شومیءِ قسمت کہوں یا سیاسی بلوغت کی نیستی یا تحریک میں اشخاصی اور انفرادی مفادات کا حصول برحال تمام بحث کا نچھوڑ اسی بات پر اختتام پذیر ہوتا ہے کہ دھائیوں سے اب تک بلوچ قوم کے سرکردہ لوگ ایک ہی لکیر کو پیٹ کر آس لگاے بیٹھے ہیں کہ اژدھا نکلے گا اور قابض کو نگل کر بلوچستان کو آزاد کر دے گا. ابتک اژدھا ششدر ہے کہ لکیر پیٹنے والے کیوں پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ اوزے تو ایرانی زیر مقبوضہ بلوچستان سے بھی نکل رہے ہیں. اب اژدھا کو کون سمجھائے کہ لکیر پیٹنے والوں کے ہاتھوں میں ڈنڈا پاکستان نے ایرانی بلوچوں کو تھمایا ہے کہ جاؤ اپنے بلوچستان کو آزاد کرو ایران کے ظلم و بربریت سے، ٹھیک اُسی طرح ایک لاٹھی ایران نے پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے حواریوں کے ہاتھ تھما کر کہا ہے کہ جاؤ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کو آزاد کرو. گویا لگتا ایسا ہے کہ ایک ہی مادر وطن کی کوکھ سے جنم لیے دو باپ اپنے سوتیلے بیٹوں کو اکسا رہے ہیں کہ بچو جاؤ اپنی ہی مادر وطن کی کوکھ کو چیر پھاڈ دو اور اسکے اتنے ٹکڑے کرنا کہ تم سب ایک ایک خطے کے بادشاہ ہوکر مادر وطن کو اپنے اپنے اطوار سے حاکمیت دو اور دیگر بلوچوں کو اچھوت اور شان بازی سے اس بات کا احساس دلاتے رہو کہ مادر وطن کی کوکھ کو جس جس نے چیرا ہے وہی برہمن ہے باقی خلی ولی.
سبک الفاظ کا استعمال اس وجہ سے کر رہا ہوں کیونکہ ہر محفل سے جب اٹھتا ہوں تو لوگ آزادی کے حصول کے طور طریقوں کو ایک لطیفہ مانند سمجھ کر طنز و مزاح کرتے ہیں جس سے آجکل دلائل اور قوموں کی مثال اب محظ قصہ کہانیاں بن گئی ہیں. پاکستان اور ایران نے ملی بھگت سے قومی تحریک دنیا کے سامنے اپنے حواریوں کے ذریعے ایک سرکس بنا دیا ہے اور چند بلوچ اسی سرکس کے جوکر کا کردار ادا کر رہے ہیں اورجو بلوچ اس سرکس سے خود کو دور رکھتا ہے تو اسکو یہی سرکسی جوکر اپنے اپنے کرتب کے ذریعے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ دیکھو ہم کس قدر ہنرمند ہیں اور دیگر بچے کُچے بلوچوں کو تو گلاٹی مارنا آتا ہی نہیں. یعنی اب سرکس کا سرکردہ وہی ہوگا جو زیادہ سے زیادہ گلاٹیاں ہی مارے. سن 1839 سے بلوچوں کے آباؤ اجداد نے نسل در نسل ایک بلوچستان کا درس دیا اور ہر ادوار میں ہر بلوچ نسل کو کہا سارا بلوچستان ہی ہمارا ہے اسی درس کو لیکر بلوچوں نے قربانیاں دیں اور یک دم موجودہ نسل نے اپنے آباؤاجداد کو کم عقل گردان کر قوم کو صرف پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کا درس دینا شروع کیا.
درحقیت موجودہ تحریک میں قوم پرستی اور قومی مفادات سے زیادہ ذاتی انا اور بدلے کی آگ والی رخ زیادہ ہے. پاکستان کے ظلم و بربریت جن اشخاص پر تواتر سے ہوا انہیں صرف پاکستان ہی دشمن لگنے لگا جو اشخاصی بنیاد پر ایک نفسیاتی حقیقت ہے. یہی نفسیاتی فطرت جب پاکستانی ظلم و بربریت کو دیگر بلوچوں یا اپنی ماؤں بیٹیوں کی آبرو تار تار ہوتے دیکھتا ہے تو نظریاتی کم ریٹیلیا ٹری فطرت کو جزب کرکے دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے. یہی فطرت حال میں ہمیں ایران میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں گجر سے بدلا لینے کے لیے بلوچ اس شدت سے حملہ آور ہوئے کہ گجروں کی چوکیوں تک کو قبضہ کیا. اب سوال یہ ہے کہ فرق کیا ہے ایرانی اور پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں؟ جواب سادہ سا ہے کہ ہم نے قومی مفادات اور قومی یکجہتی کو طاق میں رکھ کر ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو صرف بدلے تک محدود ہے کہ قابص مار رہا ہے تو ہم بھی بدلہ لینگے.
حصول آزادی انسانی عقل و حکمت کا متحمل ہے نہ کہ جزبات اور کھوکھلے نعروں سے. جزباتیت میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان کیا ہم نے اپنی تنظیموں تک کو تار تار کر دیا. ایرانی بلوچستان است کہ نیست اسکو ایران کے سامنے ثابت کرنے میں قومی تنظیم بیایلاے کو چاک کر کے ایرانی گجروں کو فخر سے کہا دیکھو اب کمان ہمارے ہاتھوں میں ہے اب بی ایل اے سے ایران مخالف کوئی آواز نہیں نکلے گی. ریاستی مخبری کے نام پر قوم کو نیست و نابود کرنے والے آج شاید بھول گئے کہ وہ خود ایران کے مخبر کے نام سےقوم میں جانے جاتے ہیں. کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے کبوتر بلی سے کیونکر بچ پائے گا. قوم میں تفرق کسی سردار نواب نے نہیں ڈالا بلکہ ایران پاکستان اور ان کے حواریوں نے تقسیم در تقسیم کی پالیسی کو ہوا دی. ان غلط فیصلوں کو اب یہی حواری عالمی سطح پر دفاع کرنے سے قاصر اور ساقت نظر آتے ہیں.
عالمی سیاست میں بلوچ قوم کو اپنی کامیابی کی خاطر کسی ایک بلاک میں جانا ہوگا ایسے میں ہر انسان کی ترجیح طاقت ور اور واضح برتری کے ساتھ موجود بلاک ہی ہوتا ہے۔ موجودہ پالیسی سازوں پر نظر دوڑائیں تو سوائےسنگت حیر بیار مری کے کسی کے پاس جامع اور واضح پالیسی نظر نہیں آتی. ایران نے پورے خطے میں اپنے پروکسیز کے ذریعے ایک جال بچھایا ہے کیونکہ ایران بخوبی واقف ہے کہ امریکہ اسے چاروں اطراف سے نیست و نابود کرسکتا ہے۔ ایران نے اسی پالیسی کے زیر نظر پراکسیز کی ایک جال بچھا دی ہے یہاں تک کہ افغانستان میں ایران نے پاکستان کی مدد سے ایک اینٹی امریکی پراکسی تشکیل دی ہے. اس عالمی رسہ کشی میں بلوچ قومی پالیسی اہمیت کی حامل ہے. چین, ایران, ترکی, پاکستان نے ایک بلاک تشکیل دی ہے اور امریکہ اپنے بلاک کے ساتھ چینی پالیسیوں کو کاؤنٹر کرنے کی خاطر کسی بھی قوت کو بروئے کار لاسکتا ہے اور اس خطے کا پورا مرکز بلوچستان ہے آیا وہ ایرانی یا پاکستانی مقبوضہ بلوچستان ہو. ایسا ممکن نہیں کہ چین گوادر سے دستبردار ہو کر چاہ بہار پورٹ کی جانب اپنا رخ موڑ دے اور امریکا چپ سادھ لے. چین کا کسی بھی جانب مُڑنا دراصل سمندری اثررسوخ کو چیلنج کرنا ہے. آسان الفاظ میں یہ کہ امریکہ کا چپ سادھ لینا امریکہ کی شکست اور چین کی برتری ہے. سنگت حیربیار مری کی پالیسیوں کو چھوڑ کر کارکُن خود فیصلہ کریں کہ بلوچ قوم کو اگر ایران نواز حواریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو کس طرف بلوچ قوم کا جھکاؤ ہوگا؟ چین کی طرف جس میں دشمن خود شامل ہے یا امریکہ کی طرف جو ایران کو دشمن گردانتا ہےتو کیسے کوئی معقول انسان اس امر سے اتفاق کرے گا.
بلوچ قوم کو اپنی اصلاح خود کرنی ہوگی۔ ہم دنیا کے محتاج ہوسکتے ہیں دنیا ہماری نہیں۔ البتہ دنیا اس وقت نظر دوڑائے گی ہماری طرف جب ہمارے پاس بلوچستان لبریشن چارٹر جیسا منشور ہو جسے یک مشت ہوکر ذاتی انا سے ہٹ کر ہم قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر تسلیم کریں اور ایسے عوامل سے دور رہیں جسکی بنا پر بلوچ تنظیموں پر دہشتگردی کا لیبل لگے جیسا حال ہی میں بی ایل اے کے ساتھ ہوا. تمام جہدکار قابل احترام ہیں مگر کوئی اس بات سے انکاری نہیں کہ ریاستی ایجنٹ ہر وقت تنظیموں میں رہے ہیں اور سرنڈر کی صورت میں واضح ہوئے. جسکا مطلب ہے مسلح تنظیموں میں کوئی ایسا میکنزم وجود نہیں رکھتا جو سرنڈر سے پہلے ریاستی ایجنٹوں کو قوم کے سامنے خود احتسابی میں لائے۔ کچھ واقعات پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو وہ کسی صورت تحریک کے لیے فائدہ مند نہیں تھے اور جو کوئی ان واقعات کا ماسٹر مائنڈ تھا یا وہ سیاسی بلوغت سے عاری تھا یا کچھ اور مثلاً PC ہوٹل پر حملہ, اسٹاک ایکسچینج پر حملہ پھر چینی کانسلیٹ پر حملہ جن کی بنا پر بی ایل اے کا نام استعمال کرکے اسے دنیا میں ایک دہشتگرد تنظیم بنا دیا. ریاست تو چاہتی ہی ہے کہ ایسا کچھ ہو جس سے بلوچ تحریک پر عالمی دہشتگرد تحریک کا ٹھپہ لگے. تحریک کے مخلص دوست خود اس ماسٹر مائنڈ سے سوال کریں کہ مذکورہ بالا حملوں کا مقصد اور حاصل کیا تھا؟ بی ایل اے جیسی تنظیم جس میں رازداری اور ہنر اس مانند تھا کہ ریاست کو بی ایل اے کے پلان اور سرمچاروں کا پتہ تک نہں ہوتا تھا آج ریاست کے بقول تنظیم سے منسوب کون لوگ پکڑ ے جاتے ہیں.
مختصر یہ کہ بلوچستان ایک ہی ہے اور جہد ایران اور پاکستانی زیر قبضہ دونوں قابضوں کے لیے ہے. بلوچ قوم کسی کی ذاتی خواہش کی بنا پر اپنے حصے کی زمین کو قربان نہیں کرسکتا. آخر میں میں تمام بلوچ قوم کے سامنے ایک سوا ل رکھتا ہوں کہ وہ اس بابت سوچھیں اگر بلوچستان کا ایک حصہ آزاد ہو تو کیا قابض میں سے ایک ہمیں تسلیم کرے گا؟ کیونکہ شورش تو دونوں مقبوضہ سرزمین میں ہے اور دونوں قابض ایک ہی قسم کا ظلم کر رہے ہیں اور اگر بلوچستان کا حصّہ ملک بنے اور اسکے پاس فوجی قوت ہو تو وہ دوسرے بلوچستان کو حاصل نہیں کریگا اور کیا ایران اور پاکستان اس بابت واقعی سوچ و فکر نہیں رکھتے؟