لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اس وقت خطے کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، اور یہ تبدیلی بلوچ قومی آزادی کے لیے ایک بہتر اور نادر موقع میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں شامل ذمہ داران، اور بلوچ عوام جو اس جدوجہد کا اصل سرچشمہ ہیں، باہمی اتحاد و اتفاق قائم کرتے ہوئے منتشر قومی قوت کو ایک صف پر مجتمع کریں اور اپنی قومی طاقت اور قوتِ بازو پر غیرمتزلزل یقین رکھیں۔

بیان میں کہا گیا کہ قومیں ہمیشہ اپنے مفادات کی بنیاد پر سخت اور کڑے فیصلے کرتی ہیں، اور خطے میں ابھرتی ہوئی حالیہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام تر فروعی، گروہی اور انفرادی مفادات و ترجیحات کو پسِ پشت ڈال کر بلوچ آزادی کی جدوجہد کے بنیادی اصول و ضوابط اور اجتماعی قومی مفادات کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ کیونکہ خطے میں ابھرتی ہوئی آج کا صورتحال بلوچ قوم کے لئے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے اور پاکستان و ایرانی تسلط کے زیرسایے ہماری قومی شناخت کو انتہائی سنگین خطرات لاحق ہیں، اور اگر اس بار بلوچ عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحد نہ ہوئی تو تاریخ ہماری اس کوتاہی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ قابض پاکستان کی سنی اکثریتی ریاست ہو یاپھر ایران کی شیعہ ریاست، دونوں نے بلوچ نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن جس طرح اسرائیل، ایرانی ریاست کی توسیع پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے اور یہ حقیقت واضح ہے کہ اسرائیل بلوچ قوم کا دشمن نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس، ایران اور پاکستان جیسی بنیاد پرست و شدت پسند ریاستیں اسرائیل اور بلوچ دونوں اقوام کی مشترکہ دشمن ہیں۔

بلوچ قوم آج ان ہی ریاستوں کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اور ایرانی ریاست کے خلاف اسرائیل کی فیصلہ کن عسکری کارروائیاں نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ ایرانی تسلط سے دہائیوں سے رنجیدہ بلوچ قوم کے لیے ایک مثبت علامت بھی ہیں۔

تاہم ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر یہ سوچنا کہ کوئی عالمی طاقت آکر بلوچ قوم کو آزادی دلائے گی، ایک غیر منطقی اور احمقانہ سوچ ہے کیونکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور اس میں شامل تمام فریقین کے اپنے الگ ایجنڈے اور مفادات ہیں، جو ضروری نہیں کہ بلوچ قومی جدوجہد کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں لہٰذا، بلوچ قومی آزادی اور سرزمین کی واگزاری کے لیے لازم ہے کہ جدوجہد میں شامل تمام بلوچ عوام ، مشترکہ قومی مفادات، جہدِ آزادی کی ضروریات اور متحدہ بلوچستان کی آزادی کو مقدم جان کر اپنی پالیسی و فیصلوں کا رخ متعین کریں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ایرانی ریاست طویل عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر گامزن ہے، جس کے نتیجے میں خطے میں بدامنی اور غیر یقینی صورتحال برقرار ہے ایران نہ صرف بلوچ سرزمین پر قابض ہے بلکہ احواز، کرد، ترکمن، لر، اور آذری اقوام بھی اس کی توسیع پسندی کا شکار ہیں لہٰذا موجودہ نازک وقت میں، جب خطے کی سیاسی و سماجی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور سرحدوں کی تبدیلی کا امکان بڑھ چکا ہے، بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ ایرانی قبضے اور جبر کے خلاف برسرِ پیکار دیگر محکوم اقوام سے روابط استوار کرے، اور ایک موثر شراکت داری کے اصول و ضوابط طے کرے تاکہ اس غیر یقینی صورتحال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچ قوم ہمیشہ سے ایرانی قبضے کے جبر کا شکار رہی ہے، جو آج بھی نسل کشی کی صورت میں جاری ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ایرانی ریاست عسکری لحاظ سے کمزور اور عالمی سطح پر تنہا ہے، تو یہ بلوچ قومی جدوجہد کے لیے ایک موقع ہے، ایران کے خلاف کسی بھی عسکری کارروائی کو بالواسطہ طور پر بلوچ جدوجہد کے حق میں تصور کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بلوچ قوم کے اندر اتحاد اور اجتماعی قومی طاقت پر یقین لازم ہے تاکہ وہ اپنی آواز دنیا تک مؤثر طریقے سے پہنچا سکے۔

اسی تناظر میں فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے ایک جامع دستاویز “ڈیموکریٹک ٹرانزیشن پلان فار ایران” ترتیب دیا گیا ہے، جس میں خطے کے اندر ممکنہ تبدیلیوں کے پیش نظر، مقبوضہ بلوچستان اور دیگر محکوم اقوام کے ساتھ مل کر مرحلہ وار آزادی کی حکمت عملی کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، آزاد بلوچستان کے انتظامی روڈمیپ کے حوالے سے “بلوچستان لبریشن چارٹر” کے عنوان سے ایک تفصیلی دستاویز پہلے ہی تیار کی جا چکی ہے، جس میں مابعد آزادی کے سیاسی و سماجی انتظام و انصرام پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ پاکستان اور ایران کے اندر بلوچ کا مسئلہ ہرگز وسائل کی منصفانہ تقسیم یا اختیارات کی تقسیم کا نہیں کہ جو کسی نام نہاد “رجیم چینج” یا اندرونی اصلاحات سے حل ہو سکے، بلکہ اصل مسئلہ بلوچ قوم کا اپنی سرزمین پر مکمل اختیار اور آزادی کے ساتھ حکومت کرنا اور دنیا کے سامنے اپنی منفرد شناخت اور آزاد و الگ قومی حیثیت کو باور کروانا ہے، بلوچ قومی جہدِ آزادی کے تقاضے دیگر طاقتوں کے مفادات سے مختلف اور جداگانہ ہیں۔

خطے میں ایسی تاریخی صورتحال بار بار رونما نہیں ہوتی لہٰذا یہ ایک نایاب موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر بلوچ قوم اپنی اجتماعی طاقت کو یکجا کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا سکتی ہے کہ بلوچ بھی ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے اس خطے میں امن، ترقی اور استحکام میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور سیاسی، سماجی، معاشی اور جغرافیائی ہر معیار پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔