انسانی حقوق کا عالمی منشور 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے منظور کیا جسے Univesal Declearation Of Human Rights کہتے ہیں
یوں 10 دسمبر کا دن سوائے مقبوضہ بلوچستان کے سوا پوری دنیا میں انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے
مگر مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کا دن انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے منایا جاتا ہے
اقوام متحدہ نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین بنائے اور ان کے ممبران نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین سے متعلق مواد اور قواعد و ضوابط تیار کیئے
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے اہم نکات درج ذیل ہیں
٭ تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد اور برابر ہیں عزت اور وقار رکھتے ہیں
٭ نسل ،رنگ ،مذہب ،زبان ،جنس سیاسی سوچ یا قومی شناخت غربت یا کسی پیدائشی فرق کے بغیر اس منشور میں دیئے گئے تمام حقوق حاصل ہیں
٭ ہر شخص کو زندگی، آزادی اور اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے
٭ ہر شخص کو انفرادی یا اجتماعی ملکیت کا حق حاصل ہے
٭ ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق فکری اور مذہبی آزادی حاصل ہے
٭ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے
٭ ہر شخص کو اس معیار زندگی کا حق حاصل ہے جس میں اسکی صحت کے لئے اچھی خوراک رہائش لباس طبی سہولیات اور دیگر سماجی خدمات
٭ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی ہوگئی
٭ہر شخص کو اپنے معاشرے کی ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق ہے
٭ ہر شخص کی اس معاشرے میں میں کچھ زمہ داریاں ہیں جن میں اسکی شخصیت کی مکمل آزادانہ تشکیل ہوتی ہے
٭ حقوق و فرائض کے معاملے میں ہر شخص کی آزادی کی کچھ حدود ہونگے جن کا مقصد صرف دوسرے کے حقوق اور آزادی کا تحفظ ہو
پاکستان نے انسانی حقوق کی عالمی منشور کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آئین میں بنیادی حقوق کے باب کو شامل کیا
پاکستان کے 1973 کے آئین میں پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے
1973ءکے آئین کے تحت انسانی حقوق کے حوالے سے جو اہم نکات آئین میں شامل کیئے گئے اور مقبوضہ بلوچستان میں ان آئین کے مطابق جو حقوق دیئے جارہے درج زیل ہیں
٭ کسی بھی شخص کو اس کے حق زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا
مگر مقبوضہ بلوچستان کے بلوچوں کو حق زندگی و آزادی کی بات کہنے پے سر عام والدین کے سامنے گولی مار دی جاتی ہے
٭ آرٹیکل 10 کے مطابق ملزم کو بھی تحفظ دیا جاتا ہے
پاکستان اپنے ڈر کی وجہ ابھی نندن جیسے لوگوں کو چائے پلا کر رخصت کرتی ہے کہ جس نے پاکستان میں جنگی جہاز سے حملہ کیا تھا
مگر مقبوضہ بلوچستان کے مظلوم لوگوں پہ جنگی جہازوں سے ان کے گھروں کو بمبار منٹ کیا جاتا ہے
٭ پاکستانی کے آئین کے تحت کسی بھی شخص کو کسی جرم میں گرفتاری کی صورت میں اسے گرفتاری کے وجوہات سے آگاہ کرنا ضروری ہے
مگر مقبوضہ بلوچستان میں لوگوں کو گرفتاری کی وجوہات تو دور انہیں بیس بیس سالوں سے عدالت تک پیش نہیں کیا جاتا اور والدین کو بھی نہ بتایا جاتا ہے کہ کس جرم کے تحت آپ کے بیٹے یا بیٹی یا باپ یا بھائی کو گرفتار کیا اب زندہ ہے یا نہیں الٹا آواز اٹھانے اور اس کی پوچھنے معلومات لینے والے بلوچ کو بھی اٹھایا جاتا ہے
٭ ملزم کو اپنے مرضی کا وکیل کرنے کا اور دفاع کا حق حاصل ہے
مگر بلوچستان میں کسی بھی گرفتار شخص کو بیس بیس سالوں تک ٹارچر سیلوں میں رکھا جاتا ہے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تو وکیل کرنے کا حق کیسے حاصل ہوگا
٭ واضح اسباب بتائے بغیر کسی بھی شہری کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا
مگر مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے اور جعلی مقابلوں اور والدین کے سامنے بھی مارا جا سکتا ہے
٭ آئین کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کو پیش کیا جائے
مگر مقبوضہ بلوچستان کے لوگوں مجسٹریٹ کے سامنے چوبیس گھنٹے کے بجائے چوبیس سالوں تک پیش نہیں کیا جاتا
٭ آئین کے مطابق ہر شہری کو احتجاج کا حق حاصل ہے
مگر مقبوضہ بلوچستان میں احتجاج کرنے پر بھی لوگوں کو مارا جاتا ہے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے
٭ کسی بھی شہری کو انجمن سازی کا حق حاصل ہے
مگر بلوچ کو انجمن سازی کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے
٭آئین پریس اور میڈیا بھی آزاد ہے
مگر مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ مسلے و انکی حق کی بات کہنے والے کی زبان کو خاموش کیا جاتا ہے اسے مارا جاتا ہے اٹھایا جاتا ہے اور بین الاقوامی میڈیا کی رسائی کی اجازت بھی نہیں دی جاتی
٭ مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کو اٹھا کر ان کے فیملی سے تاوان کا رقم لیکر بعد میں اسکی بھی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے
٭ بلوچوں کی جائیدادوں پر ایف سی و پاکستانی آرمی کے کیمپ بنائے جاتے ہیں کیمپ کے قریبی لوگوں کے گھروں کے تمام قیمتی اشیا گاڑی موٹر سائیکلیں ٹریکٹر بھی لوگوں سے چھین کر آرمی والے اپنے زیر استعمال کیلئے رکھ لیتے ہیں
٭ قانون کے مطابق بلوچ علاقوں میں کسی بھی شہری کو تحفظ کا حق حاصل نہیں ہے
بلوچوں کو اپنی زبان اور کلچر کی فروغ کے لئے ادارے قائم کرنے کا کوئی آزادی نہیں ہے
٭ مقبوضہ بلوچستان میں کسی بھی شخص کو بنیادی حقوق حاصل نہیں اور نہ کسی کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کیا جاتا ہے
اور بلوچ قومی دولت کو لوٹا جاتا ہے زمین کے وسائل کو بیدری سے نکال کر لے جایا جاتاہے۔