمایت کے بغیر جیتنا مشکل اور نا ممکن ہے۔کیا بی ایل ایف بی آر اے اور باقی لوگ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اسکے پیچھے قابض کا ایجنڈا نہیں ہے کہ لوگ قومی آزادی کے نام سے بیزار ہو جائیں کل کو کوئی بھی اس سلوگن کے تحت کام کرنا بھی چاہے اس پر بھی اعتبا رنہ ہو صرف اور صرف بی ایل ایف اور بی آر اے کی وجہ سے کہ لوگ قابض کی طرح دیکھنے لگے۔کیا مجھے بی ایل ایف کے حمایتی بتا سکیں گے کہ کیوں شفیق مینگل جس نے پاکستان کی خاطر کہی نوجوان شہید کیے اور اسکا خاص بندہ تھا اسکے خلاف پاکستان نے کیونکر کارروائی کی اسکی وجہ کیا تھی کیونکہ شفیق نے بالکل بی ایل ایف کی طرح عمل کیا چوری اغوا برائے تاوان بسوں کو لوٹنا۔۔عورتوں کی بے عزتی کرنا جس سے لوگ پاکستان سے نفرت کرنے لگے اور شفیق قابض کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ کررہا تھا جس سے عام بلوچ قابض کے خلاف ہونے لگے اور مالک جو پاکستان کا وفادار اور اسکی قبضہ کو بلوچستان میں مستحکم کرنا چاہتے ہیں اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس سے لوگ قابض کے خلاف ہو رہے ہیں اس لیے ان لوگوں نے شفیق کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کارروائی کی جبکہ بی ایل ایف اسی ایجنڈے پر چل رہا ہے ہاں سارے بی ایل ایف بی آر اے کے سرمچار ایسا نہیں ہیں ان میں شکاری دلیپ جسے لوگ بھی ہیں جو سرزمین کے اصل سپوت ہیں ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے ہم خود کو کسی طبقہ گروپ میں بند نہ کریں بلکہ اس سوچ کی مخالفت کرنا چاہیے جو قومی کاز کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اس میں جس بھی پارٹی گروپ اور ذات پات سے انکا تعلق ہو انکے خلاف ہونا چاہیے کیونکہ قوم نے کسی کو استثنا ء نہیں دیا ہو ا ہے کہ وہ جو خرابی بلنڈر کریں قوم انھیں کچھ نہ کہے۔جس طرح بحر بلوچ سال
کے ایک موسم میں اپنی گند نکالتا ہے اسی طرح بلوچ تحریک بھی اپنے ردانقلابیوں کو نکالتا ہے اور اس میں رازق بگٹی۔کہور خان ،ایوب جتک ،مالک گروپ کو جیسے نکال باہر کیا کیونکہ انکے مفادات قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں تھے اور آج بی ایل ایف اور بی آر اے کے مفادات قومی مفادات سے انقلابی اصولوں اور قاعدے کے مطابق ہم آہنگ نہیں ہیں بلکہ جدوجہد کے مکمل خلاف ہیں جب رازق بگٹی کہور خان جالب خیرجان پر تحریک کے خلاف ہونے کی وجہ سے تنقید ہوسکتی ہے مالک احسان شاہ اختر پر ہوسکتی ہے تو ڈاکٹر نظر، خلیل منان وہی نقصان دہ عمل کرتے ہوئے تنقید سے کیونکر بالا ہیں اس لئے کہ وہ پہاڑوں میں قربانی دے رہے ہیں تو قربانی قمبر قاضی ،قمبر چاکر ،صبا ء،غلام محمد ،بالاچ ،کامریڈ قیوم سمیت ہزاروں نوجوانون نے دیا جنھوں نے اپنی زندگی نچاور کیا کاز کی خاطر اور ہزاروں لوگ پہاڑوں شہروں میں قربانی دے رہے ہیں اور شہدا کے بچے بھی بھوک اور در بدر کی زندگی گزار رہے ہیں تو پھر انکا بخشش کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر اینڈ گروپ اپنے جہد کے بدلے حصول اور چوری چکاری بے گناہوں کا قتل عورتوں کی بے عزتی کرکے وصول کر رہا ہے اور باقی ہزاروں لوگوں نے جو قربانیان دی ہیں اٹھارہ ہزارلوگ ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کر رے ہیں ہزاروں بے رحمی سے شہید کیے گئے انکی شہادت قربانیوں کو ڈاکٹر اینڈ گروپ اور بی آر اے تباہ کر رہا ہے اسے چھوڑ دیا جا ئے کہ ڈاکٹر قربانی دے رہا ہے قوم تحریک اور کاز کو تباہ کر رہا ہے پاکستان کی پالیسی جو مالک حئی بھی آگے نہ لے جاسکے انکے اندر انکے لوگ ٹیکنیکل اندازمیں اسے اگے لے جارہے ہیں کبھی نیشنلزم کو کنفیوز کرتے ہوئے تو کبھی مذہبی مسئلہ پیدا کرتے ہوئے تو کبھی زبان کا مسئلہ بناتے ہوئے ڈاکٹر مالک کے ادھورے کام کو آگے لے جایا جا رہا ہے بس انھیں کچھ نہ کہا جا ہے بقول ایک دوست کے مکران میں تحریک ڈاکٹر خالد دلیپ شکاری غلام محمد اور شہدا کی قربانی کی وجہ سے کہاں تک پہنچا ہوا تھا کہ لوگ سرمچاروں پر ایمان بھی لاتے تھے آج انکی حرکتوں کی وجہ سے لوگ ان کا نام سنے کو تیار نہیں ہیں اور یہ علاقوں میں چوری چکاری اور گرے ہوئے لوگوں کی مانند ہو چکے ہیں اب بھی اگر لوگ مصلحت پسندی سے نہ نکلے اور انکو نہ روکا تو یہ خود تو رازق جالب کہور خان خیرجان مقبول حسن راشد پھٹان کی طرح ریاست کے ہاں جاکر وہیں تو پناہ لیں گے یا وزیر سرکاری درباری بنیں گے لیکن قومی جہد کا بیڑا غرق کریں گے اس لیے انکے اندر کے انقلابی مخلص ایماندار اور قومی کاز سے جڑے لوگ اٹھ کھڑے ہوں تاکہ یہ جہد کو مزید تباہ نہ کر سکیں اور اپنے لوگوں کے ساتھ انقلابی ناخن اور گوشت کا رشتہ قائم کریں ورنہ مخلص ایماندار کمیٹڈ لوگوں کی خاموشی قابض کے ایجنڈے کو آگے لے جانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اسکا نقصان قومی تحریک کو ہوگا اور شہدا کی مقدس لہو سے بھی غداری ہوگی چند لوگوں کی عیش عشرت ،نمودنمائش ،لیڈری کی خاطر قومی کاز کو داؤ پر لگانا اجتماعی قومی خود کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز