بیسویں صدی میں کیوبا، چین، شمالی کوریا، ایران، سوویت یونین، کمبوڈیا، ویتنام، شام، لیبیا اور عراق جیسے ممالک میں انقلابی جماعتیں عوامی فلاح و بہبود کے نام پر اقتدار میں آئیں۔ ان تحریکوں نے استحصالی حکومتوں کے خاتمے، معاشرتی مساوات اور غربت کا خاتمہ کرنے کے وعدے کیے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان جماعتوں نے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال دیا، اور ان کی حکومتیں آمرانہ اور خاندانی بادشاہتوں کی صورت اختیار کر گئیں۔ یہاں ہم ان تحریکوں کے عروج کے اسباب اور ان کے آمرانہ طرز حکومت کی وجوہات پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ انقلابی تحریکیں ان معاشروں میں اٹھیں جہاں اکثریت غربت اور استحصال کا شکار تھی۔ اقتصادی اور سماجی ناانصافی نے ایسی تحریکوں کو تقویت دی جنہوں نے دولت کی منصفانہ تقسیم اور مساوات کا وعدہ کیا۔ ان ممالک میں انقلابی جماعتوں نے انقلاب کے نام پر اقتدار حاصل کیا، لیکن زیادہ تر نے آمرانہ حکومتیں قائم کیں اور کئی جگہوں پر موروثی حکمرانی کو فروغ دیا۔ یہ ممالک اور ان کے حکمران اکثر ابتدائی انقلابی نظریات سے دور ہوگئے اور خود کو مطلق العنانیت کی طرف لے گئے، جہاں اختیارات محدود طور پر حکمران خاندان یا قریبی حلقوں میں مرکوز رہے۔

دنیا بھر میں کئی ممالک میں انقلابی تحریکوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور ایک مضبوط انقلابی پیغام کے ذریعے اقتدار حاصل کیا، تاہم وقت کے ساتھ یہ انقلابی تحریکیں آمرانہ حکومتوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہ حکومتی نظام اکثر ایک شخص یا خاندان کی مطلق العنانیت کی شکل اختیار کرگئے اور عوامی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی اقتدار کے استحکام پر توجہ مرکوز ہوگئی۔ یہ انقلابی حکومتیں اپنے ابتدائی نعرے اور وعدوں کے برعکس عوامی فلاح کے بجائے مطلق العنانیت کی طرف گامزن ہو گئیں۔ انقلابی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انہوں نے عوامی حقوق، سیاسی آزادیوں اور سماجی انصاف کی بات کی، مگر اقتدار کے استحکام کے لیے انہوں نے آمرانہ حکمرانی کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک کے عوام کئی دہائیوں تک بنیادی حقوق اور آزادیاں کھو بیٹھے اور یہ انقلابی جماعتیں جمہوری اداروں کے بجائے فرد واحد یا خاندان کے تسلط میں بدل گئیں۔ یہ تحریکیں اگرچہ انصاف اور آزادی کے نام پر آئیں مگر انقلابی رہنماؤں نے اپنے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا اور آمرانہ طرز حکمرانی کو اختیار کر لیا۔ اقتدار کی لالچ اور مطلق العنانیت کی خواہش نے ان تحریکوں کو استحصالی حکومتوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ انقلابی تحریکیں ابتدائی طور پر جس آمریت کے خاتمے کے لیے بنی تھیں، خود اسی کی عکاس بن گئیں۔ یہ تحریکیں ہمیں بتاتی ہیں کہ بغیر جمہوری احتساب اور عوامی شراکت داری کے انقلاب کے خواب کیسے موروثی آمریت اور مطلق العنانیت میں بدل سکتے ہیں۔ ان تحریکوں نے اکثر بیرونی طاقتوں سے نجات کے نعرے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو متحرک کیا اور عوامی خود مختاری کو مرکزیت دی۔ ان تحریکوں کے زیادہ تر قائدین نے اپنی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک مضبوط اور مرکزی جماعتی نظام کی ضرورت کو محسوس کیا اور یہ ایک جماعتی نظام آمرانہ حکومتوں میں تبدیل ہو گیا۔ بیسویں صدی میں انقلابی نظریات کا خاصا رواج تھا اور مارکسزم، نیشنلزم اور اسلامی نظریات کے تحت انقلابات کا ایک خاص تاثر اور تشہیر کی گئی، جس میں تصویریں اور سوشلسٹ تحریکوں کے نام نہاد ہیروز کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ ان انقلابی حکمرانوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے اختلاف رائے کو سختی سے دبایا اور کسی بھی سیاسی سرگرمی کو بغاوت کے مترادف سمجھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان انقلابی حکمرانوں نے اپنے ابتدائی اہداف کو بھلا دیا اور ذاتی مفادات کی حفاظت کو ترجیح دی۔ عوامی فلاح و بہبود کے دعوے محض دکھاوا رہ گئے اور اصل مقصد اقتدار کو برقرار رکھنا بن گیا۔ یہاں کچھ ممالک اور ان کے انقلابی حکمرانوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے جو کہ عوامی انقلاب کے نام پر برسرِ اقتدار آئے، مگر بعد میں آمریت، موروثیت اور خود غرضی کے مظہر بن گئے۔ یہاں 20ویں صدی میں انقلابی حکومتوں کے تحت ہونے والی ہلاکتوں کا ایک جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے، جو عوامی فلاح و بہبود کے نام پر اقتدار میں آئیں، لیکن جنہوں نے اکثر سیاسی purge، جبر اور سماجی منصوبہ بندی کے تحت بڑی تعداد میں جانوں کا ضیاع کیا۔ ان انقلابی حکومتوں کے تحت ہونے والی ہلاکتوں کا مجموعی تخمینہ 70 سے 100 ملین یعنی کروڑوں یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ حکومتیں اکثر سیاسی گرفت، جبری محنت، اور نسلی یا سیاسی گروہوں کو نشانہ بنانے میں ملوث رہیں، اپنی اقتدار کو طویل دینے کی غرض سے انسانی حقوق کی پامالی کو اپنا بنیادی مقصد سمجھا۔ کوبا انقلاب اور اقتدار کا استحکام: کیوبا میں 1959ء میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں انقلابی تحریک نے کامیابی حاصل کی اور صدر فلگینسیا باتیستا کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا اقتدار میں آئی اور فیڈل کاسترو نے “عوامی فلاح” اور “سوشلسٹ انقلاب” کے نعرے پر اپنی حکومت قائم کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، کاسترو نے تمام سیاسی طاقتیں اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ملک میں ایک جماعتی نظام رائج کیا۔ فیڈل کے بعد ان کے بھائی راؤل کاسترو نے اقتدار سنبھالا اور پھر میگل دیاز-کینیل نے یہ منصب سنبھالا۔ کاسترو خاندان کی حکمرانی اور کمیونسٹ پارٹی کا تسلط کیوبا میں ایک آمرانہ طرزِ حکومت کی علامت بن گیا ہے۔ کیوبن انقلاب کے دوران ہلاکتوں کا تخمینہ 165,000 سے 1 ملین ہے (اکثریتی موتیں بعد کے سیاسی صفائیوں اور دوبارہ تعلیم کے کیمپوں میں) 1975 میں اتحاد کے بعد، کمیونسٹ حکومت نے کئی سابق جنوبی ویتنامی حکام کو “دوبارہ تعلیم” کے کیمپوں میں بھیجا، جہاں بہت سے افراد ہلاک ہوگئے۔

شمالی کوریا ایک خاندان کی موروثی حکمرانی: 1948ء میں کوریا میں کم اِل سُنگ نے کمیونسٹ پارٹی کی مدد سے اقتدار سنبھالا اور شمالی کوریا میں کمیونسٹ حکومت قائم کی۔ بعد میں یہ حکومت ایک خاندان کی آمرانہ موروثی بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔ کم اِل سُنگ کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ اِل اور پھر ان کے پوتے کم جونگ اُن نے اقتدار سنبھالا۔ شمالی کوریا میں “جُوچے” (خود انحصاری) کے فلسفے کو مرکزی حیثیت دی گئی، مگر عملی طور پر ملک میں آمرانہ اور سخت گیر حکمرانی کی گئی۔ عوام کو ریاستی پروپیگنڈا، خوف، اور جاسوسی کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ شمالی کورین انقلاب کے دوران ہلاکتوں کا تخمینہ 1.6 سے 3.5 ملین (قحط اور سیاسی جبر کے نتیجے میں) کم ایل سونگ، کم جونگ ایل، اور کم جونگ اُن کے تحت شمالی کوریا میں سخت گیر حکمرانی کا سامنا ہے۔ 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر قحط کے دوران سیاسی قیدیوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایران ولایت فقیہ اور انقلابی آمریت: 1979ء میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا اور اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی۔ اسلامی جمہوری پارٹی اور ولایت فقیہ کے اصول نے سیاسی طاقت کو مذہبی قیادت کے ہاتھ میں مرکوز کر دیا۔ آیت اللہ خمینی کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے اور ملک میں سخت اسلامی قوانین اور نظریات کو نافذ کیا گیا۔ اس نظام میں سپریم لیڈر کو ہر قسم کے اختیارات دیے گئے ہیں، جبکہ عوام کی سیاسی آزادیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ایرانی انقلاب کے دوران ہلاکتوں کا تخمینہ 10,000 سے 12,000 ہے (1979 کے انقلاب کے دوران اور بعد میں) آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایرانی انقلاب کے بعد سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر جبر کا آغاز ہوا، جس میں کمیونسٹس، سیکولر افراد اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تک لاکھوں کرد بلوچ اور عرب شہید کئے گئے ہیں۔

سوویت یونین کمیونزم سے آمرانہ حکمرانی تک: 1917ء میں روسی انقلاب کے بعد ولادیمیر لینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی اور کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے ذریعے حکومت چلائی گئی۔ بعد ازاں جوزف اسٹالن کے دور میں یہ نظام سخت آمرانہ بن گیا۔ اسٹالن نے ہر مخالف آواز کو کچل دیا اور لاکھوں افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کر دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کا اثر اور رسوخ مکمل طور پر قائم رہا، مگر آمرانہ حکمرانی اور ظلم و ستم سے عوام کی زندگی میں مشکلات بڑھ گئیں۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ یہ آمریت ختم ہوئی۔سویت انقلاب کے دوران ہلاکتوں کا تخمینہ 20 سے 30 ملین ہے جوزف اسٹالن کی حکومت کے دوران، سوویت یونین میں بڑے پیمانے پر اعدام، جبری محنت کیمپ (گولاگ) اور اجتماعی زراعت کی پالیسیوں کے سبب قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ 1930 کی دہائی کا بڑا صفایا (Great Purge) سیاسی مخالفین کے خلاف وسیع پیمانے پر جبر کا سبب بنا۔ چین ماؤ زے تنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی : 1966 میں ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد روایتی ثقافت کو ختم کردنا تھا جس سے چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی نہ صرف ملک کی سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کیا، بلکہ اس نے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی پامالی کا کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ ماؤ زے تنگ کے دور سے لے کر آج تک، چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے اسے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

ماؤ زے تنگ نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور “چین کی عظیم ترقی” کا وعدہ کیا۔ حکومت نے مارکسی-لیننسٹ نظریات کے تحت اقتصادی اور سماجی اصلاحات کیں۔ ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد روایتی ثقافت کو ختم کرنا اور کمیونسٹ نظریات کو فروغ دینا تھا۔ مخالفین، دانشوروں، اور سیاسی مخالفین کو قید، تشدد، اور دیگر سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی ملک میں واحد حکومتی پارٹی ہے اور اس نے سخت کنٹرول قائم کر رکھا ہے۔انٹرنیٹ اور اظہار رائے کی پابندیاں ہیں حکومت نے انٹرنیٹ پر سختی سے کنٹرول برقرار رکھا ہے اور آزادی اظہار کو محدود کیا ہے۔ چینی انقلاب کے دوران ہلاکتوں کا تخمینی 45 سے 65 ملین ہے۔ اگرچہ یہ اصل سوال میں شامل نہیں، لیکن مائو زیڈونگ کی چین ایک اہم مثال ہے، خاص طور پر عظیم پیش قدمی (1958-1962) اور ثقافتی انقلاب (1966-1976) کے دوران۔ ان مہمات نے بڑے پیمانے پر قحط، سیاسی صفایا، اور دانشوروں کے خلاف ہلاکتوں کی راہ ہموار کی۔ کمبوڈیا کھمر روج اور پول پاٹ کی ظالمانہ حکومت: 1975ء میں کمیونسٹ پارٹی آف کمبوڈیا (کھمر روج) نے پول پاٹ کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا۔ پول پاٹ نے ایک دیہی سوشلسٹ معاشرے کی تشکیل کے لیے لاکھوں افراد کو جبری مشقت پر مجبور کیا، جس سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایک انتہائی ظالمانہ حکومت تھی، جس میں عوام کو ان کی مرضی کے خلاف حکم بجا لانا پڑا اور انقلابی دعوے عوامی فلاح و بہبود کی بجائے ظلم و جبر میں بدل گئے۔ اس انقلاب کے دوران ہلاکتون کا تخمینہ 1.5 سے 2 ملین ہے (تقریباً آبادی کا ایک چوتھائی)۔ پول پاٹ کی کھمر روج حکومت (1975-1979) نے ایک دیہی سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنے کی کوشش میں لاکھوں افراد کو ہلاک کیا۔ یہ ایک انتہائی ظالمانہ حکومت تھی، جہاں عوام کو ان کی مرضی کے خلاف حکم بجا لانے پر مجبور کیا گیا۔ ویتنام کمیونسٹ انقلاب اور یک جماعتی نظام: ہو چی منہ کی قیادت میں ویتنام میں کمیونسٹ انقلاب آیا اور ویتنام ایک متحد سوشلسٹ ریاست بن گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف ویتنام نے اقتدار سنبھالا اور ہو چی منہ کے بعد پارٹی کے مختلف لیڈران نے حکومت کی۔ آج بھی ویتنام میں کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے اور سیاسی آزادیوں کو محدود کر کے ملک میں آمرانہ نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہاں بھی انقلاب کے نام پر آمرانہ حکومت قائم کی گئی جو کہ خود کو عوامی فلاح کے بجائے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ویتنام کی جنگ کے دوران، تقریباً 3 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جبکہ 1975 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ شام بعث پارٹی کی موروثی آمریت: شام میں بعث پارٹی نے حافظ الاسد کی قیادت میں انقلاب برپا کیا اور اقتدار سنبھالا۔ حافظ الاسد نے آمرانہ حکمرانی کی بنیاد رکھی اور ان کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ شام میں اسد خاندان کی حکومت ایک آمرانہ اور سخت گیر حکومت کی شکل اختیار کر گئی ہے، جہاں عوامی حقوق کو محدود کر دیا گیا ہے اور اختلاف رائے کو سختی سے دبایا جاتا ہے۔ شام میں انقلاب کے دوران تخمینہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی مخالفین اور 1982 میں حما کی خونریزی (10,000 سے 40,000 ہلاک) ہے۔ حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد نے سخت جبر کے تحت عوامی حقوق کو کچل دیا اور اختلاف رائے کو سختی سے دبایا۔ موجودہ دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں اور لاکھوں کے حساب میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، مگر یہ انقلابی اقتدار سے ہٹے کا نام نہیں لے رہا۔ لیبیا قذافی کی آمریت: لیبیا میں معمر قذافی نے 1969ء میں انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ قذافی نے ایک نظریاتی سوشلسٹ ریاست کا دعویٰ کیا، مگر عملاً ان کی حکومت ایک سخت گیر آمریت کی شکل اختیار کر گئی۔ قذافی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے سخت قوانین بنائے اور ہر قسم کی سیاسی آزادیوں کو ختم کیا۔ 2011ء میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ لیبیا: 2011 کی خانہ جنگی کے دوران، تقریباً 30,000 سے 50,000 افراد کی ہلاکت کا تخمینہ ہے۔ آج بھی اس میں ملک میں ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اب تک لاکھوں لوگ عرب بہار کے انقلاب میں قتل ہوچکے ہیں۔

عراق صدام حسین کی آمریت اور بعث پارٹی: عراق میں بعث پارٹی نے صدام حسین کی قیادت میں انقلاب برپا کیا اور حکومت قائم کی۔ صدام حسین نے عراق میں سخت گیر حکومت قائم کی اور کسی بھی مخالف کو کچلنے میں دریغ نہیں کیا۔ 2003ء میں امریکی حملے کے بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بعث پارٹی کے نظریات پر مبنی صدام کی حکومت عملی طور پر ایک آمرانہ حکومت تھی جس میں عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ عراق میں اقتدار کی تبدیلی کے دوران ہلاکتوں کا تخمینہ 250,000 سے 500,000 ہے (صدام حسین کے تحت داخلی جبر) صدام حسین کی حکومت نے سخت گیر حکمرانی قائم کی، جس میں کسی بھی مخالف کی سختی سے کچل دیا گیا۔ 2003 میں امریکی حملے کے بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔