اے میرے ہمسفر!
یہ جنگ، جو بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑی جا رہی ہے، میرے دل و جان کا خواب ہے،جس کے لیے ہزاروں نوجوان شہید ہوئے اور ہزاروں سرد راتوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر مورچہ زن ہیں۔ میں بھی اسی جنگ کا ایک گوریلا سپاہی ہوں۔ ہم اپنے وطن(بلوچستان) کی آزادی، اپنی شناخت، اور اپنے حق کے لیے ایران اور پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
آپ کا پیغام ملا جس میں آپ نے پوچھا کہ انتظار کب ختم ہوگی ، تم کب لوٹ کر آءو گے؟
تو جان لو کہ جب ہم اس طویل، سخت اور بے رحم جنگ میں فتح یاب ہوں گے، جب شہیدوں کے خواب حقیقت بنیں گے اور قوم اپنی منزل کو پالے گی، تو اُس دن میں سب کچھ چھوڑ کر، ہر چیز سے بے نیاز ہوکر تمہاری طرف پاگلوں کی طرح دوڑتا آؤں گا۔
اے میری روح کا سکون، میرے خوابوں کی تعبیر! پھر تم، ہمارے بچے ننی کریمہ اور منا بالاچ کو لے کر گھر کے دہلیز پر میرا انتظار کرنا۔ جب میں گاؤں میں داخل ہوکر گھر کے قریب پہنچوں تو مجھے دیکھتے ہی اپنی تمام بےتابی اور محبت کو ساتھ لیے میری طرف دوڑی چلی آنا۔ مجھے اپنی بائوں میں لے لینا، یوں لپٹ جانا کہ جیسے برسوں کی جدائی کی تلافی ہو رہی ہو۔ جب تک میری روح کو سکون نہ ملے، مجھے اپنے حصار میں رکھنا، میرے درد کو اپنی محبت کی شدت میں ڈھال دینا۔
پھر جب ہماری نظریں ملیں، تو اپنی عشق بھری نگاہوں سے میرے چہرے کو دیکھنا، اپنے آنچل سے میرے تھکے ہوئے چہرے کا دھول صاف کرنا۔ میرے داڑھیوں میں اپنے نازک ہاتھوں سے محبت سے لمس دینا، پھر شدت سے اپنے لبوں سے میرے ماتھے پر ایک طویل بوسہ دینا، ایسا بوسہ جو میرے دل کی ہر بےچینی کو ختم کر دے۔
یہ لمحے ہمارے عشق کی سچائی کی گواہی ہوں گے، جہاں الفاظ کی ضرورت نہیں، صرف ہماری محبت کا خاموش اظہار ہی کافی ہے۔
جیسے ہی میری نظریں تمہیں دیکھیں گی، میری تمام تھکن، تمام غم تمہاری مسکراہٹ میں گم ہو جائیں گے۔ تمہاری آنکھوں کی چمک اور چہرے کا سکون میری بےچین روح کو ایک ایسی پناہ گاہ میں لے جائے گا جہاں ہر زخم بھر جائے گا، ہر درد مٹ جائے گا۔
جب میں لوٹ کر آؤں تو میری ننھی کریمہ اور منا بالاچ شاید مجھے پہچان نہ پائیں۔ میری جدائی اور وقت کی دوری نے ان کے ذہنوں سے میری تصویر دھندلی کر دی ہوگی۔ مگر تم انہیں سمجھانا، پیار سے بتانا کہ یہ ان کے والد ہیں—وہ والد جو اپنی ذات کی حدوں کو پار کرکے ایک بڑے مقصد، ایک اجتماعیت کی طرف بڑھا۔ انہیں بتانا کہ ان کا باپ وہ ہے جس نے عیش و عشرت کو ٹھکرا دیا، ہر آسائش سے بے نیاز ہوکر بےباکی سے دشمن کے خلاف لڑا، اور اپنی قوم کی بقا اور آزادی کے لیے ہر قربانی دی۔
کہنا کہ یہ وہی والد ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو ایک مشن کے لیے وقف کیا، اور آج وہ سرخرو ہو کر، تاریخ کے صفحات پر اپنے نشان چھوڑ کر لوٹے ہیں۔ انہیں بتانا کہ ان کے والد نے وہ راستہ چنا جو آسان نہیں تھا، مگر جس نے ان کی قوم کو آزادی اور وقار کا خواب پورا کرنے کے لیئے ہر ممکن قربانی دی ۔ انہیں یقین دلانا کہ ان کے والد کی کہانی ایک ایسی تاریخ ہے جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔
ان کے معصوم دلوں میں یہ بات بٹھا دینا کہ ان کا باپ ایک سپاہی تھا، ایک مجاہد تھا جس نے ان کی اور اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر سب کچھ قربان کیا۔
اے میرے خوابوں کی رانی ، پھر ہم ان تمام دوریوں کا حساب برابر کریں گے جو جنگ نے ہم پر مسلط کیں، ہر ناانصافی، ہر لمحہ جو ہم نے جدائی میں گزارا۔ اور جب میں تمہاری آغوش میں آؤں گا تو وہ لمحہ ایسا ہوگا کہ وقت بھی تھم جائے گا۔ ہمارا پیار، جو آزمائشوں اور قربانیوں سے گزرا ہے، اُس لمحے ایک لازوال حقیقت بن کر امر ہو جائے گا۔
اور یوں ہم ایک ایسی دنیا بسا لیں گے جہاں نہ کوئی طاقت ہمیں الگ کر سکے گی اور نہ کوئی جدائی ہمیں چھین سکے گی۔ ہماری کہانی دیس کی ہوا میں گونجے گی، اور ہماری محبت کی کہانی ہمیشہ کے لیے دلوں میں زندہ رہے گی۔
جنگ ہاری نہیں جاری ہے۔