رات کی تاریکی سر اٹھا رہی تھی۔ ہر طرف خاموشی کی چادر پھیل کر اپنے پاؤں پھیلا رہی تھی۔ دیوانے اپنے دھن میں مست قدرت کے ان نظاروں کی تعریف کررہے تھے۔ جنھیں صبح انھوں نے دوران سفر دیکھا تھا۔ بادل آسمان پر اپنی سفیدی کی چادر کو پھینک پر ماتمی رنگ کا چادر اوڑھ چکے تھے۔ قریب مختلف حشرات کی آوازوں سے خاموشی متاثر ہورہی تھی۔ دیوانے خاموشی کے چادر کو ہٹاتے ہوئے کہا دوست ہم اتنے وسیع و عریض زمین کے مالک ہیں۔ اور جن پہاڑوں میں ہم رہ رہے ہیں۔ یہ شہروں سے بہت دور ہیں۔ اور یہاں پر میں نے کوئی جنگلی جانور نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی ایسے پرندے. ویسے تو ان جنگلوں و پہاڑوں میں ایسے جانوروں کی بہتات ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ لگتا ہے اس حوالے سے ہماری زمین مکمل بانج ہے۔ جس طرح ہمارے پہاڑوں کی خوبصورتی زمین کے نیچے چھپی ہے اور اس بانجھ پن کا بھی کوئی راز ہے؟ ان پہاڑوں میں جہاں دس پندرہ کلومیڑ سے زیادہ دور کوئی آبادی نہیں۔ لیکن پھر بھی یہاں جنگلی جانور نہیں۔ جس طرح پہاڑوں کا تصور میں کرتا تھا کہ ہر طرف جنگلی جانور ہونگے۔ لیکن یہاں پر چکور کی آواز سننے کے علاوہ میں نے کچھ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ حالانکہ یہاں پانی بہت ہے. جی جناب بجا فرمارہے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں پر مال مویشی چرانے والے آباد ہیں۔ جوموسم کے مطابق اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور بلوچ خانہ بدوش رہے ہیں۔ اور لوگوں کا زیادہ گزر بسر آج بھی مال مویشیوں پر ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ وقت کے ساتھ سفر میں رہتے ہیں. اصل میں ان خانہ بدوش بلوچوں کی زندگی کا دارومدار نیچر پر و اپنے مال مویشیوں پر ہوتا ہے۔ اور انکی زندگی انھیں مال مویشیوں پر منعصر ہوتی ہے۔ اور اگر بارش نہیں ہوگی تو یہ خانہ بدوش یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور جائیں گے۔ تاکہ اپنے مال مویشیوں کا گزر بسر کر سکیں۔ اور جہان تک بات ان جنگلی جانوروں کی ہے۔ وہ ان پہاڑوں میں موجود ہیں۔ لیکن انسانی نقل عمل میں وہ اپنے بلوں میں چھپے رہتے ہیں۔ البتہ جتنی تعداد کی آپ توقع رکھتے ہیں ۔وہ واقعی نہیں ہے۔ اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ پانی کی ہے کہ پانی نہ ہونے سے یہ جانور نیست نابود ہو گئے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ بارش بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات پانچ سال و دس سال تک بارشیں نہیں ہوتی۔ جب بارش نہیں ہوگی تو انکی موت یقینی ہے ابھی کچھ سال پہلے ہی قحط سالی کا جو دور آیا تھا۔ اس میں انسان نہ بچ سکے جانور تو دور کی بات ہے۔ انسانی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے بلکہ ہر اس جاندار کا دارومدار پانی پر ہے جو سانس لیتا ہے۔ اس وجہ سے دنیا کی عظیم تہذیبیں دریا کے کناروں پر پرورش پائی ہیں.اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں لوگ پہاڑوں میں رہ کر پہاڑی جانوروں کا شکار کرتے رہے ہیں۔ بعض شوق کے تحت، بعض ضرورت کے تحت و بعض شہروں سے آکر اسے کاروبار بناچکے تھے۔ وہ چکور شکار کر کے انھیں بیچتے تھے۔ اور اس کے علاوہ ایک اور وجہ ہے وہ یہ کہ مال مویشی پالنے والوں کے لیے یہ ایک بہت ہی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ جب بھیڑیا گیدڑ یا کہ لگڑ بھگڑ انکے مال مویشیوں کا شکار کرتے ۔ تو انھیں مجبورا انھیں مارنا ہوتا۔ اس طرح وہ ان کا شکار کرتے۔ جب یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ تو انھوں نے مجبور ہو کر کسی ایک بھیڑیے ، گیدڑ یا اپنے کسی مردہ بکرے میں زہر ڈال دیتے۔ تو دیگر جانور آکر انھیں کھاتے۔ جس سے وہ مر گئے۔ اس وجہ سے اب یہ جانور اس تعداد میں نہیں جسکی آپ توقع رکھتے تھے۔ توقع رکھنا اچھی بات ہے۔ لیکن وہ حد سے زیادہ ہوگی تو مایوسی کا سبب بنے گی۔ جب سے ہم ان پہاڑوں میں ہیں۔ ہم نے قریبا کچھ جانوروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور یہ جانور بلوچستان کے وسیع و عریض خطے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ہر علاقے میں علیحدہ جانور ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں سے ہم آج گزرے یہاں تو گیدڑ بہت زیادہ ہیں۔ رات کو سونے نہیں دیتے۔ اور ان علاقوں میں پہاڑی بکریاں بہت ہیں۔ لیکن اس موسم میں گرم علاقوں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ بھیڑیے تو سردی کے موسم میں زیادہ نکلتے ہیں۔ کیونکہ وہ سردی کے موسم میں بچے جنتے ہیں۔ اور ان علاقوں میں بھیڑیے ہیں۔ اور پچھلے سال ان علاقوں میں سو سے زیادہ بھیڑ بکریوں کو مختلف علاقوں میں کھا چکے تھے۔ البتہ جانور ان علاقوں میں بہت ہیں۔ اور جب سے جہد آزادی کی تحریک شروع ہوئی ہے۔ ہم ان تمام علاقوں میں آباد لوگوں کو سمجھاتے رہے ہیں کہ وہ شکار نہ کریں۔ اور ہم نے شکار پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ ان جانوروں کو بچایا جاسکے۔ اور اب شکاری اس طرف نہیں آتے۔ اور مالدار بھی سمجھ چکے ہیں۔ وہ بھی ان جنگلی جانوروں کا شکار نہیں کرتے۔ ہمارا بس جتنا چل سکتا ہے ہم نے اپنے سرزمین کے جانوروں سمیت درختوں جڑی بوٹیوں کی حتی الامکان حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے. اب پہلے کی نسبت یہاں جانور زیادہ ہیں۔ آزادی کی تحریک سے پہلے سندھ سے آنے والے جوگی بلوچستان کے بے شمار سانپوں کو پکڑ کر کاروبار کا ذریعہ بنا چکے تھے۔ اور تسلسل کے ساتھ کئی سالوں سے سانپوں بچھوؤں کو پکڑ کر بیرون ملک سمگل کرتے تھے۔ اور بعض اوقات انھی جوگیوں و شکاریوں کے بھیس میں ریاست اپنے مخبروں کو بیچتا ہے۔ تاکہ وہ مزاحمت کاروں کے حوالے سے شکار کے بہانے معلومات جمع کر سکے۔ انھی وجوہات کی بنیاد پر شکار پر پابندی ہے۔ جو ہمارے بس میں ہو سکتا ہے ہم کر رہے ہیں۔ لیکن وسیع و عریض خطہ ہونے کی وجہ سے ہم شکاریوں کو روک نہیں پارہے ہیں. کیوں انھیں ہم روک نہیں سکتے۔ اگر ہم خوف پیدا کریں یا انتہائی سخت سزا مقرر کریں۔ تو اس سے لوگ ڈر کر یہ کام نہیں کرینگے. یہ تو ہمارے اختیار میں ہے ۔اسے تو ہم کر سکتے ہیں۔ ہم ایک دو مہینے میں ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ جس سے لوگ ڈر کے مارے پہاڑوں کا رخ نہیں کرینگے۔ شکار کرنا تو دور کی بات ہے. نہیں دوست ایسا ممکن نہیں۔ اگر ممکن بھی ہو ہم نہیں کرینگے۔ دوستی یا محبت خوف کی بنیاد پر ہو وہ ابدی نہیں۔ وہ غلام کی طرح ایک نہ ایک دن آزاد ضرور ہوگا۔ بات شعور کی ہے۔ اور ہماری کوشش یہی ہے کہ لوگ خود سمجھ جائیں کہ شکار سنت ہے لیکن بہ وقت ضرورت. شکار کو شوق نہ بنائیں۔ یہ فطرت ہی ہے کہ ایک جاندار کا دوسرے پر انحصار ہے۔ اگر ایک ختم ہوجاتا ہے تو دوسرے کی زندگی بھی خطرے میں رہے گی۔ اور ایک جانور کی زیادتی بھی عذاب بن سکتی ہے۔ جس سے پھر معاشرے میں توازن برقرار نہیں رہے گا۔ ہم لوگوں کو سمجھا بجھا کر انہیں یہ احساس دینا چاہتے ہیں کہ لوگ خوف سے ہمارے سوچ سے وابستہ نہ ہوں، بلکہ وہ سمجھ کر ہمارے ساتھ ہوں۔ تو پھر کوئی قانون بنانا سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ قانون جتنا بھی سخت ہو اور لوگ اس قانون کی اہمیت و افادیت کو سمجھ جائیں کہ یہ قانون ہمارے فائدے کے لیے ہے تو لوگ اسکی پیروی کرینگے۔ جب لوگوں پر زبردستی کوئی قانون ٹھونسا جاتا ہے۔ وہ لوگ اس قانون کو ہر جگہ توڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کیونکہ وہ قانون ان کے سماج و معاشرتی زندگی سے مطابقت نہ رکھنے کے ساتھ اس قانون کی اہمیت و افادیت کی تشریح لوگوں کے سامنے نہیں کی گئی۔ تو اس وجہ سے وہ باغی بنیں گے۔ اور تحریک کی کامیابی کادارومدار عوام پر ہے۔ عوام کو شعور دے کر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ بزور طاقت دنیا میں کوئی قانون نہیں چل سکا ہے۔ مارشل لا دنیا کے جن ممالک میں لگے وہاں کے نتیجے آج ہمارے سامنے ہیں۔ کرنل قذافی کے ساتھ کیا ہوا۔ مصر و شام آج کن حالات میں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خوف عارضی ہے جو لوگ اس قانون کو اپنے لیے بہتر نہیں سمجھتے اسکو ضرور توڑیں گے۔ اور موت کا خوف خوف نہیں۔ سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ ہم آج آزادی کی تحریک سے جڑے ہیں۔ اور پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ دشمن ہمیں ایک نہ ایک دن ضرور مارے گا ۔اگر ہم پاکستان کو ذہنی حوالے سے قبول کرتے تو ہم پاکستان کے ہر قانون کا احترام کرتے۔ لیکن ہم جانتے ہیں پاکستان کا وجود ہماری تباہی کا سبب بنے گا۔ اور ہماری ھستی پاکستان کی تباہی سے مشروط ہے۔ اس وجہ سے بلا خوف و خطر ہم پاکستان کی ایٹمی طاقت و مضبوط فوج کے سامنے سینہ سپر کھڑے ہیں۔ یہ جرائت ہم میں اس شعور نے پیدا کی ہے۔ اور اسی طرح اگر ہم شکار پر سخت سزا مقرر کریں کہ لوگ پھر سزا کے خوف سے شکار نہیں کرینگے تو ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ دیکھیں دنیا میں ہر ممالک میں سخت قوانین مقرر ہیں۔ جب وہ عوام کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھیں گے تو ہر قدم پر انھیں توڑنے کی مثالیں ملیں گی۔ اصل بات شعور کی ہے، قانون کی نہیں. جب کسی کو شعور دو گے تو وہ ازخود سخت سے سخت قوانین کا مطالبہ کرے گا۔ کیونکہ پھر وہ اپنی بقا انھیں قوانین کو سمجھے گا کہ یہ قوانین اس کے اپنے فائدے کے لیے ہیں۔ اس دوسو سالہ غلامی کے اثرات ایک دن میں ختم ہونے والے نہیں۔ اس لیے لوگوں کو سمجھا بجھا کر انھیں درختوں جنگلوں کو جلانے و کاٹنے سے منع کرنا ہے ۔تاکہ وہ ان درختوں و جانوروں کے فائدوں کو جان سکیں۔ پھر وہ شعوری طور وہ عمل نہیں کرینگے۔ جس سے ان جانوروں کو کوئی نقصان ہو۔ اتفاق کرو یا نہ یہ آپکی رائے ہے۔ اور اس وقت ہم بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ اس مسئلے کو ایک ایشو بنالیں۔ ویسے جانوروں کی موجودگی پہاڑوں کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بہت سے جانور اس وقت بھی نایاب ہیں۔ جھنیں ہم چڑیا گھروں کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھتے. لیکن یہاں جنگلات کو بھی بے دردی سے کاٹا گیا ہے۔ اس کی کوئی معقول وجہ ہے دوست بات پانی سے شروع ہوتی ہے۔ اور پانی پر ہی رکتی ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا بارش نہ ہونے اور قحط سالی کی وجہ درختوں کی نشوونما رکتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ریاست جب ان علاقوں میں آپریشن کرتا ہے۔ جہاں سرمچاروں کی موجودگی کا علم ہو تو وہاں بے دردی کے ساتھ جنگلات کو آگ لگا دیتا ہے۔ اور یہ سلسلہ 1948 سے لیکر تاحال جاری ہے۔ کیونکہ جنگل سرمچاروں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہوتے ہیں۔ اور اس طرح ریاست پاکستان نے بلوچ وطن کے کئی علاقوں میں جنگلات و کھڑی فصلوں سمیت گھروں تک جلا ڈالے ہیں۔ اور ریاستی بربریت تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ دشمن ہر حال میں بلوچ تحریک کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اور وہ ہر اس چیز کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ جس سے سرمچاروں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اور اس کے علاوہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹ کر بازاروں میں بیچتے ہیں۔ جس سے بھی جنگلات کو ختم ہونے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو ہم نے پابند کیا ہے کہ وہ اپنے گھریلو ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹ لیں۔ لیکن انھیں بیچنے پر پابندی ہے تاکہ یہ ایک کاروباری رخ اختیار نہ کرے۔ اور لوگوں کو آزادی ہے کہ ہر خشک درخت کو کاٹ سکتے ہیں۔ لیکن جو درخت توانا ہے۔ انھیں کاٹنے پر ممانعت ہے۔ اور لوگ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ انھی کے فائدے کے لیے ہیں۔ اچھی بات ہے آپ کا کیا خیال ہے اس طرح ہم ان جنگلات کو تحفظ دے سکیں گے؟ اگر دیکھا جائے جس رفتار سے ان جنگلات کو کاٹا گیا ہے ۔اور جس طرح پاکستانی فوج نے ان جنگلات کو آگ لگائی ہے۔ اس طرح تو کچھ ہی سالوں میں یہ جنگلات تباہ و برباد ہونگے۔ جنگلات کی تباہی سے جانور بھی ختم ہونگے۔ اور ریاستی بربریت جاری ہے۔ جہاں ریاست نے پانچ کلومیڑ تک کے علاقوں کو آگ لگا کر جنگلات کو نیست و نابود کردیا اس طرح وہ تمام جانور جو ان جنگلات میں رہ رہے تھے۔ نیست و نابود ہوگئے۔ اور جنگلات کی تباہی کا اثر موسم پر پڑے گا۔ اور اس سے بارش بھی نہیں ہوگی۔ تو اس کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے دوست ہر مسئلے کا حل ہمارے پاس نہیں۔ اور نہ ہی آپ کے سوال کا. نہیں سنگت میں تو سوال نہیں کر رہا۔ میں صرف پوچھ رہا ہوں۔ سوال وہی کرتے ہیں کہ انھیں جواب چاہیے۔ ٹوٹا پھوٹا جواب میرے پاس ہے۔ لیکن آپ سے سن کر شاہد دماغ کے دیگر دروازے کھل سکیں ۔لیکن آپ کیوں ایسا سمجھتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل ہمارے پاس نہیں۔ واقعی حل ہمارے پاس نہیں۔ لیکن ہم ہر مسئلے میں ہاتھ ضرور ڈال رہے ہیں۔ اور اپنی بساط کے مطابق انھیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہم اس تمام عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ اب ہمیں حل پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ مسئلے کو جاننے کے بعد بھی خاموشی اختیار کی جائے کہ اس مسئلے کا حل ہمارے پاس نہیں۔ اور آپ ان مسئلوں کے حوالے سے اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔اور مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش ہمارا فرض ہے۔ دوست میں جانتا ہوں ان کو حل کرنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن ہم اتنی طاقت نہیں رکھتے۔ اور نہ ہی اتنی افرادی قوت ہے کہ ہم ان مسئلوں کو حل کر سکیں۔ ہم ہر وقت جنگی حالت میں ہیں۔ اور ان جنگی حالات میں اتنا وقت ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ہم ایک جگہ ٹک سکتے ہیں کہ منصوبہ بندی کر سکیں۔ اور انھیں اپنے منصوبے کے تحت انجام تک پہنچا سکیں۔ ایک طرف ریاست کی بربریت میں تیزی، دوسری طرف نام نہاد قوم پرستوں کی ریل پیل، تیسری طرف مخبروں کا جال ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے پہلے بنیادی نوعیت کے مسائل حل طلب ہیں۔ اس کے بعد طاقت وسائل و افرادی قوت کے ساتھ ان مسئلوں سے نپٹھنا اتنا مشکل نہیں. لیکن ہم انھیں اپنی اول ترجیحات میں نہیں رکھتے۔ ہمارا بنیادی مقصد دشمن سے اپنے وطن کو آزاد کرنا ہے۔ اس پر ہمارا دھیان زیادہ ہو تو ہم جلد اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں. وہ تو ہم کر رہے ہیں۔ ہم جنگ کا براہ راست حصہ ہیں۔ اور ہمیں پرسکون ماحول نصیب نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دشمن کی بربریت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جائے گا۔ تو ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اچھے حالات کا انتظار تو نہیں کر سکتے۔ ہمیں انھی حالات میں حل نکالنا ہے۔ درست ہے لیکن انھی حالات میں ہمارا بس اتنا ہی چل سکتا ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ آگے کے لیے افرادی قوت و وسائل درکار ہوگی۔ اس کے بعد ہی حالات کے تحت ہم بہتر فیصلہ کر پائیں گے۔ رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا۔ ہر ایک کسی درخت و کسی بڑے سے پتھر کی آڑ میں سو کر آنے والے سخت حالات کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔ تاکہ آنے والے حالات کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ سردی کی شدت کے ساتھ ہر ایک نے اپنے پاؤں کھینچ کر سینے تک پہنچا دیا تھا۔ سردی سے ٹھڑ ٹھڑ کر نیند کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن تھکاوٹ انھیں جلدی ہی نیند کی دیدار کروا کر آزادی کے حسین خوابوں سے ملوا رہی تھی