پنج‌شنبه, آوریل 25, 2024
Homeآرٹیکلزیورپ میں تاریخی لانگ مارچ:تحریر:ثاقب بلوچ

یورپ میں تاریخی لانگ مارچ:تحریر:ثاقب بلوچ

لانگ مارچ جس کے لغوی معنی ہے طویل مارچ۔ ایک ایسی مارچ جس میں ہر لمحہ درد ہو، ہر لمہ تکلیف ہو۔ بظاہر تو ہمیں تاریخ میں لانگ مارچ یا دھرنوں کی سیاست کی کہی مثالین ملیں گی۔ احتجاجی مارچ اور دھرنوں کی سیاست بیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب چین کے عظیم راہنما ماﺅزے تنگ نے ایک عظیم لانگ مارچ کا آغازکیا۔ جس کا مقصد چین کوجاگیردارون، سامراجوں، سرمایہ داروں اور یلغاروں سے آزاد کرانا تھا۔ اور اسی کے نتیجے میں چین کو آزادی نصیب ہوئی۔ یوں ایک طویل ترین لانگ مارچ کے ثمرات پیدل مارچیوں اور چین کی باسیون کو مل گئے۔ جس کی باگ ڈور اور قیادت چینی کمیونسٹ پارٹی کررہی تھی۔ جس کے مقاصد واضح تھے۔ ایک نیا سماج تعمیر کرنا، لوٹ مار کا خاتمہ، جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے سوشلسٹ نظام کا احیاءکرنا ۔
قارئین کو پتہ ہو گا پاکستان میں جو لانگ مارچ بلوچ اور بلوچستان کے لیے کی گی۔ وہ ماما قدیر بلوچ فرزانہ مجید کی قیادت میں معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں پر مشتمل تھا۔ جو ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنون اور ہزاروں کی تعداد میں ملنے والے مسخ شدہ لاشوں کے بارے احتجاج کررہے تھے۔ جس کا دورانیہ105 دن بنتا ہے۔ یہ ایک عظیم لانگ مارچ تھا۔ اور اس کی مثال جنوبی ایشیا میں نہیں ملتی۔ یہ ایک پرامن لانگ مارچ تھا۔ جس میں کوئی سیکیورٹی کا انتظام بھی نہ تھا۔ بلوچ قوم اپنے ان عظیم سپوتون کو سرخ سلام پیش کرتی ہے۔ اور پوری بلوچ قوم کو ان فرزندوں پہ فخر ہے۔ کیونکہ لانگ مارچ کے یہی شرکاہ بلوچ لاپتہ افراد بلوچ شہداہ کے آواز بن رہے تھے۔ پوری دنیا کو یہ پتہ لگ رہا تھا کہ ہزارون کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔7اکتوبر2013 سے شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ 2مارچ2014 کو اپنی منزل اسلام آباد پہنچا ۔سپریم کورٹ سمیت کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔پنجاب کے علاوہ سندھ میں تو اس کا استقبال کیا گیا۔ لیکن جونہی پنجاب میں پہنچا ان کو کوئی خاص پذیرائی نہ ملی۔ اسلام آباد میں تو بالکل ہی خاموشی رہی ۔ایسا نظر آیا شاید اس شہر کے باسیوں میں دل نہیں ہے۔ خیر دشمن سے کیا گلہ۔
بلوچ سرزمین پر قبضہ گیریت کے خلاف کہی دہاہیون سے بلوچ فرزندون کی جدوجہد جاری و ساری ہے۔ ہاں کھبی تیز تو کھبی سست۔ لیکن دشمن کو باور کرانے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک مقبوضہ سرزمین پر براجمان ہے۔ اور بلوچ اس کو قابض سمجھتے ہیں۔ اسی قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ اس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ چاہے وہ سیاسی حوالے سے ہو یا مسلح۔ طریقہ کار بھلے مختلف ہوں۔ لیکن مقصد صرف ایک کہ دشمن کی مقبوضہ بلوچستان سے مکمل انخلاہ۔اب یہ دشمن کی مرضی کہ وہ جلد اپنی جان بچا کر نکل جائے، یا ہر لمحہ موت کے لیے انتظار کرے۔ بلوچ گوریلا جنگ سے ریاست کی کمر تو پہلے ٹوٹ چکی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کتنا زور بازو قاتل میں ہے۔ جہان مسلح کارروائیاں قابض ریاست پر جاری ہیں، وہیں سیاسی حوالے سے بھی مختلف سیاسی پارٹیان قابض کی اس قبضہ گیریت کو ختم کرنے کی کوشیشن کر رہے ہیں۔
انقلاب فرانس ہو یا ماؤزے تنگ کی عظیم لانگ مارچ۔ ان سب کی وجہ ظلم و بربریت سرمایہ دارانہ نظام جاگیرداروں کی دادا گیری رہی ہے۔ اور بلوچ قوم کی جدوجہد کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک قوم پنجابی نے بزور طاقت دوسری قوم بلوچ پر قابض ہو کر اس کی سرزمین، اس کی شناخت، اس کی ثقافت اور اس کی پہچان کو اس سے چھین لی ہے۔ اور یہی تسلسل ہے کہ بلوچستان سے باہر جو بلوچ ہیں وہ بھی دہائیوں سے مختلف طریقہ کار سے اسی قبضہ گیریت اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
لندن میں مقیم بلوچ قوم دوست رہنما سنگت حیربیار مری بھی ان بلوچ فرزندوں میں سے ایک ہیں جو موجودہ جنگ کی بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور موجودہ جنگ حیر بیار مری اور اس کی چند قریبی ساتھیوں کی بدولت شروع ہوئی۔ اول اول تو یہ جنگ کچھ علاقوں تک محدود رہی۔ لیکن پھر پوری بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور تا روز آج چل رہی ہے۔
حیر بیار مری اور اس کے ساتھی بلوچستان سے باہر مسلسل جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ چاہے وہ سفارتکاری کی صورت میں ہو یا باہر کی لوگوں کو اگاہی دینے کی صورت میں یا وہاں کے لیڈروں کو یہ زور کہ وہ بلوچستان کے بارے میں آواز بلند کریں۔ یا انساینت کی علمبردار تنظیمون پر زور کہ وہ بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیں۔ یا وہاں کے میڈیا میں پاکستان کے خلاف آواز ہو۔ یا وہ بلوچستان لبریشن چارٹر کی صورت میں ہو یا یو این میں پاکستان کی ظلم و بربریت کے خلاف تقریر یورپ میں احتجاجی مظاہرے ہوں ان سب میں سنگت حیر بیار مری اور اس کے ہم فکر ساتھی باقی بلوچ سیاسی پارٹیون کے ساتھ ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔
سنگت حیر بیار مری اور اس کے ہمفکر ساتھیون نے اسی تسلسل کو جارہی رکتھے ہوئے یورپ سمیت امریکہ میں فری بلوچستان موومنٹ کی پلیٹ فام سے بلوچ سرزمین پر ظلم و بربریت اور قابض کی قبضہ گیریت کے خلاف آگاہی مہم چلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ مارچ جرمنی کے شہر ڈسلڈورف سے 16 جولاہی کو شروع ہو چکا ہے۔ اور تاحال جاری ہے۔ لانگ مارچ دارلحکومت برلن میں جرمن پارلیمینٹ کے سامنے اختتام پذیر ہوگا۔ لانگ مارچ کی شرکاہ کی تعداد بھلے کم ہی صحیح لیکن یہ ایک حوصلہ آفزاہ عمل ہے۔ جس کی ہر ایک کو حمایت کرنی چاہیے۔ لانگ مارچ کی شرکاہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بلوچ سرزمین پر ظلم و بربریت کے خلاف آگاہی دے رہے ہیں۔ چاہے وہ انٹرنیشنل میڈیا ہو یا سوشل میڈیا لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ یہان سے ہزارون میل دور ایک پھلی وطن ہے جس کا نام بلوچستان ہے اور اس پھلی بلوچستان پر ایک ناپاک ریاست پاکستان انگلستان کی مدد سے قابض ہو چکا ہے۔ اور اسی قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ دہائیوں سے لڑتے آ رہے ہیں۔ بلوچ قوم کے فرزند نسل در نسل قربان ہوتے آرہے ہیں۔ اور قربانیوں کا تسلسل نہ سست ہوا ہے اور نہ ہی رکا ہے۔
بلوچ قوم کی ایک بدبختی رہی ہے یہ ابھی کا نہیں بلکہ صدیوں سے ہمارے ساتھ چلتی آرہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو کمزور کرتے کرتے تحریک کو کمزور کر رہے ہیں۔طویل غلامی سے اب ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ اب اگر ہم انا پرست مفاد پرست ضد اور ”میں ”کی خول میں بند رہے پھر ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوئی غلام بننے سے نہیں روک سکتا۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز