تحریر: حسن جانان
انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن وہ ہر طرف سے پابندیوں سے جھکڑا ہوتا ہے فرانسیسی مفکر روسو آزادی کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے روسو جس عہد میں رہا اس عہد میں فرانسیسی معاشرہ ہر طرف سے سیاسی مسائل میں گھرا ہوا تھا اور انھوں نے آزادی کو از خود معاشرتی پابندیوں سے جوڑ کر پیش کردیا اسی طرح افلاطون نے انسان کو سماجی حیوان قرار دیا سماجی حیوان کا تصور انسان کی اجتماعی و معاشرتی زندگی کا تصور ہے دونوں مفکر انسان کی زندگی کو معاشرہ میں ہی پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں اور معاشرتی پابندیوں کی رو سے انسان کی زندگی کو دیکھتے ہیں کیونکہ انسان آزاد تو ہے لیکن بعض پابندیوں کے بعد ہی وہ انسانی قدر حاصل کرلیتا ہے بصورت دیگر مکمل آزادی از خود ایک جرم بن جاتا ہے کیونکہ جب انسان معاشرہ میں رہے گا تو وہاں انسان کو از خود اپنے لیے قوانین مرتب کرنے ہوتے ہیں اور ایک معاشرتی ڈھانچہ ترتیب دیتے ہیں قانون کے بغیر کوئی بھی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ پھر انسانی خواہش کی بنیاد پر ہر انسان دوسرے سے سبقت لے جانے پر ایک دوسرے کو قتل کرتے نظر آئیں گے جو طاقتور و چالاک وہی حاکم، اگر کوئی بھی معاشرہ مکمل آزاد ہو تو وہ حیوانوں کا ہی معاشرہ ہو سکتا ہے انسانوں کا نہیں، کیونکہ تہذیب و تمدن اخلاق سبھی معاشروں کی دین ہے بغیر پابندی کا کسی معاشرے یا کسی بھی ادارے کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ مکمل آزادی سے معاشرتی نظام قائم نہیں ہو سکتا اور ہر پابندی ایک طرف انسانی آزادی پر قدغن لگا دیتی ہے تو دوسری طرف یہی پابندی آزادی کو پھل دار پھل بنا دیتا ہےآزادی کے تصور کا خیال ہی نئے پابندیوں کا منبع ہی کہلائے گا کیونکہ انسان اپنے سوچ کے تحت منظم قواہد و ضوابط کے تحت زندگی بسر کر سکتا ہےآزادی کا تصور بہت ہی سہانا ہے لیکن آزادی تک پہنچنے یا اس دوران سفر جو رکاوٹیں آئیں گے ان سے گذر کر آزادی تک پہنچنا اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب قربانیوں کا لا متناہی سلسلہ نہ ہو اور اس خیال کے ساتھ کہ وہ کس قسم کی آزادی کا تصور لیے ہوئے ہیں موضوعی آزادی سے لیکر معروضی آزادی تک اس خیال کو پختہ کرتا ہے کہ انسان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین زبان کا فرق تہذیب کلچر کا فرق غرض ہر وہ فرق جو ایک گروہ کو دوسرے سے جدا کرتا ہے اور ہر کلچر زبان کا باہمی احترام عزت و شرف آزادی کا تصور قرار پاتا ہے قومی آزادی کا وہ تصور کہ میں اس سے ہر حوالے سے مختلف ہوں زبان ثقافت رسم و رواج سبھی مختلف ہیں تو اس بیچ جو فرق تاریخی حوالے سے ہمارے بیچ موجود ہے اسکو وسعت دینا ہے وہ فرق کرنا ہماری سوچ ہے اور فرق کو پھیلانا ہمارا عمل ہے عمل کے نتیجے میں ہمیں جو حاصل ہوگا وہ ہماری منزل ہی ہے اور وہ منزل آزادی ہے اور اس آزادی کا تصور اس فرق پرہے جو ہمارے بیچ موجود ہے نہ کہ وسائل و ساحل سے ہر وہ قیمتی شے جسے کوئی بھی لوٹے اور وہ تاریخی پس منظر جس سے ہمارا وجود وابستہ ہے جس کے بنیاد پر ہم اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور وہ زمین جس پر ہمارا خون بہا جو قربانیوں کی بدولت ہمارا کہلایا جانے لگا اسکی ہر ایک زرہ ہمارا ہے جس کے فضاؤں میں ہمارے شہیدوں کا روح ہر وقت محو پرواز ہے وہ زمین ہماری ہے اور اس پر اختیار ہمارا ہے جو زبان کلچر و تاریخ کی بدولت علیحدہ شناخت کا متلاشی ہے اگر کوئی اس پر بزور طاقت اپنی پہچان مسلط کرتا ہے اور اس کے قوم کے لوگ خوف سے اسے قبول کرتے ہیں تو یہاں سے غلامی کی پہلی سیڑھی شروع ہو جاتی ہے اور اگر ایک گروہ اسکے خلاف مزاحمت کی طرف جاتی ہے تو یہاں سے آزادی کا تصور پنپنے لگتا ہے. لیکن آزادی اس پابندی کا نام ہے جسے اس قوم کے لوگ خود اپنے لیے قوانین کی صورت میں لاتے ہیں. دنیا میں کوئی بھی آزاد نہیں ہر قوم ہر ملک کسی نہ کسی کا غلام ہے اسے غلامی کہیں یا دوستی دونوں کے بیچ ایک دوسرے پر انحصار کا رشتہ قائم رہتا ہے . دونوں میں فرق اس نتیجے پر ہے کہ کوئی قوم گروہ یا پارٹی اس غلامی یا تعلق داری کو اپنے مجموعی مفادات کے تحت ایک دوسرے پر منحصر ہو نگے جبکہ غلامی بزور طاقت ہے بزور خواہش نہیں بزور خواہش اس طاقتور طبقے کے اس پر چڑھائی کرنے کا ہے اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو دنیا کی تمام طاقتیں ایک دوسرے کے مفادات کے احترام میں کچھ لے دے کر اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھ پائے ہیں امریکہ ہو یا کہ روس دونوں ایک دوسرے کے خلاف رہ کر بھی ایک دوسرے پر منحصر ہے اور اسی طرح پوری دنیا کی عالمی طاقتیں اسی تناظر میں چل رہے ہیں اب اگر آزادی کے اصل مفہوم کو لیکر ہم دیکھیں تو آزادی ہی غلامی ہے اور یہ غلامی مجموعی مقصد کے لیے ہر ایک اپنے گلے میں آزادی کا پھندا ڈال دیتا ہے تاکہ وہ اپنی علیحدہ شناخت کو بچا سکے. فرد گروہ کا پابند ہے گروہ خاندان کا خاندان سوسائٹی کا اور سوسائٹی قوم کا اور قوم ریاست کا پابند ہوتا ہے اور یہ پابندی جو قوانین و اصولوں کی مرہون منت عمل میں آتی ہے اور مشترکہ طور رضامندی سے جو قوانین تشکیل پاتے ہیں وہ مختلف اداروں سمیت سوسائٹی کو برقرار رکھتے ہیں ہم جس آزادی کے تصور کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اس کا مقصد ہی ایک خوشحال ملک کا ہے جہاں پر ظلم و جبر نہ ہو جہاں ہر ایک کے مذہبی قوانین کا احترام ہو جہاں غریب کی غربت کا خیال ہو جہاں معاشرے میں قوانین کی بالادستی ہو وہ قوانین جو مشترکہ قومی قوانین ہو جس پر سب کی رضا مندی ہو. افلاطون اپنی کتاب ریاست میں لکھتے ہیں کہ ہر فرد باصلاحیت ہے لیکن ہر فرد کے صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کے لیے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے معاشرے میں قوانین و نظم و ضبط برقرار رکھ پاتے ہیں ادارے کسی بھی شکل و صورت میں ہو ان کا دارو و مدار اس فکر و سوچ پر منعصر ہے کہ جس کی بنیاد پر ان کو وجود میں لایا جاتا ہے اگر فرد آزادانہ طور پر رہیں کسی بھی ادارے کے ساتھ وابستگی نہ رکھیں وہ اپنے فردی صلاحیتوں کو قومی یا سماجی حوالے سے اس حد تک بروئے کار نہیں لاسکتے. جتنا کہ اس فرد کی صلاحیتیں ہوتے ہیں ادارے ہی وہ بنیادی عناصر ہیں جو فرد کی صلاحیتوں کو مزید ابھار کر انھیں قومی سیاسی و معاشی حوالے سے کارآمد بناتے ہیں اور باصلاحیت افراد ہی وہ بنیادی عناصر ہوتے ہیں جو اداروں کی تشکیل کرتے ہیں اور انھیں اداروں کی بدولت دیگر معاشی معاشرتی ادارے بنتے ہیں اور ایک ریاست کی تشکیل ہو پاتی ہیں اور کوئی بھی ریاست ہو یا فرد یا خاندان ہو. سبھی کئی نہ کئی کسی پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ اس دنیا بھی ایسا کوئی مخلوق نہیں جو مکمل طور پر کسی پر منحصر نہ ہو ہر ایک اپنے چھوٹے سے دنیا میں دوسرے پر منحصر ہے فطرت کا قانون بھی یہی ہے لیکن فطرت کے قوانین کی شکل و صورت موجودہ انسانی قوانین سے مختلف ضرور ہیں لیکن طاقت دونوں جگہوں پر ایک ہی معیار رکھتا ہے جو طاقتور وہی حاکم. اسی طرح منحصر ہونے کا یہ عمل ہر صورت انسانی آزادی پر اپنے پنجے گاڑ دیتا ہے یوں تو آزادی کی تعریف غلامی سے مستحق ہے اگر آپ غلام ہیں تو آپ کی غلامی سے نکلنے اور غلامی کے وقت آپ پر لاگو وہ قوانین جو کسی فرد یا ریاست کی جانب سے لاگو ہوں جو آپ پر زبردستی مسلط کی گئی ہو ان پابندیوں سے چھٹکارہ اور اپنے مرضی سے دیگر قوانین کو خود پر لاگو کرنا آزادی کہلاتا ہے یوں آزادی کا مقصد یہی بنتا ہے کہ ریاست فرد یا گروہ کے لاگو کردہ قوانین جو زبردستی آپ پر تھونپ دی گئی ہو ان سے چھٹکارہ آزادی ہے مقصد آزادی صرف قید سے رہائی نہیں بلکہ ایک اور قید میں خود کو قید کرنا کیونکہ پہلے جو قید تھا وہ جبرا تھا اب بھی جو قید ہے وہ بہ رضا ہے اس طرح موجودہ دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو ہر قوم دوسرے کا غلام ہے ہر خاندان دوسرے خاندان کی غلامی میں زندگی بسر کر رہا ہے قرون وسطیٰ کی غلامی سے پہلے اور اسکے بعد و موجودہ حالات میں غلامی کی صورتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں غلامی و حاکمیت کا رشتہ معاشی بنیادوں پر بنتا ہے اور معیشت ہی وہ بنیادی اکائی ہے جو کسی غلام کو غلامی سے نجات کی طرف اکسانے پر مدد کرتا ہے معیشت کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر و کلچر سمیت شناخت و بقا کسی غلام کو حاکم کے خلاف مرنے مارنے پر مجبور کرتا ہے روسو کے معاہدہ عمرانی کی رو سے وہ انسان کی آزادی کو ہر طرف کے معاشرتی قوانین میں بند ہونے سے تشبیع دیتا ہے اور برٹرینڈرسل آزادی کی تعریف کی تجریدی تعریف کرتا ہے “آزادی” کا مطلب ہے خواہشوں کی تکمیل میں بیرونی رکاوٹوں کی عدم موجودگی۔ برٹینڈرسل آزادی کو خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ کہتا ہے کہ جب آپ اپنی خواہشوں کی تکمیل بنا روک ٹوک کے پورا کر سکیں گے وہ آزادی ہی ہوگی برٹینڈرسل آزادی کی اس کی تعریف کر کے اسے تجریدی کہتا ہے لیکن اسکا نقطہ بھی افلاطون و روسو کے بنیادی تصور سے ہم آہنگ ہیں آزادی اپنے وسیع مفہوم میں معاشی معاشرتی سیاسی سماجی اخلاقی و مذہبی مختلف معنی رکھتی ہیں لیکن ہم آزادی کے اس بنیادی نقطے کو زیر بحث بنارہے ہیں جس سے ہماری پہچان و بقا کا واسطہ ہے میں خود کو اس وقت آزاد سمجھونگا کہ میں اپنی زمین پر اپنی مرضی سے نقل و عمل کر سکوں اپنی زمین پر اپنے قوم کے مرضی و منشا کے تحت قوانین بنا سکوں جس کا احترام ہر بلوچ و غیر بلوچ کرے میری شناخت میرے قوم و میری زمین سے ہو اس وقت میں خود کو آزاد سمجھونگا اگر میں غلام نہ ہوتا تو لوگ میرے زبان میں بات کرتے دیواروں پر لکھائی میرے زبان میں ہوتی سکولوں میں میرے بچے اپنی زبان میں بات کرتے اور اپنے ہیروز پر فخر کرتے اپنے وطن کے سورماؤں کے قصے سنتے اور سناتے لیکن ان میں کچھ بھی میرے پاس نہیں اگر ہے تو صرف غلامی کا احساس ہے یہ احساس ہر وہ بلوچ اپنے اندر محسوس کرتا ہے جس نے آزاد ملک دیکھے ہیں انکی کلچر و زبان و تاریخ دیکھے ہیں آزادی کا تصور حسین نہیں بلکہ پُر نور ہے رات کی تاریکی کے بعد وہ ایک روشن صبح ہے دنیا میں قوموں نے بے پناہ قربانیاں دیکر ہی اپنے علیحدہ وطن کے مالک بنے ہیں اور دنیا کے دیگر اقوام و ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی و سماجی تعلقات استوار کر سکے ہیں بحثیت قوم اپنی پہچان اس وقت بنایا جا سکتا ہے جب آپ پر کسی اور ملک و قوم کے قوانین لاگو نہ ہو آپ آزادانہ طور پر دیگر اقوام سے اپنے سیاسی و سماجی و معاشی رشتوں کو استوار کر سکیں تب وہ قوم دنیا میں اپنی آزادانہ شناخت کو بچا پائے گا چنیوا اچیبے اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں آپ کا سوال ہے کہ دنیا میں کوئی قوم آزاد ہے کا جواب ہے نہیں. آپ کچھ معاملات چلا سکتے ہیں لیکن آپ کو دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور بہتر یہی ہے کہ آزادی کے ساتھ تمام دنیا سے تعلقات ہوں انسان ہونے کے ناطے آپ آزاد ہو سکتے ہیں لیکن معاشرے کا فرد ہونے کے ناطے آپ کا واسطہ دوسرے افراد سے پڑتا ہے اسی طرح قومیں اپنے بعض معاملات نمٹا سکتے ہیں اسکے باوجود دوسروں سے تعلق بھی ہوتا ہے، موجود دور میں تمام ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے ساتھ کسی حد تک ایک دوسرے سے جو رشتہ قائم ہے وہ بھی مکمل آزادی نہیں بلکہ چنیوا اچیبے کی خیال کی رو سے جو انحصار کا رشتہ ہے وہی ایک دوسرے کو قائم و سلامت رکھتا ہے موجودہ حالات کے تناظر میں بلوچ قوم کو بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات و ایک دوسرے اقوام کے مفادات پر بنتے بگڑتے تعلقات کو سمجھ کر اپنی آزادی کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے اور دنیا کو اپنی طاقت دکھانے اور ان کے ساتھ اپنے مفادات و انکے مفادات پر مضبوط رشتے قائم کرنے ہونگے کیونکہ کوئی بھی ملک کسی کا ازلی و ابدی دوست و دشمن نہیں ہوتا بلکہ دوستی و دشمنی نظریاتی و معاشی حوالے سے بنتے و ٹوٹتے ہیں اور بلوچ بھی کسی ایک ملک پر اندھا تقلید کرنے کی بجائے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے مفادات خصوصا آزادی کے لیے رائے ہموار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ماضی کے دھندلکوں میں پڑ کر ریڈ انقلاب کے شادیانے بجانے سے آزادی لینا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ماضی و حال بہت ہی بدل چکے ہیں دنیا کے مفادات بلوچ وطن و سی پیک سے کس حد تک وابسطہ ہیں اسکا اندازہ اس بڑے پروجیکٹ کی وسطٰی ایشیا تک رسائی سے انڈیا و امریکہ سمیت روس کے درمیان کشیدگی بڑنے ختم ہونے کے امکانات مفادات کے حوالے سے ہی ہونگے ضروری نہیں کہ ایران ہمارا دوست بنے اور ہندوستان بھی. ہر ایک اپنے مفادات کی رو سے بلوچ کی حمایت و مخالفت میں میدان میں آئینگے کسی ملک کو خوش کرنے سے اپنے نظریہ آزادی کو سکڑنا تحریک کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا اور آزادی کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ چین و پاکستان کا مقابلہ اس وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے دیگر ممالک کو باور کرانے میں تمام آزادی پسند مشترکہ حکمت عملی ساتھ ان کے سامنے جائیں تب آزادی کے حسین نعمت سے بہرومند ہونا مشکل نہ ہوگا اگر ماضی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام و سوشلسٹ کے دھندلکوں میں پڑ گئے تو یقیناً تحریک کی حالت ماضی سے بدتر ہوگا اور چین و پاکستان مشترکہ سی پیک منصوبہ اس خطے میں بلوچوں کو کچھ ہی سالوں میں ماضی بنا دے گا۔