‎ ‎ ‎امریکہ نے پہلی بار سی پیک اور چین کے عزائم کے بارے میں کھل کر اظہار کیا ہے لیکن اس نے بہت دیر کردی ہے اب جبکہ سی پیک دوسرے مر حلے میں داخل ہوگیا ہے اسکی مخالفت چہ معنی دارد؟ جب اس کا آغار ہورہا تھا تو اس وقت امریکہ خواب غفلت میں تھا لیکن دوبارہ خلیج میں آنے کے بعد چین کے عزائم اس پر آشکار ہوئے ورنہ اس سے پہلے امریکہ چین کے ساتھ ساؤتھ چائنا سی میں الجھا ہوا تھا وہ اتحادیوں جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر چین کے خلاف صف آرا تھا اب اسے پتہ چلا ہے کہ چین تو خلیج میں آکر آ بنائے حرمزکے اوپر بیٹھ گیا ہے ساتھ میں روس نے اپنے جہاز بھیج دیئے ہیں یہ دونوں ممالک اخلاقی طور پر ایران کی حمایت کر رہے ہیں اور امریکہ کے روایتی حریف ہونے کی وجہ سے اسکے ہر عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔ ‎جہاں تک امریکہ کی نائب وزیر خارجہ کے حالیہ بیان کا تعلق ہے تو اس میں کافی حدتک سچائی ہے کیونکہ سی پیک پر چین اور حکومت پاکستان کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے وہ خفیہ ہے آج تک دونوں ممالک نے اسکی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا بلکہ معاملات کو اس حدتک صیغہ راز میں رکھا گیاہے کہ چین کے منظور کردہ قرضوں کی مالیت بھی چھپائی جارہی ہے شرائط تو دور کی بات یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ جو قرضے لئے گئے ہیں اس پر شرح سود کیا ہے؟ سی پیک کا معاہدہ نواز شریف کے دور میں ہوا تھا اور چینی صدر خود اسلام آباد آئے تھے وہاں جن معاہدات پر دستخط ہوئے تھے وہ ابھی تک پوشیدہ ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ گوادر میں چین کو کیا مالکانہ حقوق دیئے گئے ہیں آیا اسکے حقوق صرف پورٹ تک محدود ہیں یا دیگر معاملات بھی اسکے حوالے کئے گئے ہیں یہ راز اس وقت کھلےگا جب پورٹ صحیع معنوں میں آپریشنل ہوگا سردست چند ایک ڈرامے کئے جارہے ہیں جیسے کہ کبھی کچھ کنٹینر منگواکر کہا جاتاہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڑ یہاں سے شروع ہوگیا ہے کبھی کھاد منگواکر دکھایاجاتا ہے کہ پورٹ نے کام شروع کردیا ہے۔ حالانکہ پورٹ کی تعمیر جاری ہے اور اس میں مزید 3 سال لگیں گے جب چین نے مشرف کے دور میں لگائے جانے والے سازوسامان اور آلات ازکار رفتہ تھے جب نواز شریف کے دور میں پورٹ کے بارے میں باقاعدہ معائدہ ہوا تو چین خاموش ہے البتہ پاکستانی حکام جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں جیسے کہ انہوں نے پورٹ کو ملانے والے روٹس کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ مغربی روٹ بلوچستان کی بجائے سندھ سے گزر کر گوادر تک جاتا ہے ملتان سے سکھر تک موٹروے کی تعمیر اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے اگر مغربی روٹ ہوتا تو گوادر سے کوئٹہ اور ژوب سے ڈیرہ اسماعیل خان تک موٹروے تعمیر ہوتا یا کم ازکم کوئٹہ سے فورٹ منرو تک موٹروے بنایا جاتا لیکن ایسا کوئی منصوبہ مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ چین نے سنکیانگ سے خنجراب تک اپنے حصے کی شاہراہ تعمیر کردی ہے جبکہ آگے شاہراہ کی حالت بہت بری ہے اگر پاکستان کی زمہ داری کا یہی حال رہا تو سی پیک منصوبہ کیسے کامیاب ہوگا ؟ ‎یا اپنے اہداف کیسے پورا کرے گا؟ ‎ہوسکتا ہے کہ آئندہ 20 برس تک یہ منصبوبہ کامیاب ہوجائے لیکن فی الحال یہ منصبوبہ تجارتی سے زیادہ تزویراتی معلوم ہوتا ہے چین کا ہدف خلیج تک پہنچنا دکھائی دیتا ہے جبکہ پاکستانی حکومت گوادر ضلع کی انچ ، انچ زمین اپنی تحویل میں لے چکی ہے اور جو مقامی لوگ ہیں انہیں عملاً بے دخل کرچکی ہے امریکہ میں تو گورے حکمرانوں نے سیاٹل کا نام نہاد معاہدہ تحریر کیا تھا یہاں تو قبضہ کی اس طرح صورت حال ہے جیسے ایسٹ انڈیا نے مغربی بنگال پر کیا تھا اور سب سے پہلے چائے کے باغات کو قبضے میں لیا تھا۔ ‎گوادر کے عوام کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں اگر ماہی گیر سمندر میں جانے سے محروم ہو جائیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ، ہمیشہ کیلئے سمندر میں غرق ہوگئے ابھی تو جدید شہر کی تعمیر شروع نہیں ہوئی ہے جب گوادر کے اصل ماسٹر پلان پر عملدر آمد شروع ہوگا تب پتہ چلے گا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ہونا کیا ہے یہ جو وزراء اس وقت بیانات دے رہے ہیں یہ سارا جھوٹ ہے خود ان کم بخت وزراء کو معلوم نہیں ہے کہ اصل منصوبہ کیا ہے ؟ ‎یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ چین جو دنیا کا نمبر 2 سپر پاور ہے اور مینوفیکچرنگ اور تجارت کے حوالے سے یہ نمبر ایک پاور بن چکا ہے اسکی پالیسی دنیا کی معیشیت کو اپنے زیرنگیں لانا ہے اس مقصد کیلئے اس کا طریقہ کار امریکہ سے بہت مخلتف ہے امریکہ بستہ الف کا بدمعاش ہے اور زبردستی اور غنڈہ گردی کے ذریعے یا جنگ مسلط کرکے وسائل پیدا کرتا ہے اسکے مقابلے میں چین جنگ سے گریز کرتا ہے اور طویل و سائنسی منصوبہ بندی کے تحت اپنے اہداف حاصل کرتاہے جیسے کہ اس نے ہانگ کانگ اور مکاؤ کے عظیم جزیرے بات چیت کے ذریعے حاصل کئے اگر وہ چاہے تو پل بھر میں تائیوان پر قبضہ کرسکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کررہا بلکہ وہ جانتا ہے کہ ایک دن تائیوان خود بخود اسکی جھولی میں آکر گرے گا چین کو داخلی طور پر سنکیانگ کے سوا کوئی اور مسئلہ و مشکل درپیش نہیں، جو کہ ملک کا سب سے پسماندہ اور بڑا صوبہ ہے، جس کا رقبہ پاکستان سے دو گنا بڑا ہے چین اتنا بڑا ملک ہے کہ وہ اپنے مین لینڈ سے سنکیانگ کو ترقی نہیں دے سکتا جبکہ وہاں پر طویل مزاحمتی تحریک بھی جاری ہے اس لئے چین ساحل بلوچستان سے سنکیانگ کی صنعتی پیداوار مارکیٹ کرنا چاہتا ہے ایک تو اس کا یہی مقصد ہے دوسرا یہ کہ وہ خلیج میں آکر مشرقی وسطٰی کے معاملات میں حصّہ دار بننا چاہتا ہے گوادر میں آنے کے بعد اسکے دونوں مقاصد پورے ہوسکتے ہیں۔ ‎سی پیک کے منصوبے گزشتہ ڈیڑھ برس سے تاخیر کا شکار تھے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی سردمہری اور سست روی کا مظاہرہ کیا حتٰی کہ رزاق داؤد نے یہاں تک کہا کہ اتنے مہنگے سودے ہمارے حق میں نہیں ہیں اس پر حکومت کی سخت گوشمالی کی گئی حتٰی کہ حکام کو بیجنگ جا کر وضاحت دینا پڑی حکومت کے نا تجربہ کارا کا برین یہ بھول گئے تھے کہ آگے چین ہے جس کے بغیر پاکستان ایک قدم نہیں چل سکتا یہ الگ بات کہ امریکہ سے تعلقات کی بحالی کے بعد وہ دباؤ بڑھائے گا یہ ایک مشکل صورتحال ہے پاکستان کو افغانستان اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے امریکہ کی ضرورت ہے لیکن وہ امریکہ تعلقات کی قیمت پر چین کو ناراض نہیں کرسکتا یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس وقت چین اور روس جوکہ ہمسایہ ہیں دنیا کی صحیح معنوں میں امپیریل پاور ہیں دونوں ممالک کے حکمران تاحیات ہیں جیسے کہ بادشاہ ہوں۔ ‎چین اور روس کے پاس وسائل بھی بہت ہیں اور علاقوں پر قبضہ جمانے کی تکنیک بھی بہت ہیں۔ چین نے اپنے امپیریل عزائم کو دنیا بھر میں پہنچانے کیلئے بیلٹ اور روڑ کا منصوبہ شروع کیا ہے جو ایشیائے کو چک سے شروع ہوکر براعظم جنوبی امریکہ تک پھیلا ہوا ہے اگر رکاوٹ نہ آئی تو چین ساری دنیا کی معیشت پر غلبہ حاصل کرلےگا اگر جنوبی امریکہ میں اسکے منصبوبے کامیاب نہ بھی ہوئے تو ایشیاء اور افریقہ میں ضرور ہونگے ایشیاء میں ملائیشیا واحد ملک ہے جس نے نجیب رزاق کے دور میں بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ شروع کیا تھا لیکن مہا تیر محمدحد نے آکر یہ معاہدہ منسوخ کردیا اسکے بقول ملائیشیا اتنے منصوبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے چین آجکل ملائیشیا سے سخت ناراض ہے ادھر مہا تیر نے امریکہ کو ناراض کردیا ہے ماضی میں جب مہاتیر نے کولالمپور کے قریب پڑا جاتا کے نام سے ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کردی تھی تو امریکہ نے اس پر معاشی حملہ کیا تھا اور اسکی کرنسی کی قدر کافی حدتک گرائی تھی چین اور امریکہ دونوں کی ناراضی کےببعد ملائیشیا میں ایک شدید بحران آنے والا ہے وہاں کی معیشت بہت نیچے گرے گی اور رنگٹ کی قدر بھی گرجائے گی وہاں ہر غیر ملکی سرمایہ کاری پہلے سے رک گئی ہے کیونکہ سعودی عرب بھی اس سے ناراض ہوگیا ہے پاکستان سمیت جن ممالک کے لوگوں نے وہاں پر سرمایہ کاری کی تھی وہ ڈوب جائے گا۔ آئندہ مدت کیلئے جب انور ابراہیم اقتدار سنبھالیں گے تو انہیں ایک سخت قسم کی کسات بازار کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ‎ادھر انڈونیشیاء نے بھی اپنی تاریخی دارالحکومت جکارتہ کی جگہ آبنائے ملاکا پر ایک نئے دارالحکومت تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے آبنائے ملاکا آبنائے حرمز کی طرح بہت بڑا تجارتی روٹ ہے اور چین کی سب سے زیادہ تجارت اسی روٹ پر ہوتی ہے انڈونیشیاء داخلی بحرانوں سے نمٹ کر ترقی کی جانب گامزن ہے بدقسمتی سے پاکستان میں دوبارہ ترقی کا احیاء موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے انڈونیشیاء اور ملائیشیا دونوں فلاحی ریاست بننے جارہے ہیں کیونکہ انکی سیکیورٹی کے اخراجات بہت کم ہیں جبکہ پاکستان سیکیورٹی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں اسکی سیکیورٹی اخراجات مزید بڑھ جانے کا خدشہ ہے لہٰذا ان اخراجات کی موجدگی میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔ وزیراظم عمران خان نے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ایک دفعہ پھر ریکوڈک میں سونے کے ذخائر کاذ کرلیا ہے اور کہا ہے کہ وہاں 14 کانیں ہیں ہر ایک کان کا منافع ایک سوارب ڈالر ہے یعنی اگر ریکوڈک کسی کو بیچ دیا جائے تو ملک کے موجودہ معاشی بحران ختم ہوسکتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ان ذخائر کو لیز پر دینا چاہتی ہے کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ماضی میں سعودی عرب نے ان ذخائر میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن ابھی تک بات نہیں بنی ہے ان ذخائر کو اگر اونے پونے بیچ دیا گیا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا البتہ حکمرانوں کے ذاتی مسائل ضرور حل ہونگے وزیراعظم نے تھر میں کوئلہ کے کھربوں ٹن ذخائر کاذ کر بھی کیا ہے لیکن دونوں مقامات میں 18 ویں ترمیم حائل ہے کیونکہ ازروئے آئین معدنی وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں البتہ سندھ اس طرح لاوارث نہیں ہے جس طرح بلوچستان ہے وہاں پر مرکزی سرکار جو فیصلہ کرے صوبائی حکومتیں آنکھ بند کرکے قبول کرلیتی ہیں اس سلسلے میں سیندک کی مثال سامنے ہے جس کی آمدنی کا ایک آنہ بھی بلوچستان کو نہیں ملا ہے اور تو اور سوئی گیس کی آمدنی بھی کورے کھاتوں کے ذریعے ہضم کی جارہی ہے یہی حال گوادر کا بھی ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تحریر روزنامہ انتخاب میں چھپ چکی ہے، ہمگام اس تحریر کو دوبارہ اپنے قارئین کے لئے چھاپ رہا ہے۔ بشکریہ روزنامہ انتخاب