پنج‌شنبه, مارس 28, 2024
Homeآرٹیکلزیہ جنگ تنہا نہیں لڑی جاسکتی :تحریر:حفیظ حسن آبادی

یہ جنگ تنہا نہیں لڑی جاسکتی :تحریر:حفیظ حسن آبادی

فری بلوچستان موومنٹ نے برطانیہ ،کینیڈا،سویڈن،ناروے ،امریکہ اورجرمنی میں 28مئی کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ نیدرلینڈ میں اس جماعت کی طرف سے پمفلیٹ تقسیم کئے گئے جن کا مقصددنیا میں بلوچ قومی غم و غصے کا اظہارتھاکہ جوکچھ پاکستان نے آج سے انیس برس قبل 1998 بلوچستان میں ایٹمی دھماکہ کیا تھابلوچ نے اس تباہ کاری کو نہ کل قبول کیاتھانہ آج اُسے قبول کرتی ہے ۔سوشل میڈیا پر بھرپور آگاہی مہم چلائی گئی اور دنیا تک یہ باتیں پہنچانے کی سعی کی گئی کہ مذکورہ ایٹمی دھماکوں کے بعد وہاں جلد کی بیماریوں کے علاوہ عورتوں میں قبل از وقت حمل کا گرنا ،پیدائشی اپاہج بچوں کا پیداہونا ،پیدائش کے بعد مختصروقت کیلئے زندہ رہنے کے بعد بچوں کا نیم جان ہوکر مرجانا جیسی بیماریاں وباء کی طرح پھیل گئی ہیں۔حیوانات اور فصلوں کابھی یہی حال ہے لیکن اتنا عرصہ گذرنے باوجو د کوئی بھی بین القوامی ٹیم علاقے میں تابکاری کے اثرات جانچنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی غیرملکی صحافیوں کی آزادٹیم کو وہاں صورتحال رپورٹ کرنے دورہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ۔گویا لوگ آج اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ اختر مینگل کی دالبندین میں کئے گئے تقریر کو درست مانیں کہ یہاں جوتجربہ کیا گیاہے وہ مضر صحت نہیں اوپرسے اخترمینگل کی اس گواہی کو پتھر پر لکیر مانیں کہ ’’ اگروہاں تابکاری ہوتی اور اُس سے کوئی نقصان ہوتاتومیں اوروزیراعظم صاحب ساتھیوں سمیت ابھی ابھی وہاں سے ہوکرنہیں آتے ‘‘ ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بلوچستان پر مرنے والے آزادی پسندوں سے لیکر اُس کے نام پر پیسہ کمانے والے پارلیمانی سیاستدان سب اس بات پر متفق ہیں کہ پنجاب نے اپنے دفاع کیلئے بلوچستان کو ایٹمی دھماکوں کا شکار کرکے صدیوں کیلئے مہلک بنا دیا ہے لیکن اس پر وہ غم و غصہ جو فری بلوچستان موومنٹ نے دکھائی دیگر ایسا کرنے اس حد تک ناکام رہے کہ اس میں شامل ہوکر اُسے مزید کامیاب کرنے کا اہتمام بھی نہ کرسکے ۔پارلیمانی سیاست کرنے والوں سے کوئی گلہ نہیں نہ ہی آگے زیر نظر تحریر میں اُن پر بحث کریں گے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ وہ کوئی بھی جملہ کہنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ہیں کہ اُن کے اس بات سے پنجاب ناراض تو نہیں ہوگامگر آزادی پسندوں کے درمیان اس اہم بات پر اتحاد کا فقداں قابل تشویش ہے ۔
یہاں یہ بات کہنا بے جاہ نہ ہوگا کہ بہت سے آزادی پسند اس لئے اس میں وہ سرگرمی دکھا نہیں سکے کیونکہ اس کا اعلان فری بلوچستان موومنٹ نے کیا تھا ۔اگر فری بلوچستان موومنٹ پہل نہیں کرتا تو وہ ضرور اپنی طرف سے اعلانات کرتے ۔ گویا ہماری سیاسی نا پختگی،عدم برداشت اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ ایک آزادی پسند کہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو دوسرالازم کہے گا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ہم نے تو صبح مغرب سے سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تھا ۔اس المیے کے تمام آزادی پسندیکساں شکار ہیں جس پر نہ کسی کو اعتراز ہونا چائیے اور ہی ناراض بلکہ مل بیٹھ کر اس مرض کا علاج ڈھونڈنا چائیے۔
ٓآزادی پسندوں کے درمیان فکری تضاد کے ساتھ حکمت عملی پر بھی تضادات ہوں گے لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ بلوچستان کو غلامی سے نجات دلائی جائے اور اُن کا دشمن اُنھیں بلاامتیاز قتل کررہا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دشمن کو اس تضاد سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی خودکو ریپبلک کہے جس کی بنیادنوابی وسرداری کا خاتمہ اور عام آدمی کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے لیکن سرداری کے مردے گھوڑے کو پھر زندہ کرنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا ،اُسے اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ بلوچستان میں سوشلزم کا نعرہ لگانے والا آج کے کیوبا و چین جیسے کمیونسٹ ملک کی حمایت سے محروم ہیں اور روس خود پیچھے مُڑ کر سوشلزم کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور اس سے بھی غرض نہیں کہ کوئی یہاں مارکیٹ اکنامی ،سرداری کا خاتمہ اور ون مین ون ووٹ کی باتیں کرتا ہے اُسے غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ بلوچستان پر تسلط برقرار رہے ۔وہ اپنے مقصد میں اور اُس کے حصول میں بالکل کلیئر ہے اس کیلئے وہ لوگوں کو خرید رہا ہے ،ڈرا رہا ہے ،قتل کررہا ہے جب کہ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ بات سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے کہ جب بلوچستان آزاد ہوگا تب ہم کوئی بھی نظام لاسکتے ہیں ۔اب جب آزادی کوسوں دور ہے ہم پہلے اس بات پر الجھ جائیں کہ وہاں کونسا نظام حکومت ہوگا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔
قومی تحریکوں میں ایک چیز ہمیشہ مشترک رہی ہے جو اُسے انقلاب یا دیگر نظامی تبدیلوں سے الگ کرتی ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے وطن کی آزادی !یہی وہ خاصیت ہے جو آزادی کے مخالفوں کے علاوہ باقی تمام طبقوں ومکتبہ فکر کو رنگ و نسل وزبان میں فرق کے باوجود اکھٹا کرتی ہے۔آزادی کے بعد کیا نظام حکومت ہوگی اس کا فیصلہ دشمن کے مکمل انخلا کے بعد آزاد قوم کسی کے اثر ودباؤ کے بغیر کرتی ہے۔مگر یہاں جو الجھن ہے جس نے تحریک کو بُری طرح متاثر کیا ہے وہ یہ کہ آزادی پسند قوتیں ایک بات پر متفق ہونے باوجود اس کیلئے ایک ساتھ کام کرنے آمادہ نہیں ۔
دقیق دیکھنے سے اس کے تین بڑے وجوہات ہوسکتے ہیں پہلہ یہ لوگ آزادی بارے ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں دوسراوہ تحریک کو زریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں تیسرا وہ اس تحریک کواُس سنجیدگی سے لینے سے قاصر ہیں جس کا یہ متقاضی ہے ۔جہاں تک ہماری ناقص رائے ہے رواں تحریک میں کئی عناصربیک وقت تذبذب کا شکار ہونے کیساتھ اسکو اُس سنجیدگی سے نہیں لے پارہے ہیں جس سے اُن کے رفتار میں یہ بات تاحال عیاں ہے کہ یہ آگے جانے کے ساتھ ساتھ بار بار پیچھے مُڑ مُڑ کر رُک کر دیکھتے ہیں کہ کہیں سے راضی کرنے کی کوئی آواز تو نہیں آرہی ہے۔ 
ماضی قریب میں کچھ لوگوں کے لب و لہجے میں تبدیلی ،نرمی ،سرکاری حکام سے بے سود ملاقاتیں ،یہاں تک کہ کچھ پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی وکالتیں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آزادی کے مطالبے کو لیکر یکسو نہیں رہے ہیں یا ایک دوسرے پرکسی کی پراکسی ،ایجنٹ جیسے الزامات لگا کر خود کو مخالف سمیت قوم کی نظروں سے گرانا،یا سیاسی اختلافات کو دشمنی سمجھ کر خود اپنے لئے گرداب بنا کر آج اُس پر پشیمانی کا اظہار اور اُسی عجلت (جس سے ایک دوسرے کی کردار کُشی و ایک دوسرے کے کردار سے انحراف کیا گیاتھا)سے پھر سے اتحاد کرنے کی باتیں اُس غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو بیڑیاں بن کر تحریک کے رفتار کوسست کئے ہوئے اُوپر سے وہ نقصانات الگ جان پر بنے ہیں جو یکسو اور سنجیدہ ہونے کی صورت میں یا تو نا ہوتے اگر ہوتے بھی تو کم ۔انہی دو کوتائیوں کی وجہ سے ایسے گھس بیٹھئے عناصر کیلئے خلا پیدا ہوگئے ہے جواس تحریک کو زریعہ معاش بنائے جہاں موقع ملے دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور تحریک میں شامل اصل قوتیں اُن سے نمٹنے اپنا وقت و توانائی صرف کرنے مجبور ہیں ۔
حرف آخر: یہ بات کسی سے پوشیدہ نہ رہے کہ بلوچ قومی تحریک اُس وقت تک کامیاب ہوہی سکتا جب تک تمام قوتیں کم از کم چار باتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔پہلہ آزادی کی بات پر یکسو ہونا دوسرا ایکدوسرے کی قربانیوں کا احترام کرنا تیسرا دشمن کے خلاف ایک دوسرے کی ہرطرح کی مدد کرنا چوتھا ایک دوسرے کے کام کو ایشو بناکر اُن کے خلاف صف آرائی سے گریز کرنا۔ایسا اس لئے لازم ہے کہ یہی وہ وجوہات ہیں جو دوریوں کا سبب بنی ہیں ۔اگر مذکورہ چیزوں کا خیال رکھا گیا تو اس سے بڑا اتحاد کا مظاہرہ ہو نہیں سکتا چاہے کوئی اس انڈرسٹینڈنگ کو رسمی طور پر اتحاد کا نام دے یا نہ دے۔
ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں دوہزار دس گیارہ تک حیربیارمری،براہمدغ خان بگٹی، ڈاکٹر اللہ نذر مختلف پلیٹ فارم سے الگ الگ جدوجہد کررہے تھے لیکن بلوچ قوم میں یہ احساس کبھی نہیں تھی کہ ان میں اتفاق نہیں ہے ا ن کے درمیان اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ اُنھیں الگ دیکھکر بھی اکھٹا سمجھتے تھے اُس کی وجہ یہی تھی کہ اُس وقت الگ ہوکر بھی مندرجہ بالا باتوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔
بات اُس وقت بگڑگئی جب ’’ ہم ‘‘ کا گلہ گھونٹ کر ’’میں ‘‘ کا لوہا منوانے کی کوشش کی گئی نتیجہ میں سب ایسے پگل گیا کہ اب کسی سانچے میں ڈالنا دشوار لگ رہا ۔
قصہ مختصر یہ کہ اس وقت بلوچ کسی بھی وقت سے زیادہ مشکل تریں دؤرسے گذررہی ہے لیکن دوسری طرف اُس کیلئے زمین کسی بھی وقت سے زیادہ ہموار ہے ۔وہی قوتیں جو آج تک اُسے نظرانداز کرتے آرہے ہیں آئندہ دنوں میں اُنھیں بلوچ کے سواکوئی دوسرا دست و بازونظر نہیں آئے گا اور پاکستان تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی تنہائیوں کو مٹانے ناکام ہوگا ۔سی پیک جہاں پاکستانی معشیت کیلئے آکسیجن ہے وہیں وہ اُس کیلئے موت کا کنواں بھی ہے بلوچ قوم کے علاوہ ہمسایہ ممالک اور امریکہ سمیت کئی عالمی قوتوں کو یہ پروجیکٹ اپنے مفادات کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ان حالات میں اگر بلوچ نے دوباتوں کو یقینی بنایا تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی فیصلہ اُ ن کی رضامندی کے بغیر نہ ہو بصورت دیگر حالات بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور جو حالات آج موافق ہیں کل کہیں برعکس نہ ہوں پہلہ داخلی طور پر آزادی پسندمل کراپنی رٹ کے اظہار میں ایسی قوت دکھائیں کہ دنیا یہ باور کرنے مجبور ہو کہ اس قوم کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا دوسری طرف متحدہ طورپر اپنی سفارتی سرگرمیوں کواس حد تک منظم انداز میں آگے بڑھائیں کہ دنیا نہ صرف بلوچسان میں ہونے والے ریاستی دہشتگردی سے ہمہ وقت باقاعدہ باخبر رہے بلکہ اُسے یہ باور کرایا جائے کہ آزاد بلوچ ریاست کا قیام اُس کے بھی مفاد میں ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز