انفرادی طور پر اکثریتی افراد کی جو ذہنی سطح اور استعداد ہوتی ہے اجتماعی سوچ اور مجموعی قومی حالت زار اسی کی عکاس ہوتی ہے۔سوچ،فکر اور عمل انہی بنیادی اکائیوں میں پروان چڑھ کر ایک مستحکم ،وسیع،دوراندیش قومی دھارے کا رخ اختیار کرتاہے ۔ بنیادی اکائیاں جتنی باشعور اور حقیقت پسند عملیت کی حامل ہونگی مجموعی قومی معیار بھی اسی کا عکاس ہو گا۔ اس کے بر عکس اکائیان جتنی سطحی، لاعلم او ر رومانیت کا شکار ہونگی مجموعی قومی صورت حال بھی اسی کے موافق ہوگی۔سماجی طور پر معاشروں میں علم،دولت جاء و اقتدار کو لے کر افراد کے بیچ جو کمشکش اور مقابلہ بازی جاری ہے وہی ایک زرا وسیع تناظر میں اقوام، ممالک اور کثیر القومی ریاستوں میں قومی اکائیوں کے درمیاں بھی جاری رہتا ہے۔آپ کی غربت ،لا علمی اور پسماندگی میں دوسروں کی خوشحالی اور ترقی کا راز مضمر ہے۔آپ کی عروج کا مطلب دوسرے کی زوال ہے اور کسی کا عروج آپ کے زوال کی بدولت ہے۔قومی یا ریاستی مفاداتی کشمکش اپنی اصلی شکل میں عام انفرادی ہوس اور کشمکش سے زیادہ سفاک اور عام انسانی انفرادی حساسیت سے قطعی عاری ہوتے ہیں. اپنی مجموعی فطرت میں ہر قسم کی انسانی احساسات کا ضد ہوتا ہے۔یہاں عشق محبت، عزت احترام، راست بازی ،دوستی دشمنی،وعدہ وفا،ہمدردی اور سخاوت جیسی انسانی اقدار کا تصور نہیں ہوتا ۔ ان معاشرتی اور انفرادی انسانی اقدار کی قومی وریاستی سطح پہ دوسروں سے امید رکھنا یا ان کے پیروی کی آرزو مند ہونا بذات خودلا علمی اور سادگی کی علامت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی عروج و زوال اور مجموعی قومی حالتیں کسی آسمانی نازل شدہ ناقابل تبدیل حکم کی بدولت ہیں جو انسانی دسترس سے بالا تر ہے یا کہ ان کے اسباب و علل اسی سرزمین پر انسانی معاشروں کے بیچ ازل سے موجود ہیں ۔کائنات میں کوئی شئے بغیر کسی علت کے وقوع پزیر نہیں ہوتا اگر آپ پسماندہ، غلام اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں تو اس کی بھی ٹھوس وجوہات ہیں اور اس اسباب و وجوہات کے شعوری یا لا شعوری طور پر پیدا کر دہ بھی آپ ہیں کیونکہ عروج و زوال کے اسباب ہمیشہ سے خارجی سے زیادہ داخلی رہے ہیں مگر دور زوال میں انسان ہمیشہ اپنی درماندگی کے زمہ دار بیرونی عوامل پر ڈال کر نفسیاتی آسودگی حاصل کرتا ہے۔دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے ان مسائل کی ٹھوس اور حقیقت بر مبنی تشریح اور طویل اور محنت بھری کٹھن راستے کے بجائے ان کے آسان اور کرشماتی حل کا خواہاں ہوتا ہے وہ نفسیاتی طور پر یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہو تا کہ یہ مسائل طویل مادی و نفسیاسی ٹھوس وجوہات کی بدولت ہیں اور ان سے چھٹکارہ پانے کیلئے بھی اسی قوانین کی پیروی لازمی اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے معاشرے کہ جہاں اکائیاں نفسیاتی اور شعوری طور پر کمزور ہوں وہاں اجتماعی تبدیلی کیلئے لیڈرز اور ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں وہ ناقص و نا پختہ سوچ کو ایک حقیقت بر مبنی قومی دھارہ دیتے ہیں وہ قومی سوچ جو جمود کا شکار ہوتی ہے (کہ تبدیلی ممکن نہیں بس اسی طرح گزارا کرو )میں حرکت و امید پیدا کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈر شپ اور کیڈر کیلئے دو چیزیں انتہاتی ضروری ہیں پہلی یہ کہ ان کا انداز فکر سائنسی خطوط پہ استوار ہو ، زوال کے محرکات اور منبع سے واقف ہوں اپنی اور قابض کی قومی نفسیات سے آگاہ ہوں اور دوسرے مکمل طور پر سیاسیات سے آگاہ اور ایک مکمل سیاسی ذہن رکھتے ہوں ۔سیاست میں اصول ،دوستی، دشمنی ،ذاتی کردار کی تعمیر کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں اگر کوئی چیز معنٰی رکھتی ہے تو وہ ہے آپ کا ہدف ، جو چیز ہدف کے زیادہ نزدیک پہنچائے اسی کو اختیار کرو جو ہدف سے دور لے جائے فوراً ترک کرو ،شطرنج کے اس کھیل میں جو اپنا ہدف حاصل کرتا ہے وہی سیاسی مدبر کہلاتا ہے ایک سماجی فرشتہ اور ایک سیاسی مدبر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔کمزور اکائیوں کو با مقصد اور طاقتور بنانے کیلئے تربیت اور نظم ضروری ہے اور تربیت اورنظم کیلئے ادارے بنیادی شرط ہو تے ہیں۔کمزور اکائیاں بغیر تربیت اور نظم کے وقتی ابھار توپیدا کرسکتے ہیں مگر ان سے دیر پا با مقصد تبدیلی ممکن نہیں اور تبدیلی کیلئے عمل سے زیادہ دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ورنہ ا ن کے بغیر عمل محض تخریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔پہلی چیز ان محرکات کو سمجھنا جو اس زوال اور مسائل کی جڑھ ہیں اور ان سے حتی لامکان بچنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے ان اصولوں اور عوامل کو سمجھنا کہ جس پہ چل کر با مقصد اور تعمیری تبدیل ممکن ہے۔ بلوچ قومی جہد سے منسلک کسی بھی شخص یہ ادارے سے بنیادی سیاسی فلسفے کو لے کر کوئی نظریاتی اختلاف نہیں سب کا بنیادی مقصد قومی آزادی ہے تواختلاف کیسے ؟ہم کیوں اپنے دوستوں پہ بلا وجہ تنقید کرتے ہیں کیا ہم میں ایک عام بلوچ کی بھی سمجھ نہیں کہ آپس کی نا اتفاقی سے دشمن کو فائدہ ہوتا ہے۔ہماری یہ عمل قوم دشمنی ہے یا قومی دوستی میرے خیال میں اس پہ سنجیدہ علمی بحث ہونی چاہئے۔اگر میں عام لوگوں کی طرح سوچنا شروع کروں تو مجھے واقعی ان مسائل اور ان کے بنیادی حیثیت کے تعین میں دشواری ہو گی میرے نقطہ نظر میں اس وقت دشمن کے ساتھ جو قومی بقاء کی جنگ جاری ہے اس میں ہم سب کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ میر ے نقطہ نظر میں یہ مسائل و اختلافات شخصی اور ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پہ ہیں۔میرے نظر میں آج اگر بی ایل اے ،بی ایل ایف اور بی آر اے اکٹھے ہو گئے تو سارے مسائل حل اور منزل نذدیک ۔اگر سنگت حیربیار،سنگت برھمدگ،سنگت جاوید اور ڈاکٹر اللہ نظر ایک ساتھ بیٹھ گئے تو آزادی پسندوں کا اتحاد مکمل ۔ایسے حکیمی نسخوں سے ہم پیچیدہ قومی مسائل کو حل کرنے کے متمنی ہیں۔جہاں پوری قومی جہد کا دارومدار بجائے شعوری سیاسی تربیت و پختگی کے لوگوں کی عمومی قومی سوچ پر تکیہ کیئے بیٹھا ہو وہاں ایسے آسان اور خوش گمان خواہش ہر گز باعث خیرت نہیں ۔جہان انقلابی لیڈر شب کے دعویداروں کی سوچ سراسر سطحی اور عامیانہ ہو وہاں عموم سے کیا گلہ۔ہم قومی آزادی کی ایک مشکل جہد سراسر اس بنیاد پہ لڑ رہے ہیں کہ قومی اکائیاں خود رو انداز میں قومی سیاسی شعور سے آرستہ اور منظم ہو جائیں گی اس کیلئے محض لیڈری کے دعوے کافی ہیں اور تربیت اور نظم کیلئے ادارے بس برائے نام ہوں۔بی این ایم ایک قومی ادارے کی بنیادی سیڑھی بن سکتی تھی مگر اس میں مداخلت اور اسے ایک گرہ بنانا ہماری نظر میں عین قومی خدمت ہے ۔بی ایس او آج اپنے کردار کیلئے پریشان ہے کہ وہ ہے کیا اس سے بھی قومی جہد پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔بچا کچا کسر بے لگام مسلح تنظیموں نے پورا کیا جنگ کا رخ ریاست کے بجائے اپنے عوام طرف موڑ دیا پہلے ایف سی پہ جنگ شروع کی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک دہائی بعد اب جنگ ریگولر آرمی سے ہو رہی ہوتی مگر ایف سی سے ہوتا ہوا لیویز،پولیس ،اپنے بلوچ ریاستی ایجنٹوں سے گزر کر اپنے دوستوں کی مشتبہ شہادت تک پہنچ چکی ہے۔ مگر ہماری نظر میں یہ نقصانات کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں مگر باریکی سے دیکھا جا ئے تو یہی رویے اور طریقہ کار قومی جہد کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے ہمارے لیئے اصل مسئلہ کیا ہے ۔ریاست کی آپریشن و قتل و غارت گری اورلوگوں کی بے دریغ شہادت اگر اصل مسئلہ ہے تو اس سے بڑی آسانی سے جان چڑایاجاسکتا ہے پہلے کی طرح خاموشی اختیار کر کے۔دوسری طرف اگر ہم یہ سمجھتے کہ چند لوگ یا تنظیمیں اتحاد کا حالی خولی نعرہ لگائیں تو یہ مسئلے حل ہونگے یہ ریاستی قتل و غارت گری رک سکتی ہے تویہ بھی یہ ہماری خام خیالی ہے۔ اب آپ کا اصل مسئلہ قومی غلامی ہے اور اس کے خاتمے کیلئے آپ نے ایک مشکل اور پر خطر جہد شروع کیا ہے تو لازماً اصل دھیاں اسی جہد کو دیا جائے نہ کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ثانوی ضمنی مسائل کو ۔اب اگر آپ کی قومی جہد مروجہ سیاسی اصولوں اور ثابت شدہ تحریکی پیمانوں کے مطابق جارہی ہے تو ایسے متوقع ثانوی نقصانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے مگر اگر پوری جہد پٹڑی سے اترنے کو ہے تو ایسے نقصانات بلاشبہ وقتی ایندھن اور جزبات کیلئے استعمال ہو سکتے ہیں مگر اس سے تحریکی زوال کو روکنا ممکن نہیں۔میرے لیئے بذات خود سب بڑی پریشانی کی بات اصل مسئلے کو لے کر قومی جہد کی روبہ زوال رخ پہ ہے میں ثانوی وقتی نقصانات کو لے کر اصل مسئلے کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔جہاں تک اس وقت قومی جہد کا تعلق ہے تو اس میں زیادہ زور عمل پر ہے نہ کہ ان محرکات کی درست نشاندہی کی جارہی ہے جو اس مسئلے کی بنیاد ہیں اور یہ نہ ہی ان سائنسی عوامل کی تشریح یا کہ ان پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔یہ اہم نہیں کہ آج ایک قومی جہد جاری ہے اور لو گ اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ یہ زیادہ اہم ہے اس سے ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں کہ نہیں ۔صرف قربانیاں اور جدوجہد کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے اگر ایسا ہو تا تو دنیا کی کوئی قومی جہد ناکام نہیں ہوتی ۔آج بلوچ قومی جہد بھی اسی دورائے پر پہنچ چکی ہے جہاں ایک طرف کامیابی تو دوسری طرف بے انتہاء قربانیوں کے بعد بھی وہی قومی غلامی کی ذلت کا گہرا کھڈا ہے۔قومی تحریکوں کو ہمیشہ سے تین قسم کا حظرہ رہا ہے ۔ پہلا خطرہ بیرونی یعنی قابض قوت سے ہوتا ہے جو کہ اپنی بقا کیلئے اسے ہر طرح سے مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے جس کیلئے کم و بیش تحریکیں نفسیاتی اور جسمانی حوالے سے تیار ہوتے ہے اس لیئے ایسا بہت ہی کم ہو تا ہے کہ قابض قوت صرف بیرونی عوامل کی وجہ سے کسی تحریک کو ختم کر سکے۔جبکہ باقی دونوں قسم کے خطرات بلکل اندرونی ہیں ان میں پہلا خطرہ یا رکاوٹ قوم کے وہ طبقات یا کہ سیاسی و مذہبی گروہ ہوتے جو کہ قومی نجات کو اپنے شخصی و گروہی مفاد کے خلاف دیکھتے ہیں اس کی ناکامی کیلئے قابض کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں مگر ہمیشہ سے قومی سوچ سیاسی و اخلاقی خوالے اتنا مضبوط ہو تا ہے کہ یہ طبقات زیادہ دیر تک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان کو منظم عوامی حمایت کے حصول کیلئے نظریاتی جواز اور اخلاقی سپورٹ ملنا مشکل ہوتاہے لہذا یہ گروہ ہر وقت اس طاق میں ہوتے ہیں کہ تحریک کی کسی غلطی کو جواز بنا کر اس خلاف ایک اخلاقی اور نفسیاتی سہارہ حاصل کیا جا سکے۔آج ہم نے اپنی بے شمار اور مسلسل غلطیوں کی وجہ سے بہت سے سیاسی،مذہبی اور مسلح گروہوں کو اپنے خلاف لڑنے کیلئے اخلاقی جواز مہیا کیا ہے۔جب کوئی سیاسی اور عسکری ادارہ اپنا تقدس اور اعتبار کھو دیتی ہے تو پھر معاشرے میں اس کے خلاف بہت سی قوتیں کھڑی ہوتی ہیں اور معاشرہ بھی ان کو آپ کے اعمال کا نتیجہ گردان کر تسلیم کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرتی دباؤ سے آزاد ہوجاتے ہیں تو چار و ناچار ان کو طاقت سے ختم کرنے کیلئے ایک نیاء اندرونی مخاز کھولنا پڑتا ہے یہی وہ ٹفنگ پوائنٹ ہے جہاں تصادم اپنا رخ آہستہ آہستہ خارجی اور قابض سے اندرونی اہداف کی طرف رخ موڑ کر واپسی کا سفر شروع کر دیتی ہے۔دوسرا اندورنی خطرہ سب زیادہ خطرناک ہے اگر یہ پیدا ہو جا ئے تو یہ تحریک کو از خود کھا جاتی ہے اور دنیا کی بیشتر تحریکیں اسی کی بدولت ناکام ہوئیں۔جب کسی قومی تحریک میں اندرونی طور پر تضادات پیدا ہوجائیں تو اس کا بچنا مشکل ہوتاہے کیونکہ تضادات در تضادات اور گروہ در گروہ کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جا ہے تاوقت تحریک اپنی ناکامی کے منطقی انجام تک نہ پہنچ جائے ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اندرونی خطرات پیدا کیسے ہوتے ہیں اور ان سے بچا کیونکر جا سکتا ہے۔یہ دونوں خطرات ہمیشہ روایتی اور بدنظم سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔روایتی اور بد نظم جدوجہد سے آپ ایک وقتی طلاطم تو پیدا کر سکتے ہیں مگر ایک نطقے پہ آ کہ یہ اپنے اندر بے شمار تضادات کو جنم دیتا ہے جو بالآخر اس کے زوال کا سبب بنیں گے۔کیونکہ اس طرز جدوجہد میں سوچ کا محور وقعات کی وقتی تشریح ،کام چلاؤاور کا م کا سارا دارومدار افراد کے مزاجوں پہ ہوتا ہے چیزوں کی بطور کل اورعقلی و شعوری توجیح کے بجائے ان کو جزیاتی او رواقعاتی تناظر میں دیکھا جاتا ہے لہذا جب اصلاح کا ہوش آتا ہے تو معاملات اس حد تک باہم ربط ہوتے ہیں کہ ان الگ کرنا مشکل ہوجا ہے۔تمام معاملات اور ان سے منسلک افراد کڑی در کڑی ہوتے ہیں لہذا زمہ داروں کے تعین میں دشواری ہوجاتی ہے نتیجتاً اندرونی تضادات سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔تعریف سے تنقید مزاج کو فوراً بدل دیتا ہے اور پھر مخض دلیلوں سے اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون صحیح کو ن غلظ ۔آج بلوچ قومی تحریک کو بھی انہی دو اندرونی خطرات کا سامنا ہے اور کامیابی اور ناکامی کا دارومدار انہی دو چیزوں پہ ہے۔روایتی اور بدنظمی کی بدولت ہم نے بے شمار اندرونی مخاز کھولے ہیں عوامی حمایت، رائے،عزت و اخترام کو لات ماری ہے۔معاشرتی اعتبار کو کھو دیا ہے ورنہ ایک وہ بھی وقت تھا کہ اگر کسی پہ غداری کا الزام لگتا اس کے جنازے پہ کوئی نہیں جاتا لیکن اب لوگ ویسے ہی جاتے ہیں جیسے کسی سرمچار کے۔انہی رویوں اور گرفت سے آزاد منفی اعمال کے ردعمل میں تحریک کے اندرتضادات شروع ہوئے ۔شعوری ،سنجیدہ اور بی ایل اے کے دوست ایک طرف اور باقی سب ایک طرف مگر تسلسل اب بھی روایتی ہے بی ایل اے اور باقیوں میں بس اس حد تک فرق ہے کہ یہاں دوست مزاجاً زیادہ باشعور اور مخلص ہیں چیزوں کو سجھتے ہیں ،اپنی کمزوریوں سے آگاہ اور خود کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر مجموعی طریقہ یہاں بھی ابھی تک روایتی بنیادوں پہ اسطوار ہے۔اگر یہاں اس روایتی طریقے کو نہ بدلا گیا اور مکمل ترتیب اورنظم پیدا نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں یہاں بھی یہی تضادات پھر سے پیدا ہونگے کیونکہ افراد کے مزاج کو بدلنے اور رویوں کو عادت بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔لہذا ان اندرونی خطرات کے دائمی سدباب کیلئے ضروری ہے کی سائنسی خطوط پہ ایک نظم اور ترتیب پیدا کیا جائے اور اس کیلئے ایک کثیر الجہتی ادارہ لازمی ہے ورنہ روایتی اداروں کی تو پہلے سے بھر مار ہے جو مزید تضادات کا باعث بنیں گے۔