تحریر: حیدر بلوچ
ھمگام آرٹیکلز
کچھ گھنٹوں پہلے سوشل میڈیا پہ اتھل یونیورسٹی کا ایک ویڈیو گردش کرتاہوا دیکھا گیا جس میں طلبہ آپس میں دست و گریباں تھے ،
اصل محرکات و وجوہات جانے بنا جزباتی بنیادوں پر اس پر تبصرے کیئے گئے ،خاص کر بساک اور بلوچ قوم دوست طلبہ پر بہتان باندھے گئے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،
ہوا کچھ یوں کہ کچھ عرصہ پہلے اتھل یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی، جس کا مقصد طلباء کو منتشر و غیر سیاسی بنانے ، سٹوڈنٹس کی پروفائلنگ کرنے ، قوم پرست طلباء تنظیموں کو کائونٹر کرنے ، سیاسی سرگرمیوں کے سامنے روڑے اٹکانے کیلئے راہ ہموار کرنا تھا
طلباء تنظیمیں انتظامیہ کے چال کو سمجھ گئے اور اس کے خلاف آگاہی مہم چلانا شروع کر دیاگیا ،جن کی طرف سے انتظامیہ کو بھی تنبیہ کیا گیا کہ نئی تنظیم کی قیام کے عمل کو روکا جائے ورنہ اس کے خلاف احتجاج کا انعقاد کیا جائے گا ۔
انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکہ طلباء کی شک و شبہات کو سنا تک نہیں،
جب گورنر بلوچستان نے اتھل یونیورسٹی کا دورہ کیا تو اپنے بنیادی حقوق منوانے کے لیئے طلباء نے پروگرام اٹینڈ کرنے سے انکار کردیا اور سراپاء احتجاج ہوگئے ، بجائے اس کے کہ طلباء کے ڈیمانڈ مان لئے جاتے لیکن ہوا کچھ اور ہی ،
انتظامیہ نے اپنے نومولود خود ساختہ تنظیم کے طلباء کی ملاقات گورنر بلوچستان سے کرائی جس سے انتظامیہ اپنے ناقص کار کردگی پہ پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوئے جس سے انتظامیہ اور سٹوڈنٹس ویلفیئر سوسائٹی کے خلاف طلباء میں ایک نفرت نے جنم دیا ، جس کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا گیا ۔
ابھی نفرت کی آگ بجی نہیں کہ انتظامیہ نے اپنے پے رول پہ چلنے والے تنظیم کو مزید طاقت و سرکل لگانے کی پرمیشن و ڈکٹیشن دیدی ،
قوم پرست سیاسی نوجوانوں نے جب انہیں تنبیہہ کی کہ اس طرح کے حرکات سے دور رہیں تو انتظامیہ نے ان کی پشت پناہی کی اور انھیں طلباء کے ساتھ لڑنے کا بڑھاوا دیا ، جس سے ماحول گرم ہو گیا ،
جب انتظامیہ کے پے رول پہ چلنے والوں کو مار پڑی تو اس کا بدلہ لینے کے لیئے انتظامیہ نے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے طلباء پر لاٹھی چارج ، آنسو گیس شلنگ کروائے جس سے کئی طلباء زخمی و بے ہوش ہوئے جنہیں ایمرجنسی میں منتقل کر دیا گیا
سینکڑوں طلباء کو ہراساں کیا گیا جس میں کئی طلباء کو پولیس کی جانب سے گرفتار بھی کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یونیورسٹی کے ہاسٹل کو بھی خالی کر نے کو کہا گیا ۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں گنے چنے کچھ یونیورسٹیاں ہیں ، جو کہ انتظامیہ کی طرف سے جان بوجھ کر عدم توجہ کا مرکز بنائے گئے طلباء تمام تر کے سہولیات سے محروم ہیں ،
ساتھ ہی ساتھ فورسز کے اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کم اور چھاؤنی زیادہ لگتے ہیں ـ طلباء جب اپنے جائز مطالبات کا دعوہ کرتے ہیں تو مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں خاموش کرایا جاتا ہے ـ
حال ہی میں تربت یونیورسٹی میں دو عجیب واقع پیش آئے ، ایک تو یہ کہ جب طلباء نے یونیورسٹی میں بک سٹال لگانے کا ارادہ کیا تو طلباء کو یونیورسٹی میں کتاب لے جانے سے روکا گیا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ،
دوسری یہ کہ ایجوکیشنل ایونٹ میں مہمان خاص پروفیسر منظور صاحب کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ،
اگر کسی یونیورسٹی میں کتاب اور استاد کا داخلہ منع ہو ، وہ یونیورسٹی نہیں بلکہ گھوڑوں کا اصطبل کہنے کا لائق ہو گا ،،
سب سے بڑھ کر جو المیہ بلوچستان کہ یونیورسٹیوں میں ہے یہ کہ طلبا سیاسی سرکل نہیں لگا سکتے نا ہی تین سے زیادہ ایک ساتھ ٹہر سکتے ہیں ، اور تو اور کوشش کیا جاتا ہے کہ کسی نا کسی طرح یونیورسٹیوں میں بدنظمی پیدا کی جائے جس سے طلباء کی تعلیم ڈسٹرپ ہو ، کبھی ٹیچروں کے تنخواہوں کے عدم دستیابی کو جواز بنا کر یونیورسٹیوں کو بند کرادیا جاتا ہے تو کبھی نہتے طالبعلموں کو جبری گمشدگیوں کا شکار بنا جاتا ہے، جہاں طلباء دوست طالبعلموں کی بازیابی کے لیئے یونیورسٹی کو احتجاجاً بند کر دیتے ہیں ، دونوں صورتوں میں نقصان بلوچ طلباء کا ہی ہوتا ہے ،
بلوچ طلباء کو سائنسی و علمی بنیادوں میں روز روز کے ذہنی و جسمانی تشدد کا کوئی نا کوئی حل نکالنا ہو گا ورنہ یہ بیماری کا سلسلہ نسل در نسل جاری رہے گی ۔
بلوچستان میں تعلیمی اداروں پر پاکستانی فورسز کا قبضہ تو برسوں سے جاری ہے لیکن اس قبضہ گیریت کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اب پاکستان بلوچ طلبا کو لڑا رہا ہے تاکہ اس بدنظمی کو جواز بنا کر تعلیمی اداروں کو بند کیا جائے یا اپنی منشا کے مطابق چلایا جائے ، لیکن بلوچ طلبا کو چاہیئے کہ ہر اس ریاستی سازش کو بھانپتے ہوئے کسی بھی ایسے ماحول سے وہ دور رہیں جس سے ان کے خود کے تعلیمی زندگی پر اثر پڑے ، کیونکہ طلباء بھلے ہی ریاستی اداروں کا بنایا ہوا ہے یا وہ عام طلباء جو ایمانداری اور محنت سے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر بغور دیکھا جائے تو
پاکستان کبھی یہ نہیں چاہتا ہے کہ بلوچ پڑھ لکھ کر آگے بڑھیں اور ان کا گرفت بلوچ پر ختم ہوجائے یا وہ اپنے حقوق کے بارے میں سوچنے لگیں ۔ کوئی یہ مانے نہ مانے اس وقت بلوچ تہذیب پر پاکستان مکمل قبضہ ہے ۔
تو اس صورتحال میں بلوچ طلباء ہر اس سازش کو ناکام بنائیں جس سے ریاست کو فائدہ اور ان کو نقصان پہنچے ۔