ہمگام کالم : جرمنی کی جمہوریت پسندی ، انسانی حقوق کی حفاظت و احترام اور آزادی اظہار رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی بلوچ سیاسی کارکنان نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دائر کیں۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچ سیاسی کارکنان کا اندراج یا تو پاکستانی یا پھر ایرانی شناخت سے ہوتا ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ معلومات کی عدم دستیابی ہے جہاں جرمنی کے ساتھ، ساتھ دنیا کے دیگر اقوام کو بلوچستان پر پاکستانی اور ایرانی غیر قانونی قبضے کا علم نہیں ہے۔ فری بلوچستان موومنٹ نے جرمنی میں ایک دستخطی آگاہی مہم کا آغاز کیا تاکہ جرمن عوام کے ساتھ، ساتھ جرمن حکومت کو بلوچستان کے متعلق آگاہ کیا جائے کہ “بلوچستان نہ پاکستان ہے اور نہ ہی ایران”۔ یہ آگاہی مہم نہ صرف لوگوں کو بلوچستان پر غیر قانونی قبضے کی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان و ایران کے مظالم کو بھی اجاگر کرنا ہے جہاں شدید قسم کے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں لیکن وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں اور دنیا ان سے لاعلم ہے۔ مذہبی انتہا پسند پاکستان و ایران نہ صرف بلوچستان میں جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں بلکہ وہ دنیا میں مذہبی منافرت اور انتہا پسندی پھیلانے میں بھی ملوث ہیں۔ مظالم، نا انصافی اور جابرانہ غلامی کے خلاف بلوچ عوام کی آواز دبانے اور اس کو دنیا کے دیگر مہذب ممالک و اقوام تک پہنچنے سے روکنے کے لئے قابض پاکستان و ایران نے بلوچستان میں میڈیا پر شدید قسم کی قدغن اور پابندی لگائی ہوئی ہے۔ لیکن جرمنی کی جمہوریت پسند معاشرے میں فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں کو اپنی رائے کے اظہار اور قابضین کے جرائم کو دنیا کے سامنے آشکار کرانے کا موقع ملا تو وہ اپنی پوری توانائی سے اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ وہ جرمنی سمیت پوری دنیا کو بتا سکیں کہ بلوچ قوم کا پاکستان و ایران کے ساتھ رشتہ کیا ہیں ۔ اس وقت نظریہ ضرورت سے سمجھوتہ کئے بغیر فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں انسانی حقوق تک محدود نہیں رکھیں بلکہ وہ ایک حقیقی مقصد کے ساتھ بلوچستان کی مکمل آزادی کے موقف و جدوجہد آزادی کا پرچار کرتے ہوئے پوری دنیا کو یہ بتانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ بلوچ قوم کو پاکستان و ایران کا حصہ نہ سمجھا جائے کیونکہ ان دو ممالک سے کسی قسم کی تاریخی قربت کے بغیر غیر قانونی طور پر بلوچستان کی آزاد و خودمختار حیثیت پر شب خون مارا گیا اور بلوچستان کی آزادی بزور طاقت ختم کی گئی۔فری بلوچستان موومنٹ جرمنی چیپٹر کے آرگنائزر الٰہی بخش بلوچ نے بلوچ ورنا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اپنی چھینی گئی آزاد و خود مختار حیثیت کی بحالی چاہتے ہیں، اس وقت ہماری سرزمین دو حصوں میں تقسیم ہے جن میں سے ایک حصے پر پاکستان اور دوسرے پر ایران قابض ہے۔ ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ ہم جرمن عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوسکیں کہ بلوچ ایک الگ قوم ہے وہ پاکستانی و ایرانی اقوام کا حصہ نہیں۔ ہم ہر طرح سے الگ ہیں۔ ہماری زبان، ثقافت، کھانا، موسیقی اور دیگر رسم و رواج مختلف ہیں۔ ہمارے اور پنجابی و فارسی کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں”۔ الٰہی بخش بلوچ نے مزید بتایا کہ “اس وقت یہ دستخطی آگاہی مہم بعنوان”بلوچستان نہ پاکستان اور نہ ہی ایران” تین ماہ سے زائد عرصے سے جرمنی کے تقریباً زیادہ تر بڑے شہروں میں منعقد ہوگیا ہے۔ ہمارا مقصد جرمن عوام کو اپنی تحریک آزادی کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے، ہمیں اپنے وطن بلوچستان جس پر فوجی قوت و طاقت کے ذریعے قبضہ کیا گیا ہے اور اسی طاقت کے زور پر اس قبضے کو برقرار رکھنے کی ظالمانہ کوشش کی جارہی ہے کے بارے میں جرمنی اور دنیا کو معلومات فراہم کرنی ہیں۔ اس لئے یہ تمام مہذب اور آزادی پسند اقوام کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ہماری طرف مدد کے ہاتھ بڑھائیں تاکہ ہم اپنی کھوئی ہوئی آزاد و خودمختار حیثیت کو دوبارہ حاصل کرسکیں” مہم “بلوچستان نہ پاکستان اور نہ ہی ایران”کا انعقاد کرنے والے کارکنان اپنی سرگرمیوں کی تشہیر سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیسبک پر اپنے پارٹی پیج اور دیگر آن لائن بلوچ خبر رساں ویب سائٹس کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک جاری بیان میں انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ انگریز آقاؤں نے بلوچستان کو دو مصنوعی لکیروں “ڈیورنڈ” اور “گولڈ سمتھ” کے ذریعے تقسیم کیا اور پھر ایران و پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بلوچستان کی آزاد و خودمختار سرزمین پر قبضہ کرلیں جو قابل مذمت اور تشویشناک ہے۔ تین مئی دوہزار انیس بروز جمعہ فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے بیک وقت دو مقامات پر مہم کا انعقاد کیا۔ جرمن دارالحکومت برلن میں امریکی و فرانسیسی سفارت خانوں کے سامنے برلن گیٹ کے مقام پر مہم کا انعقاد ہوا جبکہ دوسری جانب جرمن صوبے نارتھ ویسٹ فالیا کے شہر وُوپرتال میں بھی اسی روز مہم منعقد ہوئی۔ مہم کا انعقاد کرنے والوں کے مطابق جرمن عوام کے علاوہ دیگر اقوام بھی بڑی تعداد میں حصہ لے کر “بلوچستان نہ پاکستان اور نہ ہی ایران” کے موقف کی حمایت کررہے ہیں ۔مہم کا انعقاد کرنے والوں نے ان الفاظ میں اپنے سابقہ حکمران برطانوی راج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “ یہ امر برطانوی تاریخ و ارتقاء پر ہمیشہ ایک قرض رہے گا، اب یہ برطانیہ کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنی تاریخی غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس کی مدد کرے تاکہ برطانیہ کی آزادی و جمہوریت پسند عوام کے لئے ان کی تاریخی غلطی باعث شرمندگی نہ بنے”۔ فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ واجہ حیربیار مری نے حال ہی میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے درخواست کی کہ “پاکستان اور ایران کو بلوچستان میں بلوچ نسلی کُشی اور دنیا میں دہشت گردی پھیلانے اور اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کی پاداش میں بلیک لیسٹ کیا جانا چاہئے تاکہ ان ممالک کو اپنے جرائم کی وجہ سے ایک سخت اور واضح پیغام مل سکے”۔ بلوچ ایک سیکیولر قوم ہے جو اپنی بنیادی حق آزادی اور قومی وقار کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ ان کے اپنے آزاد ملک بلوچستان کے بغیر ان کو دبایا جائیگا اور دو انتہا پسند ممالک پاکستان و ایران اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لئے ان کے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرتے رہیں گے۔ فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے منعقدہ آگاہی مہم حقیقی طور سے بلوچ قوم کی امنگوں اور موقف کی نمائندگی کرتی ہے جس کو پاکستان اور ایران کے ذرائع ابلاغ ہمیشہ غلط اور منفی انداز میں تھوڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ تمام جلا وطن بلوچ آزادی پسند کارکنان کی اخلاقی اور قومی ذمہداری بنتی ہے کہ وہ فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے منعقدہ دستخطی مہم کی تشہیر کریں تاکہ دنیا کو بلوچستان پر غیر قانونی قبضے اور بلوچ قوم کی جدوجہد آزادی کے متعلق مطلع کیا جا سکے۔