سه شنبه, اکتوبر 15, 2024
Homeآرٹیکلزاب فیصلہ کن انتفاضہ یا تھکا دینے والا جہد مسلسل؟ تحریر: رندانی...

اب فیصلہ کن انتفاضہ یا تھکا دینے والا جہد مسلسل؟ تحریر: رندانی گٹ

ہمگام کالم

ویسے پورا شہری اور مضافاتی بلوچستان پاکستانی فوج کے شکنجے میں سانس لے رہا ہے پاکستانی فوج نے مزاحمتی تحریک کی مضبوط مرکزوں بولان، پارود شور سیاجی کو کئی دفع محاصرہ کرتے ہوئے اپنی عسکری قوت کو آزمائش میں ڈالا ہے ایسے معارکوں میں ہمیشہ بلوچ اور پاکستان دونوں کا عسکری قوت داو پرلگی ہوئی ہوتی ہیں، لیکن پاکستان اپنی تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود یہ باور نہیں کرا سکی ہے کہ وہ ان معارکوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسے ہمیشہ انتہائی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بلوچ سرمچار اپنی قدرتی ماحول میں مضبوط مورچہ بند ہیں۔ لیکن جہاں مورچہ کمزور ہوا وہاں پاکستانی فوج نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
گزشتہ 18 سالوں کی ازیت ناک بلوچ مزاحمتی وار و مار کے بعد بلآخر پاکستان آرمی نے اپنی فوج کی تعداد کو تین گنا بڑھا دی ہے، یعنی ٹروپ سرج Troop Surge کی ہے ایر فورس کے پشت پر اپنی تمام تر سفاکانہ فوجی قوت کو آزما رہا ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ڈاکٹر مالک کی طرف سے بلائی گئی کوئٹہ آل پارٹی کانفرنس میں حکومت پاکستان نے تحفظ پاکستان کے ایکٹ کے تحت یہ اعلان کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف سخت کاروائی کرینگے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سیاست دانوں اور فوجی افسروں پر مشتمل بنائی گئی ایپکس کمیٹی نے اعلان کیا کہ جو لوگ پہاڑوں سے نیچھے اترینگے ان کیلئےamnesty معافی اور بحالی کا بندوبست بھی ہے۔ وہی انگریز کی پرانی گولڈ اینڈ گن کی پرانی پالیسی Gold and Gun Policy یعنی عرف عام میں اسے carrot and stick لاٹھی اور گاجر پالیسی کے تحت کچھ پہلے سے تیار شدہ بندوں کا ھتیار پینھکنے کا ڈرامہ بھی بلوچستان کے تقریبا تمام علاقوں سے رچھوایا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی لاٹھی کو لیکر ابتک کی سفاک تریں فوجی جارحیت آواران، مکران ڈیرہ بگٹی، بولان، نیوکاہان، ہوشاپ ، گومازی، مند اور دشت کے علاقے میں کیے گئے ہیں۔ اور یہ فوجی جارحیت ابھی تک جاری ہیں
میہی مشکے کودو دنوں کی سفاکانہ آپریشن سے ملایامیٹ کرتے ہوئے کئی بلوچ فرزندوں کو جن میں ڈاکٹر اللہ نظر کا بھائی سمیت کئی دوسرے رشتہ داروں کو شہید کیاگیا۔ عید کے مبارک دن سے لیکر پورا ایک مہینہ تک آوارن سخت فوجی محاصرے میں رہا وہاں تین گاؤں کو ملیا میٹ کرتے ہوئے سینکڑوں لوگ شہید کر دیئے گئے ۔کئی عرصے تک علاقہ کو فوجی محاصرے میں رکھنے کی وجہ سے بلوچ شہدا کی لاشیں سڑ گئیں اور جو لوگ زندہ رہ گئے ان کے زریعے پاکستانی فوج کی جبر اور سفاکیت کی المناک داستانیں بلوچ میڈیا میں زدعام آگئیں، اکثر اپنا علاقہ چھوڑ گئے کراچی اور دوسرے علاقوں میں پناہ لیا۔ ایک دردناک واقع کی رپورٹ کراچی سے منظرعام یوں آئی کہ انہی بلوچ مہاجرین کے تین بچیوں کوایک بدمعاش سندھی وڈیرہ نے اٹھوائی تھیں۔ جنہیں بعد میں رہائی دلوائی گئی تھیں۔
پاکستانی فوج اپنی تمام تر جنگی قوت کو ہر محاذ پراستعمال کرچکی ہے۔ اور یہ سلسلہ اب بلوچستان کے تقریبا تمام علاقوں میں شدت سے برابر جاری ہے۔ یہ سب کچھ باقاعدہ اجتماعی سزاکے تحت کیا جارہا ہے تاکہ لوگ ڈریں اور مزاحتمی تحریک میں شامل نہ ہوں۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے سے روکنے کیلئے بلا تفریق اجتماعی سزا دی جارہی ہے لیکن دوسری طرف سفاک تریں بربریت کے باوجود قبضہ گیر پاکستانی فوج بلوچ مزاحتمی تحریک کے مختلف فارمیشنوں کو ختم کرنے میں بلکل ناکام ہوچکی ہے۔
یہ اجتماعی سفاکیت کوئی نئی بات تو نہیں۔ جب سے مزاحمت شروع ہوچکی ہے اسی دن سے قابض اجتماعی سزا collective punishment کے طور پر ہر میتگ و گاؤں پر دھاوا بولتا آر رہا ہے۔ لیکن اب کی بار اعترافاً اور رسمی طور براہ راست یہ کہا گیا ہے کہ سب کو سزا دینگے ۔
قبضہ گیر صرف سفاکانہ دہشت گردی کے زریعئے ہی اپنی وجود کو غیر کے زمین پر دوام دے سکتا ہے۔ پاکستان اور ایران اسی حربے کی بدولت ہی اپنی وجود کو بلوچ سرزمین پر برقرار رکھے ہوے ہیں یعنی ظالم بن کر روزانہ بلوچ پر ٹوٹ پڑجانا اور اسے نفسیاتی، معاشی اور جسمانی طور زیر کرتے ہوئے اس کی مزاحمتی قوت کو مفلوج کرنا ان کا اولیں مقصد ہے۔
کیچ کے علاقے میں کئی عرصے پہلے جب مزاحمت کاروں نے نیشنل پارٹی کے کچھ ورکروں کو مبینہ طور پر سرکار کیلئے کام کرنے کے الزام میں ٹارگٹ بنایا تو نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہا تھا کہ وہ سائے اور سراب کے پیچھے نہیں بھاگیں گے بلکہ ان لوگوں سے بدلہ لینگے جو مزاحمت کاروں کو مدد فراہم کررہے ہیں، یعنی عام عوام کو بھی سزا دلوائینگے جو سرمچاروں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ تو اسی پالیسی کوعملی جامہ پہناتے ہوئے مزاحمتی تحریک کو اجتماعی سزا کے زریعے روکنے کی بھرپور کاروائیاں جاری ہیں ! سائے اور سراب کے پیچھے جانے کے بجائے گزشتہ کئی عرصے سے مسلسل اور تسلسل کے ساتھ پاکستانی فورسز نے کئی دیہاتوں، گاؤں، قصبوں اور شہروں میں غلیظ “تعزیراتی جارحیت ” کرتے ہوئے کئی عام شہریوں کو اٹھا کر غائب کردیا گیا ہے۔
ضربی قوت
طاقت ہی طاقت کو روک سکتی ہے، اسی فارمولے کو لیکر جنگ آزادی شروع کی گئی مگر طاقت کی توازن کو لیکر تحریک کے لوازمات کو اہمیت نہیں دیا گیا بلکہ پارٹی بازی کی شکل میں مغالطوں میں رہتے ہوے ہر پارٹی یہ سمجھتا رہا کہ وہ اکیلا ہی بلوچستان کو آزادی دلائے گا۔دفاعی ماہریں بلوچ مزاحمتی تحریک کے تمام عسکری کاروئیوں کے بارے ابتک تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ شاید ٹیکٹیکل بنیاد پر جو کاروائیاں ہوری ہیں وہ میرٹ کے حوالے سے بڑی حد تک ناقص خیال کیے جاتے ہیں۔گزشتہ 18 سالہ گوریلا جنگ سے حاصل شدہ جنگی تجربے، دشمن کی کمزوریوں کا پتہ اور home ground کا فائدہ ہونے کے باوجود دشمن کی فوج نے کیچ، دشت اور آواران میں کئی ایسے کامیاب کاروائیاں کی ہیں جن سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ 18 سالہ دفاعی مزاحمت وہ ضربی قوت حاصل نہ کرسکی جس کی توقع اس طویل مدت کی تجربہ اور کثیر قربانیوں کی بدولت سے ہونا چاہیے تھا۔ اب تک بلوچ سرمچار دفاعی لائے عمل کے تحت “جب بھی موقع ملا دشمن پروار کیا” کے اصول کو لیکر مزاحمت جاری کیے ہوئے ہے۔ لیکن سول آبادی پر جب بھی جہاں بھی پاکستانی فورسز ہلہ بولتے ہیں، تو اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سرمچار دفاعی ردعمل کی صورت میں فوج کی کانوائے کی واپسی پر حملہ آورنہیں ہوسکے۔ حالانکہ فوجی جارحیت کرنے کے بعد جب فوج واپس کیمپ کی طرف روانہ ہوجاتی ہے، تو ایسی صورت میں ایک تو وہ تھکی ہوئی ہوگی اور دوسری طرف سرمچاروں کیلئے یہ ایک بہتریں موقع ہوگا جہاں سرمچار اپنی مرضی سے تھوڑی سرعت کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ گاؤں پر حملہ قبضہ گیر مناسب وقت پراپنی مرضی سے کرتا ہے لیکن سرمچار تھوڑی سے شاطرانہ مشق و ہنر کے ساتھ ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ اسے اس حملے کا مزا چکا سکتے ہیں۔ یعنی “تم اپنی مرضی سے آ تو سکتے ہو لیکن اب تمھارے جانے میں ہمارا مرضی بھی شامل ہوگا”۔ لیکن واپسی پر ممکنہ حملے سے اپنی بچاؤ کیلئے وہ عام گرفتار بلوچوں کو ڈھال کے طور پر اپنے ساتھ فوجی کیمپ لے جاتے ہیں جہاں انھیں انسانیت سوز ٹارچر کا سامنا ہوتا ہے۔
نفسیاتی طور پر دشمن کی طرف سے فوجی جارحیت کی صورت میں اکثر casualties جسمانی نقصانات، بلوچ سول آبادی پر پے درپے حملہ اس مقصد کے تحت انجام پار رہے ہیں تاکہ عام عوام کی زہنوں میں یہ بات بٹایا جائے کہ بلوچ سرمچار ان کی دفاع نہیں کرسکتے۔ یعنی سادہ الفاظ میں یہ کہ ‘‘میں تمھارے گھر میں گھس کر تم کو لہولہاں کرتے ہوئے واپس جاؤں گا اور تمھارے سرمچار جس پر تم تکیہ کیے بیھٹے ہو، وہ میرا کچھ بگھاڑ نہیں سکتے‘‘۔ جس کی مثال میہی مشکے آواران، بولان ، مستونگ پارود قلات میں خون ریز فوجی کاروائیاں ہیں۔ قبضہ گیر کی اس حکمت عملی سے عام عوام میں ایک تاثر یہ پیدا ہوچکی ہے کہ موجودہ مزاحمت ان کو تحفظ نہیں دے سکتا ، اس کہ اصل وجہ دانستہ یا نادانستہ قومی مدافعتی قوت کو مضبوط ضربی قوت میں تبدیل ہونے کے راستے میں ناقابل یقین رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں اسے عام زبان میں اپنوں کی نادانی کہیں تو بہتر ہوگا !
ٹریننگ اور مہارت کی کمزوریاں،
چائنا پاکستان اکنامکس کوریڈور کو ہرحال میں کامیاب کرانے کی کوششوں کی غرض سے پاکستان آرمی نے دشت گوادر میں اس واقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جب بلوچ مزاحمتی تحریک کی ایک تنظیم بی آر اے نے کیچ سے تعلق رکھنے والے سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے پانچ بے گناہ ٹھیکداروں کو علاقے کا سروے کرنے کے دوران گرفتار کرتے ہوے تفتیش کے غرض سے اپنی پناہ گاہ لے گئے، اسی واقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کی فوج نے پھرپور فوجی طاقت کے ساتھ علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے رفت وآمد کےتمام راستوں پر ناکے لگا دیئے۔اور جب بی آر اے نے ان کو تفتیش کے بعد رہا کیا تو یہ لوگ پاکستانی فوج کے ہھتے چھڑ گئے۔ جنہیں بعد میں قتل کرتےہوئے کمال ہوشیاری سے بی آر اے کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ۔ لیکن بی آر اے کی علاقائی قیادت فوجی آپریشن کی اصل محرک کو سمجھنے سے قاصر رہا، تدبیر، عسکری حکمت عملی کی کمی کی وجہ سے یہ ناخوشگوار واقع عین دشمن کے مفاد میں چلا گیا ۔اس کی بنیادی سبب میرے خیال میں بلوچ مزاحمتی تحریک میں مخابراتی ونگ یا intelligence wing کی شدید قلت ہے۔ اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اب سوچھیے دشمن اپنے 26 مخابراتی ایجنسیوں کے ساتھ بلوچ کے ساتھ لڑ رہاہے۔ اور بلوچ اپنی چھوٹی چھوٹی جھتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی تیار نہیں تو ایسے میں سیاجی جیسے ناخوشگوار ہوتے ہیں!
دشت کے علاقے میں دشمن کے ایک چوکی کو بظاہر سرمچاروں نے بڑی کامیابی کے ساتھ تباہ کیا، پاکستانی فوجیوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ وہاں موجود تمام اسلحہ اور گاڑیوں کو بھی اپمے ساتھ لے گئے مگر اس جنگ کے وڈیو کو دیکھتے ہوئے فوجی جارحیت کا باریک بینی سے تجزیہ کروگے تو رونگھٹے کھڑے ہونگے۔ دشمن کے جن دو سپائیوں کو گرفتار کیاگیا تھا، اگربزدل نہ ہوتے اور کمانڈو ٹریننگ یافتہ ہوتے تو سرمچاروں کو گزند پہنچا سکتے تھے۔اپنا بندوق اٹھاتےہوئے یا کسی سرمچار کی بندوق دبوچھتے ہوئے اپنا پشت دیوار کی طرف کرتے ہوئے حملہ اور ہوسکتے تھے۔ یہ کاروائی ویڈیو کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا احتمامی منظرکچھ یوں ہے کہ سرمچار شوروغوغہ کے ساتھ بندوق کندھے پر لٹکائے چوکی پر دو زندہ پاکستانی سپاہیوں کے پاس پہینچ جاتے ہیں۔ اور وہ دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے پاس پہنچتے ہی مکالمہ بازی شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستانی سپاہی کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بلوچ سرمچار انہیں ٹھوکتے ہوئے کہتے ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو!
1۔ جنگ کے دوران دشمن کے زندہ یا زخمی سپاہی کے ساتھ بحث تکرار نہیں کرتے۔ بلکہ اسے دیکھتے ہوئے حکم دی جاتی ہے کہ وہ فوراً Disarmed ہو جائے اور زمیں پر اوندھے منہ لیٹ جائے اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے۔ اسے جنگی زبان میں pinning down کہتے ہیں۔ اسی طرح مسلح سرمچاروں کو چاہیے تھا کہ ان پربندوق تانے کھڑے ہوجاتے اور باقی سرمچار محتاط طریقے سے جگہ کی تلاشی لیتے۔
2۔ اس فوجی آپریشن کو انجام دیتے وقت خاص کر کیمپ کے قریب آتے ہوئے کمانڈر کو چاہیے تھا کہ وہ سب کو حاموشی کی ھدایت دیتے اور ہاتھوں کے اشاروں سے سرمچاروں کو ہدایت دیتے۔ خاموشی اسی لیے کیونکہ اس جنگ کے دوراں دشمن کا بچا کچا سپائی کسی کڈے کونے یا کسی دیوار کے پیچھے چھپا ہو تو ان کو پتا نہ چلے کہ تم کس سمت میں اس کے قریب آرہے ہو۔ اور یہ خاموشی اس کیلئے عزاب اور غلطی کرنے کا سبب بنے۔
3۔ اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس آپریشن کو انجام دینے والے ایک منظم تنظیم نے نہیں بلکہ کچھ مسلح جھتوں نے انجام دی ہے۔ آپ کو پتا نہیں چلتا کہ کون کمانڈنگ کررہا ہے !
حال ہی میں بی ایل اے کے بظاہر ایک کامیاب حملے میں جیونی ائیرپورٹ کو تباہ کیا گیا۔ وہاں قابض فورسز کے اہلکاروں کو مارنے کے ساتھ ایرپورٹ کے منیجر کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اور پاکستانی میڈیا نے بھی اس کا اعتراف کیا مگر بجائے پوچھ گچھ کے اس منیجر کو مار ڈالا گیا جوکہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، وہ یوں کہ اس ایرپورٹ کو انٹرنیشنل ایوی ایشن راڈار سسٹم کے علاوہ پاکستان اسے فوجی دفاعی مقاصد کیلیے استعمال کررہا ہے ۔ یہاں اور گوادر دونوں ایرپورٹوں سے ایران کے دفاعی اور سفارتی افیسراں کا ہمیشہ آنا جانا ہوتا رہتا ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایریورٹ ایران کے سرحد کے بہت قریب ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہی ایرپورٹوں سے پاکستان نے ایٹم بمب بنانے کے centrifuges سنٹرفیوجز اور میزائل کے پرزے ایران کو منتقل کیے تھے۔اس حوالے سے بی ایل اے اس منیجر سے بہت سے راز اگلوا سکتے تھے کہ پاکستان کس طرح ایران کے ساتھ Neuclear Proliferation کرتے تھے۔ اتنے معلومات رکھنے والے افسر کو مارنے کے بجائے اعترافی بیان اگلواتے ہوئے اسے بلوچ جنگی قانون کے تحت سزا دیتے ! اور اس حوالے سے اس بات بھی میں اضافہ کرتا چلوں کہ کئی ایسے فوجی بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں جن سے یہ اعترافی بیان بھی دلوا سکتے تھے کہ بلوچوں کے اغوا کرنے کے بعد پاکستان آرمی کس طرح بلوچ سیاسی ورکروں کو ازیتیں دے دے کر قتل کرتا ہے۔ اور ویرانوں میں پیھنک دیتا ہے۔
پہاڑوں کے چھوٹیوں سے لیکر شہروں کے گلی کوچے تک پاکستانی فورسز کی بے تحاشہ فوجی چوکیاں قائم ہیں ان چوکیوں، کیمپس، کنٹونمنٹ اور ملٹری گریژن، نیوی اور کوسٹ گارڈ کی تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے اپنی فورسز کی سب سے زیادہ تعداد بلوچستان میں تعینات کررکھی ہیں ۔ لیکن بلوچستان کی قدرتی جغرافیائی محل وقوع وماحول، سخت اور ناموافق حالات، دشوار گزارپہاڑی سلسلے، خشک و بے آب طویل میدانی علاقے اور خوراک و پانی کی کمی ,شہری آبادیوں کے درمیان طویل مسافتیں، اور سب سے زیادہ یہ بات کہ عام عوام میں ان کے خلاف نفرت، عام آبادی میں ان فورسز کی isolation ایسے معروضی حقائق ہیں جس سے دشمن کی فوجی قوت تعداد کے تناسب سے چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ غیر موثر ہے۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ اس کے فورسز کیمپ ٹو کیمپ over stretched ہونے کی وجہ سے آپس میں کمکreinforcement کرنے کی قابل نہیں ہیں۔ قبضہ گیر کی یہی ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔
وقت کا فیکٹر
وقت کا فیکٹر بہت اہمت کا حامل ہے، تحریک کی موجودہ عسکری،سیاسی اور خارجی امور کے صورتحال کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو اندرونی طور پر وقت کا عنصر دشمن کے حق میں جا چکا ہے۔ اندرونی طور پر دشمن اس بات پر کامیاب ہوچکا ہے اس نے مختلف اندرونی کمزوریوں سے مدد لیکر کمال ھوشیاری سے ہمارے رہنماؤں کو آپس میں الجھا کر تحریک کا سیاسی چہرہ بننے نہیں دیا۔ دوسری طرف troop surge کرنے کے بعد اب وقت کے ساتھ ساتھ جید اور بہتریں سرمچار کیڈر کو چن چن کر ختم کر رہا ہے۔ جبکہ خارجی طور پر حالات دشمن کے حق میں نہیں لیکن قومی تحریک کا ایک متفقہ سیاسی چہرہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم خارجی عوامل کو اپنے حق میں استعمال کرنے سےاب تک قاصر رہے ہیں۔ جب تک ایک متفقہ سیاسی چہرہ قومی تحریک کی نمائندگی نہ کرے، اس وقت دنیا اعتماد کے ساتھ ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اگر کبھی ضربی قوت کا حصول ممکن ہوا تو دشمن کا troop surge ان کیلئے اس کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوگی۔ بلوچ سیاسی قیادت کیلئے وقت بہت کم رہ گیا ہے، ایک تو ہمارے خطے کی تمام قوتیں شدید تضادات اور کشمکش میں مبتلا ہیں، اور وہ ہماری سست رفتاری کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔
کندن، war hardened freedom fighters
اوپر کی تمام کمزوریوں کے باوجود بلوچ مزاحمت میں موجود نظریاتی پختگی سے لیس آزادی پسند سرمچاروں کی ایک ایسی Hardcore Cadre ابھر کر سامنے آئی ہے جوکہ جنگ سے سخت جان war hardened ہوچکی ہے، یہ ہارڈ کور اپنی بہتریں صلاحیتوں کےساتھ پہلے سے بہتر انداز میں منظم اور گوریلہ جنگی اصولوں کے مطابق اپنی کاروائیوں میں بہت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب ان کوشکست دینا پاکستانی آرمی کے بس کی بات نہیں! شہری آبادیوں پر بلاوجہ پاکستان آرمی کی کاروائیاں اس بات کی ثبوت ہیں کہ وہ اس ہارڈ کور کو تنہا کرنا چاہتی ہے، بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑوں میں مورچہ زن اس قوت کو ختم کرنے کی اس میں دم نہیں ، بلوچ مزاحمتی تحریک کے arsenal یا اسلحہ خانے میں ایسے کئی ھتیار ہیں, جنہیں بروئے کار لاکر مزاحمتی تحریک بہتر نتائج حاصل کرسکتا ہے، انکی یہاں تفصیل کا زکر کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ غیرت مند بلوچ فرزندن بے سرو سامانی اور سیاسی یتیمی کی حالت میں پاکستانی ریاست کے منظم اجتماعی قوت کے مختلف سفاک فورسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور آپ کپالیسیاں اور تحریک کی formations و تشکیل اس کے مقابلے میں کچھ انفرادی تنظیموں کے بنیاد پر استوار ہے۔ گزشتہ 18 سال سے قومی تحریک کے بجائے اس تحریک کو تنظیمی بنیادوں پر چلانے کی وجہ سے اجتماعی قوت جمع نہیں ہوسکی۔ عوام تحریک سے مایوس نہیں بلکن سیاست بازی اور نااتفاقی جیسے غلط رویوں کی وجہ سے اپنے قدموں کو روکھے ہوئے ہے، اور سب سے بڑی وجہ دشمن کی وہ سفاکانہ اقدامات ہیں جن سے عوام مجبوری کی حالت میں سپورٹ دے نہیں پا رہا۔دشمن کی اس شیطانی چکر کا تھوڑ صرف اور صرف مضبوط ضربی قوت کا حصول ہے۔ مضبوط ضربی قوت کے حصول کا اہتمام صرف اجتماعی سیاسی قیادت کرسکتی ہے اور اس کا حصول عالمی قوتوں کے ساتھ پارٹنر کی شکل میں ممکن ہوسکتی ہے۔
خارجہ امور ، تحریک کی سیاسی پہلو !!
حالیہ نرنیدر مودی سرکار کی طرف سے ایک بلوچ انسانی حقوق کے حوالے سے جو بیان آئی وہ قابل فہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے، افغانستان، بنگلہ دیش اور اسی طرح امریکہ کی طرف سے بھی بلوچ انسانی حقوق کے پائمالی بارے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت کہ ہوا کہ انڈیا کی میڈیا بلوچ مسئلے کو اجاگر کرنے میں سب سے پیش پیش نظر آرہاہے۔ انڈیا کی میڈیا میں مباحثوں کے دوران باہر کی دنیامیں رہنے والے بلوچ رہنما اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پاکستانی دانشوروں پر بھاری نظر آرہے ہیں۔ جوکہ ایک بہت اچھی بات ہے۔ اب ایک کھلی میدان بلوچ کے حق میں آچکا ہے، اب اس سے دوستوں میں فائدہ اٹھانے کی صلاحتیوں میں کمی نہیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ باہر کی دنیامیں ہمارے کچھ ایسے تنگ نظر لوگ بیھٹے ہوئے ہیں جو ابھی تک تحریک میں اتحاد کے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں!
فرضی نقشہ کشی hypothetic scenario میں اگر موجودہ سیاسی قیادت متحد ہوکر موجودہ تینوں مزاحمتی تنظیموں کے تمام مسلح قوتوں کو یکجاہ کرتے ہوئے ان کی کنٹرول کسی ایک تربیت یافتہ مشترکہ کمانڈ کونسل کے ہاتھوں سونپ دینے میں کامیاب ہوئی تو حالات کو ایک ایسے نہج تک ضرور پہنچا سکتے ہیں جہاں عالمی قوتیں مداخلت کر نے پر مجبور ہونگے۔ اور باہر کی دنیا میں پاکستان کو سخت مشکلات سے دو چار کراسکتے ہیں۔ گوکہ پالیسی بیان کی حد تک پاکستان بارہا ایسی صورتحال کی پیش نظر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ وہ ایٹمی ھتیار استعمال کریگی۔ لیکں ایٹمی ھتیار کی استعمال کی افادیت صرف شہری آبادی پر ہی ہے۔ اور پاکستان کی 75٪ فیصد آبادی پنجاب کی شہروں پر مشتمل ہے۔ اور انڈیا کے ساتھ پنجاب کے لوگ ہی دشمنی روا رکھے ہوئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ انتہائی کٹر قوم پرست پنجابی جنرل، اسلام اور پاکستان کے لبادے میں پنجاب کی آباد شہروں کو انڈیا کی ایٹمی بمبوں کا نشانہ بنوانے کی حماقت کریگی۔ انگریزی میں ایک کہاوت کہ After me the deluge یعنی، منی باریگءَ ترا شاہ کشات۔ جب بات وجود کی تباہی کا آئے گا تو وہ یہ کہنے میں دیر نہیں لگائینگے کہ بھاڈ میں جائے پاکستان، بس پنجاب کی خیر ہوجی ! اب اس تناظر میں امریکہ اور باقی دنیا کیا کہے گی؟ پاکستان کے حوالے امریکہ کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ اگر پاکستان کی مرکزی حکومت کی گرفت کمزورپڑی تو مزہبی قوتیں، چاہے فوج میں ہوں یا طالبان کی شکل میں، پاکستان کی ایٹمی قوت پر قابض ہونگے تو دنیا ایک بہت بڑی تباہی میں دوچار ہوگی۔ میرے خیال میں یہ ایک غیر صحت مند ڈر ہے کیوں کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کون چلارہاہے ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ پاکستان کو صرف اور صرف پنجابی چلارہا ہے، یعنی اصل پاکستان پنجاب ہے۔ ایٹم بمب بھی انہی کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اسی طرح ملا بھی انہی کے پالے ہوے پالتوں جانور ہیں۔ مثال کے طورپر سوال یہ ہے کہ مزہبی قوتیں کس کے کنٹرول میں ہیں؟ بلا کسی تردد کے ساتھ یہ کہی جاسکتی ہے کہ وہ پنجاب کے ایٹمی اثاثوں کے بعد دوسرے دفاعی اثاثے ہیں۔ جب بھی چاہے ان کو استعمال کرسکتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جب بھی پاکستان کو پیٹرول اور مفت ڈالروں کی ضرورت پڑی تو آفت بلوچستان اور گلگت کے اقلیتی شیعہ فرقے پرآئی؟ ان کا سرعام قتل عام لشکر جھنگوی کے زریعے کروایا گیا۔ لیکن جب سعودی عرب نے یمن میں شیعہ حوثیوں پر جنگ شروع کی اور چین کے کہنے پر پاکستان نے اس میں حصہ لینے سے معزرت کی تو پاکستان میں کہیں پر بھی شیعوں پر حیرت انگریز طور پر کوئی حملہ نہ ہوا۔ اس کی وجہ کیاہے؟ سوائے بلوچستان کوئٹہ کے علاقے میں نسبتا علامتی طور پر ایک چھوٹا سا حملہ کروایا گیا وہ بھی جب نواز شریف سعودی عربیہ میں تھے، تاکہ یہ باور کروایا جا سکے کہ ان کی حکومت سعودی عرب کی شیعہ مخالف کیمپ میں شامل ہے۔
ہمارے لیے مڈل ایسٹ کا موجودہ صورتحال ایک ایسا نادر موقع ہے کہ جہاں ہم کردوں کی طرح اپنے قومی کیس کو لیکر عالمی قوتوں کو باور کراسکتے ہیں کہ ہم بھی اس خطے کی ایک متاثرہ فریق ہیں۔ ہمارے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ خلیجی ممالک، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ علاقائی پارٹرشپ کے اصول کے تحت ایک مشترکہ قومی پالیسی تشکیل دیکر دنیا کے سامنے اپنا جائز مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آج کل کی جیوپولیٹکس میں علاقائی پارٹنر شپ کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ سنگت حیربیارمری نے اس حوالے سے پہلے ہی اپنے موقف کو واضع کیا ہے۔
قومی تحریک کی اجتماعی قیادت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئےسنگت حیربیار مری نے تمام آزادی پسندوں کو کئی مرتبہ متحد ہونے کی دعوت دی ہے، تاکہ تمام آزادی پسند قوتیں ایک ہی ڈسپلن کے تحریک کام کرسکیں، لیکن تادم تحریر اس حوالے ابھی تک باقی دوسرے آزادی پسندوں کے کسی بھی کواٹرز سے مثبت جواب یا پیش رفت نہیں آئی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پارٹی بازی ابھی تک قومی سوچ پر غالب ہے، لیکن تحریک آزادی کے تمام عناصر مختلف انواع و اشکال میں موجود ہیں. یعنی تمام لوازمات بکھری ہوئی شکل میں ہیں ان سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی ان تمام وسائل و عناصر کو ایک ہی چینل کے زریعے بروئے کار لایاگیا ۔ یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تحریک خود روی کا شکار رہی ہے۔ تحریک کے بہترین انسانی وسائل کو بقول اسلم بلوچ کے چندن کی لکڑی سے سلیمانی چاہے بنانے کی انتہائی غیرزمہ دارانہ انداز میں بے دریغ استعمال کیا ۔ لیکن میری نظرمیں قومی تحریک کو رونگھٹے کھڑے کردینے والے بیھانک نقصانات سے دوچار کرانے والے ایک غلطی یہ بھی ہے کہ مخلص سیاسی ورکروں اور سرمچاروں کو آگ کی بھٹی میں جھونکنے سے پہلے یہ پتہ نہیں ہونے دیا جارہا ہے کہ ان کے پیچھے قوم کی اجتماعی قومی قوت موجود نہیں۔ اس سے قوم کو سیاسی اور عسکری میدانوں میں ناقابل تلافی نقصانات اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک مضبوط اور مربوط مرکزی قیادت کی فقدان تمام خرابیوں کا جڑ ہے۔ اور اب ہر پارٹی و ہر تنظیم اپنے آپ کو تحریک کا کل سمجھ رہا ہے جز نہیں ۔
قومی آزادی کی نظریاتی سوچ کو کسوٹی مانتے ہوئے علمی بنیادوں پر سیاسی، عسکری اور سفارتی جامعہ حکمت عملیاں ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ کام کسی ایک تنظیم یا پارٹی سے یک تنہا نہیں ہوسکتا۔ لہذا تمام آزادی پسند قوتیں خاص کر ایک دوسرے کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے سیاسی ڈپلومیسی کے زریعے رابطے بحال کرلیں تاکہ ایک Agreement Umbrella جامع معائدے کے تحت ایک نمائندہ قومی کونسل یا چھتری تشکیل پاسکے۔ لیکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ قومی رہنما خود برائے راست آپس میں اپنے رابطے بحال کرلیں اتحاد کے حوالے چار یار (غوثی، بگٹی، مری، مینگل) کی دورسے لیکر اب تک کی تلخ سیاسی تجربات سے یہی سبق ملا ہے کہ درمیاں میں رابطہ کار لوگ اکثر غیرمفید اورغیرموثر لوگ رہے ہیں جن کی وجہ سے مزید پیچدگیاں اور فاصلے پیدا ہوئیں۔ آخری معرکہ اور قومی انتفاضہ کیلے ضروری ہے کہ تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ہی ڈسپلن کے تحت مشترکہ پالیسیاں تشکیل دیکر دشمن کا بامعنی انداز میں مقابلہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز