چهارشنبه, آوریل 17, 2024
Homeآرٹیکلزہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے :بیرگیر بلوچ

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے :بیرگیر بلوچ

سامنے دروازے سے چار آدمی اندر داخل ہوئے، یہ دراز قد انسان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے تھے ،چاروں نے ایک طرح کے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، یہ ایک شخص کو ہاتھوں اور پیروں سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لارہے تھے۔ یہ شخص نڈحال ،بے ہوش اور نیم مْردہ حالت میں تھا۔ اسکا جسم زخموں سے چور، بازو تیز دھار آلے سے کٹے ہوئے خون کے بوند قطار میں زمیں پے ٹیپ ٹیپ کرتی گر رہی تھیں۔ اس کا منہ رسم سے بنی رسی کے ساتھ سختی سے بندھا ہوا تھا۔ جس سے اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس کی پیشانی کو سیگریٹ کے انگارے سے جھلسایا گیا تھا، ناک ٹیڑھی یا ٹوٹ کر لٹک رہی تھی۔اسکے ہونٹ سوجھ کر خون کے لوتھڑے بن گے تھے۔ گال پھول کر پھٹنے کو آ نکلے تھے۔ آنکھیں خاموش اوپر جا کر رْک گئے تھے۔ اس شخص کے بدن پے پھٹی خون آلودا شلوار کے سوا کچھ نہ تھا۔
چاروں آدمی اسے گھسیٹتے ہوئے سامنے بنے لوہے کے دروازے سے ایک چھوٹے سے کمرے میں پھنک کر اپنے ہاتھ زانوں پے رگڑ کر صاف کرتے ہوئے واپس چل دئے۔ اب ان کے بھاری جوتوں کے ٹپ ٹپ کے سوا ہر سو خاموشی تھی۔ سامنے کچھ فاصلے پر چھت سے منسلک ایک دیوار میں ایک بلب روشنی کے آب و تاب میں تھی اس کے برابر نیچے ایک بڑا سا کالے رنگ کا دروازہ جس کے دائیں طرف ایک تیس پینتیس سال کا سنتری ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا پکڑے نیم خوابی کے حالت میں کرسی پے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جب بھی اس کی آنکھ لگ جاتی وہ جھٹک کر اٹھ جاتا اور بیزاری میں اپنے آنکھوں پے ہاتھ پھیر کر جاگنے کی کوشش کرتا ۔چاروں آدمی اس کے قریب پہنچے یہ کھڑا ہوکر سلام کیا اور دروازے کی کنڈی کھولنے لگا چخ چخ کرتا ہوا دروازا کھلا باہر سے تیز روشنی دروازے سے اندر داخل ہو کر ہر طرف روشنی بکھیر نے لگا۔ دروازے سے آتے ہوئے فرش پر کافی گند پڑا تھا کچھ کچھ جگھوں پے گندا پانی جما تھا جس سے معلوم پڑتا کے اس جگہ کو دھویا گیا ہے، دروازے کے داہیں جانب خون آلودا کپڑے کاغز کے ٹکڑے، سگریٹ کے بچے ہوئے حصے کسی کچرا دان کا منظر پیش کر رہے تھے۔ یہ ایک بڑا سا حال تھا جس کی لمبائی تقریبا200 فٹ ہوگی اس کی اونچائی دس فٹ سے زیادہ نہ تھی اس پورے حال کے دونو اطراف پانچ پانچ فٹ کے چالیس پینتالیس کمرے تھے جن پے لوہے کے دروازے اور دروازوں پے بڑے بڑے تالے لٹک رہے تھے۔ چھت کے بیچوں بیچ ایک چار فٹ کا روشن دان جس سے آسمان پے چودویں کا چاند چمکتے ستاروں کی روشنی معدوم کر رہی تھی۔ یہاں ہوا کے گذرنے کا واحد راستہ یہی چارفٹ کا روشن دان ہی تھا ، چاروں آدمی باہر نکلے سنتری نے بے بسی اور نیند کی حالت میں دروازے کو دکھا دے کر بند کردیا اور ایک بار پھر ہر طرف تاریکی چھاگئی۔
کمرے میں یہ نوجوان منہ کے بل گرا تھا، یہ بیس باہیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان بڑے بال جو اب خون میں غرق تھے، لمبی پتلی ناک جو اب ٹوٹ چکی تھی بڑی آنکھیں جو بے حد خاموش پڑے تھے چھ فٹ کا یہ تندرست نوجوان نڈحال ٹانگے پھیلائے ہوئے ایک ہاتھ سینے کے نیچے دبایاہو اورا دوسرا زمین پے ٹوٹی ہوئی حالت میں مْڑا پڑا لیٹا ہوا تھا۔ جب اسے زمیں پے پھینکا گیا تھا تو اس کا ناک سیدھا زمیں پے لگ گیا تھا، جس سے خون بہہ بہہ کر اس کے منہ کے گرد جما ہوا تھا۔ پیٹ پر کالے داغ نما نشان جو اکثر کرنٹ لگنے سے رہ جاتے ہیں ظاھر تھے ، کمر سوج کر لال اور کئی جگہوں سے کٹ کر الگ ہوا تھا پاوں کے انگلیوں کی جگہ اب لال لال گوشت ہی نظر آرہی تھی۔ اس پورے لاش نما انسان کو زندہ رکھنے کیلئے بس اس کی سانس چل رہی تھی۔ اس نے خود کو حرکت دینے کی کوشش کی، وہ شاید اپنے چہرے کو اس بہتے خون سے دور ہٹا نا چاہتا تھا۔ مگر جسم کا ہر عضو جیسے زمیں پے مْردہ پڑا رہا۔اس نے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا اس کے منہ سے کھانسنے کی دھیمی سی آواز آئی اور پھرطویل خاموشی۔
اب جبکہ صبح ہو گئی تھی سورج کی روشنی ہر شہ پر چمک رہی تھی باہر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس روشن دان سے اندر داخل ہورہی تھی باہر سے اندر آتے چڑیوں کی چڑ چڑا ہٹ کی آواز میں پانچ فٹ کے اس کمرے کا دروازہ چیختے ہوئے کھلا ہاتھ میں بالٹی لیئے پتلا لمبا شخص اندر داخل ہوا اس کے بڑے بڑے مونچھ تھے داڑھی صاف اور سر سے بال غائب میلے نیلے کپڑے پہنے پیروں میں لال رنگ کے ربڑ کے چپل ۔ اس نے بالٹی میں بھرے پانی کو اس نوجوان کے اوپر گرا کر بالٹی نیچے رکھا نوجوان کچھ حرکت نہ کرسکا تو یہ شخص آگے بڑھ کر اس کے پسلیوں پے کس کر لات مارنے کے ساتھ ہی کہنے لگا،،،، اْٹھ جا بے حرامی دا پْتر!،،،،، زخموں سے چور نوجوان کے پیشانی میں بل پڑنے کے ساتھ ہی اس کے منہ سے آواز نکلتے نکلتے دب گئی۔ اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنے درد کو چیخ کر خارج کر سکے انکھیں اندر کو دبا کر خاموش پڑا رہا۔مونچھوں والا یہ آدمی اور قریب آگیا اس کے چہرے پے درجہ حد سے زیادہ غصہ اس کے چہرے کو نفرت زدہ بنارہا تھا وہ شاید اس سوچ میں تھا کہ زمیں پے پڑے اس نوجوان کا گلا دبا کر اسے موت کے وادی میں بھیج دوں یا کھڑے کھڑے اس کے گردن پے پیر رکھ کر تب تک نہ ہٹاوں جب تک اس کا آخری سانس نہ نکلے اسی سوچ میں وہ نیچے جھْک کر بیٹھ گیا اور ہاتھ بڑھا کر اس نیم مْردہ نوجوان کے منہ سے بندھے اس رسی کو کھول کر اتنی سختی سے اوپر کو کھینچا کہ نوجوان کا سر اوپر ہوکر دہڑام سے زمین پے لگ گیا۔’’چل اب سیدھے ہوجا‘‘، مونچھ والے شخص نے نوجوان کا بازو اوپر دھکا دیتے ہوئے کہنے لگا اور کھڑا ہوگیا۔ نوجوان گھوم کر پیٹ کے بل لیٹ گیا اسکے منہ سے خون بہنا شروع ہوگیا آنکھیں کھلی چھت کو تک رہے تھے۔ پھر وہ مونچھوں والا شخص اسے یونہی پڑا چھوڑ کر واپس مڑکر دروازے کے باہر نکل گیادوپہر کے وقت سورج چڑتے چڑتے اپنی پوری تپش کے ساتھ اس روشن دان تک پہنچ گیا تھا۔ سورج کی گرمی سیدھے ان لوہے کے دروزوں پے پڑتی تھی جن کی وجہ سے حال میں درجہ حرارت اور زیادہ ہوتی۔ دن کے اس اوقات میں پانج فٹ کے یہ کمرے بھٹی کی طرح گرم ہوجاتے تھے۔ اندر پڑا نوجوان اب اْٹھ کر سامنے دیوار پے پیٹ کو لگائے پاوں زمین پے بچھا کر باہیاں ہاتھ گود میں پڑا سر داہیں طرف کو جھْکی داہیں ہاتھ کو زمیں پے رکھے ایک انگلی زمیں پے آہستگی سے گھما کر نظر جمائے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا۔ اس کمرے میں حرکت کرنے والی اب بس اس کی انگلی تھی وہ اسے تکتے ہوئے اْس آخری پل کو یاد کر رہا تھا جب وہ ان ظالموں کے قید میں نہیں تھا۔ جب وہ شہر کے گمنام گلیوں میں اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گشت کرتے ہوئے انقلابی سلوگن، لکھ رہا تھا اسے وہ لمحہ یاد آرہا تھا جب وہ ہر خوف سے آزاد دوستوں کے رنگ میں خود کو رنگ رہا تھا۔ اْسے وہ لمحہ زیادہ ہی پْر مْسرت لگ رہا تھا جب اس نے اپنے دوست کو دیوار پہ ( قوم کی آخری امید بی ایل اے) لکھتے دیکھا تھا اْسے اس نام اور اپنے جانثاروں سے دلی لگاوتھا وہ اپنے لیڈر حیربیار مری کے ان پیغامات کو یاد کر رہا تھاکہ (بلوچستان بندوق سے نکلی گولی سے آزاد ہوگا)، وہ یاد کر رہا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ اس آخری لمحہ کو اس منحوس لمحے کو جب وہ دوستوں سے رخصت ہوا تھا اگر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتا تو ضرور ان کے ساتھ مل کر اس سفید گاڈی سے اْترے چار لوگوں کو مار کر بھاگ جاتے جو اسے اْٹھا کر اس جہنم میں لائے تھے۔
کمرے میں باہر سے آتی روشنی نوجوان کے انکھوں پے پڑتے ہی ان میں چھبنے لگی یہ اتنا درد ناک تھا کہ نوجوان دونوں ہاتھوں سے آنکھوں پے پردا کرنے لگا۔۔ باہر سے دو لوگ اندر داخل ہوئے۔ یہ وہی مونچھوں والا شخص تھا اس کے ساتھ اب ایک اور موٹا شخص جس کا قد اونچا ہلکے سْرخی رنگ کے بال لال گول چہرا بڑی آنکھیں داڑھی اس نے صبح ہی شیو کی ہوگی جس سے اس کے گال پے پڑا تیز دھار آلہ کا زخم ابھی بھی تازہ تھا اس نے سفید رنگ کا لمبا سا قمیض پہنا پیروں میں مضبوط چمڑے سے بنے بڑے جوتے جو عموماً پہاڑی علاقوں میں پہنا جاتا ہے۔ یہ کوئی ملٹری والا تھا جس کا ڈیوٹی شاید کسی سرد پہاڑی علاقہ میں ہوا ہوگا۔ یہ جھک کر نوجوان کے بازو کو پکڑ کر اسے چلنے کو کہنے لگا نوجوان نے کوئی حرکت تب تک نہیں کی جب تک کے اس مونچھ والے بے ڈہنگے شخص نے اس کے چہرے پے زور کا لات نہ دے مارا نوجوان ایک دم سے دہکا کھا کر دوسری جانب گر گیا ۔ وہ آدمی ایک بار پھر آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں کو رسی کے ساتھ مضبوتی سے باند کر اسے کھڑا کرتے ہوئے دھکا دیا نوجوان لڑکھڑاتے پیروں کو زمیں پے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا۔اب اسے ایک بڑے کمرے میں لایا گیا جس کے دیوار مٹی سے بنے تھے۔ ان پر کئی جگہوں پے چھوٹے چھوٹے سْراخ تھے۔ ان میں سے کسی میں اخبار کے ٹکڑے تو کچھ میں لوئے کہ کیل کہیں شیشے کے ٹکڑے پڑے تھے یہاں عموماً ان لوگوں کو لایا جاتا ہیں جن سے تفتیش کرنی ہوتی ہے یا اذیت دینا ہوتا ہے۔ نوجوان اس کمرے سے بخوبی واقف تھا اس کا یہ حالت آخری رات اسی درد ناک جہنم میں ہوا تھا اسے اب بھی اپنے وہ چیخیں سْنائی دے رہے تھے ، اسے کمرے کہ بیچ لٹکتی رسی سے باندھ کر اْلٹا لٹکایا گیا تھا۔ وہ اتنے دیر تک لٹکتا رہا کہ اس کے جسم کا سارا خون اس کے دماغ اور چہرے میں آکر جما ہوا تھا اس کے گال پھول کر پھٹنے لگے تھے آنکھیں باہر کو نکل کر کھولی ہی رہ گئی تھیں۔ اسے اور چند منٹ اس رسی سے الگ نہیں کیا جاتا تو خون اس کے منہ اور ناک کے راستے نکل کر بہہ جاتا اس کا دم گھٹ جا تا اور یہیں لٹکے اس کی موت ہو جا تی۔ پر موت اتنی جلدی کہاں آنے والی تھی اسے اْتار کر نیچے رکھے اس میز پے لٹا یا گیا تھاجس پر کیل اور شیشے کے چھوٹے چھوٹے بہت سارے ٹکڑے بچھائے گئے تھے۔ اس کے ہاتھ اور پیروں کو کھینچ کر اس ٹیبل کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا جس سے اس کے سینے کو چیرتے ہوئے کئی زخم بن گئے تھے۔ اس کے سر کے قریب کھڑا شخص چمڑے سے بنے پٹھے سے اس وقت تک اس نوجوان کے پیٹ پے مارتا رہا جب تک کہ وہ خود تھک کر اپنا ہاتھ نہ روکا ۔ نوجوان اس سوچ سے ہی خوف زدہ تھا کہ کس قدر تکلیف دہ تھا جب چمڑے کا یہ پٹھا اس کے پیٹ پے پڑتا تو ریڈھ کی ہڈی نیچے دب جاتی اور اسکا پیٹ و سینہ ٹیبل پے جا لگتی جب یہ شخص اسے واپس اْٹھاتا تو چمڑی اس کے ساتھ چپک کر بدن سے جْدا ہوجاتا۔دروازے سے ایک اور شخص اندر داخل ہوا اس کا قد یہاں موجود باقی دو افراد سے کافی کم اور وزن ان سے زیادہ تھا یہ شاید پانچ فٹ یا اس سے کچھ زیادہ ہو اس کے سر پے بالوں کا نشان تک نہ تھا پورا سر گنجا پڑا تھا چہرے پے داڑھی مونچیں ہلکی سیاہ رنگ میں نظر آرہے تھے نہادھوئے اس شخص سے مہنگے پرفیوم کی خوشبو آرہی تھی۔ اس کے دائیں ہاتھ میں نیلے رنگ کا ایک چھوٹا سا فائل اور بائیں ہاتھ میں مہنگا بڑا سا فون تھا۔
یہی ہے وہ لڑکا! وہ مونچھوں والے آدمی سے مخاطب ہوکر پوچھا
جی سر یہی ہے۔۔ مونچھوں والا آدمی نوجوان کو سامنے رکھے کرسی پر بٹھاتے ہوئے جواب دیا
کچھ چھوٹا نہیں ہے؟؟؟ گنجے سر آدمی نے پیشانی کو بل ڈال کر نوجوان کو گھور تے ہوے کہا
بی ایل اے کا پیروکار ہے سر جی۔۔ مونچوں والا شخص کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولنے لگا
اس کے پیچھے آرمی والا اور یہ گنجا آدمی باہر نکل گئے۔
نوجوان اس اذیت خانے میں اکیلا رہ گیا۔ اس کا دم گْھٹنے لگا تھا اسے اپنے دل کی آواز صاف صاف سْنائی دے رہی تھی جو زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ سوچ رہا تھا آج پھر اس کا ایک ایک رگ تڑپا تڑپا کر کاٹ دیا جائے گا یا پھر اس آخری رات کی طرح اس کے چہرے کو سگریٹ کے شعلوں سے جلادیا جائے گا۔ وہ اس بجلی کے تار کو گھور رہا تھا جس کے ساتھ اسے باندھ کر بٹن سے جوڑا گیا تھا جب اس کے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگا تھا تو اس کا پورا بدن سکڑ کر پتھر جیسا سخت پڑ گیا ۔ پیر کانپنے لگے اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگا تھا۔ یہ اتنے زور سے تڑپ اْٹھا تھا کہ وہ ایک دم سے مرنا چاہتا تھا اس کا بس چلتا تو یہ اپنی سانس روک کر خاموش موت کو گلے لگاتا۔
جب اسے ان تاروں سے جدا کیا تب بھی اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے آنکھیں اوپر کو ہو کر ٹہر گئیں تھی منہ کھلا اس حالت میں نہ جانے کب تک بیہوش پڑا رہا اسے اب یاد نہیں تھا۔ مگر اس کا جسم ابھی بھی دْک رہا تھا ابھی بھی کرنٹ اس کے بدن میں دوڑ رہی تھی اس کے آنکھوں پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
ایک لمحے کے لیے اسے لگا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ اب جو کچھ ہیں یہ شاید قبر میں ہیں جہاں ڈھیر سارا مٹی اس کے بدن پے پڑا ہوا ہے۔ جس سے وہ کچھ حرکت نہیں کر پا رہا ہے۔ اسے لگا تھا کہ وہ اس نرگ سے چھٹکارہ حاصل کر چْکا ہے اور اب وہ زمین کی تہہ میں اس دْنیا سے چْھپا ہوا ہے۔ اسے دنیائی خیالات آرہے تھے اس کے اچھائی اور اس کے وہ بْرائی ، ہر صحیح اور ہر غلط اس کے نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اسے شہر کے وہ بڑے بڑے محل اور ان سے گزرتی چھوٹی چھوٹی گلیاں یاد آرہے تھے جن میں بڑا ہوکر ان انقلابی دوستوں کے ساتھ گھوما کرتا تھا۔اسے دور سے آتی آواز صاف سْنائی دے رہی تھی جو اسی کا نام لیکر پْکار رہی تھی۔ یہ اس کی ماں تھی۔ماں جو دنیا میں سب سے پیاری ہے۔ وہ اپنے عظیم ماں کے متعلق سوچ رہا تھا۔اسے اس کے باپ کا شفقت بھرا چھرا نظر آرہا تھا۔ اسے نظر آرہا تھا وہ کھیتوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاوں۔بہتا میٹھاپانی وہ ہجوم نوجوانون کا ہجوم میں گھونجتی بی۔ایل۔اے زندہ باد کی آواز ہر خیال ٹکڑوں میں ایک جھلک کے ساتھ دہندلی پڑجاتی۔
دروازہ کھلنے کی آواز نے نوجوان کو احساس دلایا کہ وہ اس جہنم میں ہی ہے وہ اپنے خیالوں سے اس نرگ میں واپس آپہنچا۔ اندر وہی گنجے سر والا آدمی وہی نیلے رنگ کا فائل ہاتھ میں پکڑے ایک اور شخص کے ساتھ اندر داخل ہوا دوسرا آدمی جس کا رنگ کالا لمبی ناک، موٹے ہونٹ،بال بڑھ کر کاندھوں پے پڑے تھے۔ لمبی داڑی جس میں کچھ کچھ سفید بال واضح تھے۔ اس کے دانت ہمیشہ باہر کو نکلی رہتی۔ اس نے پیروں میں چپل اور پرانے میلے کپڑے جو کئی بار پہنے گئے ہوں اس کے بدن پے لٹک رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا بریف کیس جو اس نے ٹیبل پے رک دیا۔
نوجوان اسے غصے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس چہرے سے واقف تھا اور اب جب کہ یہ اس کے سامنے تھا تو اس کے لیے یہ دنیا کا منحوس ترین چہرہ تھا۔ اتنا منحوس کہ نوجوان اْٹھ کر اس پے تھوکنا چاہتا تھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم دنیا کے بے ہودہ انسان نما جانور ہو اور میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔آخری رات جب نوجوان کرنٹ کی صعوبتیں سہہ کر زرا سنبھل کر ہوش میں آیا تھا تو اسی بیہودہ پاگل شخص نے نوجوان کو کرسی کے ساتھ باندھ کر اس کا اچھا خاصا خاطر داری کیا تھا اس نے ہاتھ میں ایک تیز دھار بلیڈ پکڑے بنا کچھ کہے اسے نوجوان کے بازو پے چلاتا رہا نوجوان اْٹھ نہ پایا تو زمیں پے رینگنے لگا جس سے اس کے پیٹ اور پیروں پے تیز دھار بلیڈ سے کھرونچیں لگنے لگے۔نوجوان چیخنے چلانے کے سوا کچھ نہ کر پایا اس بے ہودہ شخص نے نوجوان کو اْٹھا کر کرسی پے بٹھایا۔ یہ اپنے کام میں مہارت رکھتا تھا اس نے اس دوران ایک لفظ تک نہ کہا نوجوان کے دونوں پیروں کو برابر میں لاکر بڑے انگلی پے ہتھوڑا برابر کرکے آہستہ آہستہ ہتوڑے کو انگلی پے مارنے لگا۔نوجوان کے پیر کانپنے لگے پیشانی سے پسینے پانی کی مانند بہنے لگی ہونٹ دانتوں میں دباکر انہیں زور سے بھینچ رہا تھا۔اب ہر سوال کا صحیح اور فوری جواب دینا۔ اس نے منہ کھولتے ہوئے بدبودار آواز میں کہا۔
اس نے شراب پی رکھی تھی جس سے اس کے آنکھیں لال ہوگئے تھے اس نے پہلا سوال پوچھا
بی ایل اے میں کب سے کام کر رئے ہو؟؟؟؟؟
نوجوان کے نظریں تو اس ہتھوڑے پر تھیں، اسے ہوش نہ رہا کہ اس سے کیا پوچھا گیا
بتاو بی ایل اے میں کب سے ہو اور کس کس کو جانتے ہو؟؟؟؟؟
نوجوان سوچ میں پڑگیا کہ اس نے کب بی ایل اے میں شمولیت کی ہے۔ ہاں باقی سب تنظیموں سے عظیم تھا یہ اس کے لیے مگر یہ اس کے اندرونی معلومات نہیں رکھتا تھا
میں کسی بی ایل اے میں کام نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ نوجوان دہیمی آواز میں ہونٹوں کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے کہا۔
اور وہ تمہارے دوست وہ کہاں ملینگے ہمیں بتاو۔ آدمی نے پھر سے وہی سوال دہرایا
نوجوان اس سوال پے بھر خاموش رہا وہ اپنے دوستوں کے متعلق کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس سے یہ کام نہیں ہوگا۔ وہ اپنے دوستوں کو اس دوزخ میں اذیت سہتے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اپنے دوستوں کے متعلق خبر دی تو اْنہیں یہاں لاکر اسی طرح باقی دوستوں کے بارے میں پوچھا جائیگا۔ اس طرح تو سب پکڑے جائینگے۔ اسے اس کا مقصد عزیز تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اس کہ بعد اس کے دوست اس مقصد کو آگے لیجائینگے۔ آخر کار اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ دوستوں کہ متعلق کچھ نہیں کہے گا۔
میں کچھ نہیں جانتا کوئی دوست نہیں میرا۔۔ نوجوان آدمی کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہنے لگا
آدمی کو نوجوان کی یہ حرکت نا گوار گزرا وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ نوجوان ذرا بھی حوصلہ رکھ پائے،، اچھا تو یہ لے۔۔ آدمی یہ کہتے ہوئے ہتھوڑا اْٹھایا اور زور دار وار ضرب سے نوجوان کے پیر کی انگلی پے دے مارا۔
نوجوان اتنی زور سے چیخا کہ آدمی خوف سے اْٹھ کھڑا ہوا وار اتنا تیز تھا کہ پیر کی انگلی پھٹ گئی اس کا گوشت زمین پہ چپک گیا۔ جسم میں دوڑتا خون اب اس انگلی کی جانب بڑھنے لگا تھا اس سے خون کے تیز دھارا بہنے لگی تھی۔ ناخن ٹوٹ کر نکل چکا تھا۔ نوجوان کے آنکھ اوپر جاکر رک گئی تھی اور وہ تیزی سے کانپتے ہوئے بڑی بڑی سانسیں لے رہا تھا وہ پوری طرح درد میں تڑپ رہا تھا۔
نوجوان کچھ سنبھلا تھا کہ سامنے کھڑے اس آدمی نے اپنا پیر اْٹھا کر نوجوان کے منہ پے زور کا لات مارا لات اس کے جبڑوں میں لگا اور نوجوان سیدھا جاکر زمیں پے گرا۔زمیں سے اس کا بازو ٹکرایا تھا اس کے منہ سے خون بہنے لگا۔اسے محسوس ہوا کہ اس نے اپنے دوستوں کو بچا نے کے لیے جو جھوٹ کھا اس سے اس بیہودہ شخص کو کتنا تکلیف ہوا ہے۔وہ اس متعلق سوچ کر خوشی سے اس آدمی پے ہنسنا چاھتا تھا۔وہ اس کے آنکھوں میں انگلیاں ڈال کر انہیں نکال پھینکنے کے متعلق سوچ رہا تھا۔تاکہ یہ پھر سے اس کے دوستوں کے بارے میں سوال نہ کر سکے جن کے متعلق یہ کبھی نہیں بتایا گیا۔ اس پر اتنے زخم لگے تھے کے اب اسے درد کا احساس تک نہ تھا
آدمی اس کے طرف جھْک کر اس کے بازو پکڑتے ہوئے کرسی پے بیٹھا
اب بتا بھی دو۔ آدمی دانت پیستے ہوئے بولنے لگا۔
بتاو کہاں ٹریننگ ہوا ہیں تمہارا؟؟؟؟؟
کتنے پیسے ملتے ہیں؟؟؟؟؟
حیربیار سے رابطہ ہے؟؟؟؟؟
اور کون کون شامل ہیں تمارے ساتھ ؟؟؟؟؟
کہاں کہاں واردات کی ہیں؟؟؟؟؟
سنو کمینے اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟؟؟؟؟
دیکھو بتا دو مجھے تم پے اللہ کی عزاب ہو۔ نہیں تو کل کا تفتیشی افسر تم سے کچھ نہیں پوچھے گا اور تمہیں بھی موت کے گھاٹ اْتارنے کا آرڈر دے گا۔ پھر تم بھی باقیوں کے طرح روڈ پے پڑے ملو گے۔
منہ کھول کافر۔حرامزادے کچھ تو بول آدمی نوجوان کے بال پکڑ کر اس کا سر نیچے دِکھا دیتے التجا کرنے لگا
میں کچھ نہیں جانتا یہی سچ ہے۔ نوجوان نے اپنا وہی جواب دہراتے ہوئے کہا
نوجوان ان تمام سوالوں کے متعلق نہیں جانتا تھا کہ کہاں ٹریننگ ہوتا ہے؟ اسلحہ کہاں سے آتے ہیں؟؟ ابھی تو وہ کم عمر تھا وہ اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ ہتھیار چلانے میں ماہر ہوتا وہ ابھی تو سیاست میں داخل ہوا تھا مسلح محاز تک ابھی نہیں پہنچا تھا جن کے متعلق اس سے سوال کیا جا رہا تھا۔ ان تمام سوالوں کا کچھ بھی جواب نہ تھا اس کے پاس۔اگر وہ یہاں نہیں ہوتا تو ضرور محاذ پے جا کر بی ایل اے کے ساتھ ملتا۔ اور ایسے دشمن کے خلاف خوب لڑتا وہ سوچ رہا تھا کہ اس رات کی منحوس پل کو جب وہ اپنے رشتہ دار کے بلانے پر اپنے دوستوں سے جدا ہوکر بازار چلا گیا تھا اور اب بازار سے سیدھا یہاں ۔
پستہ قد آدمی جو ان سب کا باس تھا آگے بڑھ کر نوجوان کے قریب کھڑا ہوا۔ دوسرا منحوس ہتھوڑے والا شخص اب ایک پلاس نکال کر نوجوان کے بلکل پچھے آکر کھڑا ہوگیا تھا ۔
نوجوان سوچ رہا تھا کہ یہ باس وہی ہوگا جس کے متعلق اس مونچھ والے شخص نے بات کی تھی
اس نے بہت سے بلوچ نوجوانون کو موت کے گھاٹ اتارا ہے
سامنے کھڑا باس نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا
سنومسٹر بلوچ! پاکستان توڑنے کی سزا جانتے ہو؟؟؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز