جمعه, مارس 29, 2024
Homeاداریئے’’ ہمگام نوشت ‘‘

’’ ہمگام نوشت ‘‘

ڈیورنڈ لائن،گولڈ سمتھ لائن اور 27، مارچ 1948کی پاکستانی جبری الحاق، بلوچ قومی تاریخ کے وہ سیاہ ترین باب ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف بلوچ ریاست کی تاریخی حیثیت سلب ہوئی، بلکہ بلوچ قوم کے درمیان حد بندیوں کے فاصلے قائم ہونے کے ساتھ بلوچ رشتے بھی منقسم ہوئے۔ اور بلوچ جبر و بربریت سے دوچار اس کی سزا آج بھی بھگت رہا ہے۔ چکی کے ان پھاٹوں میں پھنسے بلوچ عوام ایرانی و پاکستانی فورسز کی جانب سے نسل کشی کا شکار ہیں۔ دونوں قبضہ گیر ریاست محکوم و زیر تسلط بلوچ قوم کو تابع فرمان بنانے، ان کی سرزمین و وسائل مکمل طور پر ہڑپ کرنے، اپنے سیاسی و معاشی مفادات حاصل کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے استبداد کی بد ترین مثالیں قائم کرتے ہوئے بلوچ فرزندوں کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن سے نہ صرف بلوچ، بلکہ پشتون قوم بھی منقسم ہوا۔ اِس لائن کے آر پار سے اُبھرنے اور آئی ایس آئی کے زیر سایہ پنپنے والی مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کی لہر کے سبب سیکولر بلوچ سماج جہاں معاشرتی و سماجی پستی، پست ذہنی رویوں، زوال پزیر معاشرتی اقدار اور انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے، وہاں ایک جانب گولڈ سمتھ لائن کے اُس پار مغربی بلوچستان میں ایرانی گجر بلوچ نسل کشی پر عمل پیرا ، بلوچ عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ کئی دیہاتوں کے تمام کے تمام بلوچ مردوں کو پھانسی پر چڑھا چکا ہے۔ اور برملا اس انسانی المیہ سے بلوچ کو دوچار کرنے کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ وہاں پاکستانی مقتدرہ ، فوجی قیادت اور چین کی ایماء پر فورسز نے بلوچ فرزندوں کی تشدد زدہ مسخ لاشیں پھینکنے، بلوچ سرزمین و آبادیوں پر شیلنگ و بمباری کرنے اور نام نہاد آپریشن کے ذریعئے بلوچ نسل کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جو کہ دونوں قابض ریاستوں کا بلوچ قومی تحریک آزادی و جدو جہد کے خلاف شدید ردعمل ہے۔ اور خصوصاً یہ منفی عمل پاکستانی ریاست کی جانب سے بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم پر فوج کشی و فوجی یلغار ہے۔ جس کو پاکستان عالمی دنیا کو گمراہ کرنے اور اقوام عالم میں بلوچ تحریک آزادی کو غلط رنگ دینے کی غرض سے علحیدگی پسندی کی تحریک اور ان پر فوجی آپریشن کا نام دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ بلوچ قومی آزادی کی جُہد و جنگ ہے، نہ کہ پاکستان سے علحیدگی کی۔ کیونکہ نہ ہی بلوچستان پہلے پاکستان کا حصہ تھا ۔اور نہ ہی آج بلوچ نے پاکستان کی بالادستی قبول کی ہے۔ بلکہ جبری الحاق کے ذریعئے پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ جما رکھا ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی یہ جنگ بلوچ کی قومی محکومیت کا خاتمہ کرنے اور اپنے واک و اختیار کا خود مالک بننے کی جدو جہد ہے ، یہ کوئی شورش نہیں کہ جس کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے۔ آزادی کی یہ جنگ دو ریاستوں کے درمیان لڑی جارہی ہے۔ ایک جانب قابض ریاست پاکستان اور اس کی عسکری قوتیں ہیں، اور دوسری جانب مقبوضہ اور زیر تسلط ریاست بلوچستان کے محکوم و مظلوم بلوچ فرزند ہیں۔ جو ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
بلوچستان (ریاست قلات) 13، نومبر 1839ء سے قبل ایک آزاد و خود مختار ریاست تھا۔ جس پر برطانوی سامراج نے یلغار کرکے میر محراب خان اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن اس قبضہ گیری کے باوجود برطانوی راج نے بلوچستان (ریاست قلات) کی ریاستی حیثیت اور خوانین قلات کے حکمرانی کو تسلیم کر رکھا تھا۔ جس کے واضح ثبوت خوانین قلات اور برطانوی راج کے مابین مختلف اوقات میں ہونے والے معاہدات ہیں۔ برطانوی راج کے خاتمے کے بعد 11، اگست 1947ء کو بلوچستان کی آزاد و خود مختار حیثیت دوبارہ بحال ہوئی۔ لیکن 27، مارچ 1948ء کو جبری الحاق کے ذریعئے پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرکے مکمل طور پہ اس کی آزادی کو سلب کرلی۔ حالانکہ پہلے پہل خود جناح نے 11، اگست کے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور پھر اس سے مکر کر قلات پر حملے کا حکم جاری کیا تھا۔ بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ گیریت آج بھی جاری ہے۔ اس قبضہ گیریت کو بلوچ قوم نے آج تک قبول نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی ڈیورنڈ لائن و گولڈ سمتھ لائن کی کھینچی گئی لکیر کو تسلیم کیا ہے۔ اسی لئے پاکستان اپنی بالا دستی کو قائم رکھنے کیلئے بلوچ سر زمین و بلوچ عوام پر فوج کشی کر رہا ہے۔ اور اس کی جبر و بربریت اب انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
یوں تو بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی بلوچ قوم کی منظم نسل کشی و جارحیت 1948 کے بعد سے یعنی 68 سالوں سے جاری ہے۔ لیکن اس میں حالیہ تیزی و شدت اس وقت آئی جب گزشتہ سال چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کرکے ’’سی پیک‘‘ کے تحت 146ارب ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اور ساتھ ہی بلوچ آزادی پسندوں کے بارے میں چینی خدشات و تحفظات کے پیش نظر چین و پاکستان درمیان ’’بلوچ قومی تحریک آزادی‘‘ کو ختم کرنے کا معاہدہ طے پایا۔ جس کے فوری بعد الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز نشر ہونے کے ساتھ اخبارات میں لیڈ سرخیاں لگیں کہ ’’چین ، بلوچستان میں علحیدگی پسندی کے رجحانات و بغاوت کے خاتمے کیلئے پاکستان کو ہر ممکن مدد و کمک فراہم کرے گا ۔کیونکہ علحیدگی پسند پاک چین کاریڈور کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔‘‘ اس کے بعد جنرل راحیل کا یہ پالیسی بیان میڈیا کی زینت بنا کہ ’’راہداری منصوبے کے خلاف کوئی گڑ بڑ کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کیلئے کسی بھی قسم کی کاروائی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔‘‘اس کے چند دنوں بعد بلوچستان کے طول و عرض میں فوجی یلغار میں تیزی لائی گئی۔ خاص طور پہ اس کی شدت کوہلو، کاہان، آواران، مشکے اور بولان میں بہت زیادہ تھی۔ اس دوران نہ صرف سینکڑوں بلوچ فرزندوں کو شہید کیا گیا۔لوگوں کو لاپتہ کرکے ان کی تشدد زدہ مسخ لاشیں پھینکی گئیں، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہاں تک کہ پہلے بی ایل ایف کے رہنماء و سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور ازاں بعد بی ایل اے کے کمانڈر اسلم بلوچ کی شہادت کے من گھڑت افسانے گھڑے گئے۔ اور پھر جنرل راحیل نے نواز شریف کو بغل میں بٹھا کر گوادر شاہراہ پر خود جیپ ڈرائیو کرنے کی تشہیر میڈیا میں کرکے چین اور عالمی دنیا کو ’’بلوچ قومی تحریک آزادی‘‘ کو کمزور کرنے کا عندیہ دیا۔
بلوچستان کے طول و عرض میں فوج کشی کی نوید دینے اور چین کو مطمئن کرنے کیلئے وقتاً فوقتاًپاکستانی مقتدرہ کی پالیسی بیانات کی میڈیا میں تشہیر کے ساتھ زمینی فوج کی بربریت ، گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و بمباری اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں اب بھی جاری ہیں۔ جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس کو طوالت کے سبب یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں ، البتہ اس سلسلے میں ایک مفصل رپورٹ تیار کرنے اور عالمی دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ لیکن چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خالد کا بیجنگ میں چینی جریدہ ’’پیپلز ڈیلی‘‘ کو دیا گیا انٹرویوں قابل غور و فکر ہے ۔جس میں اس نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’سی پیک دونوں ممالک کے درمیان ٹھوس تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے اہم پلیٹ فارم ہے۔ جو چین اور پاکستان کے درمیان سیاسی و اقتصادی پل ہے۔ اسی لئے اس وقت تک سی پیک اور چینی مفادات کے تحفظ کیلئے فوجی آپریشن میں 3400 افراد کا صفایا کیا گیا ہے۔ ‘‘ جب پاکستانی سفیر نے یہ انٹرویو دیا۔ انہی دنوں چین کے کیمونسٹ پارٹی کے جنرل
سیکریٹری ژانگ چوانگ کی سربراہی میں 61 رکنی چینی وفد پاکستان و چین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف کاروائیوں کا جائزہ لینے گوادر کے دورے پر تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کی جنرل سیکرٹری نے مطمئن ہوکر پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مزید دو ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ جس کے فوری بعد جبکہ چینی وفد اسلام آباد میں موجود تھا قلات کے علاقے جوہان پر پاکستانی فورسز نے ایک بھرپور فوج کشی شروع کردی ۔پانچ روزہ اس فوجی یلغار میں 34 بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے کے علاوہ جوہان، نرمک، اسپلنجی اور گزگ میں زمینی فوجی بربریت کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شدید شیلنگ و بمباری کی گئی۔ مال مویشی اور گھروں میں لوٹ مار مچائی گئی۔ خواتین کی آبروریزی کرنے کے علاوہ بچوں اور بوڑھوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور خواتین و بچوں سمیت 200 کے قریب لوگوں کو لاپتہ کردیا گیا۔ میر عبدالنبی بنگلزئی کی شہادت کا شوشہ چھوڑا گیا۔ واضح رہے کہ اسی دوران چین و پاکستان کے درمیان ’’شاہین پانچ‘‘ کے نام سے 20 روزہ فضائی مشقوں کا آغاز ہوا۔ جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان آپریشنل تعلقات کو فروغ دینے اورآزادی پسند رجحانات کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قائم کرنا تھا۔ اسی دوران 12 اپریل کو گوادر میں ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل نے خبردار کیا کہ ’’سی پیک کے خلاف جو سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں ان کا علم ہے۔ ان سازشوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اب کیچ کے علاقے دشت، گوادر کے علاقے ساجی اور مشکے میں فوجی یلغار میں تیزی لائی گئی ہے۔ جو تاحال جاری ہے۔ مشکے سے 25 مئی کو 11افراد کو حراست بعد لاپتہ کردیا گیا۔ اور شہید سلیمان کے ایک سالہ بیٹے کو شدید زخمی کردیا گیا۔ دشت و ساجی میں تمام داخلی و خارجی راستے سیل کئے گئے ہیں جہاں زمینی فوج جس کو بھاری توپخانے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک حاصل ہے۔ شدید بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق متعدد افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ اور متعدد بلوچ فرزندوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ محاصرے اور فورسز کی لوٹ مار کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو اشیاء خورد و نوش کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فورسز کی جانب سے گھروں کو نذر آتش کرنے کے سبب لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے اور فورسز کے رحم و کرم پر ہیں۔ جس سے ایک خوف ناک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور اب 26مئی کو جنرل راحیل نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں بلوچستان میں سیکورٹی صورتحال پہ بریفنگ لینے کے بعد خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر بلوچستان میں فوج کشی میں تیزی لانے کا عندیہ دے دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ آزادی پسند قیادت پاکستانی جارحیت کو عالمی سطح پر اجاگر کریں کہ پاکستان مقبوضہ بلوچستان پہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے جو جبر و استبداد کر رہا ہے۔ وہ ایک ریاست کا دوسرے مقبوضہ ریاست کے باشندوں کے خلاف کھلی جارحیت اور جنگی جرم ہے۔کیونکہ کسی ریاست کا دوسری ریاست کی خود مختاری ، علاقائی سا لمیت یا سیاسی آزادی پر مسلح حملہ کرنا، کسی ریاست کی مسلح افواج کا دوسری ریاست کے علاقے میں داخل ہونا یا حملہ کرنا یا فوجی قبضہ، کسی ریاست کی مسلح افواج کا دوسری ریاست کے علاقے میں بمباری کرنا یا ہتھیار استعمال کرنایا کسی ریاست کی مسلح افواج کا دوسری ریاست کی بندرگاہ کا محاصرہ کرنا جارحیت اور جنگی جرم ہے۔ اورپاکستان بین الاقوامی قوانین و معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جارحیت کے ارتکاب کے ساتھ بلوچستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ان
جنگی جرائم و فوجی جارحیت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح کہ حیر بیار مری نے 28مئی 1998کو بلوچستان کے علاقے راسکوہ میں ایٹمی دھماکے سے قبل اس منفی عمل کے خلاف شعوری آگاہی اجاگر کرتے ہوئے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا تھا’’ایٹمی دھماکے کیلئے بلوچستان کی سرزمین کا انتخاب ہی کیوں؟ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تابکاری نسل در نسل اموات کو دعوت دے گی۔ حکمران اپنے جنگجوانہ عزائم کی تکمیل بھارت سے متصل سرحدی علاقے میں کیوں نہیں کرتے؟ بلوچ سرزمین پر اس کے منفی اثرات بلوچستان کے عوام کیلئے موت کا پیغام ہیں۔کیونکہ اس کی تابکاری کے اثرات ہیرو شیما اور ناگاساکی پر دوسری جنگ عظیم میں گرائے گئے ایٹم بم سے سو گنا زیادہ ہیں۔‘‘ جبکہ اس دور میں اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلی تھے اور انہوں نے اپنے مفاداتی سوچ کے پیش نظر چپ سادھ لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز