پنجابی اور پنجابی جیسے خصلت رکھنے والے کہتے ہیں کہ قبائلی شخصیات کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ بلوچ حقوق اور آزادی کو بھول جاتے ہیں لیکن جب اقتدار چھن جاتا ہے تو ان کو بلوچستان اور بلوچوں پر مظالم یاد آتے ہیں۔
بلوچوں میں کچھ ناعاقبت اندیش لوگ رٹا لگاتے کہ سرداروں پر بھروسہ نہ کرو وہ کبھی بھی اپنا قبلہ بدل دیتے ہیں۔ یہ طوطا نما انسان اس حقیقت کو بھی جھٹلا نہیں سکتے کہ جن سردار یا نواب (آزادی پسند) نے تمھاری انگلی پکڑ کر ہرمشکل وقت میں تمھاری رہنمائی کی، جنگ ہو یا جیل سب کٹھن ادوار میں تمھاری رہنمائی کی اب تم ان پر شک کا اظہار کرکے کونسی قومی خدمت کررہے ہو؟
ان کے اس پروپگنڈے کو حیربیار مری نے غلط ثابت کردیا جب وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے انہوں پاکستان سے وفاداری سے صاف انکار کرتے ہوئے بلوچستان سے وفاداری کا حلف لیکر جی ایچ کیو کو پیغام بھیجا تھا کہ ہم پارلیمنٹ میں بکنے کے لئے نہیں آرہے بلکہ بلوچستان کے عوام کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی کرنے آئے ہیں۔
اس کے بعد شہید بالاچ مری جب بھاری اکثریت سے انتخابات جیت کر رکن صوبائی اسمبلی بنے تو صرف دو بار اسمبلی نشتوں میں حاضر ہوئے اس کے بعد انہوں نے بلوچستان کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور بلوچ قوم و نوجوانوں کی عملی و علمی تربیت کی اور ایک محب وطن بلوچ لشکر تیار کیا۔
بالاچ اور حیربیار دونوں نے اقتدار ملنے کے باوجود بلوچ جہد کو اولین فریضہ جانا اور بلوچ نوجوانوں اور آزادی کی تحریک کی سربراہی کرتے ہوئے دشمن کے پروپگنڈوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
2005 سے سوئی میں جب حالات بگڑنا شروع ہوئے تو اسلام آباد سے فوج نے اپنے نمائندے بھیجے تاکہ وہ جاکر داڈائے بلوچ شہید نواب اکبربگٹی کو بھاری مراعات کا جھانسہ دے کر پھاڑوں پر جانے سے روکیں، نواب بگٹی کو پتہ تھا کہ تراتانی میں بھوک پیاس، بیماری اور بمباری ہے جبکہ اسلام آباد میں بلٹ پروف گاڑی، اے سی ، اور تمام عیش آرام ہے لیکن انہوں نے پرخار راستے کا انتخاب کرکے ریاستی بیانیہ ناکام بنادیا۔
نواب بابو نوروز خان شہید کوبلا شبہ پنجابی فوج نے چاند تارے ہتھیلی پر دلانے کے وعدےکیے ہونگےلیکن انہوں نے بھی پنجاب کے بنگلے اورگاڑیوں کی پرکشش پیشکشوں کو ٹھکر کر اپنے بیٹوں اور بہادر ساتھیوں کے ساتھ شہادت کو ترجیح دی۔
اسی طرح بابا مری نواب خیربخش (مرحوم) نے اپنی نصف زندگی قید و بند میں گزاری ، 2000 میں جب مشرف حکومت نے انہیں 500 مری بلوچوں کے ہمراہ گرفتار کیا تب بھی فوج کا اسرار تھا کہ آپ (نواب مری) مری علاقے میں تیل و گیس اور معدنیات نکالنے کی اجازت دیں تو آپ کو بیٹوں اور قبیلے کے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ بنا کسی خراش کے رہا کردیا جائے گا لیکن نواب مری نے بلوچ قومی تحریک جیسی امانت میں خیانت نہیں کی اور آزادی کے کارواں کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھا۔
آج بدقسمتی سے پنجابی ذہنیت کے لوگ قبائلی سردار و مڈل کلاس کے نام پر بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں میں تفرقہ ڈالنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
بلوچ باشعور قوم کو سنڈیمن و اسلام آباد کے درباری، بگی کھینچنے والے سرداروں اور حقیقی بلوچ محب وطن سرداروں کے عملی کردار اور قومی ایثارکا اچھی طرح علم ہے۔ یہاں بحث مڈل کلاس اور اپر کلاس کی نہیں ہے کیونکہ بلوچ تحریک اس شفیق والد کی طرح ہے جو اپنے تمام اولادوں سے ایک ہی طرح پیش آتا ہے۔ وہ مڈل کلاس اور اپر کلاس کی کوئی اصطلاح استعمال نہیں کرتا کیونکہ دشمن بھی ہمارے قد آور قومی رہنماوں شہید ڈاڈا ئے بلوچ نواب بگٹی اور شہید غلام محمد کے لیے ایک بندوق کی ایک ہی گولی کا انتخاب کرتا ہے، شہید نواب نوروز کی پھانسی کے لیے عمدہ رسی کا انتخاب نہیں کرتا اور شہید حمید جان کو مڈل کلاس کہہ کر ادنی رسی سے ان کو پھانسی نہیں دیتا۔ لہذا یہ بات ہمارے پڑھے لکھے اور ابھرتے ہوئے نوجوانوں کو خاص کر ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر کوئی شخص کسی محفل میں یانجی سطح پر آپ کے ساتھ ایسا بیہودہ موضوع چھیڑنے کی کوشش کرے جس سے بلوچ قومی طاقت اور قومی سوچ کو دو حصوں یعنی مڈل کلاس و سردار و نواب کلاس میں بانٹنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتا دکھائی دے تو یہ آپ کا قومی فرض بنتا ہے کہ آپ اس شخص کو ٹوکیں، اس کی اس سوچ کی حوصلہ شکنی کریں، اور اگر پھر بھی وہ آپ کو برین واش کرنے پر تلا رہے تو ان سے کنارہ کشی اختیار کریں چاہے وہ کتنا ہی بااثر کمانڈر، کرنل، جنرل، میجر یا لیفٹیننٹ ہو۔
اپنی قومی سوچ کو مادی مفادات کے لیے گروی نہ رکھیں، ذاتی مفادات کا سفر زیادہ طویل نہیں ہے، حالات سے لڑنا سیکھیں، آج اگر آپ چند مراعات کی خاصر غلط پالیسیاں بنانے والوں کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کا ساتھ دیں گے تو کل بلوچ آپ سے سوال کریگا، آج بھی مشرقی و مغربی بلوچستان کےکونے کونے سے ہماری مائیں بہنیں یہ سوال کررہی ہیں کہ گجر کے ظلم پر لب سی لینے کے بدلے تمھیں کتنے تمن ملے؟
ایک قومی جہد کار کی حیثیت سے پیٹ پر پتھر باندھنے والوں کا ساتھ دو تاریخ میں سرخرو رہو گے کیونکہ مورخ سب کچھ لکھ رہا ہے، مورخ وہی لکھے جو تم کررہے ہو مورخ وہ نہیں لکھے گا جو تم لکھ رہے ہو لہذا پنجابی و گجر میں تفریق نہ کرو کیونکہ وہ دونوں ہم سب کے دشمن ہیں اور مڈل کلاس و سردار، نواب و اپر کلاس (آزادی پسند سردار و نواب) میں فرق نہ کریں کیونکہ یہ دونوں آپ کی تحریک کے ہمراز و ہمسفر ہیں۔