زاہدان (ہمگام نیوز) رپورٹ کے مطابق الیاس کوہکن کو 2022 کے احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار افراد میں سے ایک، جسے قابض ایرانی فورسز نے 3 جنوری 2023 کو زاہدان شہر سے گرفتار کیا تھا، 628 دن کے بعد ضمانت پر زاہدان سینٹرل جیل سے عارضی طور پر رہا کیا گیا۔
21 سالہ الیاس ولد حمید رضا کوہکن ، بنیامین کوہکن اور ادریس کوہکن کا بھائی ہے جو اب بھی دونوں زاہدان سینٹرل جیل میں زیر حراست ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گرفتاری کے وقت “الیاس کوہکن کے علاوہ ان کے دو بھائی سمیت یاسین کبدانی اور محمد درویش کو بھی قابض ایرانی فورسز نے
کو 3 جنوری 2023 کو زاہدان شہر میں احتجاج کے دوران گرفتار کر لیا گیا جنہیں محکمہ انٹیلی جنس کے حراستی مرکز اور زاہدان سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔
ان کی گرفتاری کے ایک دن بعد قابض ایرانی آرمی IRGC سے وابستہ تسنیم نیوز ایجنسی نے ان گرفتار افراد کے جبری اعترافات کی ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بنیامین کوہکن اور یاسین کبدانی کو زاہدان میں پولیس کی گشتی گاڑیوں پر فائرنگ کرنے اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ذرائع نے پہلے الیاس کے بھائی کے بارے میں کہا تھا کہ بنیامین کوہکن نے 5 فروری 2023 بروز اتوار کو زاہدان کے نام نہاد اصلاحی مرکز میں قابض ایرانی فورسز نے حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں جسمانی اذیت دی گئی تشدد کے دوران ان کے منہ میں زبردستی شیمپو ڈالا گیا ۔
اس کے علاوہ قابض ایرانی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے بنیامین کو تشدد کا نشانہ بنا کر اور جبری اعتراف حاصل کر کے اس سے قتل کا مقدمہ منسوب کیا ہے۔ جو کہ وہ اس وقت زاہدان کے نام نہاد اصلاحی مرکز میں قید ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 25 جنوری 2023 کو مذکورہ افراد کو حراستی مرکز سے زاہدان سنٹرل جیل کے سینٹری قرنطینہ میں منتقل کیا گیا تھا اور الیاس کوہکن کو 27 جنوری کو اس جیل کے وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا اور بنیامین کوہکن، یاسین کبدانی اور محمد درویش ناروئی کو 29 جنوری کو نام نہاد اصلاحی مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔
مزید رپورٹ کے مطابق قابض ایرانی فورسز نے حراستی مرکز میں قید کے دوران ان نوجوانوں کو جبری اعترافات حاصل کرنے کے لیے پھانسی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں سمیت مختلف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اب بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات تشدد اور جبر کی زد میں ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں حالیہ احتجاجی مظاہروں کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد جن میں 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں، کو بلا وجہ اور قانونی طریقہ کار کے خلاف گرفتار کیا گیا ہے تاہم اور بہت سے افراد کا انجام نامعلوم ہے۔
واضح رہے کہ الیاس کوہکن کے بازیابی کے لیے عالمی سطح پر بھی آواز اٹھایا گیا تھا ۔