انسٹاگرام: یہ ایپ نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کیسے اور کس حد اثر انداز ہو رہی ہے؟
شیونا مکیلم کی نئی تحقیقاتی رپورٹ
صبح سو کر اٹھیں، فوراً اپنا موبائل ہاتھ میں تھام لیں، انسٹاگرام کھولیں اور پوسٹس پر نظر دوڑانا شروع۔
یہ ہم میں سے اکثر افراد کی زندگی کا ایک معمول بن چکا ہے۔ مگر یہ ایپ ہماری ذہنی صحت پر کیسے اور کس حد اثر انداز ہو رہی ہے؟
فیس بک کی سابق ملازم اور کمپنی کے راز منظر عام پر لانے والی فرانسس ہیوگن نے خبردار کیا ہے کہ انسٹاگرام دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زیادہ خطرناک ہے۔ فیس بک کی اپنی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسٹاگرام مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق سامنے آنے کے بعد انسٹاگرام کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ انسٹاگرام اس پلیٹ فارم کو درپیش پیچیدہ اور مشکل امور کو حل کرنے کے لیے کتنی زیادہ پُرعزم ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے حکام اور سیاستدانوں کو سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، بی بی سی نے پانچ صارفین سے اُن کے انسٹاگرام استعمال کرنے کے تجربات پر بات کی ہے۔
ئئے لوگوں سے روابط
دانی کا انسٹا گرام کی ایپ کے ساتھ بیک وقت محبت اور نفرت والا رشتہ ہے۔
ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھنے والی 29 برس کی دانی اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے اس پلیٹ فارم سے پیسے بھی کماتی ہیں اور انھوں نے ٹرانس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا ہوا بھی ہے۔ دانی ٹرانس ہیں اور وہ جس طرح دکھتی ہیں اس پر انھیں اس پلیٹ فارم پر رہتے ہوئے گالیوں اور برے القابات کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
،تصویر کا کیپشن
دانی: ‘انسٹاگرام میری زندگی کی سب سے بڑی خوش بختی اور سب سے بڑی بد بختی بھی ہے‘
دانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انسٹاگرام میری زندگی کی سب سے بڑی خوش بختی اور سب سے بڑی بد بختی بھی ہے۔‘
دانی کے مطابق جب آپ ٹرانس ہوں اور آپ کا اکاؤنٹ بھی ایسا ہو جس تک سب کی رسائی ہو پھر آپ کو بہت گالم گلوچ سننی پڑتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ نفرت پر مبنی باتیں جو انھیں آن لائن سننی پڑتی ہیں وہ انھیں بعض اوقات اندر سے توڑ کر بھی رکھ دیتی ہیں۔
ان کے مطابق نفرت انگیز تبصرے بہت ہی نازیبا ہوتے ہیں۔ ‘مجھے کسی نے ایسے تبصروں پر مبنی ایک پوری فہرست بھیجی جس میں لوگ میری تصاویر لے کر میری تذلیل کر رہے تھے۔‘
فرانسس ہیوگن نے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو انسٹاگرام سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ‘یہ پلیٹ فارم سماجی موازنے اور باڈیز یعنی ظاہری حلیے۔۔۔ لوگوں کی طرز زندگی سے متعلق ہے، جو بچوں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘
دانی نے حال ہی میں شراب نوشی کی لت سے تو جان چھڑا لی ہے تاہم ان کے مطابق انھیں یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ کیسے سوشل میڈیا کا استعمال ان کے لیے ایک لت بن چکی ہے۔
ان کے مطابق ’میں نے یہ محسوس کیا کہ انسٹاگرام ایسے لوگوں کے لیے برا ہے جن کی شخصیات میں کسی چیز کے بہت زیادہ عادی ہونے کی جہت موجود ہو۔ یہ (انسٹاگرام) بھی اسی طرح کے احساسات پیدا کرتا ہے کہ جس میں مزید استعمال کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‘
انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا (فیس بک) کے عالمی امور کے نائب صدر نک کلیگ نے یہ کہتے ہوئے اس پلیٹ فارم کا دفاع کیا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کی اکثریت انسٹاگرام سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
ان کے مطابق کمپنی انسٹاگرام کے خطرناک استعمال روکنے کے لیے کچھ طریقے متعارف کرائے گی، جس میں ایک خاص فیچر ہو گا جس کا نام ’ٹیک اے بریک‘ ہو گا، جو نوجوان صارفین کو لاگ آف کرنے کی ترغیب دے گا۔
’باڈی امیج‘
ہانا روزانہ چھ سے دس گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرتی ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا تک رسائی نوعمری سے ہی ہے۔
یونیورسٹی آف سکاٹ لینڈ میں زیر تعلیم 24 سالہ ہانا آئر کے تمام ہی اہم پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس موجود ہیں، جن میں فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک شامل ہیں۔
ان کے مطابق ’مجھ میں ایک بری عادت جو پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ صبح اٹھ کر اپنے تمام نوٹیفیکیشن کو چیک کرنا۔‘
،تصویر کا کیپشن
یونیورسٹی آف سکاٹ لینڈ میں زیر تعلیم 24 سالہ ہانا آئر کے تمام ہی اہم پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس موجود ہیں، جن میں فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک شامل ہیں
ان کے مطابق آخری چیز جو وہ سونے سے پہلے چیک کرتی ہیں وہ سوشل میڈیا ہی ہے۔ ’یوں میرا پورا دن سوشل میڈیا کے گرد ہی گھومتا ہے۔‘
‘بلاشبہ میں ٹک ٹاک کی عادی ہو چکی ہوں۔ میں ایک ہی وقت میں بآسانی دو گھنٹے تک اسے دیکھ سکتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اپنا وقت برباد کر رہی ہوں۔۔۔ ایسا وقت بھی آیا کہ میں نے جب میں نے کوشش کی اور اس کے استعمال کو محدود کیا۔‘
انسٹاگرام پر ہانا پہلے ایسے انفلوئنسرز کو فالو کرتی تھیں جو ان کے جس ہانا کو انسٹاگرام پر کچھ نفرت انگیز تبصرے بھی موصول ہوئے۔
‘مجھے کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مجھے اپنا وزن کم کرنا چاہیے کیونکہ میں بہت موٹی ہو گئی ہوں۔۔۔ اور یہ کہ میں سائز ٹین کی ہو گئی ہوں۔ اس طرح کے تبصروں سے مجھے اپنے جسم سے متعلق منفی خیالات آتے تھے۔‘
زہریلا ماحول
جنوبی لندن میں ہارنسے سکول فار گرلز کی دو طلبہ سکارلیٹ اور انیسا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سوشل میڈیا کے خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
سکارلیٹ 15 برس کی ہیں اور وہ فیس بک کے علاوہ تمام ہی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں۔ فیس بک سے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ ان کی عمر کے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔
’میں ایسے یوٹیوبرز کو فالو کرتی ہوں جو فیشن سے متعلق مواد جمع کرتے ہیں۔ ان میں ایما چیمبرلین ہیں جن سے مجھے محبت ہے۔‘
’میں خود ابھی بلوغت کے عمل سے گزری ہوں اور جب میں کسی بہت خوبصورتی کی حامل شخصیت کو دیکھتی ہوں۔۔۔ تو (میرے لیے) یہ بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسا دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ مجھے بھی ان کی طرح دکھائی دینا چاہیے۔ اس احساس نے مجھے غیر محفوظ کر دیا تھا۔‘
’میں نے اب ایسے متعدد اکاؤنٹس کو ان فالو کر دیا ہے۔‘
،تصویر کا کیپشن
سکارلیٹ اور انیسا
انیسا بھی 15 برس کی ہیں اور انھوں نے بھی منفی تبصروں سے بچنے کے لیے اپنی مرضی کے اکاؤنٹس فالو کرنا شروع کر دیے ہیں۔
مگر ابھی بھی آن لائن انھیں وہ کچھ دیکھنے کو ملتا ہے جو وہ دیکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔
انیسا کے مطابق ’بطور مسلمان مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری بہت غلط نمائندگی کی جاتی ہے۔ لہٰذا جب میں ایسا اکاؤنٹ دیکھتی ہوں تو میں اسے ان فالو کر دیتی ہوں۔‘
ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا پر لطف اندوز ہونے کا تجربہ بھی ہے خاص طور پر جب اپنے دوستوں کے ہمراہ ویڈیوز بنانی ہوتی ہیں۔
سکارلیٹ کہتی ہیں کہ ’میں نے کھانے پکانے سے متعلق بہت ویڈیوز دیکھی ہیں اور میں نے آن لائن ویڈیوز سے بہت سے گر سیکھے ہیں۔ ایسے بھی اکاؤنٹس ہیں، جن میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ سب برے نہیں ہیں۔ اگرچہ منفی اکاؤنٹس نے مثبت اکاؤنٹس کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔‘
سوشل فری
مگر ایسا بھی نہیں کہ ہر نوجوان انسٹا گرام پر موجود ہے۔ لہیا جو 15 برس کی ہیں اور انھیں ابھی تک انسٹاگرام پر اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔ ان کے مطابق وہ اپنی والدہ کے اس فیصلے پر اعتماد کرتی ہیں کیونکہ ایسا انھوں نے اس پلیٹ فارم پر منفی رحجانات کو دیکھ کر کیا ہو گا۔
،تصویر کا کیپشن
لہیا
اس کے مطابق ’مجھے کسی حد سوشل میڈیا پسند ہے کیونکہ میرے سب دوست یہ استعمال کرتے ہیں اور مجھے کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ میں اس دائرے سے باہر ہوں۔ تاہم میں اس کے منفی پہلو سے بھی آگاہ ہوں۔ میں نے دوستوں کی ایسی بہت سی کہانیاں سن رکھی ہیں جنھیں نازیبا تصاویر اور خوفناک ویڈیوز موصول ہوتی ہیں۔۔۔ ایسا مواد میری عمر کے افراد کو نہیں موصول ہونا چاہیے۔
ستمبر میں میٹا (فیس بک) کمپنی نے انسٹاگرام پر 13 برس سے کم عمر افراد کے لیے ’انسٹاگرام کڈز‘ کے منصوبے پر عملدرآمد کو کچھ دیر کے لیے موخر کر دیا تھا۔
انسٹا گرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے یہ اعلان کیا کہ کمپنی والدین، ماہرین، پالیسی سازوں اور ریگولیٹرز کی آرا کو جاننے کے لیے وقت صرف کرے گی۔