تحریر: سفیر بلوچ
ہمگام آرٹیکل
اہرام مصر کی طرف دیکھ کر جوابی قہقہہ لگانیوالا سانتیاگو اگر خوابوں کی تکرار پر یقین نہ رکھتا اور اپنے خواب کی تعبیر اور جستجو میں ریگستان کی ریک چھاننے نہ نکل پڑتا تو بوسیدہ چرچ کے بنیادوں میں مدفن خزانے کا مالک کبھی نہ بن پاتا. ریگستان کے سفر کے دوران ساربانوں کی سبق آموز باتیں قصے کہانیاں، کیمیا دان کے اونٹ پر لدے کتابوں سے اور اپنے سفر سے کچھ نہ سیکھ پاتا. بوڑھے بادشاہ کی داناہی کی دلچسپ باتیں نہ سن پاتا. عقابوں کی پلٹ جھپٹ سے فال نکالنے اور شگون کے پارس پھتر اور دنیا کی روحانی زبان سمجھنے کا ہنر کبھی نہ سیکھ پاتا. نخلستان کی خوبصورت دوشیزہ فاطمہ کی خوبصورت آنکھوں کو اپنے لیے منتظر نہ دیکھ پاتا.
بھیڑوں کے اون بیچ کر اندلس کا ایک عام سا شؤان ہوتا. جسطرح بہت سے دوسرے تھے، سینکڑوں تھے. وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے نکل پڑا تو کردار سامنے آتے گئے کہانی خوبصورت ہوتی گئی. جسطرح کہ بھیڑوں کے اون سے ٹپُر (بلوچستان میں بھیڑوں کے اون سے تیار کی گئی علاقائی قالین) بنتا ہے اس میں خوبصورت نقش و نگار بنتے ہیں اسطرح پاہیلو کوہیلو نے بھی ہر کردار کو اس کے بہتر مقام پر بہتری سے استعمال کیا.
زُنیرہ قیوم زہری کے ہاتھ میں الکیمسٹ کتاب ہے جس پر وہ اپنے خیالات بیان کررہی ہیں لہجے میں ادیبانہ ٹھہراؤ ہے. باتوں میں روانی اور خوداعتمادی ہے آنکھوں میں خودداری سے جینے اور اور کچھ کرنے کی لگن ہے. وہ سانتیاگو پر تبصرہ کرتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرتی ہیں.
زُنیرہ کے والد قیوم زہری جو ریاستی اداروں کے ہاتھوں غاہب کیے گئے، شہید کیے گئے، لاوارث قرار دے کر دفن کیے گئے. دو سال گزر گئے زُنیرہ اپنے والد کے لوٹ کر آنے کی امید میں جیتی رہی پڑھتی رہی خواب بُنتی رہی.
اندلس کے سانتیاگو کی طرح قیوم زہری کے بھی خواب تھے وہ اپنے خوابوں کی تعبیر و تکمیل زُنیرہ میں دیکھنا چاہتے تھے. زُنیرہ کی خود اعتمادی اور ذہانت بتارہی ہے کہ اس کے والد نے اس کی اچھی تربیت کی.
افغان لکھاری خالد حسینی کہتے ہیں کہ کابل فی مربع میل ہزاروں سانحات کو جنم دینے والا شہر ہے. ہم بلوچستان کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر درد بھری، خون آلود اور رنجیدہ کہانیوں کو جنم دینے والی سرزمین ہے . بلکہ فقط کہانی نہیں ہیں کہ جو ایک ہنر مند لکھاری اپنے تخیل سے ترتیب دے. اپنے قلم سے کرداروں کی نوک پلک درست کر کے انھیں جاندار بنائے. بلکہ زندہ اور جاندار کردار ہیں.
پتہ نہیں زُنیرہ نے الکیمسٹ پڑھنے کے دوران اس کے کرداروں کو اپنے سرزمین پر ڈھونڈی ہوگی کہ نہیں.
جنگ زدہ خطوں میں ہزاروں خون آلود کہانیوں کی جنم ہوتی ہے ان کہانیوں کے ایک ایک کردار کے خون آلود اثرات سماج سے صدیوں تک چھپک کر رہ جاتے ہیں. خواب ادھورے رہ جاتے ہیں ارمان نا مکمل اور زندگی صرف گزاری جاتی جی نہیں جاتی یہ خطہ بھی جبر و استبداد کے زیر قبضہ ہے. بنیادی تضاد حق ملکیت حق آزادی ہے. جینے کی آزادی بولنے کی آزادی انسانی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی آزادی. یہ جو پون صدی قبل آزادی سلب کی گئی یہ قبضہ گیریت ہے لوٹ مار ہے جبر ہے. یہ تضاد ہے ہمیشہ رہے گا جب تک استبداد کے جبر کے نوکیلے پنجوں سے خلاصی نہیں ہوتی. جب تک کہ مہر اور خوشیوں بھری کہانیاں جنم نہیں لیتیں .
زُنیرہ کی من پسند کتاب الکیمسٹ کے چھپنے کے لگ بھگ ایک سال بعد آخری روسی فوجی نے دریائے آمو کے اُس پار اپنے وطن کی راہ لی اپنے پیچھے ایک خستہ حال جنگ زدہ اور اندلس کے کلیسا کی طرح ایک بوسیدہ زمین چھوڑ کر. اس جنگ کے دوران ہزاروں نہیں لاکھوں خون آلود کہانیوں نے جنم لیا. ان لاکھوں خون آلود کہانیوں کی جنم کا سبب بننے والا شاطر تخلیق کار خاموش مجاہد کے بیٹے ایک خطے کو خون رنگنے کے بدلے کھرب پتی بن گئے.
جسطرح سانتیاگو کو عقابوں کی لڑاہی سے یہ ادراک ہوا کہ نخلستان میں جنگ چھڑنے کا امکان ہے. اسی طرح جڑواں ٹاورز کے زمین بوس ہونے کے بعد جنگ کے امکانات ہوہے. تضاد موجود ہو تو جنگ چھڑتے دیر نہیں ہوتی. جنگلی پستے کی لکڑی مکمل راکھ نہیں ہوتی اس میں چنگاری دبی ہوہی ہوتی ہے.
اس دفعہ کی بندوقوں کی گھن گھرج کے نتیجے میں ایک اور نیلی آنکھوں والی شربت گل پشاور کے کسی تمبو کیمپ میں مردہ دلی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگی.
ایک اور پلیا پہاڑی زیتون کی نم شاخ پر بے جان ہرنیوں کی نقش و نگار بنا کر اور مہندی کا رنگ دے کر اپنی جوانی کے ہنرمندی کو اپنا لے گا.
ایک اور حمل اپنی لاٹھی سے دستار کو پیشانی سے اوپر کسکا کر اُلٹے ہاتھ سے آنکھوں پر سایہ بناتے ہوہے کہے گا کہ ُُ ُ کسر اے نیمہ کرینون،،
ایک اور سدو سہارا دینے والے اپنے دوست کا ہاتھ چُھڑاتے ہوئے شُما اللہ باہوٹ اے کہہ کر عدم جانے کا راستہ چُن لے گا.
ایک اور اسد کے خون کے چند بوند ہی دیکھنے کو ملیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے لاپتہ رہے گا
ایک اور اللہ رحم نامی نوجوان شادی سے ایک روز پہلے اپنی جان دیکر زندہ جاوداں ہوگی
ایک اور حیات اپنی والدہ کی گلوگیر آواز اور دہاہی دیتے اوپر اٹھے ہاتھوں کو آخری بار دیکھے گا.
ایک اور زُنیرہ کوہ ء الواہی کے دامن میں اپنے باپ کی شہادت سے بے خبر اندلس کے شوان سانتیاگو کی خوابوں کو حقیقت بنانیکی جستجو اور سفر ریگستان کی روداد بیان کررہی ہوگی.
الکیمسٹ کا کردار سانتیاگو اپنے ریوڑ کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہے کہ اگر میں بلا بن کر اپنے بھیڑوں کو ایک ایک کر کے ذبح کر لوں کھا لوں تو انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا.
زنیرہ نے جب یہ لاہن پڑھی ہوگی تو شاید سوچی ہو گی کہ ہم بھی کافی عرصے سے ایک آسیب سے ایک بلا سے نبرد آزما ہیں سانتیاگو تصور میں اپنے ریوڑ کی سادگی کو ذہن میں رکھ کر بلا بننے کا سوچتا ہے جبکہ ہم حقیقت میں پون صدی سے ایک آسیب اور بلا کا سامنا کررہے ہیں ہمارے اذہان میں یہ بلا تخت نشین ہے ہم تصور و تخیل سے ہٹ کر نہایت آسانی سے اس آسیب کو دیکھ سکتے ہیں . اس کی خونخوار شکل اور بد نما خدوخال کو بیان کر سکتے ہیں. اس کے نوکیلے دانتوں سے جو خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ان قطروں کو ڈی این اے سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت نہیں وہ ہمارا ہی خون ہے اپنے خون سے بھلا کون انجان ہو سکتا ہے. سنتیاگو کو ریگستان کے ساربان بتاتے ہیں کہ ہوا میں خون کی بو رچی ہوہی ہے وہ خون کی بساند سے اندازہ کرتے ہیں کہ آگے شاید دو لشکروں کے درمیان گھمسان کی تلوار زنی ہو رہی ہے. جب کہ زنیرہ کو کسی ساربان سے مستقبل بینی کے لیے سبق لینے کی ضرورت نہیں کلاسیکل وزڈم کی خوشبو اس کی سرزمین کی مٹی میں رچی بسی ہے یہ بساند نہیں بلکہ خوشبو ہے زباد ہے. اس کے بابا کی جسد بھی تو دشت سے نورگامہ آہی ہے.
ان ظلم و استبداد کے خداؤں کے لیے دشت ویرانی و دہشت کی علامت ہو سکتی ہے مگر ہمارے لیے تو دشت کا نام لیتے ہی گواڑخ کے خوبصورت پھول ذہن میں آتے ہیں. خون کے قطرے جو ( ریاستی گھڑے گئے جھوٹ کے مطابق لا وارث ) لاشوں سے ٹپکتے ہوہے گواڑخ کو سیر آب کرتے ہیں. گواڑخ کا کھلنا ہی ان کا دوسرا جنم ہے.
دشت جہاں اہل صدق کی تربتیں ہیں جن کی شناخت کے لئے چند ہندسے لکھے گئے ہیں. یہ اتنے بے نام و نشان لوگ نہیں، کہ ان کی شناخت ہندسوں کی مدد سے کی جاہے. ان کی شناخت کوہ چلتن کی پر غرور ایستادگی ہے
ان کی شناخت دریاہے بولان کی ہمسائیگی اور اس کا بانکپن ہے
ان کی شناخت کوہ مہردار کی طرح وسیع اور کوہ دلبند کی طرح مہروان ہے
ان کی شناخت بلوچستان ہے.
ان لاشوں کو بے نام کرنے والے اپنے خون آلود اور داغدار تاریخ سے منکر ہوں گے. لیکن جن نوجوانوں کو وہ بے نام قرار دے کر دفن کررہے ہیں وہ اپنی تاریخ پر نوحہ کناں نہیں بلکہ نازاں ہوں گے.
اور سنتیاگو کی طرح فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہیں گے ُ ُزُنیرہ میں آ رہا ہوں ُ ُ