تحریرـ فرح بلوچ
دنیا بہت ہی بڑی ہے، اور اسکی داستان بھی اس طرح بے تحاشہ بڑی جس میں روز ازل سے لے کر آج تک ہر کوئی اپنی بقا کی خاطر اپنے طریقہ کار استعمال کر کے اپنی حق کی خاطر جنگ لڑ رہے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں ایسی ہمیں بہت سے مثالیں ملے ہیں ، جنہوں نے اپنے قوم کے لیے آخری ایام بھی قربان کیے اور سرخرو ہو گئے ۔ ہمارا موضوع ہم تک اور ایک رہنما تک محدود ہےجس سرزمین کا نام بلوچستان ہے اور اس کا ایک باسی کا نام تھا یونس بلوچ۔
وہ انسان جو اپنا سب کچھ وطن کے لیے قربان کرتے ہیں، اپنے بچے ،ماں باپ اور اپنی بیوی کو چھوڑ کر وطن کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسے عظیم انسان بہت کم اس سرزمین کی عشق میں سر پر کفن باندھ کر اپنی جان کا سودا لگاتے ہیں۔ اپنا تن،من،دھن سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اور اسی طرح جنوری کی سرد مہینے کے 31 تاریخ کو ایک گھر میں قیامت سی چھا گئی، گھر کی آنگن میں ایک روشن چراغ بجھ گیا، ایک بیوی بیوا ہوگئی ، بچے یتیم ہو گئے،ایک ماں کا ہنستا کھلتا ہوا گود اُجڑ گیا،ایک باپ کا کندھا ٹھوٹ گیا،ایک بہن نے اپنا محافظ اور بھائی نے اپنا بھائی کھو دیا اور یہ وہ دن تھا جب میں نے اپنے ایک فکری استاد کو کھو دیا۔
میں اس عظیم انسان کی بات کر رہی ہوں جو کہ منگچر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ فکری استاد یونس بلوچ ہیں، جنہوں نے دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے جام شہادت نوش کی۔ اور گلزمین کے لیے قربان ہوگئے ۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھ کر وہ مادر وطن پر اپنے حق کیلئے متحد ہو نے لگے نیلسن منڈیلا نے یہ الفاظ ادا کیے، کسی بھی قوم کی زندگی میں وہ وقت ضرور آتا ہے جب اس کے پاس انتخاب کیلے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک اتحاد دوسرا جنگ، انہوں نے یہ بھی بتایا، کہ اب ہم کسی بھی صورت میں اطاعت گزار نہیں بنیں گے بلکہ اپنے تمام تر وسائل اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اپنے عوام کا دفاع کرتے ہوئے اپنے مستقبل اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
اس عظیم استاد کی فکری سوچ 2004 کو پورا ہوا، جب وہ سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے اپنی موبلائیزیش اس وقت سے شروع کیا اور ان میں سے میں بھی ہوں وہ عظیم استاد میرے فکری استاد بن گئے انہوں نے اس جہد کو جاری کیا۔
جب 2009 کو اس عظیم استاد کو لاپتہ کیا گیا اس کے لاپتہ ہونے کے بعد پورے خاندان دماغی طور پر اپاہج ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ اس درد سے نہ جانے ہم نے کہا سے کہا جہد کیا اور ہماری اس دن رات کی جہد سے شہید کچھ دن بعد رہا ہوگئے ۔ ان کی رہائی سے پورے خاندان میں ایک خوشی سما گیا۔ اس عظیم انسان پر اتنے اذیت اور تشدد کیے تھے کہ وہ خود چلنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ بہت سے تشدد برداشت کیئے تھے۔
شہید کے رہائی کے کچھ دن بعد وہ اپنا سرکاری ملازمت چھوڑ کر اپنے آبای گاوں منگچر چلے گئے ہمیشہ کے لیے۔ وہاں انہوں نے اپنے جہد کو پر سے شروع کیا اور لوگوں کو موبلائز کیا۔
جنوری 30 کی رات تھی جب وہ اپنے بیٹی ہانی کے ساتھ فون پہ بات کر رہے تھے تو اچانک سگنل چلا گیا ہم نے سوچا کے ایسے ہی نیٹ ورک کا مسئلہ ہوگا اور بنا کسی سوچ کے سو گئے پر جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ہوا تو ہمیں اطلاعات موصول ہوہی کہ منگچر میں پاکستانی فوج نے پورے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ وہ وقت پھر سے ایک بوڑھی ماں،بچوں،بیوی کی لیے قیامت کی طرح بن گیا اور ان کی چیخ و پکار نے عرش کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب شہید کے غمزدہ بچوں اور بیہوش بیوی کو گاڑی میں بیھٹاتے ہوہے منگچر کی جانب روانہ ہوہے تو جیسے ہی ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہر طرف ویرانی سی چھا گئی تھی ہر طرف خاموشی اور سکونت نے اپنا چادر اوڑھ رکھا تھا اور لوگوں کا ہجوم سڑکوں اور گلیوں میں احتجاج کر رہے تھے، جیسے ہم نے پوچھا کہ یونس کہا ہے تو ان کی بے بس بہن نے رونا شروع کیا کہ اپنے وطن کی دفاع کرتے ہوہے شہید ہو گئے ہیں اور ان کی لہو سے لت پت میت کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں تو ہم بھی روڈ اور سڑکوں پر ان کے ساتھ بیٹھ گئے کچھ گھنٹوں تک یہ روڈ بند رہا تو اس دوران وہاں کے اے سی آئے اور ہم سے معذرت کیا کہ روڈ کو بند نہ کرے اور کہا کہ میں یقین دہانی کرتا ہوں کہ آپ کے میت کو آپ تک پہنچا دینگے۔ ان کی یقین دہانی پر ہم روڈ سے اٹھ گئے۔
اور گھر جا کر انتظار میں تھے کہ کب ہمیں اے سی فون کرے گے ایسے میں رات 3 بجے ہمیں فون آیا کہ آکر اپنے میت کو لے جائے
جیسے وہاں کچھ لوگ گئے میت ان کے سامنے رکھا ہوا تھا اور اے سی نے پر تفاق انداز میں میت کو سلیوٹ کر کے ہمارے حوالے کر دیا۔
اس بہادر انسان نے شہادت سے پہلے اپنے سم، موبائل فون سب توڑ دیے کہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے، ان کے پاس جو کچھ بھی تھا ان کے ساتھ لڑتا ہوا نکلا۔ لڑتے لڑتے جب گولی ان کے سینے پہ لگا تو وہی پر گر گئے مگر دشمن نے مزید گولیاں برساہے اور بے دردی سے ان کو شہید کر دیا۔
اس عظیم انسان نے اپنا حق ادا کر لیا جاتے جاتے انھوں نے اپنی سوچ اور فکر کو زندہ کیا اور آج اس فکر نے مجھے بنا دیا وہ عظیم انسان ہر روپ میں میرے سامنے ہیں، آج بھی وہ ہمارے دلوں میں ہمارے دماغوں میں، ہمارے ہر قدم پہ زندہ ہیں کیونکہ صرف جسم ہی فنا ہوسکتا پر سوچ نہیں
اسی طرح سر زمین بلوچستان کے شہیدوں کا لہو اور انکی جدوجہد ضرور رنگ لاے گا، اس سر زمین نے نوروز، اکبر، بالاچ، جیسے بہادر جنم دے تو بھلا اس سر زمین کے نوجوان کیسے اپنی جدوجہد چھوڑیں۔ ہم اپنے پیاروں کے لہو کے بہنے پر فخر محسوس کریں گے کیونکہ شہید کبھی مرتا نہیں اور آزادی کا جشن منا کر جب جھنڈے فضا میں لہراہیں گے، جن پہ لہو ہے ہمارے شہیدوں کا۔